تربیت اولاد علامہ اقبالؒ کے ساتھ

89

علامہ اقبالؒ کی نظم ’’بچے کی دعا‘‘ بچوں کی ذہنی، فکری اور عملی تربیت کے حوالے سے ایک شاہکار ہے۔ علامہ اقبالؒ اس نظم میں بچوں کی معصوم بھولی بھالی سطح پر آکر ان کی تربیت کررہے ہیں۔
دعا کی صورت بچے کا رشتہ اللہ رب العالمین سے جڑ رہا ہے۔ شمع کی خوب صورت مثال معصوم اذہان کو غور و فکر کی جانب لے کر جاتی ہے کہ جیسے اندھیرے میں شمع کا وجود روشنی بکھیرنے والا ہے بالکل ویسا ہی انہیں بھی بننا ہے۔
آگے بڑھتے ہیں تو بچوں کو وطن کی رونق قرار دیتے ہوئے ان میں وطن کی خدمت کا جذبہ ابھارتے ہیں۔ ایک طرف تو انہیں وطن کی مناسبت سے اپنی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور دوسری جانب یہ احساسِ ذمہ داری بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک مہکتا پھول جیسے پورے باغ کو پُررونق اور معطر کردیتا ہے بالکل اسی طرح انہیں بھی اپنے وجود سے اس وطن کی خوب صورتی میں اضافہ کرنا ہے۔
علم کی شمع کے گرد پروانے کی طرح منڈلانے کا درس دیتے ہوئے ایک طرف تو علامہ فطرت کا ایک رنگ بچوں کے سامنے لا رہے ہیں اور دوسری جانب حصولِ علمِ نافع کی جو لگن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو عطا کی تھی وہی اپنے بچوں میں جگا رہے ہیں۔
علم کے حصول سے آگے بڑھتے ہیں تو اب عمل کی راہیں بچوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ غریبوں اور کمزوروں کی مدد میں حقوق العباد جیسی عظیم عبادت سے چند لفظوں میں بچوں کو متعارف کروا جاتے ہیں۔
اِھدِنَا الصِرَاطَ المْستَقِیمَ کے پیغام پر مبنی آخری شعر کہ ’’اللہ نیکی کی راہ پر چلا دے اور ہر ہر برائی سے بچا لے‘‘ گویا نظم کا اختتام مقصدِ حیات بچے کے ہاتھوں میں پکڑا دیتا ہے۔
چند اشعار پر مشتمل اس نظم میں تعلیم و تربیت کے سمندر کو گویا اقبالؒ نے ایک کوزے میں بند کر دیا ہے۔دل چسپی سے پڑھتے پڑھاتے اہم نظریات کچے اذہان میں بآسانی راسخ کیے جا سکتے ہیں جو تمام عمر مشعلِ راہ بن کر جگمگاتے رہیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے ضامن ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک یہ نظم پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کے مختلف پروگراموں میں پڑھی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں بھی یومیہ سرگرمیوں کا آغاز اسی دعا سے ہوتا تھا، لیکن اب اس نظم کے پڑھنے پڑھانے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے جنت کے پھولوں کو علامہ اقبالؒ کا ان کے لیے لکھا گیا یہ نظمیہ تحفہ ضرور پہنچائیں۔

حصہ