جب نام ترا لیجئے تب جشم بھر آوے

106

اس جہانِ فانی میں جو بھی آیا ہے اُسے پلٹ کر اپنے رب کی طرف جانا ہے۔ اجمل سراج بھی اِس دنیا سے رخصت ہولیے اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون… موت برحق ہے۔

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے

کسی کی بھی موت واقع ہو غم تو ہوتا ہے، مگر کسی شاعر کی موت فردِ واحد کی موت نہیں ہوتی بلکہ ایک ایسے ادارے کی موت ہوتی ہے جو شاعر اپنے کلام کے ذریعے قائم کرتا ہے، ایک تربیت گاہ جو اُجڑ جاتی ہے، وہ فضا جو شاعر اپنے اشعار سے پیدا کرتا ہے ختم ہوجاتی ہے۔ شاعر کی شخصیت ایک انجمن کی مانند ہوتی ہے، بقول غالب:

’’ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو‘‘

تو معلوم یہ ہوا کہ کسی شاعر کی موت ایک انجمن کی بھی موت ہوتی ہے۔ ایک محشرِ خیال کا خاتمہ بالخیر ہوجاتا ہے۔ اجمل سراج اردو ادب کا ایک قیمتی سرمایہ تھے جو اب نہ رہے، بقول حالی:

’’شہر میں ایک ’سراج‘ تھا نہ رہا‘‘

19 ستمبر کی صبح 10 بجے میں نے اجمل سراج کے بیٹے عبدالرحمن مومن کو فون کیا تو انہوں نے یہ دردناک خبر سنائی کہ ابھی آدھے گھنٹے قبل پاپا کا انتقال ہوگیا۔ یہ خبر دردناک ضرور تھی مگر کینسر جیسے موذی مرض میں اگر کوئی مبتلا ہے تو اس کے لیے صرف دعائیں ہی کی جا سکتی ہیں… اللہ میاں اجمل سراج کو غریقِ رحمت کرے۔

مجھے یہ بات اچھی طرح سے یاد ہے کہ آج سے کوئی 35 سال قبل رضوان صدیقی آرٹس کونسل آف پاکستان میں دھنک نام سے ہر ماہ ایک مشاعرہ منعقد کیا کرتے تھے۔ دھنک کے سات رنگوں کی طرح شعراء کرام کی تعداد بھی سات ہوا کرتی تھی۔ کوشش یہ کی جاتی تھی کہ کسی ایک نئے نوجوان شاعر کو بھی موقع دیا جائے تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ اس مشاعرے نے خاصی مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ ایک مرتبہ مجھے بھی اس مشاعرے میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا۔ صدارت کون کررہا تھا مجھے یاد نہیں، بس اتنا یاد ہے کہ ایک نوجوان نے چھوٹی بحر اور سہلِ ممتنع میں ایک ایسی غزل پڑھی جو میرے دل پہ نقش کرگئی۔ غزل کے چند اشعار آج بھی مجھے یاد ہیں :

یہ اندھیرا نظر نہیں آتا
آپ کو کیا نظر نہیں آتا
درد تو خیر کس نے دیکھا ہے
زخم بھی کیا نظر نہیں آتا
کوئی طوفان آنے والا ہے
رخ ہوا کا نظر نہیں آتا
ایک تیرا وجود ایسا ہے
جو ادھورا نظر نہیں آتا

یہ تھے اجمل سراج، جن کا شمار اُس وقت کے نوجوان شاعروں میں ہوتا تھا۔ بعد ازاں انہیں ہم نے متعدد مشاعروں میں سنا، ہر دفعہ ایک نئی غزل سننے کا اتفاق ہوتا تھا۔

قرۃ العین حیدر صاحبہ کا انتقال ہوگیا۔ سن مجھے یاد نہیں۔ میں نے اپنی ڈائری میں اپنی معلومات کے مطابق اُن کے بارے میں لکھا۔ میری اہلیہ نے مشورہ دیا کہ تحریر مناسب ہے کسی اخبار کو بھیج دیں۔ اُس وقت میرے گھر جسارت اخبار آیا کرتا تھا، سو اسی اخبار میں مضمون یہ سوچتے ہوئے بھیج دیا کہ شائع تو ہوگا نہیں، بس بیگم کی بات رہ جائے گی۔ خدا کی قدرت، اتوار کو جسارت میگزین میں یہ مضمون تھوڑی اصلاح کے ساتھ شائع ہوگیا۔ میں خوش ہوگیا۔ میں نے اخبار کے دفتر فون کیا کہ مجھے میگزین انچارج سے بات کرنی ہے، اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ فون اٹھانے والے نے اپنا نام بتایا ’’میں اجمل سراج بات کررہا ہوں‘‘۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ’یہ تو وہی ہیں مومنِ مبتلا‘ میں نے عرض کیا ’’حضرت آپ نے میرے اوٹ پٹانگ سے مضمون کی اصلاح فرمائی اور اپنے میگزین میں جگہ دے دی، میں آپ کا شکر گزار ہوں‘‘۔ بہت اخلاق سے پیش آئے، کہنے لگے ’’کوئی بات نہیں، آپ لکھتے رہا کیجیے، اِن شاء اللہ ہم آگے بھی آپ کے مضامین لگاتے رہیں گے‘‘۔ یہ تھی میری اجمل سراج سے پہلی ٹیلی فونک ملاقات۔

اس کے بعد میں نے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اجمل سراج میرے مضامین جسارت میگزین میں مستقل شائع کرتے رہے۔ ادبی معاملات میں میری رہنمائی کرنے والے اور میری حوصلہ افزائی کرنے والے اجمل سراج تھے۔ میں ساری زندگی ان کے اس احسان کو فراموش نہیں کرسکتا۔ میں اکثر جسارت کے دفتر جاتا تھا اور ان سے ملاقات ہوتی رہی، آہستہ آہستہ ملاقات نے دوستی کا روپ دھار لیا۔

میں نے اپنے گھر ایک شعری نشست کا اہتمام کیا، چند شعرا مدعو تھے، ان میں اجمل سراج بھی تھے۔ سردی شدید پڑ رہی تھی مگر اجمل سراج کی محبت ملاحظہ فرمائیے کہ کورنگی سے نارتھ کراچی کا سفر بذریعہ موٹرسائیکل کتنا مشکل ہے، مگر اجمل ہنستے مسکراتے میرے گھر پہنچ گئے یہ کہتے ہوئے کہ ’’آپ بلائیں اور ہم نہ آئیں، یہ کیسے ممکن ہے!‘‘

اجمل صرف شاعر ہی نہیں ایک بہت اچھے انسان، محبت کرنے والے اور دوستی نبھانے والے دوست بھی تھے، مجھے ان کی دوستی پر فخر ہے۔ شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، بہت جلد اجمل نے شہرت حاصل کرلی تھی۔ یہ بات آج سے کوئی 30 سال قبل کی ہے دہلی میں مشاعرہ تھا، اجمل سراج بھی اس مشاعرے میں مدعو تھے، ہندوستان کے نامی گرامی شعرا اس مشاعرے میں شریک تھے۔ نظامت اردو دنیا کی مشہور و معروف جانی مانی شخصیت ملک زادہ منظور کررہے تھے۔ بہت احترام سے اجمل سراج کو دعوتِ سخن دی گئی یہ کہتے ہوئے کہ پاکستان سے آئے ہوئے ایک نوجوان شاعر جن کے کلام نے انہیں تھوڑے عرصے میں مقبولیت کے اس مقام تک پہنچا دیا جہاں تک پہنچنے کے لیے دوسرے شعرا کو عرصہ لگ جاتا ہے۔

غزل کے چند اشعار…
تیرے سوا کسی کی تمنّا کروں گا میں
ایسا کبھی ہوا ہے جو ایسا کروں گا میں
گو غم عزیز ہے مجھے تیرے فراق کا
پھر بھی اس امتحان کا شکوہ کروں گا میں
آنکھوں کو اشک و خوں بھی فراہم کروں گا اور
دل کے لیے بھی درد مہیّا کروں گا میں
راحت بھی رنج ،رنج بھی راحت ہو جب تو پھر
کیا اعتبارِ خواہش ِدنیا کروں گا میں
یعنی کچھ اس طرح کہ تجھے بھی خبر نہ ہو
اس احتیاط سے تجھے دیکھا کروں گا میں
ہاں کھینچ لوں گا وقت کی زنجیر پاؤں سے
اب کے بہار آئی تو ایسا کروں گا میں
چھوٹی بحر اور سہلِ ممتنع میں شعر کہنا اجمل کا کمال تھا۔ شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی، ان کی والدہ محترمہ بھی شعر و سخن کی شیدائی تھیں، لہٰذا جب اجمل نے آنکھ کھولی تو انہیں اپنے اردگرد شاعری کا ماحول ملا۔ شاعری کے جراثیم پہلے سے موجود تھے لہٰذا خیالات کو شعری پیراہن دینا، پھر اسے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا اجمل کے لیے بہت آسان تھا۔
19 ستمبر کو بعد نمازِ عصر نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ شعرا، ادبا، صحافی، عزیز و اقارب کی ایک بڑی تعداد تھی۔ سبھی کو اجمل کی محبت کھینچ لائی تھی، قبرستان میں موجود ہر شخص اشکبار تھا اور اجمل کا جسدِ خاکی خاک کی نذر کردیا گیا… اس کے بعد…
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت ِدفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے
قبر تیار ہوگئی…مرزا غالب یاد آگئے…
مقدور ہو، تو خاک سے پوچھوں، کہ اے لئیم!
تُو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے؟

حصہ