بھارت میں مسلمانوں کے املاک پر قبضے کی تیاری،وقف جائیدادوں پر مودودی سرکار کی حریصانہ نظر

128

سامراجی، متعصب اور جابر قوتیں محکوم اور کمزور قوموں کی جائدادوں پر قبضے کی تاریخ دہراتی رہتی ہیں۔

1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد جب انگریزوں نے پورے ہندوستان پر قبضہ کرلیا تو انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کا قتلِ عام کیا بلکہ متمول مسلمانوں کی جائدادوں پر قبضے کے ساتھ ساتھ مغلیہ دور میں سرکاری اور غیر سرکاری وقف جائدادیں جو مساجد، مدارس، مزارات اور خانقاہوں کے پاس تھیں، ان کو بیک وقت قبضے میں کرلیا، جب کہ مندروں کی وقف جائدادوں پر ہاتھ صاف نہیں کیا۔ یاد رہے کہ بڑے بڑے علاقوں میں جو جامع مساجد تھیں انھی میں بڑے بڑے دارالعلوم بھی تھے جن کے پاس وقف کی صورت میں ہزاروں ایکڑ زمینیں تھیں، جن کی پیداواری آمدنی سے مدارس اور دارالعلوم میں مقیم طلبہ و طالبات اور اساتذہ کو وظائف کے ساتھ ساتھ ان کے کھانے اور رہائش کے انتظامات بھی کیے جاتے تھے، اس کے علاوہ آس پاس کے غریب اور نادار لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوتی تھی۔ اس جابرانہ قبضے سے مسلمانوں کی تعلیمی سرگرمیاں محدود ہوگئیں اور مساجد کے علماء اور مدارس کے اساتذہ سخت مالی دقتوں میں مبتلا ہوگئے۔ یہی نہیں، بلکہ مسلمان تعلیم اور معاش سے محروم ہوکر بے دست پا ہوگئے۔ اُس وقت بھی آج کے ہندوتوا کے علَم بردار مودی سرکار کے نظریاتی اجداد نے مسلمانوں کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالا۔ تازہ مثال اسرائیل کی ہے، جو گزشتہ 76 سال سے فلسطینیوں کو سفاکی کے ساتھ قتل و غارت گری کے ذریعے زمینوں اور جائدادوں سے محروم کررہا ہے۔

جنگِ آزادی کے بعد جب ہندوستان اور پاکستان دو الگ ملک بن گئے اور بھارت سے مسلمانوں کی کثیر تعداد نے پاکستان ہجرت نہیں کی اور آج بھارت میں 30 کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں جو بھارت کی آبادی کا 24 فیصد ہیں اور پورے ملک میں ان کے اجداد اور آزادی کے بعد متمول مسلمانوں کی وقف کی گئی جائدادوں کا تقریباً 7 لاکھ 40 ہزار ایکڑ زرعی اور دیگر مقاصد میں استعمال ہونے والی جائدادیں ہیں، ان پر تدریجاً قبضہ کرنے کے لیے کانگریس سرکار نے وقف بورڈز کے قوانین میں تین بار ترامیم کیں، پہلی بار 1956ء، دوسری بار 1995ء اور تیسری بار 2013ء میں۔ ان بار بار کی ترمیمات سے وقف بورڈز کے استحقاق مجروح ہوئے مگر انہوں نے آخری ترمیم کو ردوکد کے بعد قبول کرلیا۔ یہ بات کچھ حد تک درست ہے کہ ارکانِ وقف بورڈ ان جائدادوں کی آمدن میں شفافیت نہیں برتتے جس کی آڑ لے کر مودی سرکار ان جائدادوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ نئے قانون کے تحت اور بورڈز کے ارکان میں غیر مسلم اور پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت کو شامل کرکے مسلمانوں کے اختیارات کو مکمل ختم کرنا چاہتی ہے۔

گزشتہ 77 سال سے پورے بھارت میں مسلم کُش فسادات کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ جتنے بڑے فسادات 1947ء سے لے کر اب تک ہوئے اور ہورہے ہیں وہ ہندوتوا کی متعصبانہ ذہنیت کا نتیجہ ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت راجیو گاندھی کے دور میں یوپی میں کانگریس سرکار کی موجودگی میں ہوئی، اور اس کے بعد پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا قتلِ عام پولیس اور انتظامیہ کے تعاون اور موجودگی میں ہوا۔ آج بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر عدلیہ کے ماورائے قانون فیصلے سے ہورہی ہے، اور فیصلہ دینے والے جج کو گورنر بنادیا گیا ہے۔ یہی نہیں، شروع دن سے سابقہ اور موجودہ حکومتیں مسلمانوں کی ہر شناخت اور عائلی قوانین کو مٹانے کے درپے رہی ہیں۔ کانگریس کی حکومت کے زمانے میں مشہورِ زمانہ شاہ بانو کیس، جس میں بھارتی سپریم کورٹ نے شریعت کے خلاف تاعمر مطلقہ کو نان نفقہ دینے کا فیصلہ دیا تھا، یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ملک گیر احتجاج اور ہڑتال، اور چند شہادتوں کے بعد بھارتی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ لیکن جب سے ہندوتوا کی علَم بردار متعصب مودی سرکار آئی ہے پورے ہندوستان میں مسلم نام کے حامل شہروں کے نام تبدیل کیے جا رہے ہیں، شہریت کے نئے قانون کے نفاذ کے ذریعے مسلمانوں کو کیمپوں میں ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ بنارس کی گیان بافی مسجد، متھرا کی عیدگاہ… سب پر مندر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ جن صوبوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں مائیک پر اذان دینے پر پابندی عائد ہے۔ کولکتہ ہائی کورٹ میں قرآن پر پابندی عائد کرنے کا مقدمہ زیر سماعت ہے جو مصلحتاً زیر التوا ہے۔ تین طلاق کے خلاف قانون پاس کرکے اس کو غیر قانونی بنادیا گیا ہے۔ یکساں سول کوڈ کا قانون لانے کی تیاریاں شروع ہیں۔ مسلمانوں کی جائدادوں پر تجاوزات کے نام پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں دہلی کی چار سو سال پرانی مسجد کو شہید کردیا گیا ہے۔ گویا چہار سمت سے مسلمانوں کے دین، تہذیب اور جائداد پر حملے جاری ہیں۔

اب موجودہ وقف جائدادوں کے قانون میں ترمیم کے بعد جو تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اس پر اجمالاً تحریر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اگر مسلمانانِ ہند بیدار نہ ہوئے اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دینے کو تیار نہ ہوئے تو ان کی جو حیثیت باقی بچی ہے وہ بھی نہیں رہے گی۔ میں یاد دلاتا چلوں کہ اندرا گاندھی نے آر کے دھون کو اسپین بھیجا تھا تاکہ وہ اسٹڈی کرکے آئے کہ مسلمانوں کی 800 سالہ حکومت کیسے ختم ہوئی اور کس طرح اسپین سے مسلمانوں کو نکالا گیا۔

اس ترمیم میں جو سب سے خطرناک بات ہے وہ یہ کہ جن جائدادوں کی رجسٹریشن نہیں ہے وہ قومی تحویل میں لے لی جائیں گی۔ بات یہ ہے کہ مغل دورِ حکومت میں بڑی تعداد میں جائدادیں شاہی فرمان کے ذریعے وقف ہوتی تھیں جن کی کوئی قانونی دستاویزات موجود نہیں۔ اس کے علاوہ مساجد، مدارس، مزارات، خانقاہوں اور امام بارگاہوں کی وقف جائدادیں متمول افراد اور دیگر افراد نے ثواب جاریہ کے طور پر وقف کی ہیں، ان کی بھی سرکاری دستاویزات موجود نہیں۔ یہ تمام جائدادیں غیر قانونی قرار دے کر بحقِ سرکار ضبط ہوں گی اور ان پر قائم مساجد، مدارس، مزارات اور دیگر فلاحی ادارے مسمار کردیے جائیں گے جو یوپی، گجرات، مدھیہ پردیش اور مودی سرکار والے دیگر صوبوں میں ترمیم سے پہلے ہی سرکاری تحویل میں لیے جارہے ہیں اور مساجد، مدارس، مزارات مسمار کیے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ قبرستانوں اور عید گاہوں کی وقف جائدادیں بھی قبضے میں لی جارہی ہیں۔

وقف بورڈز میں غیر مسلموں اور پارلیمنٹ کے اراکین کی اکثریت، اور ضلع کلکٹرز کو فیصلے کے اختیارات دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسلم وقف بورڈ نہیں ہوگا بلکہ یہ سرکاری وقف بورڈ ہوگا جو اکثریتی اراکین کے بل بوتے پر جو چاہے فیصلہ کرے گا۔ اس کے درج ذیل خوف ناک نقصانات ہیں: وقف بورڈ کا نام تبدیل کردیا جائے گا جس سے مسلم نام کا لاحقہ ختم ہوجائے گا جیسا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام کو تبدیل کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ جب کہ بنارس ہندو یونیورسٹی موجود ہے۔ وقف جائداد کو رجسٹریشن کے پورٹل پر ڈالنا ضروری ہوگا۔ مٹھ اور مندر کے لیے یہ قانون نہیں ہوگا۔

ایک طرف مسلمانوں کی مساجد پر مندر ہونے کا دعویٰ، دوسری جانب کاغذات کی عدم موجودگی میں مسماری۔ اس کے لیے ویب پورٹل پر عوام سے رائے طلب کی گئی ہے جس میں بھارت میں رہنے والے ہر باشندے کو ترمیم اور مخالفت میں رائے دینے کا حق ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ پورے ملک میں آر ایس ایس کے کروڑوں اراکین پہلے ہی اس کے حق میں رائے دے چکے ہیں، جبکہ مسلمانوں کو ابھی آگہی دی جارہی ہے۔

وقف بورڈ کا رکن بننے کے لیے رکن پارلیمنٹ ہونا ضروری ہے، جو مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں۔ ضروری ہے کہ تمام شعبہ ہائے حیات کے مسلمان گلی کوچوں میں نکل کر بیداری مہم چلائیں اور ایک طویل جدوجہد کے لیے مسلمانوں کو تیار کریں جیسا کہ شاہ بانو کیس کے دوران ہوا تھا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جو لوگ اللہ کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں اللہ اُن سے شدید محبت کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الصف) یہ مہم اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک مسلمان متحد ہوکر مشترکہ جدوجہد نہیں کریں گے۔ مسلم مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایک مشترکہ لائحہ عمل ہو تاکہ مودی سرکار ترمیم سے باز آجائے۔ ہندوستان والو! بے حسی کا زہر پی کر سونا ختم کرو، اور مسلکی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ترک کرو، اپنی بقا کی فکر کرو ورنہ ’’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘

جاگ مسلماں جاگ
میرٹھ کے بازاروں سے
دہلی کے میناروں سے
بابری مسجد تجھے دے رہی ہے یہ صدا
جاگ مسلماں جاگ
بستیاں تیری جلیں، عزتیں تیری لٹیں
جاگ مسلماں جاگ
اب باری ہے منبر و محراب کی
خانقاہوں اور مزارات کی
تمہارے اجداد کی جائداد کی
جاگ مسلماں جاگ

اسلامی شعائر، تہذیب، ثقافت اور مسلمانوں کی جان و مال سب ہندوتوا والوںکے نشانے پر ہیں، وہ اس جارحیت کو ایک مشن کے طور پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ برہمن سامراج کا ایجنڈا ہے جو دیگر قومیتوں کے ہندوؤں کو بھی صدیوں سے اچھوت بنا کر رکھے ہوئے ہیں، جو اُن کے راستے میں مزاحم نہیں سوائے اسلام اور مسلمانوں کے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جیسے ہی مسلمان اپنے ایمان و عمل کو درست کرکے میدانِ عمل میں اتریں گے اسلام غالب آ جائے گا، اِن شاء اللہ۔

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
یہ اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

حصہ