جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ

111

آخری قسط

اس نظریے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’حیات‘‘ خود اپنے آپ کو ہلاک کرتی ہے۔ یہ ان نظریات میں سے ہے۔ جنہوں نے بیسویں صدی کے انسان کے ذہن پر ایک مستقل دہشت بیٹھا دی ہے اور انسان کو اپنی زندگی بے معنی نظر آنے لگی ہے۔ امریکہ میں جتنے قتل اور خود کشی کی وارداتیں ہوتی ہیں ان کے پیچھے یہ نظریہ بھی ہے۔ جب ’’زندگی‘‘ اور ’‘کائنات‘‘ ہی خود کشی پر تلی ہوئی ہو تو فرد کی زندگی کے کیا معنی اور اس کی کیا قدر و قیمت۔

-6حال ہی میں مادیت کے پہلو بہ پہلوMatter Anti (غیر مادہ) کا نظریہ بھی نکلا ہے جس پر روسی سائنس دانوں نے زیادہ کام کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ مادے کے ذرات کے مقابل ایک ایسی چیز کے ذرات بھی موجود ہیں جو نہ صرف غیر مادہ ہے بلکہ مادے کی دشمن ہے۔ چنانچہ ہر مادی چیز کے مقابل اور متوازی ایک ’’غیر مادی‘‘ چیز بھی موجود ہے۔ اس طرح ہماری کائنات کے ساتھ ایک ’’غیر مادی‘‘ کائنات بھی ہے جو اس کا عکس ہے۔ مگر یہ معلوم نہیں کہ یہ عکسی کائنات کہاں ہے۔ بہر حال اتنا طے ہے کہ جب مادہ اور ’’غیر مادہ‘‘ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو ایک دوسرے کو فنا کر دیتے ہیں۔ اگر کبھی ایسا ہوا کہ ’’غیر مادی‘‘ کائنات مادی کائنات کے قریب آگئی تو دونوں ایک دوسرے کو فنا کر دیں گی۔

ہمیں یہ نظریہ بھی دراصل روحانیت کے قریب نہیں لاتا کیونکہ “غیر مادہ ” چاہے مادہ نہ ہو ، لیکن ہے بہر حال طبیعی چیز۔ سائنس کے سارے ایسے نظریات جو قیامت کا امکان ثابت کرتے ہیں انسان کے دل میں خوف تو پیدا کرتے ہیں ، لیکن امید کا کوئی پہلو نہیں رکھتے۔ اگر ان نظریات کو مان لیا جائے اور خدا پر یقین نہ ہو تو انسان بس یہی کر سکتا ہے کہ اپنے اوپر مکمل بے حسی طاری کرلے اور اندھا بسرا ہو کے زندگی بسر کرے مغربی انسان کی یہی حالت ہوتی جارہی ہے۔

-7 اوپر جتنے نظریات بیان ہوئے ان کا تعلق طبیعیات سے تھا۔ علاوہ ازیں فلکیات میں بھی بہت سے نظریے نکلے ہیں، مگر وہ سب قیاس آرائی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیںرکھتے۔

بطلیموسی نظام کے مطابق کائنات محدود تھی۔ کو پرٹیکس وغیرہ نے لامحدود کائنات کا تصور پیش کیا۔ آگے چل کر پھر محدود کائنات کا نظریہ آگیا۔ ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا کہ کا ئنات محدود ہے یا لا محدود۔ پھر ایک اختلاف اور ہے۔ یہ تو خیر طے ہو گیا کہ کائنات ایک نہیں، بلکہ بہت سی کائناتیںیا ہمارے نظام شمسی کی طرح کے بہت سے نظام ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ عظیم تر کائنات:

-1 ان جتنی ہے ہمیشہ سے اتنی ہی رہی ہے اور ہمیشہ اتنی ہی رہے گی یا

-2۔ بڑھتی جارہی ہے۔

-3 یا گھٹ رہی ہے۔

سائنس داں اس معاملے میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکے ، روز رائے بدلتی ہے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ کائنات کس طرح وجود میں آئی۔ یہاں بھی مختلف نظریئے ہیں۔

-1 مادے کے سکڑنے سے کائنات صورت پذیر ہوئی۔

-2 ایک بڑے دھماکے کے ساتھ مادہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور ان ٹکڑوں کے انجماد سے کائنات بنی۔ اس نوع کے مختلف نظریئے ہیں۔

یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کوئی نئی کائنات بن رہی ہے یا نہیں، اور یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ کائنات ختم ہوگی یا نہیں۔ بہر حال واضح جواب کسی مسئلے کا موجود نہیں۔ سائنس داں اس امید میں بیٹھے ہیں کہ جب انسان سیاروں میں پہنچے گا تو شاید یہ مسئلے حل ہو جائیں گے۔

بیسویں صدی میں عیسوی کلیسا

بیسویں صدی کے افکار کے اس جائزے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذہب پر ہر طرف سے اتنے حملے ہو رہے ہیں تو عیسوی کلیسا کیا کر رہا ہے؟

پروٹسٹنٹ کلیسا کا تو معاملہ صاف ہے۔ پروٹسٹنٹ مذہب اور جدیدیت شروع سے ایک دوسرے کے ساتھ چلے ہیں۔ چنانچہ پروٹسٹنٹ مذہب تو دراصل مذہب ہی نہیں۔ البتہ رومن کیتھرک کلیسا مذہب کی مدافعت کی کوشش کرتا رہا ہے۔ لیکن اب یہ کلیسا بھی جدیدیت سے دیتا چلا جا رہا ہے اور آہستہ آہستہ جدیدیت کے مطالبے تسلیم کرتا جا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے پروٹسٹنٹ فرقے کے ماہر دینیات تو بالعموم اور بعض رومن کیتھلک بھی اپنے مذہب کو نئے فلسفوں اور سائنس کے نئے نظریوں کے سانچے میں ڈھالتے چلے جارہے ہیں، اور ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح عیسائیوں کے بنیادی عقائد تک ہر سال بدل رہے ہیں اور دس سال کے اندر مغرب میں کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہے گی جسے رعایا بھی مذہب کا نام دیا جا سکے۔ ان نئے عیسوی مفکرین کے خیالات سے ہمارے بعض نوجوان بھی متاثر ہو رہے ہیں، اور اسلام کو بھی یہی رنگ دینا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہاں تک دعویٰ کر رہے ہیں کہ نئے سائنس اور نئے فلسفوں نے جتنے خیالات پیش کئے ہیں وہ نعوذ باللہ عین اسلام ہیں۔ بہر حال اللہ اپنے دین کی حفاظت کرے گا۔

سبحان ربک رب العزت عما یصفون وسلام على المرسلين والحمد للرب العالمين

حصہ