حجاب

62

’’ممی ممی دیکھیں مجھے آج یہ گولڈ میڈل ملا ہے مباحثے میں پہلی پوزیشن آئی ہے میری ‘‘۔
نور نے اٹھلاتے ہوئے اپنی ماں سے کہا۔
’’واہ بھئ میری بیٹی تو ہے ہی بہت لائق!!!‘‘
ماں اپنی بیٹی کو بہت چاہتی تھی نور تھی بھی چاہے جانے کی اہل!!! خوبصورت ماڈرن ذہین تعلیمی میدان ہو یا غیر نصابی وہم نصابی سرگرمیاں نور سب سے آگے ،ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہر جگہ ممتاز نظر آتی، لباس ہو یا انداز گفتگو ہر چیز میں آگے۔ کلاس کی لڑکیاں نور کے پیچھے نور کو مس پرفیکٹ کے نام سے یاد کرتیں، اساتذہ کی اور والدین کی نور نظر ”نور“ کامیابی کے منازل طے کرتے کرتے یونیورسٹی تک پہنچ گئی تھی اورشعبہ ابلاغ عامہ کی ہونہار طالبہ تھی۔ آج یونیورسٹی میں بہت گہما گہمی تھی کیونکہ یونیورسٹی میں مباحثہ تھا اس مباحثے کی کوریج کے لیے ٹی وی چینل والے بھی آئے ہوئے تھے ۔
نور کے دل میں بھی بڑی خواہش تھی کہ وہ ٹی وی پر آئے۔ وہ وہیں پروگرام کے میزبان سے ملی ان کا کارڈ مانگا جو اس کو فوراً ہی مل گیا نور کے پاؤں تو زمین پر نہ پڑتے تھے بچپن ہی سے نیوز اینکر بننے کا شوق تھا جو اب پورا ہوتا نظر آرہا تھا رات بھر نیند نہ ائی اگلے ہی دن ٹی وی چینل کے دفتر پہنچی آڈیشن دیا اور نیوز رپورٹر سلیکٹ ہو گئی تعلیم کے ساتھ ساتھ نیوز چینل کی ذمہ داری بھی، نور سب کچھ نبھانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔ نیوز رپورٹنگ آسان نہ تھی کبھی کہیں بھاگنا تو کبھی کہیں مگر اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کی دھن میں نور نیوز رپورٹنگ جیسا مشکل کام بھی کرنے کے لیے تیار تھی۔
ماڈرن ازم کی انتہا پر پہنچی نور کے خیالات کے مطابق زندگی کا ہر لمحہ لطف سے بھرا تھا اور وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے سے مزا کشید کرنا چاہتی تھی اس کے خواب اس کے لیے بہت اہمیت کے حامل تھے ۔
شخصی آزادی، فرد کی انفرادی حیثیت، پردے سے آزادی ،اس کے ذہن و دماغ پر چھائی ہوئی تھی۔ یہ سب دقیانوسی سوچیں ہیں وہ سر جھٹک کر سوچتی۔
آج نور کو حجاب واک کی کوریج کرنی تھی یہ واک اسلامی فلاحی تنظیم کی جانب سے رکھی گئی تھی نور وقت مقررہ پر اپنی ٹیم کے ہمراہ واک کی کوریج کے مقام پر پہنچ چکی تھی۔
پروگرام میں نور نے دیکھا کہ مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین یہاں موجود تھیں ٹیچر، ڈاکٹر، وکیل ،تجارت پیشہ خواتین، سیاست سے وابستہ خواتین سب موجود تھیں ان خواتین میں ایک بات مشترک تھی کہ تمام باحجاب تھیں ۔نور ایک ایک کر کے ہر شعبے سے وابستہ خواتین کا انٹرویو کر رہی تھی اب تک نور کا خیال تھا کہ پردہ کرنے والی لڑکیاں اور خواتین عملی زندگی میں صرف ہانڈی چولہے میں اپنے اپ کو جھونک کر زندگی برباد کرتی ہیں مگر یہاں اتنی بڑی تعداد میں باحجاب خواتین کو دیکھ کر اس کو بڑی حیرت ہوئی دل میں حجاب سے متعلق جو جو سوال آئے اس نے ان خواتین سے کیا اور تمام خواتین نے ان کے بھرپور جواب دیے ایک لڑکی جو میڈیکل کی طالبہ تھی نور کو بتانے لگی ”حجاب میری زندگی میں نہیں حجاب میں میری زندگی ہے ۔ اگر میں با حجاب نہ ہوتی تو اتنی با اعتماد نہ ہوتی۔ یہ مجھے نہ صرف غیروں کی نگاہوں سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ مجھے آخرت کی گرمی سے بچانے کا بھی ضامن ہے“۔
اس پہلو پر تو آج تک نور نے سوچا ہی نہ تھا دل پر پڑے غفلت کے پردے رفتہ رفتہ سرکنے لگے اسے لگا کہ اب تک کی زندگی میں دل کا حقیقی نور تو ابھی تک تھا ہی نہیں۔ ”کیا یہ خواتین سب خلائی مخلوق ہیں جو با پردہ ہو کر بھی ہر کام میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں؟“
شانے پر پڑا دوپٹہ اپنے کھلے بالوں پر ڈالتے ہوئے وہ خود سے سوالات کرتی جا رہی تھی اور آنکھوں سے نکلے دو آنسو اسی دوپٹے میں جذب ہو چکے تھے۔ اتنی گرمی کے باوجود پردہ نہ تو ان کی مجبوری ہے نہ ہی یہ زبردستی بلکہ وہ سرمایہ افتخار ہے جس کی بنیاد پر ہم چھپائے ہوئے موتی کہلاتے ہیں۔

حصہ