آج شام ہماری فیملی ایک دوست کی شادی کی تقریب میں مدعو تھی۔ حسب ِ روایت ہم تیار ہوکر شادی ہال پہنچے۔ لیکن یہ کیا؟ پورا ہال تو لوگوں سے ایسا بھرا تھا کہ بیٹھنے کو جگہ ملنا گویا کوئی خزانہ ڈھونڈنے جیسا کام تھا۔ خیر، تھوڑی سی تگ و دو کے بعد ہم نے اپنی ’’فتح‘‘ کی سیٹ حاصل کی اور خوش ہوکر بیٹھ گئے۔
اچانک ہم نے کچھ فاصلے پر اپنے عزیزوں کو دیکھا جن سے بہت عرصہ ہوگیا تھا ملاقات ہوئے۔ ہم خوشی سے نہال اُن کے پاس جا پہنچے اور کیا دیکھا؟ ان کے برابر صوفہ خالی تھا۔ ’’واہ بھئی، قسمت بھی کیا چیز ہے۔‘‘ ہم نے دل میں سوچا اور بیٹھنے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ ایک دم لڑکھڑا گئے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھا تو کوئی گرا تو نہیں، لیکن یہ کیا؟ ایک بھاری بھرکم خاتون اس خالی جگہ پر ایسے براجمان ہوگئیں جیسے یہ جگہ اُن کی ’’وراثت‘‘ ہو! اور ہم؟ ہم تو صوفوں کے درمیان ایسے پھنس گئے جیسے کتاب کی درز میں کوئی صفحہ!
گلا کھنکارتے ہوئے ہم نے اُن سے کچھ عرض کرنے کی کوشش کی کہ وہ اگلے ہی لمحے چٹختے ہوئے بولیں ’’یہ میری سیٹ ہے۔‘‘
ہم نے عرض کی ’’معاف کیجیے گا، ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہاں سیٹیں بک ہیں۔’’ (لیکن یہ عرض دل ہی دل میں کی گئی تھی) بس پھر کیا تھا، ہم دوبارہ اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئے۔
پھر آئی کھانے کی باری۔ جیسے ہی کھانا کھلنے کا وقت ہوا، لگا جیسے لوگوں کو سونامی کی خبر ملی ہو! کھانے کی میز کے گرد ایک جم غفیر تھا۔ خیر، ہم نے بھی کچھ دیر انتظار کیا اور جب رش کچھ کم ہوا تو ہم نے بھی پلیٹ سنبھال لی۔ ابھی چمچہ اٹھا ہی رہے تھے کہ یہ کیا؟ چمچہ تو ہمارے ہاتھ سے پھسل کر کسی اور کے ہاتھ میں جا چکا تھا۔ ہم حیرت زدہ تھے اور وہ خاتون نظریں جھکائے اپنی پلیٹ میں کھانا ایسے ڈال رہی تھیں جیسے کوئی ’’خفیہ مشن‘‘ پورا کررہی ہوں!
اور ہمارا خالی ہاتھ ہوا میں لہراتا ہوا رہ گیا…مارے شرم کے ہم نے جلدی سے ہاتھ نیچے کرلیا…
ایک دفعہ ہم گھومنے کا پروگرام بنا بیٹھے۔ سب بہن بھائی بڑے عرصے بعد جمع ہوئے تھے۔ وہاں داخلے کا ٹکٹ لینے کے لیے ہم لائن میں کھڑے تھے کہ اچانک ایک خاتون ہمیں نظر آئیں جو پوری ’’معصومیت‘‘ سے لائن توڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کررہی تھیں۔ لیکن اب ہمیں بھی اپنے حقوق کے لیے لڑنا آگیا تھا۔ جیسے ہی ہماری باری آئی، ہم نے بڑی ’’بہادری‘‘ سے انہیں روکا اور کہا ’’بھئی! لائن میں کھڑے ہونا سیکھیں، آپ کا ابھی نمبر نہیں آیا۔‘‘
خاتون نے ہمیں ایسے گھورا جیسے ہم نے اُن کی زندگی کا سب سے بڑا حق چھین لیا ہو، لیکن ہم نے پھر بھی ’’ہمت‘‘ کرکے انہیں قائل کر ہی لیا کہ باری کا انتظار کریں۔
یہ کہانیاں محض مزاحیہ نہیں ہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ اور برائیوں کا عکس ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرتی اصول کیا ہیں، لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو ہم خودغرضی اور لاپروائی سے دوسروں کے حقوق کو نظرانداز کرتے ہیں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ بے حسی اور بداخلاقی کب تک چلتی رہے گی؟ ہم لوگ صرف اپنی آسانی اور فائدے کے لیے کب تک دوسروں کو دھکیل کر آگے نکلنے کی کوشش کرتے رہیں گے، بغیر اس بات کا احساس کیے کہ اس رویّے کا کیا اثر ہوتا ہے؟
اخلاقیات کا درس کتابوں میں تو دیا جاتا ہے، لیکن جب تک ہم اسے اپنی عملی زندگی کا حصہ نہیں بنائیں گے،تب تک اسی گراوٹ کا شکار رہیں گے۔ ضروری ہے کہ ہم خود کو اور اپنے بچوں کو عملی اخلاق کا سبق پڑھائیں تاکہ ہمارا معاشرہ مثبت تبدیلی کی طرف بڑھ سکے۔