سیرت طیبہ محمد ﷺکے مکی ادوار

143

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد چھ صدیوں تک پوری دنیا آخری رسول کی آمد کی منتظر تھی۔ اہلِ کتاب کے علاوہ ویدک مذہب کے ماننے والے سناتنی بھی اپنی ویدک کتابوں میں درج کالکی اوتار کے منتظر تھے۔ سب کا عقیدہ تھا کہ آنے والے آخری رسول تمام انسانوں کے نجات دہندہ بن کر آئیں گے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت قرآن مجید کی سورۃ الصف میں آپؐ کے نام احمد کے ساتھ موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’عیسیٰ ابنِ مریم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور توریت کی تصدیق کرنے والا، اور بشارت دیتا ہوں اس آخری رسول کی، جن کا نام احمد ہوگا۔‘‘

احمد، محمد نام کو بخشا خدا نے خود تجھے
اس سے پہلے کوئی نہ تھا اس نام کا تیرے سوا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی ادوار کی حیاتِ طیبہ کے چیدہ چیدہ 13 سالہ دعوتی واقعات اور سیرت کو تحریر کرنے سے پہلے دنیا کس طرح کی تھی اور اہلِ دنیا پر کیا کچھ گزر رہا تھا اور لوگ کس گمراہی میں پڑے تھے، کا تذکرہ ضروری ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل پوری دنیا شرک، کفر، ظلم و جبر اور اخلاقی پس ماندگی کی دلدل میں گری ہوئی تھی۔ یہ بات نہیں کہ لوگ اشیائے ضرورت اور زندگی کی دیگر سہولیات سے نا آشنا تھے، بلکہ وہ دور اپنے اعتبار سے ایک ترقی یافتہ دور تھا۔ ہم عقیدے کی جانب دیکھتے ہیں تو دنیا میں کوئی ایسا خطہ نہیں تھا جہاں خدائے واحد کی پرستش ہوتی تھی۔ اہلِ فارس زرتشت کے ماننے والے ہونے کے باوجود آگ کی پوجا کرتے تھے اور آخرت کا عقیدہ وہ نہیں تھا جو تعلیماتِ قرآن وسنت کا ہے۔

یہود حضرت عزیرؑ کو اللہ کا بیٹا مان کر توریت کی تعلیمات کو مسخ کرچکے تھے اور شرک میں مبتلا تھے، اور یہودی ہونے کی وجہ سے خود کو جنت کا حق دار قرار دیتے تھے، آج بھی وہ اسی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اہلِ روم حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا مان کر کل بھی تثلیث کی پرستش کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔ اہلِ مصر ابوالہول کے پجاری اور فراعنہ مصر کی حنوط شدہ لاشوں میں راہِ نجات کے متلاشی تھے۔ بھارت کی دیومالائی تہذیب والے لاکھوں دیوی دیوتاؤں اور شجر و حجر کی پرستش میں کل بھی مبتلا تھے اور آج بھی اس سرزمین کی اکثریت اسی شرک میں مبتلا ہے۔

سرزمینِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو انسانیت کی ابجد کو بھول کر خانہ کعبہ کو 360 بتوں سے آلودہ کرچکی تھی۔ یہ دنیا کے حالات تھے۔ نہ توحید، نہ انبیا اور رسولوں کی تعلیمات، نہ فکرِ آخرت اور نہ اخلاق… کچھ بھی باقی نہیں تھا۔ تھا تو صرف شرک، ظلم اور اخلاقی پستی۔

آپؐ 571 عیسوی میں دنیا میں تشریف لائے۔ قمری تاریخ میں مورخین کا اختلاف ہے۔ اکثریت کی رائے 9 ربیع الاوّل اور کچھ کی 12 ربیع الاوّل ہے مگر آپؐ کی وفات 12 ربیع الاوّل ہے، اس پر اجماع ہے۔ میرا موضوعِ تحریر تاریخ پیدائش اور وفات نہیں بلکہ مکی ادوار کی سیرتِ طیبہ ہے۔ آپؐ جس صبح صادق کو دنیا میں تشریف لائے اُس رات کو چار بڑے واقعات دنیا میں رو نما ہوئے جو اس بات کی علامت تھے کہ کوئی عظیم ہستی اس دنیا میں تولد ہوئی ہے۔ خانہ کعبہ کے تمام بت منہ کے بل گرے ہوئے تھے جو اس بات کی علامت تھی کہ بہت جلد خانہ کعبہ بتوں سے پاک ہونے والا ہے اور بت پرستی کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ دوسرا یہ کہ بیت المقدس کے تمام دروازے کھلے ہوئے تھے حالانکہ یہ رات کو بند کردیے جاتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مقدس مقام آنے والی ہستی کا منتظر ہے۔ معراج کی رات تمام انبیا کی امامت اس بات کی دلیل ہے۔ تیسرا بڑا واقعہ یہ ہوا کہ ہزاروں سال سے روشن فارس کا آتش کدہ خود بہ خود بجھ گیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ بہت جلد آتش پرستی کا بھی خاتمہ ہونے والا ہے (جو دورِ فاروقیؓ میں ہوا)۔ چوتھا واقعہ یہ ہوا کہ قیصر روم کے دربار کے تمام کنگرے گر گئے جو روم کے فتح کی نوید تھی۔ یہ بھی دورِ فاروقیؓ میں ظہور پذیر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم در یتیم تھے لہٰذا آپؐ کی پرورش آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب اور بعد میں آپ کے چچا ابو طالب نے کی۔ آپؐ کی خوبصورت اور دلنشین شخصیت ایسی تھی کہ جو کوئی دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا۔

اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جامعیت اور اکملیت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ آپؐ کی ذاتِ مبارکہ میں تمام انبیا کے خصائل موجود تھے۔ آپؐ کی بچپن کی حیا داری کا عالم یہ تھا کہ جب سیلاب میں خانہ کعبہ کی دیواریں منہدم ہوگئی تھیں اور اہلِ مکہ مل کر اس کی تعمیر کررہے تھے۔ بچے بھی گارا، مٹی اٹھا رہے تھے اور آپؐ بھی بچوں کے ساتھ ساتھ یہ کام کررہے تھے۔ آپؐ حلم، بردباری اور خدمتِ خلق میں بے مثل تھے۔ آپؐ کی حق گوئی اور امانت داری ایسی تھی کہ اہلِ مکہ آپؐ کو صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے۔ صلح جویانہ فراست کا عالم یہ تھا کہ جب سنگِ اسود کو دوبارہ نصب کرنے کے معاملے میں سردارانِ قریش آپس میں کشت وخون کرنے والے تھے، اُس وقت یہ طے پایا کہ کل صبح حرم پاک میں جو شخص پہلے داخل ہوگا اُس سے فیصلہ کرایا جائے گا۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ آپؐ صبح کو سب سے پہلے داخل ہوئے۔ سرداروں نے آپؐ کے سامنے معاملہ پیش کیا۔ آپؐ نے ایک چادر پر سنگِ اسود کو رکھا اور تمام سرداروں کو چادر پکڑ کر اٹھانے کو کہا، اور جب سرداروں نے چادر اٹھائی تو آپؐ نے اپنے ہاتھ سے سنگِ اسود کو اس کے مقام پر نصب کردیا جس سے ایک بڑا فساد ٹل گیا۔

آپؐ مکہ کی سب سے متمول مگر قابلِ احترام خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مالِ تجارت لے کر شام اور اطراف کے علاقوں میں جایا کرتے تھے، اور کاروباری معاملات میں آپؐ کی شفافیت کا چرچا تھا۔ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپؐ کو نکاح کی پیشکش کی اُس وقت آپؐ کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہ رضی عنہا کی 40 سال تھی، مگر حضرت خدیجہؓ کو اہلِ مکہ ’’طاہرہ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ شادی ہوگئی اور آپؐ نہایت ہی پُروقار اور مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ آپؐ نے کبھی بھی لات و منات کی پرستش نہیں کی۔ آپؐ کئی کئی روز کا زادِ راہ لے کر غار حرا چلے جاتے اور خدائے واحد کی بندگی کرتے تھے۔ یہ بات اہلِ مکہ جانتے تھے، مگر آپؐ کے احترام اور عزت میں کوئی کمی نہیں تھی۔

جب آپؐ کی عمر 40 سال ہوئی تو وہ وقت آگیا جس کے لیے تمام مخلوقاتِ کائنات منتظر تھیں۔ ابتدائی دنوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب آنا شروع ہوئے۔ یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ایک رات غار حرا میں ملائکہ کے سردار روح الامین جبرائیل علیہ السلام پوری آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوئے اور پہلی وحی اقراء باسم ربک الذی خلق ‘ خلق ا لانسان من علق۔ اقراء و ربک ا لاکرم۔ الذی علم با القلم۔ علم ا لانسان معلم یعلم۔

’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ رب کریم کے نام سے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے لکھنا پڑھنا سکھایا جو اسے نہیں جانتا تھا۔‘‘

اس پہلی وحی کے نزول کے بعد آپؐ کی ذاتِ مبارکہ پر کپکپی طاری تھی اور آپؐ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے اور تمام حالات بیان کرنے کے بعد کہا کہ مجھے چادر اوڑھا دو۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپؐ کو کچھ نہیں ہوگا کیوں کہ آپؐ ضرورت مندوں کی دادرسی کرتے ہیں۔ اللہ آپ کی حفاظت فرمائے گا۔‘‘

عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ ایمان لائیں۔ مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بچوں میں حضرت علیؓ ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئے۔ آپؐ نے سب سے پہلے اپنے خاندان کے افراد کو توحید و رسالت اور آخرت کی دعوت دی۔ سورۃ المدثر کے نزول کے بعد آپؐ نے اجتماعی دعوت دینے کے لیے اہلِ مکہ کو ’’یاصباح‘‘ کہہ کر پکارا۔ جب لوگ اکٹھے ہوگئے تو آپؐ نے لوگوں سے پوچھا ’’اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے سے دشمن کی فوج آرہی ہے تو کیا تم لوگ یقین کرو گے؟‘‘ سب نے بیک زبان کہا کہ آپ صادق و امین ہیں، ہم یقین کریں گے۔ پھر آپؐ نے فرمایا:

یا ایھا الناس قولوا لا الہ الااللہ تفلحون۔ یہ سنتے ہی سب پر جیسے بجلی گر گئی۔ اس منظر کو مولانا حالی نے اس طرح کہا:

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی

اس کلمے کی گونج مکہ کے ہر گھر میں پہنچ گئی۔ پھر کیا تھا، سردارانِ قریش جن کی نظروں میں آپؐ قابلِ احترام تھے، وہ اب آپؐ کے سب سے بڑے دشمن بن گئے۔ ممنون آنکھوں میں خون اتر آیا۔ غلاموں میں حضرت بلالؓ، حضرت خبابؓ اور آل یاسر ایمان لائے اور سرداروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔ مکہ کی سب سے پہلی شہید خاتون حضرت سمیہؓ اور مردوں میں حضرت یاسرؓ ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اپنی دعوت کو چار نکات پر مشتمل رکھا جو تمام مکی سورتوں میں تفصیلاً موجود ہے۔

توحید: اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی اس کائنات کا خالق و مالک ہے، اسی کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز ہے۔ وہی رب العالمین ہے، وہی حاجت روا ہے۔

رسالت: آپؐ نے فرمایا ’’میں اللہ کا رسول ہوں۔ اللہ نے مجھے تمہاری ہدایت کے لیے بھیجا ہے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ قرآنی آیات نازل کی ہے۔ میں تم کو اللہ کے حکم سے صراطِ مستقیم پر چلانے آیا ہوں جو تمہیں اِس دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں سرخرو کرے گی۔‘‘

فکرِ آخرت: ہم سب کو وقتِ مقررہ پر مرنا ہے اور تاقیامت قبر کی آغوش میں رہنا ہے، دنیا میں نیک و بد زندگی کے مطابق تمہاری قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنادی جائے گی یا پھر برے اعمال کی وجہ سے جہنم کے گڑھے میں سے ایک گڑھا بنا دی جائے گی، اور قیامت برپا ہونے کے بعد ہم سب دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور میدانِ حشر میں دنیا میں گزاری ہوئی زندگی کا حساب لیا جائے گا۔ ایک میزان قائم ہوگا جہاں رائی کے دانے کے برابر بھی نیکی اور بدی تولے جائیں گے، پھر جن کے نیکی کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ جنت میں جائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہ جہنم کی بھڑکتی آگ کے حوالے کردیے جائیں گے۔ نہ تمہیں جنت کی بہاروں کا ادراک ہے اور نہ جہنم کی تکلیف دہ سزاؤں کا۔

یہی وہ فکرِ آخرت تھی جس کو کافر و مشرک بالکل بھول چکے تھے۔ قرآن مجید کی 114 سورتوں میں سے 109 سورتوں میں آخرت کا تفصیلاً ذکر ہے۔

اخلاق: دنیا میں لوگ اخلاق سے عاری زندگی گزارتے تھے اور برائی کو برائی نہ سمجھتے بلکہ اس میں مہارت حاصل کرنا فخر سمجھتے تھے۔ آپ ؐنے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے معلم اخلاق بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

یہ وہ تعلیمات تھیں جن سے متاثر ہوکر مکہ کے نفوسِ قدسیہ تیزی سے اسلام اور ایمان کی دولت سے سرفراز ہورہے تھے، جنہیں دیکھ کر مشرکینِ مکہ مشتعل ہوکر ظلم و جبر کا سلسلہ دراز کرتے جارہے تھے۔ آپؐ کے راستے میں ایک بڑھیا روزانہ کوڑا ڈالتی مگر وہ بھی آپؐ کے حُسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر ایک دن مسلمان ہوگئی۔ کسی بدبخت نے خانہ کعبہ میں عبادت کے دوران آپؐ پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی۔ کسی ملعون نے ایک دن آپؐ کے گلے میں چادر ڈال کر کسنا شروع کردی اور مارنا چاہا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آکر بچایا۔ لیکن دعوت دن بہ دن وسیع ہورہی تھی۔ دارِ ارقم میں آپؐ تعلیم و تربیت جاری رکھتے اور اللہ سے اسلام کے لیے نصرت و تائید کی دعائیں کرتے۔ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے تو اسلام کو قوت ملی اور پہلی بار خانہ کعبہ میں ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا گونجی۔ ابولہب جو آپؐ کا حقیقی چچا تھا، جس کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے آپؐ کی دو صاحب زادیاں نکاح میں تھیں جن کی ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی، اس نے آپؐ کو شدید تکلیف دینے کے لیے طلاق دلوائی۔ اس کی دشمنی اتنی شدید تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ابولہب اور اس کی بیوی کی دنیا اور آخرت میں تباہی کے لیے سورہ لہب نازل فرمائی۔ جب کفارِ مکہ ہر طرح سے آپؐ پر اور آپؐ کے اصحاب پر ظلم کے پہاڑ توڑنے اور ہر طرح کی پیشکش کرنے کے بعد بھی آپؐ کی دعوت کی وسعت کو روکنے میں ناکام ہوگئے تو آپؐ کو پورے خاندان کے ساتھ شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور کردیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب آپؐ کو بھوک پیاس کی بے پناہ مصیبتیں سہنا پڑیں مگر آپؐ کے پائے استقامت میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی۔ آپؐ انفرادی اور اجتماعی طور پر دعوت کا کام کرتے رہے۔ مشرکینِ مکہ آپؐ کے خلاف باہر سے مکہ آنے والوں کو بتاتے، اور نتیجتاً ان میں سے جو لوگ آپؐ سے ملنے آتے ایمان کی دولت لے کر اپنے اپنے قبیلے میں واپس جاتے اور اس طرح اسلام مکہ سے باہر بھی پھیلنا شروع ہوگیا۔ مدینہ والوں نے وفود کی صورت میں آکر اسلام قبول کیا اور ہجرتِ مدینہ سے پہلے ہی مدینہ کی کثیر آبادی اسلام لا چکی تھی۔ ایک اور سخت ترین آزمائش کا لمحہ اُس وقت آیا جب آپؐ طائف میں دعوتِ دین دینے کے لیے گئے۔ وہاں کے سرداروں نے ایمان لانا تو دور کی بات‘ اپنے آوارہ اور بدمعاش لڑکوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا، جنہوں نے اتنی سنگ باری کی کہ آپؐ کا جسم لہولہان ہوگیا اور نعلین مبارک خون سے بھر گیا۔ آپؐ نے انگور کے ایک باغ میں پناہ لی۔ جبرائیل علیہ السلام پہاڑوں کے فرشتوں کے ساتھ ان بدبختوں کو سزا دینے کے لیے نازل ہوئے مگر آپؐ نے ان کی نسلوں کے لیے کلمۂ خیر کہہ کر معاف کردیا، کیوں کہ آپؐ تو ’’رحمت للعالمین‘‘ بن کر آئے ہیں۔ اسلام تیزی سے پھیل رہا تھا، آغاز میں تو غلام اور کمزور لوگوں نے اسلام قبول کیا مگر حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہؓ کے ایمان لانے سے اسلام کو تقویت ملنا شروع ہوئی تو مشرکینِ مکہ کے ظلم و جبر میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی عافیت کے لیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سربراہی میں 11 مسلمان مرد و خواتین کو حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دی، کیوں کہ وہاں کا بادشاہ نجاشی نیک دل انسان تھا جو بعد میں ایمان لایا، جس کی غائبانہ نماز جنازہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی۔

دوسری ہجرتِ حبشہ 83 مرد و خواتین کی حضرت عثمانؓ بن عفان کی سربراہی میں ہوئی۔ وقت گزرتا گیا۔ کاروانِ نفوسِ قدسیہ میں اضافہ ہوتا گیا۔ کفارِ مکہ کے تمام تر ظلم اور جبر کے باوجود اسلام پھیل رہا تھا۔ مکہ کے آٹھویں سال آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے ملاقات کے لیے بلایا۔

’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو سیر کرائی راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔‘‘ (سورۃ اسراء)

حصہ