حقیقت تو کچھ اور ہے

111

وہ بہت شوخ وچنچل اور چلبلی عورت تھی۔ عورت اور وہ بھی چلبلی؟ ہاں، وہ ایسی ہی تھی۔ ایک جگہ تو اسے رہنا ہی نہیں ہوتا تھا۔ لمبے سے قدم اٹھائے باغ میں ایک گروپ سے دوسرے گروپ میں پہنچ جاتی۔ کبھی کہتی کہ چھم چھم کھیلو، تو کبھی اس کا اصرار پیل دوچ کھیلنے کے لیے ہوتا۔ ہر محفل کی جان ہوتی۔ ایسے چٹکلے چھوڑتی کہ بندہ مسکرانے پر مجبور ہو جائے۔ روتے ہوئے کو ہنسانے کا فن اسے آتا تھا۔

اس کی اور راحیلہ کی دوستی باغ میں چہل قدمی کرتے وقت ہوئی تھی‘ جہاں وہ دونوں اپنے بچوں کو تقریباً روزانہ ہی شام کے وقت لے کر آیا کرتی تھیں۔ ہلکی سی لپ اسٹک اور لائنر لگائے وہ آیا کرتی۔ رنگ بھی صاف تھا تو یہ دونوں چیزیں ہی اس کے لیے کافی تھیں۔ اس کے بچے معمولی مگر صاف ستھرے لباس میں ہوتے ۔

باغ کے قریب ہی اس کا گھر تھا لیکن نہ جانے کیوں راحیلہ کو اس نے کبھی اپنے گھر آنے کی دعوت نہیں دی تھی۔ ہاں گھر کا مکمل پتا ضرور اسے بتا دیا تھا۔

ایک دن راحیلہ کے دل میں آیا کہ باغ پہنچنے سے تھوڑی دیر قبل وہ خود ہی اپنی اس دوست شاہینہ کو لینے چلی جائے کہ اس دن راحیلہ کے گھر کے کام بھی جلدی مکمل ہوگئے تھے۔

راحیلہ جب اُس کے گھر پہنچی تو باہر آوازیں آرہی تھیں، کوئی خاتون زور زور سے کچھ بول رہی تھی۔ راحیلہ کو خیال آیا کہ اسے واپس پلٹ جانا چاہیے، لیکن مارے تجسس کے اُس نے گھر کی بیل بجا دی تو دروازہ شاہینہ نے ہی کھولا۔ اپنی دوست کو دیکھ کر حیران ضرور ہوئی لیکن خوشی کے آثار آنے کے بجائے وہ کچھ بوکھلا سی گئی۔ راحیلہ کو محسوس ہوا کہ اُسے میرا آنا ناگوار گزرا ہے۔ خیر وہ شاہینہ کے ساتھ گھر کے اندر گئی تو ’’بہت ہی کام چور ہے‘‘ کے الفاظ اس کے کانوں میں پڑے، اور بھی تیز آوازیں اس کے کانوں میں آتی رہیں۔

شاہینہ نے اسے کمرے میں بٹھایا اور پھر اس کے لیے شربت بناکر لے آئی۔ شاہینہ نے اس کے آنے کا مقصد پوچھا تو راحیلہ حیران ہوکر کہنے لگی ’’یار ہم دوست ہیں، تقریباً روز ہی ملتے ہیں تو سوچا آج میں تمھیں خود لینے آجاؤں۔‘‘

اس پر شاہینہ نے کہا ’’لیکن تم نے سوچا نہیں کہ میں نے تو تمہیں اپنے گھر آنے کی دعوت ہی کبھی نہیں دی؟‘‘

وہ لمحے بھر کے لیے خاموش ہوئی اور پھر بولی ’’ان آوازوں کی وجہ سے۔

دراصل بات یہ ہے کہ میری ساس ایک سگھڑ اور صفائی پسند خاتون ہیں، انہیں کھانے میں کچھ بھی پکا کر دے دو کبھی نقص نہیں نکالیں گی، لیکن صفائی کے معاملے میں سمجھوتہ نہیں کرسکتیں۔ اب میری ساس کی ایک دور کی رشتے دار ہیں اور ساتھ میں ان کی پکی سہیلی بھی، وہ جب آتی ہیں تو کبھی میز پوش کو گرا دیکھ کر یا فریج میں رکھا کوئی باسی سالن دیکھ کر بس ایک جملہ کہہ جاتی ہیں کہ ’’ہائے آپا! تمہاری بہو تو بڑی پھوہڑ ہے، میری تو ایسی نہیں۔‘‘ اور یہ جملہ تیلی کا کام کرجاتا ہے۔ اس کے بعد میں اپنی ساس کو کام چور بھی لگنے لگتی ہوں اور بدسلیقہ بھی… اور پھر بس میری شامت آجاتی ہے۔ ہر ہر چیز کی پھر سے صفائی ستھرائی ہوتی ہے۔ کچھ دن سکون سے گزرتے ہیں کہ پھر اُن کی پکی دوست آجاتی ہیں اور کبھی ’’میں پانی پی لوں‘‘ تو کبھی ’’ہائے بیٹھے بیٹھے ٹانگیں دکھ گئیں، ذرا گھر کا چکر تو لگا لوں‘‘ کے بہانے آتی ہیں… اور یہی ایک جملہ میری ساس کے گوش گزار کرجاتی ہیں اور پھر وہی سائیکل شروع ہوجاتا ہے۔‘‘

راحیلہ اُس کی باتیں سن رہی تھی۔ اسے تو شاہینہ کا یہ سب کچھ معلوم ہی نہیں تھا، وہ تو اس کا ظاہر دیکھ کر سمجھتی تھی کہ اس کی زندگی بھرپور گزر رہی ہے، اسے تو کسی چیز کی ٹینشن ہی نہیں تبھی تو ہنستی مسکراتی رہتی ہے، روز باغ بھی آجاتی ہے، مزے کرتی ہے۔
اسے یہ شعر یاد آیا:
میری روح کی حقیقت میرے آنسوؤں سے پوچھو
میرا مجلسی تبسم میرا ترجماں نہیں ہے
ہاں یہ حقیقت ہے کہ ہر سامنے دِکھنے والے چہرے کے پیچھے بھی ایک رخ ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا ۔

حصہ