اسرائیل کی لائف لائن

134

اسرائیل کا اپنا دفاع یقینی بنائے رکھنے کے لیے دوسری بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ فضائی دفاعی نظام کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اسرائیل نے جدید ترین ٹیکنالوجیز سے مزین فضائی دفاعی نظام تیار کیا ہے جسے دنیا ’آئرن ڈوم‘ کے نام سے جانتی ہے۔ فضائی دفاع کا یہ اسرائیلی نظام اب تک انتہائی کامیاب رہا ہے۔ ہاں، اس پر خرچ بہت کرنا پڑتا ہے۔

جنوبی لبنان یا کہیں اور سے داغے جانے والے راکٹ اور میزائل اسرائیلی فضا میں داخل ہوتے ہی آئرن ڈوم کے ریڈار پر آجاتے ہیں اور یہ نظام اُنہیں فضا ہی میں تباہ کردیتا ہے۔ یہ تباہی بالعموم اِن راکٹوں یا میزائلوں کی منزل سے بہت دور واقع ہوتی ہے۔

آئرن ڈوم پر اسرائیلی حکومت اور فوج دونوں کا انحصار بہت زیادہ ہے کیونکہ حزب اللہ، حماس یا کسی اور عسکریت پسند گروپ کی طرف سے داغے جانے والے راکٹ اور میزائل اگر راستے ہی میں جھپٹ نہ لیے جائیں تو اسرائیل میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔

ایسی بہت سی تصویریں اور وڈیوز وائرل ہوئی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دشمنوں کے داغے ہوئے راکٹ اور میزائل جھپٹنے میں مصروف آئرن ڈوم فضا میں چراغاں کا سماں پیدا کردیتا ہے۔ آئرن ڈوم کا نام لاکھوں، بلکہ کروڑوں لوگوں نے سُن رکھا ہے مگر اِس کے بارے میں بنیادی باتیں جاننے والے بہت کم ہیں۔

اہم ترین سوال یہ ہے کہ فضائی دفاع کا یہ نظام کس حد تک کامیاب ہے اور اِس کی قیمت اسرائیل کو کیا ادا کرنا پڑ رہی ہے؟ آئرن ڈوم کی کامیابی اس بات کی مظہر ہے کہ اِس کی تیاری میں جدید ترین ٹیکنالوجیز سے مدد لی گئی ہے یعنی دل کھول کر خرچ کیا گیا ہے۔ اسرائیل کو یہ سب کچھ کرنا ہی تھا کیونکہ اس کے لیے آئرن ڈوم سب سے بڑی لائف لائن ہے۔ حزب اللہ، حماس، حوثی ملیشیا اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے کیے جانے والے فضائی حملوں سے مؤثر دفاع اُس کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔

سب سے پہلے تو یہ نکتہ ذہن نشین رکھیے کہ آئرن ڈوم بجائے خود کوئی مکمل نظام نہیں بلکہ ایک بڑے دفاعی نظام کا حصہ ہے۔ فضائی دفاع کا اسرائیلی نظام کئی پرتوں پر مشتمل ہے۔ آئرن ڈوم کی تیاری 2006ء میں شروع ہوئی جب لبنان کی سرزمین سے حزب اللہ ملیشیا نے اسرائیل کو نشانہ بنانا شروع کیا اور اسرائیل میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان کی راہ بھی ہموار ہوتی دکھائی دی۔

ایسا نہیں ہے کہ آئرن ڈوم نصب کردیا گیا ہے اور اب یہ خودبخود کام کررہا ہے۔ یہ کوئی ایک بار کا خرچہ نہیں۔ اس پر خرچ کرتے رہنا پڑتا ہے۔ اسرائیل پر داغے جانے والے کسی بھی میزائل یا راکٹ کو فضا ہی میں تباہ کرنے کے لیے آئرن ڈوم کو دو عدد تمیر میزائل داغنا پڑتے ہیں۔ ایک تمیر میزائل پچاس ہزار ڈالر کا ہے۔

23 ستمبر کو حزب اللہ نے بیک وقت درجنوں راکٹ اور میزائل اسرائیلی فضا میں داغے۔ ساحلی شہر حیفہ اور شمالی اسرائیل کے دیگر قصبوں اور دیہات میں سائرن بج اٹھے۔ اسرائیلی فوج نے آئرن ڈوم کی مدد سے حزب اللہ کے داغے ہوئے راکٹوں اور میزائلوں کو کامیابی سے جھپٹ کر مار گرایا۔ اس حوالے سے کئی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔ ان وڈیوز کو دیکھیے تو ایسا لگتا ہے جیسے کہیں آتش بازی کا کوئی بہت بڑا مظاہرہ ہورہا ہو۔ دنیا کو ایسا ہی لگتا ہوگا مگر اسرائیل کے لیے تو یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ اگر کوئی ایک راکٹ بھی مار گرانے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا تو کئی مرے ہوئے لوگوں کے منہ دیکھنا پڑتے۔

حزب اللہ نے یہ میزائل جنوبی لبنان میں اپنے ٹھکانوں پر اسرائیل فوج کے فضائی حملوں کے جواب میں داغے تھے۔ ان حملوں میں کم و بیش 600 افراد جاں بحق اور ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ ایسا نہیں ہے کہ حزب اللہ نے مزاحمت نہیں کی ہے یا اب اُسے ہوش آیا ہے۔ اُس نے گیارہ ماہ کے دوران شمالی اسرائیل پر آٹھ ہزار سے زائد راکٹ داغے ہیں۔

آئرن ڈوم ایک بڑے فضائی دفاعی نظام کا حصہ ہے۔ اس نظام کو مرکزی کمان کے تحت کنٹرول کیا جاتا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں دی انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی کے ییہوشُوا کیلِسکی نے بتایا کہ یہ فضائی دفاعی نظام تین حصوں پر مشتمل ہے۔

اوپری یا پہلی دو تہوں کو Arrow-2 اور Arrow-3 کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں حصے کسی بھی بیلسٹک میزائل کو ہزاروں کلومیٹر دور سے شناخت کرکے جھپٹنے کی صلاحیت کے ساتھ ڈیزائن اور تیار کیے گئے ہیں۔ Arrow-2 کسی بھی خطرے کو فضا میں پکڑتا ہے جبکہ Arrow-3 اپنے ہدف کو خلا ہی میں جا لپکنے کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہے۔ اِن دونوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تباہ کیے جانے والے میزائل یا راکٹ کے ملبے سے زمین پر کم سے کم نقصان ہو۔

ڈیوڈ سلِنگ درمیانی پرت کے طور پر کام کرنے والا جُز ہے۔ یہ کم فاصلے پر مار کرنے والے کسی بھی بیلسٹک میزائل کو 100 سے 200 کلومیٹر دور ہی جھپٹ سکتا ہے۔ ڈیوڈ سلِنگ لڑاکا طیاروں، ڈرونز، ہیلی کاپٹرز اور کروز میزائل پر بھی آسانی سے قابو پاسکتا ہے۔

فضائی دفاع کے اسرائیلی نظام کی سب سے نچلی یا اندرونی پرت کو ہم آئرن ڈوم کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ دفاعی یا حفاظتی دائرے کا آخری چَھلا ہے۔ اور سب سے زیادہ اِسی کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ آئرن ڈوم نے اسرائیل کو حزب اللہ اور حماس کے داغے ہوئے ہزاروں راکٹوں اور میزائلوں سے بچایا ہے۔ اپریل میں ایران نے اسرائیل کے خلاف سیکڑوں ڈرون بھی استعمال کیے تھے۔ اُن ڈرونز کو بھی آئرن ڈوم نے ناکام بنایا تھا۔

آئیے، آئرن ڈوم کے بارے میں بار بار پوچھے جانے والے 7 بنیادی سوالوں کا جائزہ لیں اور اُن کے جواب دیکھیں۔

پہلا سوال: آئرن ڈوم کیا ہے اور اِس سے کتنے میزائل داغے جاسکتے ہیں؟

آئرن ڈوم کو Kippat Barzel بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑے فضائی دفاعی نظام کا حصہ ہے اور اِسے کم فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کو جھپٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ ہر طرح کے موسم میں عمدگی سے کام کرتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے: ایک ریڈار ٹریکنگ اسٹیشن، ایک کنٹرول سینٹر اور ایک میزائل بیٹری سسٹم۔

بی بی سی نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ریڈار ٹریکنگ اسٹیشن اسرائیلی حدود میں داخل ہونے والے راکٹوں کو ٹریک کرکے کنٹرول سینٹر کو اس کی اطلاع دیتا ہے۔ کنٹرول سینٹر یہ دیکھتا ہے کہ راکٹ جا کہاں رہا ہے۔ اگر وہ غیر آباد علاقے کی طرف رواں ہو تو اُسے جانے دیا جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں جانی نقصان کا احتمال نہیں ہوتا۔

تیسرا جُز یا حصہ تین میزائل شکن بیٹریز پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہونے والے راکٹس یا پروجیکٹائلز کو جھپٹ کر تباہ کردیتا ہے۔

اسرائیلی دفاعی کمپنی اور اسرائیل ایئرو اسپیس انڈسٹریز کی ذیلی کمپنی ایلٹا نے مسلح افواج سے اشتراکِ عمل کے ذریعے آئرن ڈوم کا ڈیٹیکشن اور ریڈار ٹریکنگ پورشن تیار کیا ہے۔ اس کا بیٹل مینجمنٹ اینڈ ویپن کنٹرول سینٹر mPrest Systems نے فراہم کیا ہے جو اسرائیل کے بنیادی اسلحہ ساز ادارے Rafael (رافیل) کے لیے کام کرنے والی اسرائیلی سافٹ ویئر فرم ہے۔

آئرن ڈوم کا میزائل فائرنگ یونٹ تمیر (Tamir) انٹرسیپٹر میزائل داغتا ہے جس میں الیکٹرو آپٹک سینسر لگے ہوتے ہیں۔ اس کے اندر کئی اسٹیئرنگ فِنز (بازو) بھی ہوتے ہیں جو اِسے راستے بدلنے اور ہدف تک جلدی پہنچ کر اُسے تباہ کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

آئرن ڈوم کی ہر میزائل بیٹری میں تین یا چار لانچر ہوتے ہیں۔ ہر لانچر 10 سیکنڈ میں 20 میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جروسلیم انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجی اینڈ سیکیورٹی کے سینئر ریسرچر ریوبن نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ کم وقت میں زیادہ میزائل داغنے کی صلاحیت آئرن ڈوم کو اسرائیل کی طرف داغے جانے والے بہت سے راکٹوں اور میزائلوں سے بیک وقت نپٹنے کے قابل بناتی ہے۔ ریوبن کا کہنا ہے کہ آئرن ڈوم کے ریڈار اور بیٹل مینجمنٹ سسٹم کو اس طور ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ بیک وقت بہت سے راکٹس کو قطعیت کے ساتھ نشانہ بناسکتا ہے۔ بیک وقت درجنوں راکٹ داغے جانے پر بھی یہ نظام بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

دوسرا سوال: آئرن ڈوم کب بنایا گیا تھا اور پہلی بار کب استعمال کیا گیا تھا؟

2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کا تصادم ہوا تھا۔ تب حزب اللہ نے بیک وقت ہزاروں راکٹ داغ کر شمالی اسرائیل میں تباہی مچائی تھی۔ ان حملوں سے اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مالی نقصان بھی کم نہ تھا۔ تب اسرائیل نے اعلیٰ سطح پر فضائی دفاعی نظام تیار کرنے کے بارے میں سوچا۔ یہ کام امریکا کی معاونت کے بغیر ممکن نہ تھا۔

جولائی 2008ء میں تمیر میزائل کی کامیاب آزمائش کی گئی۔ اس کے بعد مارچ 2009ء میں اس کی مزید آزمائش کی گئی۔ اس بار اگرچہ کوئی میزائل یا راکٹ جھپٹنے کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تاہم اِس کی باضابطہ منظوری دے دی گئی۔

آئرن ڈوم کو باضابطہ طور پر پہلی بار 2011ء میں نصب کیا گیا۔ تب اِس نے غزہ کے علاقے سے حماس کے ہاتھوں داغے جانے والے ایک میزائل کو کامیابی سے جھپٹ کر ناکارہ بنادیا۔

تیسرا سوال: آئرن ڈوم کی کامیابی کا تناسب کیا ہے؟

حماس کے ارکان نے 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل میں داخل ہوکر حملے کیے جن میں کم و بیش 1200 افراد مارے گئے اور 250 کو یرغمال بنالیا گیا۔ حماس نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے اور آئرن ڈوم کی کامیابی کا تناسب 90 فیصد تھا۔ جو راکٹ آئرن ڈوم کی پہنچ سے دور رہے اُن کے گرنے اور پھٹنے سے درجنوں ہلاکتیں ہوئیں اور سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔

اسرائیلی فوج کے ترجامن لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کارنیکس نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اگر آئرن ڈوم نہ ہوتا تو اسرائیل کا جانی نقصان بہت زیادہ ہوتا۔ تب سے اب تک آئرن ڈوم ہمارے لیے لائف سپورٹ اور لائف لائن کا کام کررہا ہے۔

مکمل جنگ کی صورت میں فضائی دفاع کے کسی بھی نظام کی چُولیں ہل سکتی ہیں۔ ایسے میں آئرن ڈوم کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ جوناتھن کارنیکس کا کہنا ہے کہ کسی بھی طرح کے گولہ بارود کے معاملے میں یہ مسئلہ تو ہے ہی کہ وہ کسی بھی وقت الجھن پیدا کرسکتا ہے۔ اِس کے لیے پہلے سے تیار رہنا پڑتا ہے۔ حملہ کسی بھی شکل میں اور کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ فضائی دفاع کا اسرائیلی نظام ملکی ضرورتوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ اس کی کئی پرتیں ہیں تاکہ ضرورت کے مطابق انہیں بروئے کار لایا جاسکے۔

امریکی ادارے کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے انکِت پانڈے کہتے ہیں ’’میرا خیال ہے اسرائیل کے پاس دنیا کا مؤثر ترین میزائل ڈیفنس سسٹم ہے جو ملک کے لیے ابھرنے والے ہر طرح کے خطروں کا بہت عمدگی سے سامنا کرسکتا ہے۔ آئرن ڈوم نے اب تک جس انداز سے کام کیا ہے وہ حیرت انگیز ہے، اس کی کارکردگی مجموعی طور پر بے داغ رہی ہے۔‘‘

انکِت پانڈے کہتے ہیں کہ 90 فیصد کامیابی کی شرح کے ساتھ آئرن ڈوم انتہائی مؤثر فضائی دفاعی نظام ہے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اسرائیل پر اچانک بیک وقت درجنوں یا سیکڑوں راکٹ داغ دیے جاتے ہیں اور آئرن ڈوم شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

چوتھا سوال: حزب اللہ یا حماس کے داغے ہوئے راکٹ اور میزائل مار گرانے پر اسرائیل کو کتنا خرچ کرنا پڑتا ہے؟

آئرن ڈوم کو بہت سے چھوٹے حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حزب اللہ اور حماس کے داغے ہوئے راکٹ اور میزائل جھپٹ کر تباہ کرنے کے لیے اسرائیلی فضائی دفاعی نظام جو میزائل یا انٹرسیپٹر داغتا ہے اُس کی قیمت اچھی خاصی ہے۔ انٹرسیپٹنگ تمیر میزائل پچاس ہزار ڈالر کا ہے۔ کسی ایک راکٹ کو جھپٹنے کے لیے دو تمیر میزائل داغنا پڑتے ہیں۔

فضائی دفاع کے دوسرے بہت سے نظاموں میں انٹرسیپٹنگ میزائل اِس سے کہیں زیادہ مہنگے ہوتے ہیں مگر اُن پر خرچ اس لیے نہیں کرنا پڑتا کہ حملے بہت کم ہوتے ہیں۔ اسرائیل کے لیے تمیر میزائل اگرچہ مہنگا ہے مگر فضائی دفاعی نظام نہ ہونے کی صورت میں جو نقصان ہوسکتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہوگا۔ انکِت پانڈے کہتے ہیں کہ آئرن ڈوم کی کارکردگی 100 فیصد نہیں مگر یہ بھی دیکھیے کہ اگر یہ نظام نہ ہو تو اسرائیل کا کیا حشر ہو۔ تمیر میزائل اگرچہ سستا ہے مگر بہت زیادہ حملوں کو روکنے کے لیے داغے جانے کے باعث اِن کی مجموعی لاگت بڑھ جاتی ہے۔

پانچواں سوال: اسرائیل کے پاس کتنے آئرن ڈوم سسٹم ہیں؟
آئرن ڈوم کو ابتدا میں کسی شہر کی حدود میں دفاع یقینی بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس کی ابتدائی رینج 4 سے 70 کلومیٹر تک تھی۔ پھر رینج بڑھادی گئی۔ اب اس فضائی دفاعی نظام کے تحت پورا اسرائیل آتا ہے۔ اسرائیل کا ہر قصبہ اور ہر گاؤں اِس کی کوریج میں ہے۔

اسرائیل پر حزب اللہ اور حماس کی طرف سے راکٹ داغے جاتے رہتے ہیں اس لیے آئرن ڈوم کو ہروقت متحرک اور چالو رکھنا پڑتا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق ریتھیون اور سی سینٹر فار اسٹرے ٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں آئرن ڈوم کی 10 بیٹریاں کام کررہی ہیں۔ ہر ایک میں تین سے چار لانچر لگے ہوئے ہیں۔ آئرن ڈوم کے پورے سسٹم کو بہت تیزی سے کہیں بھی لے جایا جاسکتا ہے اور یہ چند ہی گھنٹوں میں نصب کیا جاسکتا ہے۔

چھٹا سوال: کیا اسرائیل آئرن ڈوم برآمد بھی کرتا ہے؟
اسرائیل کے مرکزی یا کلیدی اسلحہ ساز ادارے رافیل کا کہنا ہے کہ اُس نے 2020ء میں امریکا کو آئرن ڈوم سسٹم کی دو بیٹریاں فراہم کی تھیں۔ یوکرین بھی روس سے بچنے کے لیے انتہائی مؤثر میزائل ڈیفنس سسٹم چاہتا ہے۔ اُس نے بھی اسرائیل سے آئرن ڈوم کی بیٹریوں کے لیے بات کی ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ امریکا نے اسرائیل سے جو دو میزائل بیٹریاں حاصل کی ہیں وہ اسرائیل ہی میں متحرک ہیں۔ امریکا نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کا میزائل ڈیفنس سسٹم مزید مضبوط بنانے کے لیے یہ دو بیٹریاں بھی اسرائیل ہی کو دے دے گا۔

امریکا نے اسرائیل کو ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفینس (THAAD) میزائل اور پیٹریاٹ میزائل کی بیٹریاں دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔

ساتواں سوال: جب آئرن ڈوم کی بیٹری کام کرتی ہے یعنی اس کے لانچر سے تمیر میزائل داغے جاتے ہیں اور کسی بھی راکٹ یا میزائل کو فضا ہی میں نشانہ بنایا جاتا ہے تو زمین پر لوگ کیسا محسوس کرتے ہیں؟

آپ نے بہت سی وڈیوز دیکھی ہوں گی کہ آئرن ڈوم کے تمیر میزائل کسی راکٹ یا میزائل کو فضا ہی میں جھپٹ کر ناکارہ بنارہے ہیں۔ پھر بھی کبھی ذہن میں یہ خیال تو آتا ہوگا کہ جہاں یہ سب کچھ ہورہا ہوتا ہے وہاں زمین پر لوگ کیا محسوس کرتے ہیں؟ آئرن ڈوم کسی بھی ان گائیڈیڈ میزائل کو خاصی کم بلندی پر جھپٹتا ہے، اس لیے زمین پر موجود لوگوں کو خاصے زوردار دھماکے سنائی دیتے ہیں، بہت سے لوگوں کے کان سُن ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی تو دھماکوں کی لہر یا دھمک بھی غیر معمولی ہوتی ہے۔

حصہ