بیسویں صدی کی ایجادات نے انسانی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا ہے۔ ان ایجادات کے پیچھے جو نظریے ہیں انہوں نے خود سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے اور اب سائنس وہ نہیں رہا جو انیسویں صدی کے آخر تک تھا۔
اس نئے سائنس کی چند خصوصیات ذہن میں رکھنی چاہئیں:
-1سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ اس نئے سائنس کے اصول اور قوانین الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کیے جاسکتے بلکہ صرف ریاضی کی علامتوں کے ذریعے بیان ہو سکتے ہیں۔ ان نظریات کو الفاظ میں جس طرح بھی بیان کیا جائے سائنس دان اسے غلط کہیں گے۔ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ جس حقیقت کی وہ نمائندگی کرتے ہیں وہ الفاظ کی حدود سے باہر ہے اور اسے وہ خود ہی سمجھتے ہیں۔ حالت بھی دراصل یہی ہے کہ سائنس کی ہر شاخ میں ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں صرف اِس فن کا ماہر ہی اِسے سمجھ سکتا ہے، دوسری قسم کا سائنس دان نہیں سمجھ سکتا۔ اس طرح سائنس ایک ’’نیا تصوف‘‘ یا ’’نیا رمزی علم‘‘ بن گیا ہے۔ ہمارے زمانے کو ’’عام آدمی کی صدی‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن اس صدی کے علوم عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔
-2دورِ جدید کا آغاز سولہویں صدی میں فلکیات کی ترقی سے ہوا تھا۔ سترہویں صدی میں طبیعیات کی زیادہ اہمیت ہو گئی، انیسویں صدی میں حیاتیات کا زور ہوا اب بیسویں صدی میں پھر طبیعیات کا عروج ہے۔
-3نئے سائنس نے مادے کا پرانا تصور ، یعنی مادے کو طبیعیات کی بنیاد سمجھنا چھوڑ دیا۔ اس کے بجائے ’’توانائی‘‘ کا تصور سامنے آیا ہے، لیکن دراصل بنیادی طور سے دونوںایک ہیں۔
-4کہتے ہیں کہ انیسویں صدی تک سائنس نظام فطرت کو ایک مشین سمجھتا تھالیکن نیا سائنس کائنات کو ایک زندہ چیز سمجھتا ہے۔
-5 اب تک یہ تصور کیا جاتا تھا کہ سائنس کا ہر قانون صحیح اور اٹل ہے، لیکن اب ہر قانون میں ’’غیر متوقع‘‘ عصر کی گنجائش رکھی جاتی ہے۔ یعنی سائنس کے ہر قانون میں ایک ’’غیر یقینی‘‘ عصر شامل ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ پرانا سائنس سختی سے تعین کا قائل تھا اور نیا سائنس ’’عدم تعین‘‘ کو صداقت کے لیے لازمی سمجھتا ہے۔
-6پرانا سائنس ’’حقیقت‘‘ کو ایک ’’ٹھوس‘‘ چیز سمجھتا تھا، نیا سائنس حقیقت کو ’’مہم‘‘ اور ’’دھندلی‘‘ چیز سمجھتا ہے۔ ایک فرانسیسی مفکر نے کہا ہے کہ اب خارجی دنیا انسانی ذہن کے انتشار کی تصویر بن گئی ہے۔
-7یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ سائنس میں جتنے نظریاتی انقلاب آئے ہیں وہ 1900ء اور 1920ء کے درمیان آئے ہیں۔ 1920ء کے بعد کوئی بڑا نظریہ سامنے نہیں آیا۔ اس کے بعد تو زیادہ زور عملی پہلو پر رہا ہے۔ نئے نظریے پیدا ہوئے ہیں تو ان کا تعلق تفصیلات سے ہے یا مثانوی درجے کی چیزوں سے۔
-8 نئے سائنس کے بنیادی نظریے کچھ بھی ہوں، دینی نقطہ نظر سے زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ ان نظریات کا مغربی ذہن پر کیا اثر پڑا ہے اور ان سے فکری نتائج کیا مرتب ہوئے ہیں۔ یہ بات پھر دہرا دینا چاہیے کہ پرانے سائنس اور عقلیت پرستی کی تحریک کی طرف سے جو اعتراضات مذہب پر ہوتے تھے وہ نئے سائنس نے دور کردیے ہیں، لیکن مغربی افکار کی مادیت گھٹنے کی بجائے بڑھ گئی ہے، کیوں کہ پرانا سائنس تو خدا اور روح سے انکار کرتا تھا، مگر نیا سائنس یہ تصور پیدا کرتا ہے کہ نعوذ باللہ روح اور خدا مادے کے اندریا کائنات فطرت کے اندر موجود ہیں، اور تجرباتی طریقے سے ان کی حقیقت دریافت ہو سکتی ہے۔ اس لیے نیا سائنس لادینی کو دین بنا کر دکھا رہا ہے۔
نئے سائنس کے بنیادی نظریات کی فہرست
سائنس کے نئے نظریات کی تشریح عام الفاظ میں ممکن نہیں اور ریاضی و طبیعیات سے اچھی واقفیت کے بغیر انہیں سمجھنا بھی ممکن نہیں۔ اس لیے ان نظریات کی فہرست اور ان کا فکری رخ پیش کرنے پر اکتفا کی جائے گی۔
-1 سب سے پہلی چیز جس نے ساری دنیا کو بھونچکا کر دیا وہ یہ تھی۔ انیسویں صدی کے آخر تک سائنس کی بنیاد مادے کے تصور پر تھی اور مادے کی تعریف آج کل یوں کی گئی ہے۔ مادہ توانائی کی ایک خاص شکل ہے جس کی لازمی خصوصیات ہیں ’’کمیت اور زمان و مکان میں پھیلاؤ۔‘‘
(اس تعریف کے ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہاں ’’ زمان‘‘ لفظ بیسویں صدی میں بڑھایا گیا ہے، پہلے صرف ’’مکان‘‘ تھا۔ )غرض پرانے سائنس کے لحاظ سے آخری حقیقت مادہ تھی… یعنی وہ چیز جسے دیکھا یا محسوس کیا جاسکے اور مادے کی سب سے بنیادی شکل تھی جزو لا یتجرمئی یا جو ہر اس لیے پرانے سائنس کو کائنات اور فطرت ایک ٹھوس چیز نظر آتی تھی۔
لیکن انگریز سائنس دان رو در فورڈ نے جوہر کو توڑ کے دکھا دیا۔ چنانچہ اب سائنس دان ’’مادے‘‘ کے بجائے ’’توانائی‘‘ کا ذکر کرنے لگے۔ نئے سائنس کی نظر میں کائنات ٹھوس چیز نہیں رہی بلکہ ایک طرح کی دھند بن گئی۔
جو ہر یا ایٹم کی تعریف یہ ہے: ’’جو ہر کسی عصر کی وہ سب سے چھوٹی وحدت ہے جو اپنی کیمیاوی انفرادیت باقی رکھتی ہے۔‘‘
اور ’’توانائی‘‘ کی تعریف یوں ہے’’کام کرنے کی صلاحیت۔ ‘‘
غرض نئے سائنس میں مادے کے بجائے توانائی کا ذکر ہونے لگا۔ اس معنی میں کہا جاتا ہے کہ نیا سائنس مادہ پرستی کے خلاف ہے۔ لیکن دراصل توانائی بھی طبعی چیز ہے، اور نیا سائنس بھی اتنا ہی مادہ پرست ہے جتنا پرانا سائنس تھا، بلکہ سائنس دان ان دو لفظوں توانائی اور مادے کو مترادفات کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
جب سے ’’جو ہر‘‘ کو توڑا گیا ہے، جوہر کی اندرونی ’’ساخت‘‘ مطالعے تجربے اور فکر کا موضوع بنی رہی ہے اس لفظ نے ذہنوں کو اتنا متاثر کیا ہے کہ بعض لوگ تو مادے اور توانائی کے بجائے ’’ساخت ‘‘ ہی کو بنیادی حقیقت سمجھنے لگے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’جوہر‘‘ کے اندر جو مختلف قسم کے ذرے ملتے ہیں وہ بھی ’’حقیقت‘‘ یا’’حیات‘‘ نہیں بلکہ ان کا ’’باہمی رشتہ‘‘ اور ان کی ’’اندرونی تنظیم ‘‘ ہی اصل حقیقت ہے۔ چنانچہ ایک تازہ ترین فلسفہ نکلا ہے جس کا نام ہے ’’فلسفۂ ساخت‘‘ اور اس نقطہ نظر سے معاشرہ، شعر و ادب، زبان، مذہب ہر چیز پر غور کیا جا رہا ہے۔
-2جس طرح پہلے بعض لوگ مادے کو قدیم مانتے تھے اور کہتے تھے کہ مادے کو فتم نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح آج کل بیشتر سائنس دان توانائی کی قدامت کے قائل ہیں اور کہتے ہیں تو انائی کو نہ تو پیدا کیا جاسکتا ہے، نہ فتا کیا جا سکتا ہے، بس اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ چنانچہ توانائی کی لازمی اور بنیادی صفت سمجھی گئی ہے ’’عدم تعین‘‘ سائنس میں اس اصول کا نام ہے ’’توانائی کی بقا‘‘ سائنس کے اس اصول سے کئی فلسفیانہ نظریے برآمد ہوئے ہیں جو آج کل خاصے مقبول ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’فطرت‘‘ یا ’’حیات‘‘ خود اپنی توانائی سے زندہ ہے اور اس کی لازمی صفت ہے ’’عدم تعین‘‘۔ سائنس کے ایسے اصول اور ایسے فلسفے مشرقی لوگوں کے لیے دینی لحاظ سے بہت خطرناک ہیں، کیونکہ مشرقی مذاہب کی بنیاد ’‘لا تعین‘‘ کے عقیدے پر ہے۔ چنانچہ مشرقی لوگ مغرب کے زیر اثر آتے ہیں وہ ’‘لا تعین‘‘ اور ’’عدم تعین‘‘ کو ایک ہی چیز سمجھنے لگے ہیں۔ اس قسم کے گمراہی ہندوؤں میں بہت پھیل گئی ہے لیکن اب بہت سے اسلام کے ’’عاشق‘‘ بھی خدا کو ’’کائناتی توانائی ‘‘ کہنے لگے ہیں اور خدا کو بھی اسی معنی میں ’’زندہ‘‘ اور ’’باقی‘‘ سمجھتے ہیں جس معنی میں ’’فطرت زندہ‘‘ ہے۔ نعوذ باللہ یہ گمراہی ہمارے یہاں روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔
-3نئے سائنس میں سب سے بنیادی اور انقلاب انگیز نظریہ آئن سٹائن کا نظریہ ’’ اضافیت ‘‘ ہے اور اسی نظریے نے ایٹم بم اور مصنوعی سیارے پیدا کئے ہیں، اس نظریے کی تشریح عام الفاظ میں بالکل ممکن نہیں ، مگر اس نظریے نے چند اصطلاحیں پیدا کی ہیں جو سب کی زبان پر چڑھ گئی ہیں۔ اس لیے ان کا بیان ضروری ہے۔ اس نظریے کی سب سے مشہور اصطلاح بعد رابع ہے۔ آئن سٹائن سے پہلے صرف تین ابعاد تسلیم کی جاتی تھیں۔ لمبائی، چوڑائی اونچائی یا موٹائی آئن سٹائن نے بتایا کہ کسی چیز کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے صرف تین ابعاد کو دیکھنا کافی نہیں، بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کس جگہ ہے اور کس وقت وہاں ہے کیونکہ زمان و مکان کی تبدیلی سے چیز کی نوعیت بدل جاتی ہے، زمان و مکان کو ملا کر اسے چوتھی ’’بعد‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پھر آئن سٹائن نے یہ بھی کہا ہے کہ ہر چیز میں زمان و مکان بیک وقت داخل ہوتے ہیں اور اس کے وجود میں شریک رہتے ہیں۔ اس لیے زمان و مکان حقیقت کا لازمی جزو ہیں۔ اس اصول کو ’’ زمانی و مکانی تسلسل ‘‘ کہتے ہیں۔ اسی اصول سے ظاہر ہے کہ نیا سائنس زمان و مکان میں گرفتار ہے اور ’’لا تعین‘‘یک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
اگر نظریہ اضافیت کو عام الفاظ میں سمجھنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک چیز جو ایک جگہ اور ایک وقت میں صحیح ہے وہ دوسری جگہ اور دوسرے وقت میں غلط ہوگی۔ مثلاً جو اقلیدس یونانیوں کے زمانے سے چلی آرہی ہے وہ ہموار سطح یعنی زمین پر تو درست ہے، لیکن خلا میں غلط ہے کیونکہ خلا قم دار ہے (خلا کے خم دار ہونے کا اصول بھی آئن سٹائن نے نکالا ہے)۔ اسی طرح عام زندگی میں تو دہ اور دو کا مجموعہ چار ہی ہوتا ہے ، لیکن دوسرے حالات میں ممکن ہے کہ یہ مجموعہ تین یا پانچ ہو جائے۔ ٹھیٹ ریاضی اور طبیعیات میں آئن سٹائن کے نظریات کا جو بھی مطلب ہو، اس سے عمومی طور پر یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ حق یا صداقت کوئی مستقل اور قائم بالذات چیز نہیں، بلکہ اضافی چیز ہے اور زمان و مکان کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ آئن سٹائن کے نظریات سے لازمی طور پر یہ جو تاثر پیدا ہوتا ہے، اس نے موجودہ زمانے کی زندگی میں بہت کچھ انتشار پیدا کیا ہے۔
-4بیسویں صدی کے سائنس میں ایسی ہی اہمیت پلانک کے نظریے Theory Quantum کی ہے۔ فی الجملہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ توانائی کی حرکت میں تسلسل نہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ سڑک پر موٹر جارہی ہے دو منٹ تک نظر آتی ہے، پھر یکایک غائب ہو جاتی ہے، پھر نظر آنے لگتی ہے، پھر غائب ہو جاتی ہے ، یہاں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جتنی دیر موٹر نظروں سے غائب رہی وہ کہاں چلی گئی تھی؟ ایک عام آدمی کو یہ نظریہ سنایا جائے تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ میں زندہ بھی ہوں یا نہیں، چنانچہ موجودہ زمانے کی زندگی کو ہیبت ناک بنانے میں اور قتل و غارت گری کو ارزاں کرنے میں اس نظریے کو بھی خاصا دخل ہے۔
بعض لوگوں نے اس نظریے کو روح اور خدا کے وجود کی دلیل سمجھتا ہے اور ہمارے یہاں تو بعض لوگوں نے تصوف کے مسئلے ’’تجدد امثال‘‘ کو اسی نظریے کی مدد سے ثابت کیا ہے۔ لیکن بعض تصورات کی ظاہری مشابہت کے باوجود دین کو سائنس کے ذریعے مدد پہنچانے کی ہر کوشش آخر میں دین کے لیے مضر ہوگی کیونکہ دین کا انحصار طبیعیات پر نہیں۔
-5انیسویں صدی تک عموماً سائنس دان یہ کہتے تھے کہ مادہ فنا نہیں ہو سکتا، اس لیے وہ قیامت کے عقیدے پر ایمان لانے کو تیار نہیں تھے ، لیکن نئے سائنس میں ایک اصول دریافت ہوا ہے جس سے قیامت پر یقین آسان ہو گیا ہے۔ اس اصول کا نام The Second Law of Thermodynamics ہے۔یہ علم Theromodynamics حرارت اور توانائی کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس کے تین قوانین مشہور ہیں۔ ’’پہلا قانون ‘‘ تو اوپر بیان ہو چکا۔ ’’توانائی کی بقا‘‘ کا اصول یعنی کسی مستقل’’نظام‘‘ کے اندر توانائی نہ تو پیدا کی جاسکتی ہے اور نہ فنا کی جاسکتی ہے۔ ’’دوسرا قانون’’ یہ ہے کہ توانائی ہے تو ’’کام کرنے کی صلاحیت ‘‘ لیکن کام کرتے کرتے تو توانائی ایک تخریبی قوت بن جاتی ہے اور انتشار پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ بعض سائنس داں کہتے ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا جب کائنات اپنی توانائی سے کام نہیں لے سکے گی اور منتشر ہو جائے گی۔ اس نظریے کو Heat Death.of.the.Universe کہتے ہیں۔ لیکن کائنات کے اس طرح فنا ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ کائنات ایک ’’ہر طرف سے بند نظام‘‘ ہے یا نہیں۔(جاری ہے)