بزرگوں کو اولڈ ایج ہائوسز کی نہیں توجہ اور رابطوں کی ضرورت ہے

81

20 ستمبر کو عالمی یومِ یادداشت منایا جاتا ہے، جس کا مقصد دنیا بھر میں الزائمر اور ڈیمینشیا جیسی بیماریوں کے بارے میں آگاہی پھیلانا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بڑھاپے کے ساتھ ہونے والی یادداشت کی کمزوری ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں اس مسئلے کی شدت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، اور ماہرینِ صحت کے مطابق عوامی سطح پر اس بیماری کی تشخیص اور علاج کے وسائل محدود ہیں۔

الزائمر اور ڈیمینشیا دماغی بیماریاں ہیں جو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یادداشت اور ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہیں۔

گزشتہ دنوں اسی مناسبت سے ارینا کلب میں ایک پریس بریفنگ سے نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن کے صدر پروفیسر محمد واسع، پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے صدر پروفیسر عبدالمالک، پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے سیکریٹری پروفیسر بشیر سومرو، صدر پروفیسر نائلہ شہباز، جناح اسپتال کے شعبۂ نفسیات کے سابق سربراہ معروف ماہر نفسیات پروفیسر اقبال آفریدی اور سینئر پروفیسر اعجاز وہرہ نے اظہارِ خیال کیا۔

نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن کے صدر پروفیسر محمد واسع کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آبادی اس وقت لگ بھگ 24 کروڑ ہے جس میں 60 سال کی عمر کے افراد 8 فیصد یعنی لگ بھگ پونے دو کروڑ بنتے ہیں جنہیں ڈیمینشیا اور الزائمر ہوسکتا ہے، اور اس کے لیے پاکستان میں رسک فیکٹر بھی زیادہ ہیں۔

دنیا بھر میں 60 سال سے زائد عمر کے 5 فیصد، 70 سال سے زائد عمر کے 10 فیصد، 80 سال سے زائد عمر کے 20 فیصد اور 90 سال سے زائد عمر کے 30 فیصد افراد کو الزائمر کا مرض لاحق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اوسط عمر بڑھ رہی ہے جس کے ساتھ ذہنی و اعصابی بیماریاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ الزائمر اور ڈیمینشیا کی تشخیص نیورولوجسٹ کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں نیورولوجسٹ کی تعداد کم ہے اور ضلعی اسپتالوں میں نیورولوجسٹ کی اسامی ہی موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ الزائمر قابلِ علاج بیماری ہے، ہمارے ہاں بڑھاپے کے ساتھ بہت سی چیزوں کو بڑھاپے کی وجہ سمجھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر محمد واسع کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ضعیف افراد کے لیے انشورنس اور اولڈ سٹیزن کارڈ بناکر دوائیں سبسڈائز نرخ پر مہیا کی جائیں اور ٹرانسپورٹ کی مفت سہولت دی جائے۔ حکومت چائلڈ ہیلتھ کی طرح ایلڈری ہیلتھ کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے ایلڈری کیئر پروگرام شروع کرے۔

پروفیسر نائلہ شہباز، صدر پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے مطابق ویسکولر ڈیمینشیا جنوبی ایشیا میں زیادہ عام ہے اور چھوٹے اسٹروک اس کا سبب بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلند فشارِ خون، شوگر اور کولیسٹرول کو کنٹرول کرکے اس بیماری کو روکا جا سکتا ہے۔ تمباکو نوشی، جسمانی سرگرمیوں کی کمی اور جدید طرزِ زندگی جیسے عوامل بھی بیماری کے پھیلاؤ میں کردار ادا کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جسمانی سرگرمیاں ختم ہوگئی ہیں، نوجوان اور بچے انڈور گیمز کی طرف جارہے ہیں، بڑے بڑے کھیل کے میدان پلازہ اور مالز میں تبدیل ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے جسمانی سرگرمیاں ختم ہورہی ہیں اور نوجوانوں میں کھیل کود کے بجائے موبائل کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

ڈاکٹر نائلہ شہباز کا مزید کہنا تھا کہ بزرگوں سے رابطہ بڑھانے کی ضرورت ہے، بزرگوں کو اولڈ ایج ہائوسز کی نہیں توجہ اور رابطوں کی ضرورت ہے۔

معروف ماہر نفسیات پروفیسر اقبال آفریدی نے بتایا کہ الزائمر کا مرض 60 سال کی عمر کے بعد ہوتا ہے، لیکن 50 یا 40 سال کی عمر میں بھی یہ بیماری ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے سرکاری اسپتال ضعیف مریضوں کے لیے مناسب نہیں ہیں، اور انہیں بہتر سہولیات کی اشد ضرورت ہے۔ الزائمر کی ابتدائی علامات میں حافظے کی کمزوری، روزمرہ کے کاموں کا بھول جانا، اور رویوں میں تبدیلی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بیماری کا شکار مریضوں کو پیشاب، پاخانے کا پتا نہیں چلتا، انسان پرانی باتیں یاد رکھتا ہے نئی باتیں یاد نہیں رہتیں، اس لیے کہ اس عمر میں نیا کچھ سیکھنا مشکل لگتا ہے۔

یہ علامات وقت کے ساتھ شدید ہوسکتی ہیں اور مریض کو مکمل دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔

پروفیسر بشیر سومرو نے کہا کہ اس بیماری میں روزمرہ کے معمولات متاثر ہوتے ہیں، رویوں میں تبدیلی آجاتی ہے، اس کی علامات آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں اور دماغ پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی وجہ سے یادداشت میں سستی آجاتی ہے۔

پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے صدر پروفیسر عبدالمالک کا کہنا تھا کہ الزائمر وٹامن بی 12کی کمی، بلند فشارِ خون، شوگر، نیند کی کمی اور صحت مندانہ سرگرمیوں کی کمی کی وجہ سے لاحق ہوسکتی ہے، پاکستان میں حافظے کی کمزوری (الزائمر) کو بڑھاپے کی علامت سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ ایک دماغی اور زندگی کوکم کرنے والا مرض ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی اکثریت اس بیماری سے لاعلم ہے، اس کی ابتدائی علامات میں حافظے کی کمزوری، یادداشت کی کمی اور روزمرہ سرگرمیوں کا بھول جانا شامل ہے، جب مرض بڑھتا ہے تو مریض کھانا کھانا، کپڑے پہننا اور گھرکے پتے سمیت اپنے بچوں اورقریبی عزیز و اقارب تک کو بھولنا شروع ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں مریضوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ماہرین نے حکومت پر زور دیا کہ چائلڈ ہیلتھ کی طرح ایلڈری کیئر پروگرام شروع کیا جائے تاکہ ضعیف افراد کی صحت کو بہتر بنایا جاسکے۔
نیورولوجسٹ کی کمی پاکستان میں ڈیمینشیا اور الزائمر کے علاج میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ضلعی اسپتالوں میں نیورولوجسٹ کی اسامیوں کی عدم موجودگی اور مجموعی طور پر نیورولوجسٹ کی تعداد کا کم ہونا مریضوں کے علاج میں رکاوٹ ہے۔
عالمی یوم یادداشت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض کے خلاف جنگ میں آگاہی، بروقت تشخیص، اور بہتر علاج کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس بیماری کے علاج اور نیورولوجسٹ کی کمی جیسے مسائل پر فوری توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومتی اقدامات اور عوامی آگاہی کے ساتھ ہی ہم اس چیلنج کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور ضعیف افراد کی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

حصہ