عالمگیریت کا اختتام؟

144

عالمی سیاست کا نیا منظرنامہ کیا ہوگا!

زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کی کشمکش کب نہیں تھی اور کب نہیں ہوگی؟ ہر دور کے انسان نے زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول یقینی بنانے کے لیے اپنے آپ کو کھپایا ہے۔ یہ دنیا اِسی طور چلتی آئی ہے اور اِسی طور چلتی رہے گی۔

انسان نے ہزاروں برس کی ان تھک جدوجہد کے بعد جو کچھ پایا ہے وہ اِتنا زیادہ اور اِتنا زبردست ہے کہ اب اُس کی مقدار اور معیار دونوں میں اضافے کی تگ و دَو خطرناک ہوچکی ہے۔ جن ممالک نے ایک یا دو نہیں بلکہ پانچ صدیوں سے بھی زیادہ کی مدت میں اپنے آپ کو کھپاکر فطری علوم و فنون میں غیر معمولی، بلکہ حیرت انگیز مہارت یقینی بنائی ہے وہ چاہتے ہیں کہ دُنیا اُن کی مٹھی میں رہے۔ یہ آرزو مکمل طور پر بے بنیاد نہیں۔ جن اقوام نے صدیوں کے دوران محنت بھی کی ہو اور اپنا بہت کچھ داؤ پر بھی لگایا ہو یہ سوچنا تو اُن کا حق بنتا ہے ہے کہ اُنہیں بہت کچھ ملنا چاہیے۔ مغرب کا یہی معاملہ ہے۔

فطری علوم و فنون کو نقطہ عروج تک پہنچانے میں کلیدی کردار مغرب نے ادا کیا ہے۔ تین صدیوں سے بھی زائد مدت کے دوران مغربی طاقتوں نے اپنے آپ کو منوانے کی خاطر صرف محنت نہیں کی بلکہ معاشرتی اور تہذیبی و ثقافتی سطح پر بھی بہت کچھ کھویا ہے یا داؤ پر لگایا ہے۔ خاندانی نظام کو تباہ کرکے مغرب کی اقوام نے دنیا کو اپنایا ہے۔ ایسے میں دنیا پر اُن کا حق تو بنتا ہی ہے۔

ڈیڑھ صدی کے دوران صدی کے دوران طاقت کی کشمکش زیادہ وسیع اور خطرناک ہوئی ہے۔ اِس دوران دو عالمی جنگیں بھی ہوئی ہیں۔ اِس کے بعد ایک سرد جنگ چلی جس نے دنیا کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ اشتراکی اور غیر اشتراکی۔ سابق سوویت یونین کی تحلیل کے بعد دنیا سرد جنگ کی مصیبت سے تو چھوٹی مگر اِس کے نتیجے میں امریکا اور یورپ کی ہٹھ دھرمی کی شکل میں ایک نئی اور بہت بڑی مصیبت گلے پڑگئی۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکا واحد سپر پاور کے طور پر میدان میں رہا۔ یہ بات اُس کے لیے بہت فائدے کی تھی اور اُس نے بھرپور فائدہ اٹھایا بھی۔

ساڑھے تین عشروں کے دوران امریکا اور یورپ نے مل کر معاملات کو زیادہ سے زیادہ اپنی مٹھی میں لینے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اِن دو خطوں نے مل کر دنیا کو اپنے بس میں کرنے کی خاطر انتہائی نوعیت کی پالیسیاں اپنائی ہیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ پوری دنیا پر راج کرتا رہے۔ یورپ کی بھی یہی تمنا رہی ہے مگر معاملہ یہ ہے کہ دونوں ہی کو اندازہ ہے کہ اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ چین، بھارت اور برازیل جیسے ممالک انتہائی حد تک ابھرچکے ہیں۔ روس بھی نئے جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں ہے۔

امریکا اور چین کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اب اُن کی دال زیادہ دیر تک نہیں گل سکتی۔ یہ اندازہ انہیں سرد جنگ کے خاتمے کے وقت بھی تھا کیونکہ چین بہت تیزی سے ابھر رہا تھا اور بھارت کا بھی یہی حال تھا۔ اِن دونوں نے امریکا اور یورپ کی بالا دستی کو خطرناک حد تک مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے وقت امریکا واحد سپر پاور تھا اور اب بھی ہے مگر اُسے اس پوری مدت کے دوران اچھی طرح معلوم رہا ہے کہ اُس کے لیے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ چین، بھارت، برازیل اور روس کے ابھرنے سے اُس کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ جاپان اگرچہ امریکا کا حلیف ہے اور بیشتر معاملات میں اُس کا ساتھ دیتا رہا ہے مگر بہر کیف اُسے بھی تو اپنے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ ایسے میں امریکا اور یورپ کیونکر یہ سوچ سکتے ہیں کہ اُن کی دال گلتی ہی رہے گی؟

امریکا اور یورپ کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا، یہ کہ کسی نہ کسی طور دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ اب وہ کسی کے لیے خطرہ نہیں بننا چاہتے اور کسی نہ کسی طور اپنے آپ کو دوسروں کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا کی ہٹھ دھرمی نمایاں رہی ہے۔ یورپ نے دوسروں کے ساتھ مل کر چلنے کا ہنر بہت پہلے سیکھ لیا تھا اور سمجھ لیا تھا کہ ہر ایک کی مخاصمت مول لے کر زیادہ دور تک چلا نہیں جاسکتا۔

امریکا کے لیے کل بھی یورپ ہی کا آسرا تھا اور آج بھی یورپ ہی کا آسرا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، حقیقت یہی ہے کہ امریکا نے ہمیشہ یورپ کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بُری طرح استعمال کیا ہے اور جب معاملات بگڑے ہیں تو وہ ایک طرف ہٹ گیا ہے۔ یورپ کے قائدین یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ امریکا سے اُن کے تعلقات چاہے جتنے بھی اچھے ہوں، اُن کی اپنی زمینی حقیقتیں کچھ اور ہیں اور وہ اِن زمینی حقیقتوں کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کرسکتے۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے یورپ کو ساتھ ملاکر عالمگیریت کا ڈول ڈالا۔ عالمگیریت یعنی دنیا کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش۔ کیا واقعی ایسا تھا کہ امریکا پوری دنیا کو ایک لڑی میں پرونا چاہتا تھا؟ کیا واقعی کسی عالمگیر حکومت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی تھی جس میں ممالک صوبوں یا مرکز کی اکائیوں کی حیثیت رکھتے ہوں اور ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں پوری دنیا کے انسان ایک نظم کے تحت جئیں؟ کیا ایسا ممکن ہے؟

عالمگیریت کا بنیادی تصور یہ تھا کہ پوری دنیا کو معاشی اعتبار سے اس طور ترتیب دیا جائے کہ سب کچھ ایک لڑی میں پرویا ہوا محسوس ہو۔ عالمگیریت کو متعارف کراتے وقت یہ بتایا گیا کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی غربت کو ختم کرنا ہے تاکہ کوئی بھی خطہ انتہائی پس ماندہ نہ رہے اور ترقی سب کے لیے ہو۔ اس صورت میں دنیا بھر کے باصلاحیت معاشروں کے لوگ اپنے آپ کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بناسکیں گے، اُن کے لیے ممکن ہوگا کہ مل کر رہیں، ایک دوسرے کو قبول کریں اور جنگوں، خانہ جنگیوں سے نجات پائیں۔

یہ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ عالمگیریت کے آدرش تھے ہی ایسے دل کش کہ کوئی بھی دھوکا کھاسکتا تھا اور دھوکا کھالیا۔ امریکا اور یورپ نے اپنے ہم نواؤں کے ساتھ مل کر ایک ایسا جال تیار کیا جس میں پس ماندہ خطوں کو پھنساکر اُن کی پس ماندگی بڑھانا تھی۔ انتہائی افلاس زدہ خطوں کا افلاس دور کرنے کے نام پر ایک ایسا ماحول تیار کیا گیا جس میں دنیا بھر کی تجارت کو ایک لڑی میں پرویا گیا اور وہ لڑی امریکا و یورپ کے مفادات کے تابع تھی۔

عالمی سیاسی و معاشی نظام (جسے ہم عرفِ عام میں ورلڈ آرڈر کہتے ہیں) اِس طور تیار کیا گیا تھا کہ امریکا اور یورپ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر تیار کیا جانے والا عالمی نظام کسی بھی اعتبار سے پس ماندہ خطوں کے لیے سُود مند نہ تھا اور سچ تو یہ ہے کہ اِس سے ترقی پذیر خطوں کو بھی کچھ فائدہ نہ پہنچا۔ امریکا اور یورپ نے اپنے اپنے کھونٹے مزید مضبوط اور گہرے کرنے کے لیے باقی دنیا کو اپنی اپنی جوتی کی نوک پر رکھا۔

اقوامِ متحدہ کی شکل میں ایک ایسا راگ تیار کیا گیا جسے الاپ الاپ کر دنیا کو بہلایا پُھسلایا جاتا رہا ہے۔ عالمی ادارے کسی بھی ملک یا خطے کے مفادات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے نہیں بلکہ امریکا اور یورپ کے مفادات کی نگہبانی اور نمو کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ عالمی بینک ہو یا عالمی مالیاتی فنڈ، دونوں کو امریکا اور یورپ نے اپنے اپنے مفادات کے لیے عمدگی سے بروئے کار لانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

عالمگیریت کا جال محض اِس لیے بُنا گیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کو ایک لڑی میں پروکر اُن کی تجارت پر کنٹرول حاصل کیا جاسکے۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔ جن میں کچھ سکت ہی نہیں بچی تھی وہ بھلا کیا مزاحمت کرتے؟ مسلم دنیا اس معاملے میں خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ رعب کی ریاستیں متمول تو ہیں، طاقتور نہیں کیونکہ اُن کی دولت اُن کی لیاقت اور محنت کا نہیں بلکہ تیل کی دولت کا نتیجہ ہے۔

افریقا بہت پہلے ہتھیار ڈال چکا ہے۔ افریقیوں کے پاس اب ڈھنگ سے جینے کا ایک ہی راستہ بچا ہے۔۔۔۔ یہ کہ کسی نہ کسی طور کسی یورپی ملک میں داخل ہوکر وہاں آباد ہونا۔ عام افریقی باشندوں کے ذہنوں میں یہ بات بسی ہوئی ہے کہ یورپی طاقتوں نے صدیوں اُن کا استحصال کیا ہے، اُن کے معدنی وسائل لُوٹے ہیں اس لیے یورپی ممالک میں داخل ہونا اور وہاں آباد ہوکر ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کی راہ ہموار کرنا اُن کا پیدائشی حق ہے۔ اُن کی سوچ مکمل طور پر غلط بھی نہیں۔ متعدد یورپی قوتوں نے افریقا کے طول و عرض پر حکومت کی ہے اور اِس برِاعظم کے قدرتی وسائل کو جی بھرکے لُوٹا ہے۔

جنوبی امریکا بھی اس پوزیشن میں کبھی نہیں رہا کہ امریکا اور یورپ کے مقابل کھڑا ہوسکے وہ چونکہ بہت الگ تھلگ ہے اس لیے باقی دنیا کے ساتھ مل کر امریکا اور یورپ کے لیے مسائل پیدا کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ جنوبی یا لاطینی امریکا کے قائدین کو اندازہ ہے کہ اُن کا جینا مرنا امریکا اور یورپ کے ساتھ ہے اور بہت حد تک اُنہی کے رحم و کرم پر رہنا ہے۔ ایسے میں اُن سے ٹکرانے کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔

امریکا اور یورپ کو اندازہ تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد فوری طور پر ایسی کوئی بھی عالمگیر کوشش ممکن نہ تھی کہ سوویت یونین خلا پُر کیا جائے۔ چین اگرچہ مضبوط تھا مگر ایسا مضبوط نہ تھا کہ امریکا اور یورپ سے براہِ راست ٹکرانے کا سوچ سکتا۔ سوویت یونین کی تحلیل کی صورت میں روس آزاد ہوا تھا مگر اُس میں بھی اِتنی طاقت نہ تھی کہ اپنے آپ کو ایک بڑی عالمی قوت کے طور پر پیش کرسکتا۔ اِس کے نتیجے میں معاملات صرف خرابی کی طرف جاسکتے تھے۔

امریکا اور یورپ کے لیے میدان کُھلا تھا۔ انہوں نے مل کر عالمگیریت کا ڈول ڈالا، ایک ایسا تماشا شروع کیا جس میں پوری پس ماندہ دنیا کو یہ حسین خواب دیکھنے کا موقع دیا گیا کہ اب اُن کی تمام پریشانیاں ختم ہونے والی ہیں۔ پس ماندہ اقوام کو عالمگیریت سے بہت سی مثبت تبدیلیوں کی توقع تھی۔ وہ یہ سوچ رہی تھیں کہ اب اُن کا افلاس بھی دور ہونے والا ہے اور باقی دنیا سے الگ تھلگ رہنے کا تصور بھی دم توڑے گا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر کم و بیش ڈیڑھ صدی سے متعدد پس ماندہ خطوں کو حقارت کی نظر سے محض دیکھا نہ تھا بلکہ اُن کی پس ماندگی کو برقرار رکھنے کے لیے جامع منصوبہ سازی بھی کی تھی۔ اس پس ماندگی کے ختم ہونے کی صورت میں امریکا اور یورپ کے لیے مزید پنپنے کی گنجائش ختم ہوسکتی تھی۔

امریکا اور یورپ نے اپنی ترقی کی بنیاد دوسروں کو پس ماندہ رکھنے پر رکھی تھی۔ اور آج بھی اُن کا یہی وتیرہ ہے۔ چین اور روس کے ابھرنے کی صورت میں امریکا اور یورپ کے لیے حقیقی خطرہ پیدا ہوا ہے۔ بھارت بھی پنپ چکا ہے مگر وہ امریکا اور یورپ کے لیے خطرہ نہیں کیونکہ اُس نے اب تک کسی بھی معاملے میں امریکا یا یورپ سے تصادم کی راہ نہیں اپنائی۔ یہی سبب ہے کہ مغربی دنیا میں چین اور روس کو خطرہ اور دشمن گردانا جاتا ہے، بھارت کو نہیں۔ بھارت کو ایک ایسے ملک کے روپ میں دیکھا جاتا ہے جو بنیا ذہنیت کا حامل ہے یعنی لڑنے بھڑنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کا عادی اور شوقین ہے۔

عالمگیریت کا جال پھیلاکر امریکا اور یورپ نے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مچھلیاں پکڑلیں اور جب دیکھا کہ مزید کچھ پکڑنا ممکن نہیں تو جال ختم کردیا۔ عالمی حکومت کا تصور بھی اب سرد خانے میں چلا گیا ہے۔ دنیا پھر وہیں پہنچ گئی ہے جہاں وہ پہلی جنگِ عظیم کے وقت تھی۔ انٹرنیٹ اور دیگر ٹیکنالوجیز کے ذریعے دنیا کو ایک لڑی میں تو پرویا جاچکا ہے مگر یہ لڑی غریبوں کے لیے نہیں ہے۔ طاقتور زیادہ طاقتور ہوتے جارہے ہیں۔ ہاں، اب امریکا اور یورپ کے لیے ایک بڑا خطرہ روس، چین اور برازیل کی شکل میں بالکل سامنے کھڑا ہے۔ اس اجتماعی خطرے کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور ممکن نہیں۔

عالمگیریت تو اب ’’وَڑ‘‘ چکی ہے۔ امریکا اور یورپ کو اندازہ ہوچلا ہے کہ دنیا کو اس کھیل کے ذریعے مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ اِن دونوں خطوں میں تارکینِ وطن کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور اِن پر انحصار بھی بڑھتا ہی جارہا ہے۔ امریکا اور یورپ کی نئی نسل زیادہ ذہین بھی نہیں اور اُس میں محنت کرنے کا جذبہ بھی زیادہ نہیں۔ ایسے میں اپنی برتری برقرار رکھنا اُس کے لیے بہت حد تک ناممکن ہے۔ چین اپنے بل پر آگے بڑھ رہا ہے۔ اُس کی اپنی آبادی اِتنی زیادہ ہے کہ انتہائی باصلاحیت نوجوانوں کو تلاش کرنا اور اُنہیں پروان چڑھانا کچھ زیادہ دشوار نہیں۔ امریکا اور یورپ کی آبادی بھی گھٹ رہی ہے اور آبادی میں ذہانت کا گراف بھی گر رہا ہے۔ جوش و خروش کی کمی کے باعث ان دونوں خطوں کے قائدین پریشان ہیں کہ اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے کریں تو کیا کریں۔

چین روس، برازیل اور بھارت مل کر ایک نیا بلاک تشکیل دے سکتے ہیں۔ اگر بھارت نے چین، روس، ترکی اور برازیل کے ساتھ چلنے کو ترجیح نہ دی اور امریکا و یورپ کو خوش رکھنے کی راہ پر گامزن رہا تو مستقبلِ بعید میں اُس کے لیے غیر معمولی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ مفادات سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ دنیا بھر کے پس ماندہ خطوں کے پاس اب اپنے حالات بدلنے کا ایک اچھا طریقہ یہ رہا گیا ہے کہ کسی نہ کسی طور ابھرتی ہوئی قوتوں سے اپنے تعلقات اور معاملات بہتر بنائیں۔ اِس صورت میں وہ ایک زمانے سے غاصب چلی آرہی قوتوں کو تھوڑا سا منہ دینے کے قابل ضرور ہوجائیں گے۔ امریکا اور یورپ کی طاقت کم ہوتی جارہی ہے۔ دونوں پورا زور لگارہے ہیں کہ دنیا کو مٹھی میں رکھیں مگر ایسا ممکن نہیں ہو پارہا۔ ایسے میں چین، روس اور دیگر ابھرتی ہوئی قوتوں کے ساتھ مل کر مغربی طاقتوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ عالمگیریت کی بساط تو لپیٹی جاچکی ہے مگر امکانات کی بساط موجود ہے جس پر احتیاط سے چالیں چل کر پس ماندہ اور ترقی پذیر خطے اپنے لیے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔

حصہ