اسی دوران چند اور قیدیوں سے بھی ملاقاتیں کیں، سوال اور جواب کئے، اس پورے دورانیہ میں فاطمہ کا قلم ایک نا سمجھ میں آنے والی تحریر میں اپنی نوٹ بک پر چلتا رہا۔ اس مرتبہ جیلر کی نگاہیں زیادہ تر فاطمہ کی نوٹ بک پر مرکوز رہیں اور وہ کسی حد تک حیرت کے ساتھ اسے لکھتے ہوئے دیکھتے رہے۔
وزٹ ختم ہوا تو نعمت خان نے صفدر حسین کو ان کے اپنے آفس جانے کا اشارہ کیا اور جمال کی ٹیم کو اپنے ہمراہ لیکر اپنے آفس لے آئے۔ آفس میں ان کی تواضع کے لیے ٹھنڈے پانی کی ڈسپوزایبل بوتلیں، کھانے کے لیے بیکری آئیٹم اور کولڈرنک، ان تینوں کی کاؤنٹر میزوں پر رکھی ہوئیں تھیں۔ یہاں بھی ان کے چونک جانے کا مکمل سامان موجود تھا لیکن کسی بھی قسم کا کوئی تاثر ظاہر کئے بغیر وہ وہ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔
بیٹو! نعمت خان نے پوری ٹیم کو غور سے دیکھتے ہوئے پیار سے مخاطب کرکے کہا۔ اب تک تم سب مجھ سے سوالات کرتے رہے ہو لیکن اب میں تم سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں۔
ان کی بات سن کر تینوں نے بیک زبان کہا۔۔۔۔ ضرور ضرور۔۔۔۔ یہ ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہوگی۔
میں صرف یہ معلوم کرنا چاہوں گا کہ فاطمہ بی بی کونسی زبان میں اپنے سارے نوٹ تیار کرتی رہی ہیں۔ جب یہ میرے آفس میں، سوال و جواب اور ہونے والی دیگر گفتگو کے دوران بہت تیزی کے ساتھ اپنا قلم چلا رہیں تھیں تو میں یہی سمجھا کہ یہ ’’شارٹ ہینڈ‘‘ میں کچھ لکھ رہی ہیں۔ ہمارے زمانے میں اسٹینوگرافر ہوا کرتے تھے جو ہماری پوری پوری گفتگو کے ایک ایک لفظ کو نوٹ کر رہے ہوتے تھے، دنیا کے تمام اخبارات والوں کے پاس بڑے ماہر شارٹ ہینڈ رائیٹنگ والے ہوا کرتے تھے جو جلسوں میں ہونے والی تقریروں یا پریس کانفرنسوں میں ہونے والی پوری پوری بات چیت کو نوٹ کر لیا کرتے تھے۔ جدید ٹیکنالوجی نے اس فن کو صفر کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ فی زمانہ ایک ایک بات کو پہلے سے بھی کہیں زیادہ حقائق کے ساتھ محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ میرا خیال یہ تھا تم لوگوں کے ساتھ بھی جدید آلات اور کیم کارڈرز وغیرہ ہونگے لیکن میں حیران ہوں کہ فاطمہ کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں تھی اور سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ وہ جس زبان میں ساری نوٹنگ کر رہی ہے وہ ’’شارٹ ہینڈ رائیٹنگ‘‘ بھی نہیں۔ بس میرا سوال فاطمہ بی بی سے یہی ہے کہ کیا مجھے آپ بتانا پسند کریں گی کہ یہ کونسی زبان ہے جس میں آپ نے ساری کارروائی کی نوٹنگ کی ہے۔
جمال اور کمال سوچ رہے تھے جیسے فاطمہ کسی حد تک ہچکچاہٹ کا شکار ہو جائے گی کیونکہ دراصل وہ سرے سے کوئی زبان ہی نہیں تھی لیکن ان کو فاطمہ کا جواب سن کر قائل ہونا پڑا کہ وہ ہر قسم کی صورتِ حال کا مقابلہ کرنا بہت اچھے طریقے سے جانتی ہے۔
سر! آپ کا سوال بہت ہی اہمیت رکھتا ہے اور اگر آپ مجھ سے یہ سوال نہ کرتے تو مجھے اس پر بہت ہی حیرت ہوتی کیونکہ آپ جس شعبے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ایسی باتوں کو نظروں میں رکھنا عام لوگوں کی نسبت آپ جیسے آفیسروں کے لیے بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔ جب میں آپ کے آفس میں ہونے والی گفتگو کو نوٹ کرتی جا رہی تھی تو مجھے اندازہ تھا کہ آپ مجھے لکھتا ہوا نہیں دیکھ پا رہے ہونگے۔ وزٹ کے دوران میں نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو اس راوے پر رکھا کہ آپ کی نظر میری نوٹنگ پر لازماً پڑے کیونکہ میں نے جانچ لیا تھا کہ آپ کے آفیسر صفدر حسین ہر مرتبہ ایسی پوزیشن پر آکر کھڑے ہو جاتے تھے کہ وہ دیکھ سکیں کہ میں کیا نوٹ کر رہی ہوں۔
اب آتی ہوں اس رائیٹنگ پر جس کو میں نے اختیار کیا ہوا ہے۔ یہ میری اپنی ایجاد ہے اور میں نے اپنے کمپیوٹر پر ایک ایسا سافٹویئر تیار کیا ہے جو اس زبان کو ڈی کوڈ کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ محض اس لیے ہے تاکہ کوئی غیر متعلق شخص اسے نہ پڑھ سکے۔ آپ حکم کریں گے تو آپ کو اپنے لیپ ٹاپ پر اس تحریر کو ڈی کوڈ کرکے بھی دکھایا جا سکتا ہے۔
جیلر نعمت خان تو اس کی بات سن کر تعریفی نظروں سے فاطمہ کی جانب دیکھ ہی رہے تھے لیکن جمال اور کمال بھی فاطمہ کے اعتماد پر کم حیرت زدہ نہیں تھے کہ وہ دروغ گوئی میں بھی اتنی طاق ہو سکتی ہے۔
جمال اور کمال جیل سے واپسی پر بہت مضطرب نظر آ رہے تھے کیونکہ وہ جیل میں ہونے والی گفتگو اور محسوس کی جانی والی بہت ساری باتوں پر ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرنا چاہتے تھے۔ جیل سے واپس ہوتے ہوئے وہ پانی کی سادہ بوتلوں کو جیلر سے کہہ کر بغیر پیئے اپنے ہمراہ لیتے آئے تھے وہ انھیں راستے میں استعمال کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بوتلوں کی سطح سے جمال اور کمال کو ویسی ہی مہک آتی محسوس ہو رہی تھی جیسی انھیں قیدی نمبر 1103 کے جسم یا کپڑوں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ معاملے کی تہہ تک پہنچتے جا رہے تھے۔ ان کا سفر کیونکہ پرائیویٹ ٹیکسی میں تھا اس لیے ٹیکسی میں کسی بھی قسم کی گفتگو مناسب نہیں تھی۔ جمال اور کمال اس بات کی ضرورت کو بھی بہت شدت سے محسوس کر رہے تھے کہ جتنی بھی باتیں وہ جان چکے ہیں اور جو جو اندازے انھوں نے لگائے ہیں، ان سب کی رپورٹ وہ ذمہ داران تک پہنچا دیں۔ ابھی تک ان کے علم میں یہ بات نہیں آ سکی تھی کہ جس مقصد کے لیے وہ یہ ساری بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، اس کی رپورٹ وہ کن کو ارسال کریں گے۔ تقریباً سینٹرل جیل سے گھر تک کا فاصلہ خاموشی سے ہی طے ہوا۔ وہ فاطمہ کو پہلے ہی آگاہ کر چکے تھے کہ وہ ان کے ساتھ ہی ان کے گھر تک جائے گی تاکہ آج کے وزٹ، اس میں ہونے والی گفتگو اور ساری صورتِ حال پر مفصل بات ہو سکے۔
گھر پہنچ کر سب سے پہلے تو سب نے تازہ دم ہونے کے لیے ہاتھ منہ دھوئے۔ ان کے لیے جمال اور کمال کی والدہ نے چائے کے ساتھ کچھ بیکری کے آئیٹم بھی پیش کئے۔ ہلکی پھلکی بھوک میں بیکری آئیٹم کے ساتھ چائے نے جیسے ساری تھکان اتار کر رکھ دی۔
جمال اور کمال نے کہا کہ سادہ پانی کی جو بوتلیں ہم ساتھ لائے ہیں اس کا بھی ایک مقصد ہے کیونکہ ہم دونوں اس میں سے ابھرنے والی مہک کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ فاطمہ نے بھی اس مہک کو محسوس کر لیا ہو لیکن فاطمہ کے لیے اصل بات تک پہنچنا ضرور سوالیہ نشان ہو سکتا ہے۔(جاری ہے)