سرمایہ

31

’’وقاربھائی! بہت افسوس ہوا، اللہ تعالیٰ آپ کے بیٹے کی مغفرت فرمائے، اُس کے درجات بلند کرے اور آپ سب کو صبرِ جمیل سے نوازے، آمین۔ اللہ جوان اولاد کا دکھ کسی کو نہ دکھائے۔‘‘ پروفیسر عبدالسلام صاحب نے دکھی دل سے کہا۔

’’سنا ہے وقار بھائی کے بیٹے نے اُن کی ڈانٹ پھٹکار اور سختیوں سے تنگ آکر خودکشی کی ہے۔‘‘ پُرسے کے لیے آئے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے تجسس ظاہر کیا۔

دوسرے صاحب بھی تھوڑا نزدیک آکر رازداری سے بولے ’’وہ پچھلی گلی کے ظہور صاحب ہیں نا، اُن کے بیٹے کو بھی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نوکری نہیں ملی تھی، بے چارہ غلط صحبت میں پڑگیا اور نشہ کرنے لگا۔ بہت بہت دنوں تک گھر نہیں آتا۔ نشہ کرنے والا خود تو اذیت میں آتا ہی ہے، ساتھ اُس کے پورا گھر متاثر ہوتا ہے۔ ظہور بھائی بڑھاپے میں اس کے پیچھے خوار ہوتے پھرتے ہیں، بہت دکھ ہوتا ہے انہیں دیکھ کر۔ جوان بیٹا بجائے اس کے کہ باپ کا سہارا بنتا اُن پر بوجھ بن گیا ہے۔‘‘

اس سے پہلے کہ وہ صاحب کچھ اور کہتے، پروفیسر صاحب بولے ’’اللہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کو عقل و شعور اور ہمت دے۔ ہمیں ان بچوں کے حق میں دعا کرنی چاہیے۔‘‘یہ کہہ کر پروفیسر صاحب اٹھ کھڑے ہوئے، انہیں کالج پہنچنا تھا۔

’’سر! آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی، سب خیریت ہے نا؟‘‘کلاس کے ایک بچے نے پروفیسر عبدالسلام کی غیر معمولی سنجیدگی اور اداسی دیکھ کر سوال کیا۔

پروفیسر صاحب کچھ دیر خاموش رہے، پھر بچوں سے مخاطب ہوئے ’’آپ سب جانتے ہیں نا، ہمارا ملک کتنی عظیم قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔‘‘

’’جی سر! آپ نے پاکستان بننے سے پہلے اور بعد کے واقعات تفصیل سے بتائے ہیں۔‘‘ ایک بچے نے کھڑے ہوکر جواب دیا۔

’’تو بچو! ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ آج ملک کو سیاسی ومعاشی بحران سے نکالنے کے لیے نوجوانوں کو ہمت اور حوصلے کے ساتھ سمجھ داری سے کام لینا چاہیے۔ اس وقت ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اور غربت اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ مایوس ہوکر خودکشی کررہے ہیں، نشے جیسی لعنت میں گرفتار ہورہے ہیں، اپنا ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک جارہے ہیں، لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘‘

’’تو سر! ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ ایک بچے نے فکرمندی سے پوچھا۔

’’سب سے پہلے تو میں ایک بہت اہم بات کہوں گا کہ باپ کی سختیاں برداشت کرنے کی عادت ڈالو، تاکہ زمانے کی سختیاں برداشت کرسکو۔ آج ملک کو پڑھے لکھے باشعور نوجوانوں کی قابلیت، صلاحیت، جوش اور جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ ملک کے بگڑتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر آپ سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کیوں کہ آپ لوگ ملک و قوم کا سرمایہ ہیں۔ قائداعظم نے نوجوانوں کو ملک کا معمار کہا تھا، جب معمار ہی ہمت ہار جائیں گے تو ملک کی باگ ڈور کون سنبھالے گا؟ نوجوان سیاست کے میدان میں اتریں اور غلط روش کو بدلیں۔ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لیں، کیوں کہ حق کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو امن و محبت کا گہوارہ بنادے۔ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کردے تاکہ کوئی اپنی مٹی، اپنی شناخت کو چھوڑ کرغیروں کی سرزمین پر جانے کا نہ سوچے۔‘‘
’’ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔‘‘ سب بچوں نے ایک جذبے کے ساتھ بلند آواز میں کہا۔

حصہ