’’پروفیسر علی رحمت صاحب! آج آپ کو اسلام آباد ماڈل اسکول فار بوائز، چھتر،اسلام آباد کا دورہ کروائیں گے۔‘‘
خیام نے مسکراتے ہوئے اپنے بچپن کے دوست کو مخاطب کیا۔
’’یعنی ہم اپنے اسکول جائیں گے، جہاں سے ہم نے پڑھا ہے۔‘‘علی رحمت نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔
کچھ ہی دیر میں دونوں اسکول پہنچ چکے تھے۔
پروفیسر علی رحمت کو آج کے پروگرام میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔
خیام صاحب نے اسکول پرنسپل محترم طاہر عباسی صاحب سے ملاقات کروانے کے بعد پروفیسر علی رحمت کو کتب خانے کی جانب چلنے کی دعوت دی۔جہاں انڈس کاٹیج لائبریری نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو جناب آغا نور محمد پہلے سے ہی مقررہ نشست پر براجمان تھے۔
محمد زین، محمد اویس، زین محمود نے پھولوں کے گلدستے اور کتب بطور تحفہ تقریب کے تینوں مہمانوں کو پیش کیں۔
شاہ زیب،محمد ثاقب، گل محمد، ابوبکر،سانول، یحییٰ احسن،محمد شاہ زیب، اویس خان،بلال خان،ریحان،یاشووارث، راجا احمر،سید رومان علی، ذیشان احمد،مومن عقیل، مطیع الرحمن کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے کہ انھیں خوب صورت کتاب تقریب کے اختتام پر تحفے میں ملنی تھی۔اردو کے استاد خیام صاحب نے طلباء کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا کہ آج کس کتاب کے حوالے سے سوال و جواب ہو ں گے۔
’’شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر‘‘ سلیم علی بابر نے جواب دیا۔
خیام صاحب نے اگلا سوال کیا۔
’’یہ کتاب کس مصنف کی تحریر کردہ ہے؟‘‘
’’محمد بشیر جمعہ” کی تحریر کردہ کتاب ہے۔‘‘موجید احمد نے جواب دیا۔
’’اس کتاب کا انتساب کس کے نام ہے؟‘‘ خیام صاحب کی طرف سے پھر سوا ل کیا گیا۔
’’اس کتاب کا انتساب محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ کے نام ہے۔‘‘محمدفیضان اللہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’چلیں۔۔ اب یہ بتائیں کہ اس کتاب میں کون کون سے موضوعات شامل ہیں؟‘‘
خیام صاحب نے تین طلباء کو جواب دینے کا اشارہ کیا تو تینوں کھڑے ہوگئے۔
’’حصہ اول وقت کی اہمیت کے حوالے سے ہے۔‘‘غلام مرتضیٰ کا جواب ابھی ختم ہوا ہی تھا کہ محمد حاشر بول اٹھا۔
’’مجھے علم ہے کہ دوسرا حصہ انفرادی منصوبہ بندی اورکیرئیر پلاننگ کے حوالے سے ہے۔‘‘
’’اگلا حصہ موثرشخصیت کے حوالے سے ہے۔دیگر حصوں میں فن گفتگو،اجتماعی و دفتری زندگی،عملی میدان میں کامیابی اورانفرادی صلاحیتیں کی بابت بحث ہوئی ہے۔‘‘عمر خلیل نے خیام صاحب کی جانب سے اشارہ کیے جانے پر کھڑے ہو کر جواب دیا۔
ابھی وہ خاموش ہوا ہی تھاکہ نوید احمد نے جواب دیا۔
’’آخری حصے کا عنوان’’ فارمزاور چارٹس کے ذریعے اپنی ذات کی تنظیم‘‘ ہے۔‘‘
خیام صاحب ابھی کچھ کہنے ہی لگے تھے کہ انڈس کاٹیج لائبریری نیٹ ورک کی رابطہ کار نوشین نے انھیں کچھ صفحات تھما دیے۔ جس پر اسکول کے طلبہ نے کتاب کے حوالے سے رائے لکھی ہوئی تھی۔انھوں نے اول،دوم اورسوم آنے والے طلبہ کا انتخاب اْن کی املاء ، بہترین جملوں کے انتخاب اورخوش خطی کی بنیاد پر کیا۔محمداویس نے دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات لکھی تھی کہ ’’منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی شخصیت میں توازن ہو، ترتیب ہو، تسلسل ہو۔‘‘
محمد زین نے لکھا تھا کہ ’’ڈائری کے ذریعے اپنی زندگی کو منظم کیجیے۔تساہل کی بیماری کے باعث ہم اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے۔‘‘
مطیع الرحمن نے خوب صورت جملے کا انتخاب کیا تھا۔ اْس نے لکھا تھا کہ’’وقت ایک بے مثال ذریعہ اوروسیلہ ہے۔یہ فوری ضائع ہونے والی ایسی چیز ہے جسے نہ چھو ا جاسکتا ہے اورنہ ہی اسے کسی طریقے سے ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ برف کی طرح ہے کہ اگر آپ استعمال نہ کریں اور باہر رہنے دیں تو پگھل جائے گی۔‘‘محمد ثاقب نے کتاب میں سے اپنا بہترین جملہ لکھا تھا۔
’’اگر ہم اپنی زندگی کے دوسرے معاملات کا جائزہ لیں اورترجیحات مقرر کرلیں تو ہم وقت کے ضیا ع کو کم کرسکیں گے۔‘‘
بہترین تحریروں کے حامل طلبہ کو پروفیسر طاہر عباسی، پروفیسر علی رحمت اورانڈس کاٹیج لائبریری نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو آغا نور محمد کی جانب سے انعامات دیے گئے۔
“ایک اور اہم سوال ہے جس کے درست جواب پر آپ کو عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری انعام کے طور پر ملے گی۔”
خیام صاحب کا اعلان سنتے ہی کئی بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ آگئی تھی۔
“یہ کتب خانہ کس کے نام سے منسوب ہے؟جہاں اس وقت ہم کھڑے ہیں۔”
سوال سن کر سب نونہالوں نے ہاتھ کھڑے کیے لیکن خیام صاحب نے خاموش طبع شاہ زیب کو جواب دینے کا اشارہ کیا۔
“جناب!کرنل نعیم اشرف صاحب کے نام سے، جو دو ناولز کے مصنف بھی ہیں، اسے 2022 میں قائم کیا گیا تھا.”
شاہ زیب نے قدم آگے بڑھائے اور پروفیسر طاہر عباسی صاحب سے اپنا انعام وصول کیا کیوں کہ اس کا جواب درست تھا۔
انعام یافتہ طلباء میں جوش و خروش بڑھ چکا تھا وہ تہیہ کر چکے تھے کہ اب وہ مزید دل چسپی سے نہ صرف کتب پڑھیں گے بلکہ تعلیم کے میدان میں بھی عمدہ کارکردگی دکھائیں گے۔