آخر شب کے ہم سفر

60

قسط:41

’’ادما چپ چاپ انڈا کھانے میں مصروف رہیں۔
’’لو۔ اب تم خفا ہوگئیں۔ یہ کیا مصیبت ہے یار‘‘۔ پھر اس نے دفعتاً بڑی گمبھیر آواز میں کیا:۔

’’ادما۔ تم جانتی ہو، میں مدتوں گائوں جا کر اپنی بہن سے نہیں مل پاتا۔ ڈھاکے میں اپنے نواب رشتہ داروں سے ملنے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔ صرف تم ہی میرے لیے سب کچھ ہو۔ تمہارے خلوص کی وجہ سے یہ گھر تک مجھے اپنا گھر معلوم ہورہا ہے۔ حالانکہ‘‘۔ تہ تمسخراً ہنسنا۔ ’’ووڈ لینڈز کو اپنا گھر سمجھنا حماقت ہے مگر بہرحال اتفاق سے تم اسی محل میں پیدا ہوئیں۔ کیا کیا جائے۔ تم جہاں رہو گی وہی میرا گھر ہوگا‘‘۔

ادما نے پلکیں جھپکائیں۔ ان کی عینک کا شیشہ دھندلا ہوچکا تھا۔ ریحان جھینپ کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔ وہ جذباتیت سے بے انتہا گھبراتا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ خود بھی خاصا جذباتی ہورہا ہے۔ وہ جلدی سے کرسی پیچھے سرکا کر اُٹھا اور لپک کر اپنے کمرے سے سگریٹ اور ماچس اُٹھا لایا۔ سگریٹ سلگا کر کرسی پر بیٹھتے ہوئے بشاش آواز میں اس نے کہا ’’لائو گرما گرم چائے تو بنا کر دو…‘‘

’’ادما نے آہستہ سے ٹی کوزی اُٹھا کر چائے اس کی پیالی میں انڈیلی۔
’’میں۔ میں تو اب چلا جائوں گا واپس بمبئی۔ دیپالی تمہارے حوالے۔ تم

میری غیر موجودگی میں اس کا خیال رکھنا۔ وہ ذرا بیوقوف سی لڑکی ہے۔ اگر کبھی کوئی حماقت کی بات کرے تو میری خاطر اسے معاف کردینا۔ وعدہ…؟‘‘

’’وعدہ‘‘۔

’’گڈ اولڈ اُدما‘‘۔ وہ اطمینان سے چائے پینے میں جٹ گیا۔
’’تمہارا خیال ہے بنوئے بابو اس شادی کی اجازت دے دیں گے؟‘‘
’’کوشش تو میں یہی کروں گا‘‘۔
’’اور تم دونوں ہول ٹائمر کی تنخواہ پر گزر کرلو گے؟‘‘

’’اُدما۔ تم تو کسی بورژوا بڑی بی کی طرح بات کررہی ہو۔ اتنے ہول ٹائمرز نے آج تک کس طرح شادیاں کی ہیں؟ ان سب کی بیویاں بھی کام کررہی ہیں۔ دیپالی اتفاق سے گریجویٹ ہے اور سنگیت کی ماہر… کمال ہے بھئی تم جب بیاہ کرو گی تو کوئی مارواڑی سیٹھ یا ڈپٹی کمشنر تلاش کرو گی اپنے لیے؟‘‘

’’بکواس مت کرو‘‘۔
’’اوہ۔ سَوری۔ سَوری‘‘۔

’’چنانچہ… دیپالی گابجا کر گھر کا خرچ چلائے گی۔ ریڈیو پروگرام اور ریکارڈوں کی مختصر سی رائلٹی اور میوزک کے ٹیوشن۔ اور آپ بیوی کی کمائی پر…‘‘

’اُدما…‘‘ ریحان کو اب پہلی بار غصہ آیا۔ ’’تم آج کیسی عجیب و غریب باتیں کررہی ہو۔ مجھے یقین نہیں آتا‘‘۔

’’میں بوژدا بڑی بی نہیں ہوں۔ محض چند پریکٹیکل باتوں کی طرف اشارہ کررہی ہوں۔ یہ تمہاری ہینڈ ٹو مائوتھ خانہ بدوش زندگی… شادی گڈے گڑیا کا کھیل نہیں ہے…‘‘

’’اُدما… تم سچے دل سے کمیونسٹ کبھی نہیں تھیں… اگر تم اس خوش فہمی میں ہو کہ بنوئے بابو تمہیں بہ خوشی اپنا داماد بنالیں گے… وہ قدامت پسند ہندو ہیں‘‘۔

’’جہاں تک میں نے چند ملاقاتوں میں اندازہ لگایا تھا، وہ بالکل کمیونل نہیں ہیں۔ اور بہرحال میں نے کہا تو وہ اگر اجازت نہ بھی دیں تو کیا مضائقہ ہے۔ دیپالی اکیس سال کی ہوچکی ہے۔ ہم لوگ کلکتہ جا کر سول میرج کرلیں گے‘‘۔

’’مجھے تمہاری طرف سے بے حد پریشانی ہے ریحان۔ نہ جانے تم کس آفت میں پھنس جائو‘‘۔

’’افوہ۔ تم تو اتنی متفکر ہوگئیں گویا آج تک ہندوستان میں کوئی انٹرکمیونل شادی ہی نہیں ہوئی۔ اچھا۔ تم ایک کام کرو‘‘۔

’’کیا…؟‘‘
’’چندرکنج جا کر میری سفارش کردو۔ جھٹ پٹ‘‘۔
’’میں…؟‘‘

’’دیپالی کہہ رہی تھی۔ ڈاکٹر سرکار پہلی ملاقات ہی میں تم سے بے حد متاثر ہوگئے تھے۔ جب تم ’’کلثوم آپا‘‘ کی سازش کے سلسلے میں اسے اپنے ساتھ فرضی طور پر کومیلا لے گئی تھیں۔ یوں اسے اگر اپنی سہیلیوں کے ہاں دیر لگ جائے تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں…‘‘
’’دیپالی کیا کہہ رہی تھی؟‘‘

’’کیا…؟ تمہارے متعلق…؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا۔ ’’کہہ رہی تھی ایسا لگتا تھا جیسے ادما دی نے بابا پر جادو کردیا ہو‘‘۔
’’گڈ گاڈ‘‘۔

’’قسمیہ۔ ادما تم سچ مچ جا کر ذرا ان کے خیالات کا اندازہ تو لگائو‘‘۔
’’مجھے مڈل کلاس ہندو بنگالیوں کے خیالات کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ بھدرا لوگ‘‘۔

’’مجھے بھی اندازہ ہے۔ مگر میں ہندو بنگالی بورژوازی بھدرا لوگ کی نظروں میں کم از کم اشراف تو ہوں۔ ذرا غور کرو‘‘۔ وہ پھر ہنسا۔ ’’ہمارے بنگال کی ہندو بورژواری مسلم بورژ داری کو کس سر پرستانہ انداز میں ’’اشراف‘‘ کہہ کر گویا TOLERATE کرتی ہے۔!!‘‘

’’اگر کوئی تمہارے اس لہجے کو سنے تو سمجھے کہ شاید تم بھی کمیونل ہو۔ سچے دل سے کمیونسٹ نہیں‘‘۔ ادما نے ہنس کر جواب دیا۔
’’ریحان بھی کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ ’’بہرکیف تم اب اپنے دوسرے مشن پر چندرکنج جائو‘‘۔

’’کوئی ہندو یا مسلمان باپ چاہے وہ کتنا ہی روشن خیال کیوں نہ ہو اپنی لڑکی کو دوسرے فرقہ میں شادی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا‘‘۔
’’تمہارے ڈیڈی بھی؟‘‘

’’میرے ڈیڈی کا یہاں کیا ذکر ہے‘‘۔
’’کیوں؟‘‘ وہ ہنستا رہا۔ ’’فرض کرو تم کسی اشراف سے بیاہ کرنا چاہو، یا عیسائی سے یا انگریز سے، یا چینی، جاپانی، روسی سے، تو سرپری توش اجازت نہ دیں گے؟ وہ تو بے حد آزاد خیال ہیں‘‘۔

’’میرے بیاہ کا کیا ذکر ہے‘‘۔
’’اوکے، اوکے ادما۔ بچیوں کی طرح شرمائو نہیں۔ ہے کوئی مرغا نظر میں؟ چلو میں سرپری توش سے تمہاری وکالت کردوں گا۔ تم بنوئے بابو سے میرا پروپیگنڈہ کرو۔ لائو ملائو ہاتھ…‘‘ اس نے دوستانہ بے تکلفی سے ادما کا ہاتھ کھینچ کر زور سے مصافحہ کیا۔ ادما نے غصے سے ہاتھ چھڑالیا۔ ’’ریحان تمہارا لونڈہارپن کب جائے گا؟‘‘

’’اسی لونڈہار پن کو ختم کرنے کے لیے تو اب گھر بسانے کا ارادہ ہے ہمارا‘‘۔

’’کل شام کیا پروپوز…؟‘‘
’’نہیں‘‘۔
’’ابھی تک کوئی بات ہی نہیں کی؟‘‘

’’یوں ہی… ذرا شاعری واعری بگھارتا رہتا ہوں۔ اس سے کہا تو ہے کہ شادی کرنا چاہتا ہوں مگر باقاعدہ سنجیدگی سے ایسا کہتے ہوئے بڑا عجیب سا لگتا ہے۔ اگر وہ اپنی یار دوست اور کامریڈ نہ ہوتی، محض لڑکی ہوتی تو دوسری بات تھی۔ اب عجیب مسخرہ پن سا لگتا ہے۔ تم۔ تم میرا مطلب سمجھ نہیں سکتیں۔ اس سے FORMAL طور پر کیا کہوں؟ بس ایک روز بھگا کر لے جائوں گا۔ بھگانے کا الٹی میٹم اسے البتہ دے دیا ہے‘‘۔

’’تم بالکل دیوانے ہو رہے ہو‘‘۔
’’ہوں تو سہی‘‘۔

اب ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔ پہلو کا باغ، بیحد تروتازہ اور دلفریب معلوم ہورہا تھا۔

اچانک ادما نے کہا … ’’تم بے چاری جہاں آراء کو اتنی جلدی بھول گئے‘‘۔
وہ ایک دم اس غیر متوقع تذکرے سے ششدر سا رہ گیا۔ اس نے سگریٹ کا کش لگایا اور جھینپ کر سرخ ہوتے ہوئے کہا۔ ’’اتنی جلدی تو نہیں، کافی عرصہ ہوگیا‘‘۔

’’اوہ… یُو مین (MEN)‘‘۔

وہ خاموش ہوگیا۔ سیزر اب ادما دیبی کے قدموں سے اُٹھ کر گرانباری سے چلتا ہوا کمرے کی طرف جارہا تھا۔ وہ اسے دیکھتی رہیں۔ پھر انہوں نے دوسرا سوال کیا… ’’دیپالی کو معلوم ہے؟‘‘

’’نہیں…‘‘
’’تم نے اُسے کچھ نہیں بتایا؟‘‘

’’بتانے کی کیا خاص بات تھی۔ جہاں آرا بے چاری کی میری موجوہ زندگی میں اب کیا اہمیت ہے کہ میں خواہ مخوا اس کا تذکرہ چھیڑتا۔ اور بات بھی کیا تھی کہ جہاں آراء کے والدہ مجھے اپنا گھر داماد بنانا چاہتے تھے۔ ایسا اکثر مسلمان گھرانوں میں ہوتا ہے…‘‘

’’دیپالی جہاں آرا کی گہری دوست ہے‘‘۔
’’میں جانتا ہوں‘‘۔

’’تم ابھی کہہ رہے تھے کہ پچھلے دنوں وہ تم سے خفا ہوگئی تھی۔ ممکن ہے اسے معلوم ہوگیا ہو، اور اس وجہ سے وہ تم سے …‘‘

وہ جھنجھلا گیا… ’’اگر اس وجہ سے ناراض تھی تو مجھے بآسانی بتلا سکتی تھی۔ وہ بے انتہا صاف دل اور منہ پھٹ لڑکی ہے‘‘۔ وہ دفعتاً چپ ہوگیا۔ اور تیوی پر بل ڈال کر بولا۔ ’’پتا نہیں لاحول ولاقوۃ… عورتوں کے دماغ بھی عجیب انداز سے کام کرتے ہیں۔ اسے مجھے بتانا تو چاہئے تھا۔ اگر یہی بات ہے… مگر تم کو یہ خیال کیسے آیا؟‘‘

’’میں بھی عورت ہوں‘‘۔

’’لائیک ہیل…‘‘ وہ یک لخت بے حد پریشان ہو کر پیالی میں چمچہ بجانے لگا…’’او مائی گاڈ‘‘۔ ادما تم ٹھیک کہتی ہو، میں واقعی عجیب آفت میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ مجھے پارٹی کی طرف سے ماموں جان سے ہی بات چیت کرنی ہے۔ ارجمند منزل جا کر… اوہ ہل…‘‘

’’ارجمند منزل کب سے نہیں گئے؟‘‘
’’مدتیں گزر گئیں‘‘۔
’’کیوں نہیں جاتے، کیا احساسِ جرم ستاتا ہے؟‘‘
’’یہی سمجھ لو‘‘۔
’’کبھی جہاں آرا یاد آتی ہے؟‘‘
’’اپنی پہلی محبت کو انسان کبھی نہیں بھول سکتا؟‘‘

’’تم نے مجھے ایک بار لندن میں سرسری سا بتایا تھا۔ وہ تمہاری فرسٹ کزن ہے نا؟‘‘

’’سکنڈ۔ اب چھوڑو اس قصہ کو۔ گڑے مُردے اُکھیڑنے بیٹھ گئیں‘‘۔

’’بے چاری لڑکی‘‘۔
’’یو آر اے ڈیم کروک اُدما‘‘۔

وہ ہنسنے لگیں۔

’’اور میں نے کون سا ایسا جرم کیا ہے جس کے کلیریفکشن کی ضرورت ہے؟‘‘

’’پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کے متعلق تمہیں دیپالی اندھیرے کو میں نہ رکھنا چاہئے‘‘۔

’’ویٹ… آئی ایم افریڈ… ازمائی اون بزنس‘‘۔

اُدما نے تازہ چائے کے لیے گھنٹی بجائی۔ وہ اس جذباتی چھو کر… کو ہینڈل کرنا خوب جانتی تھی۔ اخبار سرکا کر انہوں نے چند لحظوں بعد موضوع تبدیل کرتے ہوئے کہا… ’’بے چارے محمود اور جیوتی… ہم اپنی باتوں میں ان دونوں کو بالکل بھول ہی گئے‘‘۔

ریحان نے پلکوں پر انگلیاں پھیریں۔ ’’خدا کے لیے چپ رہو اُدما‘‘۔

وہ بھی خاموش ہو کر بارش کو دیکھنے لگیں۔ خدمت گار برآمدے میں آیا۔ اُدما نے چائے دانی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ چائے دانی اُٹھا کر اندر چلا گیا۔ ادما نے آہستہ سے کہا۔ ’’مجھے اس وقت گرٹرڈ یاد آرہی ہے۔ کس طرح گولیوں سے چھلنی ہو کر مری بے چاری۔ اسپین سے اتنے دنوں بعد ہمیں اطلاع ملی تھی۔ یاد ہے؟‘‘

ریحان نے الم سے سر ہلایا۔

’’اور مجھے یاد ہے جب تمہاری امی کے انتقال کی خبر آئی تو تم نے کہا تھا۔ ایک طرح سے اچھا ہی ہوا۔ اگر میں بھی گرٹرڈ کی طرح کہیں موت کے گھاٹ اُتروں تو امی زندہ نہ رہ سکتیں۔ اس وقت نہ جانے بے چارے محمود کی ماں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ جیوتی کے ماں باپ تو غالباً اس کے بچپن ہی میں مر چکے تھے‘‘۔

ریحان اب یہ غمناک تذکرہ ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ اور آنکھیں بند کرلیں۔ لیکن اب اتنے عرصہ بعد اچانک اس کی امی اس کے تصور میں آن موجود ہوئیں… میری امی… میری امی… اُس نے دفعتاً سر ہاتھوں میں چھپا کر میز پر ٹکا دیا۔

’’رونو…‘‘

صرف اس کی امی اتنے پیار سے اِسے رونو پکارتی تھیں۔ رونو لو چائے آگئی۔ اُٹھو۔

’’رونو۔ لو چائے آگئی۔ اُٹھو‘‘۔ اُدما کہہ رہی تھیں۔

(جاری ہے)

حصہ