چین کی بڑھتی قوت اور کواڈ اتحاد

89

چین نے امریکہ اور یورپ پر عجیب ’’وختا‘‘ ڈال رکھا ہے۔ ڈھائی تین صدیوں سےجو برتری یقینی بنائی تھی وہ اب ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ فطری عمل ہے۔ اللہ کی سنت ہے کہ وہ دنیا کی امامت لیتے اور دیتے رہتے ہیں۔ کبھی مسلمانوں کو بھی دنیا کی امامت ملی تھی۔ اِس سے قبل ایران اور روم بھی دنیا کی امامت کرچکے تھے۔

کم و بیش پانچ صدیوں کے دوران امریکہ اور یورپ نے یعنی مغربی دنیا نے مل کر ایک دنیا پر حکومت کی ہے۔ کبھی یہ حکمرانی عسکری قوت کے ذریعے تھی، اور پھر یوں ہوا کہ فطری علوم و فنون میں حیرت انگیز پیش رفت کے ذریعے امریکہ اور یورپ نے باقی دنیا کو مطیع و فرماں بردار بنالیا۔

آج ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہاتھ میں دکھائی دیتا ہے مگر اُس پر ہمارا کوئی اجارہ یا اختیار نہیں۔ سیاسی و معاشی معاملات کچھ ایسا ہی معاملہ ہے اور ٹیکنالوجیز کا تو اور بھی پیچیدہ قصہ ہے۔

امریکہ اور یورپ کے لیے یہ وقت بہت زیادہ پریشانی کا ہے۔ پریشانی اصلاً یہ ہے کہ جو برتری کئی صدیوں کے دوران یقینی بنائی گئی ہے وہ اگر ٹھکانے لگ گئی تو کیا ہوگا؟ امریکہ اور یورپ نے دنیا کو مٹھی میں کرنے کے لیے طاقت کے ذریعے جو کھیل کھیلے ہیں اُن کا حساب بھی لیا جانا ہے۔ ایک صدی کے دوران دونوں خطوں نے مل کر کئی خطوں کو محض کنٹرول نہیں کیا بلکہ تاراج بھی کیا ہے۔ دونوں ہی خطوں کی مجموعی حکمتِ عملی یہ رہی ہے کہ دوسروں کی قبروں پر اپنے تاج محل کھڑے کیے جائیں۔ یہ سب کچھ پوری دنیا میں انتہائی نوعیت کی خرابیوں کا ذریعہ بنا ہے۔ یورپ نے افریقا اور ایشیا کو اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھنے کی کوشش میں وہ سب کچھ کیا جو کسی بھی طور نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ اور امریکہ بھی جنوبی امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ میں انتہائی گھناؤنے کھیل کھیلتا آیا ہے۔

اب چین ابھرا ہے تو مغربی دنیا پر لرزہ طاری ہے۔ چین نے چار عشروں کے دوران عسکری مہم جوئی سے مکمل گریز کیا ہے۔ اُس کی کوشش رہی ہے کہ کسی کو دبانے کے لیے عسکری قوت کے بجائے معاشی قوت سے کام لیا جائے۔ اشتراکِ عمل کے ذریعے چین نے اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے اور کسی خطے کو تاراج کرنے سے گریز بھی کیا ہے۔ اس دوران امریکہ بے لگام رہا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اُس نے مسلم دنیا کو نشانے پر لیا ہے اور کئی ممالک کو مکمل تباہی سے دوچار کیا ہے۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن کو ہم نے دیکھا ہے کہ کس طور امریکہ نے اُن کے لیے ڈھنگ سے جینے کی گنجائش ہی ختم کردی ہے۔

چین کو کسی نہ کسی طور کنٹرول کرنے اور لگام ڈالنے کے لیے امریکہ اور یورپ ایک زمانے سے سوچتے آئے ہیں۔ امریکہ اور اُس کے ہم خیال ممالک کی مجموعی اپروچ یہ رہی ہے کہ چین کو محض بحیرہ جنوبی چین تک محدود رکھا جائے اور وہاں بھی اُس کے مفادات کی ایک حد مقرر کی جائے۔ یہ بچگانہ ذہنیت ہے۔ امریکہ اور یورپ کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ دنیا کو مٹھی میں کرنے کی خواہش کیا ہوتی ہے اور اس کے لیے کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب انہوں نے خود کیا ہے اس لیے اِس کا اندازہ تو اُنہیں ہوگا ہی۔ اب چین پوری قوت کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ وہ دنیا پر تنہا حکومت کرنے کی پوزیشن میں تو نہیں، تاہم اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ وہ محض ایک ترقی یافتہ ملک ہوکر رہ جائے گا۔ وہ اپنی توسیع چاہے گا۔ چین کو دوسروں کے علاقوں سے کچھ غرض نہیں۔ وہ دور و نزدیک کے کسی بھی ملک یا خطے پر قبضہ جماکر، وہاں اپنی فوج اتارکر معاملات کو کنٹرول کرنے کا خواہش مند نہیں۔ اُس نے معاشی قوت کا سہارا لے کر بہت کچھ پالیا ہے۔ دنیا بھر میں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ زرعی پیداوار تک پر تصرف جمایا گیا ہے۔ افریقا میں یورپ نے معدنیات کے شعبے میں بھرپور سرمایہ کاری کی ہے۔

چین کو بحرِ ہند اور بحرالکاہل کے خطے میں مضبوط ہونے سے روکنے کے لیے امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان نے مل کر ایک اتحاد قائم کیا ہے جسے ’’کواڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اتحاد اس بات کو یقینی بنانے کے لیے متحرک رہتا ہے کہ ان دونوں خطوں میں امریکہ اور جاپان کی برتری برقرار رہے۔ بھارت اور آسٹریلیا اس لیے ساتھ ہولیے ہیں کہ امریکہ اور جاپان مل کر چین کی راہ روکیں گے تو اُنہیں بھی کچھ نہ کچھ تو مل کر ہی رہے گا۔

کیا ’’کواڈ‘‘ جیسے کسی اتحاد سے چین کی راہ روکی جاسکتی ہے؟ اور سوال صرف چین کا کہاں ہے، اب تو روس بھی میدان میں ہے، ترکی بھی ابھر رہا ہے۔ بھارت بڑا ہے اور مضبوط بھی، لیکن اگر وہ اپنے پڑوس میں چین اور کچھ دور واقع روس کو نظرانداز کرکے اپنے معاملات ہزاروں میل دور واقع امریکہ اور یورپ کے ہاتھ میں دے گا تو کیا اِسے ہر اعتبار سے دانش مندی کہا جائے گا؟

بھارت زمینی حقیقتوں سے چشم پوشی کرکے وقتی طور پر تو کچھ فوائد حاصل کرسکتا ہے، تاہم طویل المیعاد بنیاد پر اُس کے لیے کچھ حاصل کرنا انتہائی دشوار ہوگا۔ اگر محاذ آرائی کی کیفیت پروان چڑھ گئی تو وہ بہت حد تک گِھر کر رہ جائے گا۔ سوال صرف چین اور روس کا نہیں بلکہ پاکستان کا بھی ہے۔ اور معاملہ پاکستان تک بھی محدود نہیں، اب بنگلا دیش میں بھی قیادت بدل گئی ہے۔ بھارت نواز شیخ حسینہ واجد کا اقتدار ختم ہوا۔ نئی، ابھرتی ہوئی بنگلا دیشی قیادت بھارت کو زیادہ قبول کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ بھارتی قیادت اس حد تک بدحواس ہوچکی ہے کہ اب میڈیا کے محاذ پر اوٹ پٹانگ حرکتیں کررہی ہے۔ ایک بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹ نے بنگلادیش میں روڈ شو کے ذریعے اس بات پر بھی سروے کرانے کی کوشش کی ہے کہ بنگلا دیش کے عوام بھارت کے ساتھ جانا پسند کریں گے یا پاکستان کے ساتھ، اور اس پر عوام کا شدید ردِعمل بھی سامنے آیا ہے۔

بنگلا دیش کے ایک اسلام نواز رہنما نے یہ کہہ کر بھارت کو دھمکی دی ہے کہ اگر اُس نے بنگلادیش کو پریشان کرنے کی کوشش کی تو چین کے ساتھ مل کر شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں کو باقی ملک سے کاٹ دیا جائے گا۔ اور اب ایک بنگلادیشی دانشور نے پاکستان سے ایٹمی معاہدے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پروفیسر شاہد الزماں نے کہا ہے کہ اگر پاکستان سے معاہدے کے تحت غوری میزائل حاصل کرکے بھارت سے متصل شمال مشرقی سرحد پر نصب کیے جائیں تو بھارت کو لگام ڈالنے میں مدد ملے گی۔ اس بیان سے بھارتی قیادت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ چین سے مدد لینے کے بیان کے بعد اب پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی بات کرکے بھارتی قیادت کی نیند حرام کردی گئی ہے۔

ایک طرف چین کی طاقت بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف روس اپنے آپ کو منوانے کی راہ پر گامزن ہے۔ ایسے میں بنگلادیش میں قیادت کی تبدیلی نے بھارتی قیادت کے لیے نیا چیلنج کھڑا کردیا ہے۔ اگر اِس مرحلے پر پاکستان اور بنگلادیش ایک ہوجائیں یعنی ایک دوسرے کو قبول کرکے حقیقی دوستی اور اشتراکِ عمل کی راہ پر گامزن ہوں تو بھارت کے لیے سکون کا سانس لینا محال ہوجائے گا۔ 53 سال میں پہلی بار بنگلادیش میں ہندوؤں کو خوف محسوس ہونے لگا ہے۔ عوامی لیگ جب جب اقتدار میں آئی، بھارت کو بنگلادیشی معاشرے میں محض قدم جمانے کا نہیں بلکہ پورے ملک کو اپنا بغل بچہ بنانے کا بھرپور موقع ملا۔ اِس دوران بنگلادیشی معیشت بھی بھارت کے ہاتھ میں رہی اور سیاست بھی۔ بنگلادیش میں بسے ہوئے ہندوؤں نے اس صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو مضبوط کیا اور اسلامی سوچ رکھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ دبانے کی بھرپور کوشش کی۔ اب قیادت بدلی ہے اور پاکستان کے ساتھ ساتھ چین سے بھی بھرپور دوستی کی بات ہورہی ہے تو نئی دہلی کے اعلیٰ دماغ شدید پریشانی کے عالم میں اِس مایا جال سے نکلنے کا سوچ رہے ہیں۔

بھارت نے ’’کواڈ‘‘ کے ذریعے امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا سے مل کر چین اور پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سوچا تھا، مگر بنگلادیش کی بدلی ہوئی صورتِ حال نے نیا بکھیڑا پیدا کردیا ہے۔ امریکہ اور جاپان کے لیے معاملات زیادہ تبدیل نہیں ہوئے لیکن بھارت کے لیے ضرور بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ اگر وہ ’’کواڈ‘‘ میں فعال کردار ادا کرکے چین کو پریشان کرنے سے باز نہیں آئے گا تو چین کے پاس بنگلادیش اور نیپال کے ذریعے بھارت کی ناک میں دم کرنے کا آپشن موجود ہے۔

چین کی بڑھتی ہوئی قوت اصلاً اس بات کی متقاضی ہے کہ دیگر بڑی طاقتیں ہوش مندی اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اُس سے اپنے معاملات طے کریں، اُسے جارحانہ انداز اختیار کرنے سے روکیں اور اسٹرے ٹیجک معاملات میں گرماگرمی کی کیفیت کو ٹالیں۔ اس کے بجائے بچگانہ حرکتوں کے ذریعے اُس کا راستہ روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی معاملہ روس کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ روس اگرچہ عالمی قوت نہیں مگر بہت مضبوط ملک ہے، اور چین، پاکستان، ایران اور ترکی وغیرہ کے ساتھ مل کر اپنے لیے موافق ماحول پیدا کرنے کی پوری اہلیت رکھتا ہے۔ نیٹو اور یورپی یونین کی توسیع روکنے کے لیے اُس نے یوکرین پر جنگ مسلط کی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے لیے یہ جامع پیغام ہے کہ وہ مشرقی یورپ کے ذریعے روس میں نقب زنی سے باز رہیں۔

چین کے لیے یہ اچھا موقع ہے کہ ’’کواڈ‘‘ کو ناکام بنانے کے لیے روس کی طرف واضح جھکاؤ کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بنگلادیش سے بھی اپنے معاملات مزید مستحکم کرے اور بالخصوص بنگلادیش کو اس بات کا یقین دلائے کہ اگر موقع پڑا تو وہ بھارت کے خلاف سینہ سِپر ہونے میں بنگلادیش کی بھرپور مدد کرے گا۔ یہ حکمتِ عملی بھارت کے دردِ سر میں اضافے کا باعث بنے گی۔

بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے 21 سے 23 ستمبر تک امریکہ کا دورہ کیا۔ اس دورے کا بنیادی مقصد ’’کواڈ‘‘ کے سربراہ اجلاس میں شریک ہونا تھا۔ اس سربراہ اجلاس کے دوران ایک مرحلے پر مائیکروفون کُھلے رہ گئے اور چاروں قائدین کے درمیان ہونے والی گفتگو کمرے سے باہر بیٹھے ہوئے صحافیوں نے بھی سُن لی۔ امریکہ کے صدر جوبائیڈن بے دھیانی کے عالم میں دل کی بات کہہ گئے۔ اُنہوں نے کہا کہ چین نے تو ناک میں دم کررکھا ہے۔ اب اُس سے نپٹنے کے لیے سخت تر پالیسیاں اپنانا ہوں گی کیونکہ اُس نے ہمیں آزمائش میں ڈال دیا ہے۔

چین واقعی اِن ملکوں کے لیے آزمائش کے درجے پر فائز ہوچکا ہے۔ اگر امریکہ اور اُس کے ہم نواؤں کو اپنے مفادات کا تحفظ درکار ہے تو چین کے سامنے محاذ کھڑا کرنے کے بجائے اُس سے بات کی جائے، ڈیلنگ کی جائے۔

حصہ