حسین ترین قربانیاں

164

کیسی خوبصورت اور قابل رشک تھی حضرت اسامہ بن زید کی زندگی!
اسامہؓ… جن کی رگوں میں اس شخص کا خون رواں دواں تھا جس نے دنیا کے آزاد شدہ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام کو اپنے دل کی دنیا میں بسا لیا۔
اسامہؓ… جو اس باپ کے لخت جگر تھے جس نے مدت دراز سے بچھڑے ہوئے باپ کے پھیلے ہوئے بازوؤں کو اپنے لیے پھیلا ہوا چھوڑ کر آنحضرت کے قدموں کی طرف رخ کیا تھا۔ جس نے یہ عجیب و غریب اعلان شوق کیا تھا، کہ ماں باپ کی گود میں بھی وہ سکون و راحت نہیں ہے جو رسول ؐاللہ کے قدموں کی خاک بن جانے میں ہے۔ اور اس طرح عشق رسولؐ سے سرنثار و سرمست ہو کراس وقت ان کی پوری زندگی اس نعرہ ٔمستانہ میں گم ہو گئی تھی کہ :

’’ اے خدا کے رسولؐ !… میرے ماں اور باپ آپ پر شار !‘‘
آہ وہ نعرہ!… نعرۂ عشق و سپردگی!
جس کے حرف حرف میں جذبات کے زلزلے تھے !!

جس کی بے قرار ہوک زید کے ہر بن مو سے اٹھی اور قیامت تک پیدا ہونے والے مومنوں کی روحوں میں پیوست ہوتی چلی گئی۔ جس کی صدائے بازگشت ہر اس سینے میں مسلسل سنی گئی، سنی جا رہی ہے اور سنی جاتی رہے گی جس کو اللہ نے ایمان بالغیب جیسی دولت جاودانی کے لیے کھول دیا ہو۔ پھر تو یہ نعرے اس انقلاب عظیم کی دھمک بن گئے جس نے پتھروں کے پجاریوں کو خدائے زندۂ جاوید کا بندہ بنا دیا۔ یہ نعرے جدھر سے گزرے، سلطنتوں کے نقشے الٹ پلٹ ہو گئے اور انسانی سینوں میں ہلچل برپا ہو گئی۔ یہ نعرے اللہ پر ایمان کے مقابلے میں گوشت اور خون سے بنے ہوئے نسلی بت خانوں کو ڈھاتے چلے گئے۔ ایک بوریا نشین ہادی کے عشق سے دنیا کے عظیم کج کلاہوں کے تاج و تخت میں زلزلے دوڑاتے چلے گئے۔

زیدؓ… ایک غلام رہ چکے تھے تو کیا مگر روح اس خاک دان کی کسی زنجیر میں جکڑی ہوئی نہ تھی۔ انھوں نے خدا کے لیے اور خدا کے رسولؐ کے لیے بڑی بھاری قربانی پیش کی تھی۔ زمین و آسمان کے واحد خدا کے قدموں کو انھوں نے اس طرح چوما تھا کہ زمین و آسمان ان کے قدم چوم لینے کے لیے تڑپ اٹھے تھے۔ ماں باپ کی گود، خاندان اور وطن سب کچھ ایمان کی قربان گاہ پر لٹا دینے کے بعد انھیں عرش عظیم کے مالک نے اپنے قدموں میں اور اپنے رسولؐ کے اس دل میں خاص جگہ عطا فرمائی تھی جہاں قرآن کا نور اپنی تابانیاں بکھیر رہا تھا۔ ہائے وہ عشق و ایثار میں ڈوبے ہوئے آنسو جو زید کی آنکھوں سے اس طرح ٹیکے کہ اللہ کے دریائے رحمت میں تلاطم آگیا اور اللہ نے ماں باپ سے بچھڑے ہوئے لاڈلے کو اپنے محبوب کا محبوب بنا دیا۔

ہاں … اسامہ اس باپ کے بیٹے تھے۔ ان کو عشق رسولؐ بھی ورثہ میں ملا تھا اور بارگاہ رسالت میں ’’محبوبیت‘‘ کا عظیم الشان درجہ بھی ماں اور باپ دونوں ہی کی طرف سے انھیں یہ نسبت خاص عطا ہوئی تھی اس لیے کہ ان کی والدہ ماجدہ بھی حضورؐ کو گود کھلائے ہوئے تھیں۔ اس طرح اسامہؓ ’’محبوب رسول ؐ‘‘ہونے کی رشک انگیز شان میں نجیب الطرفین واقع ہوئے تھے۔

تیرہ سو سال سے زیادہ ہوگئے کہ ایمان ویقین کے سربکف دیوانے اس مقدس ہستیوں کا تصور کر کے وجد میں ہیں۔ جنھوں نے خالق اکبر کی خلاقی کے شاہکار محمد مصطفیؐ کو پروانہ وار چاہا تھا۔ پھر وہ انسان جسے خود مصطفیؐ نے والہانہ چاہا ہو!۔ وہ اسامہ جس کے گھوڑے کے سموں سے اٹھتی ہوئی خاک سے اپنے پورے وجود کو غبار آلود کر لینا صدیق اکبرؓ نے توشہ آخرت سمجھا ہو!۔ جسے ان نازک امور میں اپنا ترجمان بنا کر صحابہؓ نے رسول کی بارگاہ جلال میں بھیجا ہو کہ جن امور میں لب کشائی کی جرأت ام المومنین حضرت عائشہؓ کو بھی نہ ہوتی تھی!۔ کتنی قابل رشک تھی اس اسامہ کی شان محبوبی !!۔ اگر حضرت زیدؓ نے رسولؐ خدا کے لیے ایثار و جاں سپاری کی حد کر دی تھی تو حضورؐ نے نہ صرف زید بلکہ ان کی اولاد تک کے لیے دل جوئی اور دل نوازی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا۔ یہی تھی وہ سراپا عمل ،سراپا احساس … سراپا عدل ہستی جس نے دنیا سے کہا تھا کہ :

’’ جس نے آدمیوں کا احسان نہ مانا، اس نے اللہ کا بھی احسان نہ مانا، ہاں اس ہستی نے زید کی قربانیوں کی بہترین پذیرائی میں یہ کر کے دکھایا کہ اتنی بڑی قربانی بھی پیچھے رہ گئی اور قدر شناسی و قدر افزائی آگے نکل گئی۔ عمر بھر حضورؐ نے یہ ذرہ نوازی اور احسان شناسی کا سلسلہ جاری رکھا اور حضورؐ کے بعد حضورؐ کے اصحاب اس امانت کا حق ادا کر گئے۔

حضورؐ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنا یہ فرض سمجھا کہ انتہائی ناسازگار حالات کے باوجود حضرت اسامہؓ کی سرکردگی میں وہ فوجی مہم روانہ کی جائے جس کو روانہ کرنے کا فیصلہ حضورؐ نے مرض وفات کے بستر پر کیا تھا اور جس کا علم خود حضورؐ نے اسامہ کے ہاتھوں میں دیا تھا۔ عرب میں فتنہ ارتداد کی آندھی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس مہم کو کچھ دن اور مؤخر کر دیا جائے مگر حضرت ابو بکرؓ نہیں مانے۔ پھر جن لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس مہم کی امارت کسی اور کے سپرد کی جائے کیونکہ اسامہؓ بہت کم سن ہیں۔ ان میں حضرت عمرؓبھی شامل تھے۔

’’کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ حضرت ابو بکرؓ جوش میں آگئے تھے۔ ’’کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں اس شخص کو اعزاز سے محروم کر دوں جس کو حضورؐ نے اعزاز عطا کیا ہو ؟‘‘ آخر ی مہم حضرت اسامہؓ ہی کی امارت میں اس شان سے روانہ ہوئی کہ محبوب رسولؐ اسامہؓ گھوڑے پر سوار تھے اور حضرت ابوبکر ؓان کو رخصت کرنے کے لیے پیادہ پا تشریف لا رہے تھے۔

’’ اے خلیفہ رسول ؐاللہ !‘‘ حضرت اسامہؓ بے تابانہ بولے تھے۔ یا تو آپ بھی سوار ہو جائیں ورنہ میں بھی گھوڑے سے اتر جاؤں گا‘‘۔

’’ نہیں، نہیں!‘‘ حضرت ابو بکرؓ نے جواب دیا تھا۔ ’’نہ تمہیں اترنے کی ضرورت ہے اور نہ مجھے سوار ہونے کی۔ تم خدا کے راستے کی دھول میرے قدموں میں جم جانے دو‘‘۔ پھر جب خود حضرت عمرؓ نے حضرت صدیق اکبرؓ کی جگہ خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو حضرت اسامہؓ کی اسی شان محبوبیت کا پورا لحاظ رکھا۔ جب آپؐ نے تمام صحابہؓ کے امدادی وظائف مقرر کیے تو خود اپنے لخت جگر حضرت عبداللہ پر حضرت زیدؓ کے جگر پارے اور محمد رسولؐ اللہ کے محبوب اسامہؓ کو فوقیت بخشی اور ان کا وظیفہ ان سے زیادہ مقرر کیا۔

’’ ابا جان!‘‘ حضرت عمرؓ کے صاحبزادے نے سوال کیا تھا ’’اس امتیاز کا باعث میں نہیں سمجھ سکا!۔ خدا کا شکر ہے کہ جہاد کے معرکوں میں، میں اور اسامہؓ دوش بدوش رہے اور آپ اسامہؓ کے والد حضرت زیدؓ سے کسی قربانی میں پیچھے نہیں رہے ‘‘۔

’’یہ سچ ہے‘‘۔ حضرت عمر ابن خطابؓ ماضی کی ان چند درد بھری یادوں میں ڈوبتے ہوئے پکار اٹھے۔ جب حضورؐ دنیا سے رخصت نہ ہوئے تھے اور اسامہؓ کی تقدیر پیغمبر کی پر سوز ترین شفقتوں اور پیار سے مالا مال ہو رہی تھی۔ ’’ہاں یہ سچ ہے۔ لیکن بیٹے ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آنحضرت ؐاسامہؓ کو تم سے زیادہ اور ان کے باپ کو تمہارے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ جسے نبیؐ نے عزیز تر رکھا ہو۔ کیا میں اسے اپنے بیٹے سے عزیز تر نہ رکھوں…؟‘‘ اس طرح تاریخ گواہی دیتی ہے کہ حضرت زیدؓ اور پھر ان کی اولاد پر اصحاب رسولؐ نے اسی قدر شناسی اور عزت افزائی کی روایت کو جاری رکھا تھا جو آنحضرتؐ اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے۔

قدرتی طور پر حضورؐ کو اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے بے حد تعلق تھا۔ لیکن اس مقام پر بھی حضورؐ نے اسامہؓ کو یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ ایک آزاد کردہ غلام کے بیٹے ہیں۔ کتنا بلند تھا وہ انسان جس نے انسانیت کی کچلی ہوئی قدروں کو ایک بار پھر حیات نو بخشی اور جو لوگ ظلم و قہرانیت سے پس کر رہ گئے تھے ان کو اپنے دل کی پر سوز دھڑکنوں کے سہارے اٹھا کر انسانیت کے دوش بدوش لاکھڑا کیا۔ صلی اللہ علیہ وسلم… صل اللہ علیہ وسلم…ہاں اصحاب نے اپنی آنکھ سے یہ جذبات انگیز منظر دیکھا تھا کہ اگر حضورؐ کے ایک زانو پر حضرت حسنؓ ہیں اور دوسرا زانو بھی خالی نہیں ہے۔ وہاں حضرت زیدؓ کے لخت جگر حضرت اسامہؓ مچل رہے ہیں۔ دیکھا گیا کہ سرکارؐ کے دونوں ہاتھ ان دونوں کے جسم پر شفقت سے لبریز تھپکیاں دے رہے ہیں۔ تھپکیاں دے رہے ہیں اور اللہ سے یہ پر سوز سرگوشی ہو رہی ہے:

’’اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں۔ اے اللہ ! تو بھی ان دونوں سے محبت فرما!‘‘۔

وہی اسامہؓ جن کو زانوئے رسولؐ کی زینت بنتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ فتح مکہ کے شاندار موقع پر پھر اپنی قسمت کی بلندیوں پر جلوہ افروز نظر آئے۔ اس دن وہ رسولؐ خدا کے ناقہ پر حضورؐ کی پشت مبارک سے لگے بیٹھے تھے اور ان کا معصوم دل فرط خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا۔ فتح مکہ کے بعد جب خانہ کعبہ کا دروازہ بت پرستی پر ہمیشہ کے لیے بند اور توحید کے لیے وا ہو رہا تھا تو جو چار قسمت والے سب سے پہلے اس کے اندر باریاب ہوئے ان میں حضرت اسامہؓ بھی شامل تھے۔ اللہ کے رسولؐ کی پکار پر ان کے والد ماجد نے سب سے پہلے لبیک کہا تھا اور وہ اس وقت ان چار سعید روحوں میں سے ایک تھے جن کے سینے سب سے پہلے قبول حق کے لیے کھلے تھے۔ آج جب خدا کا گھر خدا والوں کے لیے کھل رہا تھا تو خدا نے جن چار انسانوں کو سب سے پہلے اپنے گھر میں باریابی کا شرف عظیم عطا کیا۔ ان میں حضرت زیدؓ کے بیٹے کو بھی شامل فرمایا تھا۔ قربانی تھی کہ مسلسل رنگ لا رہی تھی۔ انعام کا حسین سلسلہ تھا کہ برابر جاری و ساری تھا۔ ہاں! میرے معبود! تیری غیرت کا کیا عالم ہے!

مقام موتہ پر جب حضرت زیدؓ نے خدا کی راہ میں اپنی جان ہی قربان کر دی اور اس معرکہ حق و باطل میں جام شہادت نوش کرنے والوں کا بدلہ لینے کے لیے حضورؐ نے بے چین ہوکر عین مرض وفات میں ایک فوجی مہم روانہ کی تو اس مہم میں جو اعظم الرجال شامل تھے ان میں حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابو عبیدہؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جیسے سابقون الاولون کے نام آتے ہیں۔ لیکن آج خدا کا ایک اور فضل حضرت اسامہؓ کے حال پر ہونے والا تھا۔ آج اس مہم کا علم جس خوش نصیب کے ہاتھوں میں خود رسولؐ خدا کے ہاتھوں سے پہنچاؤ۔ وہ حضرت اسامہؓ بن زید ہی تو تھے۔ آج پوری امت کے بڑے لوگ حضرت اسامہؓ کی زیر کمان شہادت حق کے مورچے کی طرف سر کے بل جارہے تھے۔

حضرت زیدؓ کی قربانی اور ایثار کیشی کے جواب میں قدر شناسی، قدر افزائی ،دل جوئی اور دل نوازی کا یہ محبوب انداز کتنا محبوب تھا آنحضرت کو !… کہ اس کی راہ میں آپ نے بڑی بڑی روحانی اذیتوں کو انگیز کیا لیکن ایثار نوازیوں کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہی رکھا۔ وہ منافق جو رسولؐ کے قلب نازک کو گھائل کرنے اور اسلام کی ہوا خیزی کے لیے ہمہ وقت موقع کی گھات میں لگے رہتے تھے۔ اس مقام پر حضورؐ کو کب چھوڑنے والے تھے۔

غزوہ موتہ کے شہداء کے انتقام کے لیے جو تاریخی مہم حضرت اسامہؓ کی سر کردگی میں روانہ ہو رہی تھی اس میں ان کی ماتحتی میں اتنے بڑے بڑے صحابہؓ کو دیکھ کر تو بعض سچے مسلمانوں کے منہ پر یہ بات آہی گئی کہ

’’ رسول ؐاللہ نے ایک نو عمر کو مہاجرین اولین پر امیر بنا دیا ہے!‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ