نسل

84

دروازے پر سبزی والے سے سبزی لیتے ہوئے راحیل صاحب کے دروازے پر، جوکہ میرے گھر کے بالکل برابر میں رہتے ہیں، ایک نئے ماڈل کی گاڑی آکر رکی اور اس سے نیا شادی شدہ جوڑا اتر کر گھر میں داخل ہوگیا۔

راحیل صاحب کا گھرانہ ایک ماڈرن اور آزاد خیال گھرانہ تھا۔ بہت پیاری پیاری دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ ہم لوگوں کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا، لینا دینا تھا۔ میں اکثر انہیں اصلاحی و دینی کتب پڑھنے کے لیے دیتی تھی۔

سبزی لے کر دروازہ بند کیا اور سوچنے لگی کہ لڑکی تو ہوبہو نسترن کی شکل تھی، اگلے ہی لمحے سر جھٹکا کہ ابھی تو اس کی منگنی یا شادی کے متعلق صباحت نے مجھ سے کوئی ذکر نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے نسترن کی کوئی کزن ہو۔

راحیل صاحب کے بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادی ہوچکی تھی، نسترن اور یوسف ابھی کالج میں زیر تعلیم تھے۔ صباحت راحیل صاحب کی بیوی تھی اور اس سے میری بہت اچھی دوستی تھی۔ وہ اپنی شادی کے متعلق مجھے بتاچکی تھی کہ راحیل صاحب میرے ٹیوٹر تھے اور بس پھر شادی ہوگئی۔

پوری فیملی کا اخلاق بہت اچھا تھا، سب ہنستے مسکراتے رہتے۔ نسترن کی دوستی میری بیٹی اسما سے تھی۔ اختلاف صرف پردے پر تھا، وہ کہتی یہ عورت پر ظلم ہے، جب کہ اسما کا مؤقف تھاکہ ’’جب ایک مسلمان عورت پردے کو اپنے لیے مسئلہ نہیں سمجھتی بلکہ اللہ کا حکم اور اپنا تحفظ سمجھتے ہوئے کرتی ہے تو اُن لوگوں کی طرف سے سوال کیوں اٹھتے ہیں جو پردہ نہیں کرتے؟‘‘

یہ لوگ ماڈرن صرف لباس کے ہی حوالے سے نہیں تھے بلکہ ان کی رسومات اور طرز رہائش سب ماڈرن تھا۔ آئے دن بڑی بڑی تقریبات، ویلنٹائن ڈے، مدرز فادرز ڈے، برتھ ڈے باقاعدگی سے منائے جاتے۔ گھر کی تمام خواتین کا دوپٹے کے بغیر آنا جانا عام سی بات تھی۔ ہاں خاص بات اُن کے ہاں یہ تھی جس سے اُن کا گھر پورے محلے میں مشہور تھا، کہ ان کے ہاں ایک اعلیٰ نسل کی خوب صورت کتیا تھی جو گھر ہی میں رہتی تھی، محلے کے بچے اسے گھر میں دیکھنے آتے۔ کتیا ایک خاص اسٹائل سے زبان لٹکائے ہانپتی رہتی۔ مجھے تو اس سے ڈر لگتا تھا اور میں صباحت سے کہتی مجھے اُس کمرے میں نہ بٹھایا کرو جہاں وہ ہوتی ہے۔

میری ماسی تین دن بعد کام کرنے آئی تو اُس کی حالت غیر ہورہی تھی، پھولے ہوئے سانس کے ساتھ سلام کیا اور بولی ’’باجی! پانی۔‘‘

میں نے اُسے پانی لاکر دیا اور پوچھا ’’کیا ہوا، تین دن بعد آئی ہو؟‘‘

بولی ’’بتاتی ہوں، بتاتی ہوں۔‘‘ پانی کا گلاس فرش پر رکھتے ہوئے بولی ’’باجی! وہ صباحت باجی کی بیٹی ہے نا، اپنے عیسائی دوست کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔‘‘

’’ہائے اللہ! توبہ توبہ، کیا کہہ رہی ہے، تجھے کیسے پتا چلا؟‘‘ تو وہ بولی ’’باجی! وہ جو پہلی گلی میں نکڑ والا چٹا گیٹ ہے نا، اُس گلی میں نسترن کی دوست رہتی ہے، میں اُس کے ہاں کام کرتی ہوں، اس نے بتایا نسترن کے ساتھ اس کا عیسائی دوست پڑھتا تھا، وہ اسے پسند کرتی تھی۔ باجی! بڑا آدمی ہے، ٹی وی پر گانے گاتا ہے۔‘‘
’’ہاں تو پھر کیا ہوا، آگے چل۔‘‘

بولی ’’بتاتی ہوں، ہاں تو باجی! اُس کی ماں نے خاموشی سے اس کے ساتھ نکاح کردیا چوری چھپے، بہت کم لوگ بلا کر۔ مجھ تک کو معلوم نہ ہوسکا۔‘‘

’’اتنی معلومات کے باوجود کہہ رہی ہے کچھ معلوم نہیں!‘‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو بولی ’’یہ باتیں مجھے نسترن کی دوست حیا نے بتائی ہیں۔ وہ شادی میں شریک تھی نا۔‘‘

’’اچھا…‘‘ میں نے صبح والا واقعہ اُس کے سامنے بیان کرنا مناسب نہ سمجھا کہ میں نے بھی نسترن کو کسی لڑکے کے ساتھ گاڑی سے اترتے دیکھا تھا۔ ماسی نے جھاڑو زمین پہ پٹختے ہوئے ایک سرد آہ بھری۔ اس کے آہ بھرنے پر میں نے سوال کیا ’’اب کیا ہوا؟‘‘ تو بولی ’’فری باجی کو تو صباحت باجی نے بہت سا جہیز دیا تھا، پر نسترن باجی کو تو کچھ بھی نہیں دیا۔‘‘

میں نے کہا ’’اچھا اب کام کر، باتیں بہت کرلیں۔‘‘

یہ ماسیاں بھی بڑی تیز ہوتی ہیں، اس نے مجھے بھلا ہی دیا کہ اس سے تین دن کی چھٹی کے بارے میں سوال کروں۔

ایک ہفتے بعد صباحت ہمارے گھر آئی، میں سمجھی مجھے سب کچھ بتانے آئی ہے۔ وہ کچھ پریشان بھی دکھائی دے رہی تھی۔

خیر خیریت کے بعد بولی ’’آپ سے ایک ضروری مشورہ کرنا ہے۔‘‘

میں نے کہا ’’ہاں، ہاں بولو، ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو۔‘‘

وہ بولی ’’بہن! کیا بتاؤں، آج کل کی اولاد نے پریشان کیا ہوا ہے، راتوں کی نیندیں حرام ہیں، بھوک مر گئی ہے، سر میں درد رہنے لگا ہے۔‘‘

میں سمجھی نسترن کے بارے میں پریشان ہے، کچھ پڑھنے پڑھانے کو پوچھنے آئی ہے۔ میں نے کہا ’’ہاں بہن! دشمن کی سازش ہے، اسے تو ہمارا خاندانی نظام، طرزِِ زندگی اور ہماری قدریں ایک آنکھ نہیں بھاتیں، وہ تو چاہتا ہے کہ خاندانی نظام تباہ و برباد ہوجائے، مسلمان اپنا وقار، اپنی پہچان کھو بیٹھیں۔ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دیے ہیں جو نام نہاد آزادی کے علَم بردار نہ دے سکے۔‘‘

میں نے دیکھا اس عرصے میں وہ خاموش اور گہری سوچ میں بیٹھی رہی، پھر بولی ’’یوسف کو اللہ سمجھے، بڑا پریشان کررکھا ہے گھر والوں کو، کہتا ہے شادی کروں گا تو پردے والی اور دین کی سمجھ رکھنے والی لڑکی سے۔ پتا نہیں آج کل کن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، آپ سمجھائیں یوسف کو۔ کہتا ہے اگر آپ نے میری مدد نہ کی تو میں پھپھو سے کہوں گا کہ وہ میری شادی میں مدد کریں۔‘‘

میں نے کہا ’’دیکھو صباحت! یہ تو بڑی اچھی سوچ ہے آپ کے بیٹے کی، اللہ اُسے استقامت عطا فرمائے۔‘‘
’’وہ ضرور اللہ کو راضی کرنے کے لیے یہ سب کچھ کررہا ہوگا، مگر بہن! ہمارے ہاں ایسی لڑکی کا گزارا کیسے ہوسکے گا؟ آپ تو جانتی ہیں ہم لوگ پردہ نہیں کرتے۔‘‘
میں نے کہا ’’لیکن وہ تو کر سکتی ہے نا۔‘‘
’’مگر ہم کہاں سے لائیں ایسی لڑکی؟‘‘ صباحت نے ایک گہری سانس لی۔
میں نے کہا ’’جوڑے تو اللہ نے بنائے ہیں، بس ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو، سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
اس سارے عرصے میں نسترن کا کوئی ذکر نہ آیا۔ کچھ توقف کے بعد بولی ’’آپ سے ایک کام اور تھا، اور وہ یہ کہ ہم دس دن کے لیے مری جارہے ہیں۔‘‘
میں نے کہا ’’اچھا اچھا! زبردست۔ کراچی میں تو گرمی بہت ہے۔‘‘
وہ بولی ’’آپ تو جانتی ہیں ہماری ہیلری (کتیا) اعلیٰ نسل کی ہے، اُسے ہم نے کبھی باہر نکلنے نہیں دیا، ہم نہیں چاہتے کہ اس کی نسل بگڑے، ہمیں اس کی حفاظت کے لیے آپ سے بہتر کوئی دوسرا نظر نہیں آیا، بس ایک ہفتے ہی کی تو بات ہے، آپ اس پر نگاہ رکھیے گا اور باہر نکلنے نہ دیجیے گا۔‘‘
صباحت تو چلی گئی مگر میرے سامنے حیرتوں کے پہاڑ چھوڑ گئی۔ ایک کتیا کی نسل بگڑنے کی اتنی فکر!
وقت کی رفتار بہت تیز ہے، آج اس بات کو پورے دو سال بیت گئے۔ یوسف کی بیٹی بھی ایک سال کی ہوگئی۔ یوسف کو اُس کی مرضی کی دین دار، باپردہ بیوی مل گئی۔ ایک دینی سمجھ بوجھ رکھنے والی لڑکی سے پورے گھر میں تبدیلی آگئی، ماشاء اللہ آج صباحت کے دونوں بیٹے باجماعت نماز پڑھتے ہیں۔ صباحت اور بڑی بہو نے بھی پردہ کرلیا اور نسترن کے شوہر نے باعمل مسلمان ہوکر داڑھی رکھ لی… اور کتیا گھر سے نکال دی گئی!
اب صباحت کہتی ہے ’’الحمدللہ اب گھر میں سکون ہی سکون ہے۔‘‘

حصہ