جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ

82

قسط نمبر 9

یوں ’’انسان پرستی‘‘ تو اب بھی جاری ہے لیکن در حقیقت بیسویں صدی کے سارے فلسفے انسان کو انسان کے درجے سے نیچے لے جانا چاہتے ہیں۔ غرض ’’عقل پرستی‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’انسان پرستی‘‘ کا بھی زوال اس دور میں ہوا ہے۔

انسانوں میں بھی جو لوگ مغربی ذہن کو پسند آتے ہیں وہ وحشی قبائل یا قدیم زمانے کے انسان ہیں۔ مغرب کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد و حشیوں کے عادات و اطوار اور رہن سہن کے طریقے اختیار کرنا چاہتی ہے۔ بلکہ مظاہر پرستی اختیار کرنے میں بھی انہیں باک نہیں۔ چنانچہ انسان کو خدا کا درجہ دینے کا رجحان تو خیر چل ہی رہا ہے، لیکن اس کے پہلو بہ پہلو انسان سے نفرت بھی روز بروز شدید ہوتی جارہی ہے۔ آج کل ایسا شعر و ادب نہایت مقبول ہے جو انسان سے نفرت پیدا کرتا ہے۔

بیسویں صدی کے شروع سے جن نظریات نے مغربی ذہن کو شدید طور سے متاثر کیا وہ کمیونزم اور فرائڈ کی نئی نفسیات ہیں۔ اشتراکیت اور کمیونزم یا مارکسیت میں تھوڑا سا فرق ہے۔ اشتراکی جماعتیں تو بہت سی ہیں اور ان میں مشترک اصول صرف یہ ہے کہ ذرائع پیداوار کو افراد کی نہیں بلکہ معاشرے یا ریاست کی ملکیت ہونا چاہئے اور ذرائع پیداوار کا پورا انتظام بھی ریاست ہی کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔

کمیونزم یا مارکسیت اشتراکیت کی ایک خاص شکل ہے۔ اس کا بانی انیسویں صدی کا جرمن مفکر کارل مارکس ہے۔ اس کے نظریات کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ انسان کی پوری زندگی کا دارو مدار معاشیات پر ہے اور تہذیب ہو یا فلسفہ یا شعر و ادب یا مذہب سب کا تعین معاشی عوامل کرتے ہیں۔ ہر زمانے میں انسان کے پاس جس قسم کے ذرائع پیداوار ہوں گے اس کے مطابق اس زمانے کا فلسفہ اور تمدن ہو گا، یہاں تک کہ مذہب بھی اسی لیے اس کے نظریے کا نام ”جدلیاتی مادیت‘‘ ہے۔ مادیت کی تشریح تو ہو چکی۔ ’’جدلیات‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ ہر زمانے میں معاشرتی طبقے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہے ہیں۔ ہر زمانے میں ذرائع پیداوار کے لحاظ سے ایک طبقے کی حکمرانی ہوتی ہے، اور جب ذرائع پیداوار میں ترقی ہوتی ہے تو حکمراں طبقہ شکست کھا جاتا ہے اور اس سے نیچے کا طبقہ حکمراں ہو جاتا ہے۔ انیسویں صدی کے درمیان میں مارکس نے اعلان کیا تھا کہ اب وہ دور آگیا ہے جب معاشرے میں اقتدار مزدور طبقے کا ہونا چاہئے۔ انقلاب روس کے رہنما لینن نے اس فلسفے میں یہ اضافہ اور کیا کہ جب مزدوروں کی حکومت پوری طرح مستحکم ہو جائے گی اور طبقاتی کشمکش مٹ جائے گی تو پھر ریاست کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور آہستہ آہستہ ریاست ’’مرجھا‘‘ کے ختم ہو جائے گی۔

بیسویں صدی میں مغربی ذہن پر عمرانیات کا بھی خاص طور سے اثر پڑا۔ کمیونزم تو ہر انسانی سرگرمی کا ماخذ معاشیات کو سمجھتی ہے۔ عمرانی نظریئے بنیادی طور سے اس خیال کی وسیع تر شکل ہیں۔ یوں عمرانی فلسفے تو درجنوں ہیں اور ان کے درمیان بہت سے اختلافات ہیں۔ مگر ان میں مشترک خیال یہ ہے کہ اصلی چیز انسان کی عمرانی زندگی اور اس کے مسائل ہیں، دوسری چیزیں اس کی شاخیں ہیں۔ فلسفہ ہو یا مذ ہب یہ بھی عمرانی مسائل کے حل کرنے کے طریقے ہیں۔ عمرانیات والے بظاہر مذہب کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ بعض تو مذہب کو ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کی نظر میں مذہب کی وہی قدر و قیمت اور نوعیت ہے جو شادی بیاہ کی رسموں کی یا کھیل کود کی۔

بیسویں صدی میں جو عقلیت پرستی ختم ہوتی ہے تو اس میں بڑا ہاتھ ’’نئی نفسیات‘‘ کا ہے۔ اس دائرے میں سب سے گہرا اثر فرائڈ کا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کے افعال اقوال اور افکار میں عقل (جزوی) اور شعور کا دخل بہت ہی کم ہے۔ انسان پر اصل میں حکمرانی ’’لا شعور‘‘ کی ہے۔ اس ’’لاشعور‘‘ سے مراد جبلتیں ہیں اور جبلتوں میں بھی سب سے اہم جنسی جبلت (Sex instinct) یا ’’جنسی توانائی‘‘ (Libido) ہے۔ انسان کی جتنی بھی ظاہری اور باطنی سرگرمیاں ہیں وہ سب بلا واسطہ یا بواسطہ جنسیت سے ہی نکلی ہیں اور کسی نہ کسی شکل میں اسی جبلت کا اظہار کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ مذہب بھی۔

1921ء کے قریب فرائڈ نے اپنے نظریات میں ایک بنیادی تبدیلی کی، پہلے تو وہ اس مفروضے کی بنیاد پر چلتا تھا کہ انسان لذت (Pleasure) کا طالب ہے اور تکلیف (Pain) سے بچتا ہے۔ لیکن اب اس نے یہ خیال پیش کیا کہ نہ صرف انسان بلکہ ہر جاندار چیز موت کی طالب ہے، اور بے جان بننا چاہتی ہے۔ اپنی تائید میں اس نے عربی کا یہ مقولہ بھی پیش کیا۔ كل شي برجع الى اصلہ یعنی اس کے نزدیک حیات کی اصل عدم ہے اور حیات اپنی اصل کی طرف جانے میں کوشاں رہتی ہے۔ غرض انسانی زندگی سے مراد ہے دو اصولوں کی مسلسل کشمکش ۔ ایک طرف جنس یا محبت (Eros) ہے، دوسری طرف موت (Thanatos) اور یہ کشمکش آخر فنا پر ختم ہوتی ہے۔

نئی نفسیات میں دوسرا مشہور نام یونگ کا ہے۔ اس نے “جنسیت ” (Libido) کے مفہوم کو وسعت دے کر ”زندگی کی بنیادی توانائی ” کا مفہوم اس لفظ میں داخل کیا۔ فرائڈ نے جس لا شعور ” کا ذکر کیا تھا اس کا تعلق فرد سے ہے۔ یونگ نے ’’اجتماعی لاشعور‘‘ دریافت کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ پوری انسانیت کا ایک واحد ’’لاشعوری ذہن‘‘ ہے اور یہی ہر انسانی سرگرمی کا منبع و مخرج ہے۔ جو باتیں مختلف مذاہب خدا کی ذات و صفات کے بارے میں کہتے رہے ہیں یا روح کے بارے میں ان میں سے اکثر یونگ نے اجتماعی ’’لاشعور‘‘ کی طرف منتقل کردی ہیں۔ نعوذ باللہ ۔ اسی طرح افلاطون نے جن ’’اعیان‘‘ کا ذکر کیا ہے، یونگ انہیں عالم مثال سے اتار کر اجتماعی ’’لاشعور‘‘ (یعنی نفس) میں لے آیا ہے۔ بلکہ آخر میں تو اس نے یہ کہا ہے کہ ’’اعیانٗ‘‘ نامیاتی اجسام کی حیاتیاتی ساخت میں موجود ہیں ، یعنی جسمانی اور مادی چیزہیں۔

فرائڈ تو مذہب کو ایک ’’فریب‘‘ اور ’’وحشیانہ دور‘‘ کی یادگار سمجھتا تھا۔ یونگ مذہب کا قائل ہے اور اسے ضروری سمجھتا ہے، لیکن وحی کو نہیں مانتا۔ بلکہ یہ کہتا ہے کہ وحی بھی اجتماعی لاشعور کا ظہور ہے۔ نعوذ باللہ ۔ عموماً مشہور یہ ہے کہ یونگ کے اثر سے مغرب میں مذہب زندہ ہو رہا ہے۔ ہمارے یہاں بھی بعض لوگ یہی کہہ رہے ہیں ، لیکن اس کے نظریات انتہائی گمراہ کن ہیں۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ اس نے تمام دینی تصورات اور متصوفانہ رموز کی نفسیاتی تشریح کردی ہے اور اس طرح انہیں یوں صبح کیا ہے کہ جو لوگ اس کے زیر اثر آئے ہیں ان کے لیے مذہب کو سمجھنا تقریباً نا ممکن ہو گیا ہے۔

غرض، نئی نفسیات کے جتنے بھی نظریات ہیں سب کے سب صریح نفس پرستی ہیں اور نفسیات کا مذہب سے دور کا بھی تعلق نہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تو روس اور امریکہ میں یہ رجحان غالب آتا چلا جا رہا ہے کہ جتنے بھی نفسیاتی اور ذہنی عوامل ہیں وہ سب دراصل عضویاتی اور جسمانی عوامل ہیں۔ چنانچہ نفسیات بحیثیت ایک علیحدہ علم کے ختم ہو رہی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ روح کو تو خیر مغرب بھول ہی گیا تھا اب ذہن یا نفس سے بھی بیگانہ ہوتا جا رہا ہے اور آخر جسم ہی جسم رہ گیا ہے۔ نفسیات کے ساتھ ہی ایک اور نئے علم کا ذکر ہونا چاہیے جس کا نام Cybernetics ہے۔ اس علم کے ذریعے کمپیوٹر بنایا گیا ہے، یعنی وہ مشینیں جو انسانی ذہن کے بعض عوامل خود سر انجام دے سکتی ہیں، مثلا ریاضی کے پیچیدہ مسئلے حل کر دینا سوالوں کے جواب دینا بلکہ معاشی اور سیاسی عوامل کے متعلق پیشین گوئیاں کرنا بھی۔ اس علم کے پیچھے مفروضہ یہ ہے کہ انسانی ذہن مشین کی طرح کام کرتا ہے، اور جس طرح کے قوانین مشینوں کو چلاتے ہیں ایسے ہی قوانین ذہن کو بھی چلاتے ہیں۔ اگر یہ قوانین معلوم ہو جائیں تو انسان مشینوں سے وہی کام لے سکتا ہے، جو ذہن سے لیے جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ امید بندھتی ہے کہ جس طرح انسان کائنات اور فطرت کی تسخیر کر سکتا ہے، اسی طرح انسانی ذہن کی بھی تسخیر کر سکتا ہے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔ یعنی ذہن بھی دراصل جسم یا مادہ ہی ہے اور اس سے وہی سلوک کیا جاسکتا ہے جو مادے کے ساتھ ہوتا ہے۔

انیسویں صدی میں بہت سے لوگوں نے ’’روحانیت‘‘ ’’تصوف‘‘ اور ’’باطنی علم‘‘ کے معنی یہ لیے تھے کہ ان چیزوں کا مقصد ہے انسانی ذہن کی ’’پوشیدہ قوتوں‘‘ کو بیدار کرنا۔ مثلاً بغیر کسی خارجی ذریعے کے لوگوں کے ذہن کو متاثر کرنا بغیر کسی آلے کے دوسرے شہر یا ملک کا حال بتانا وغیرہ مگر انیسویں صدی کے سائنس دان ایسی چیزوں کو ضعیف الاعتقادی اور تو ہم پرستی جتاتے تھے۔ لیکن بیسویں صدی کے بعض سائنس دان ان چیزوں پر تحقیقات کر رہے ہیں، اور انہیں اصولاً ممکن ماننے لگے ہیں۔ ایسی ذہنی قوتوں کو یہ لوگ ’’ماورائے حسی ادراک‘‘ کہتے ہیں۔ اس تحقیقات کا شوق روس تک کے سائنس دانوں کو ہے۔ اس رجحان سے بعض دفعہ یہ دھوکا ہوتا ہے کہ اب سائنس روحانیت اور مذہب کے قریب آرہا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس نظریے کی بنیاد بھی مادیت پر ہے۔ بلکہ روح اور مذہب کی حقیقت پر پردہ ڈالنے میں اس سے اور بھی مدد ملتی ہے۔

غرض موجودہ سائنس ہو یا نفسیات یا فلسفہ کہیں بھی دین کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ ایسے لوگ مذہب اور روحانیت کی جتنی مدح سرائی کرتے ہیں وہ سب قریب ہے، بنیادی طور سے ذرا بھی فرق نہیں ہوا ہے۔ اب تک سائنس مذہب کا دشمن بن کر سامنے آتا تھا ، اب دوست بن کر آرہا ہے۔ یہ زیادہ خطرناک ہے۔ انیسویں صدی تک کا سائنس مذہب پر بہت سے اعتراض کرتا تھا اور شکوک و شبہات پیدا کرتا تھا۔ نیا سائنس اب ان پرانے اعتراضات کو چھوڑ چکا ہے کیونکہ سائنس نے عقلیت پرستی چھوڑ دی ہے۔ لیکن نیا سائنس ’’جبلت پرستی‘‘ یا جسم پرستی یا ’’حیات پرستی‘‘ کرنے لگا ہے۔ اس لیے مذہب کو ختم کرنے کے بجائے ایک نیا مذہب بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سائنس پرانے سائنس سے بھی زیادہ مسلک ہے، پرانا سائنس خدا کے وجود سے منکر تھا۔ نیا سائنس نے خدا ایجاد کر رہا ہے۔

یہ نئے مذہب اس وجہ سے اور بھی گمراہ کن ہیں کہ :

-1ان یہ مذہب، روح خدا سب کو مانتے ہیں۔

-2 عموماً سارے مذاہب کو برحق کہتے ہیں۔

-3الفاظ اکثر وہ استعمال کرتے ہیں جو مذاہب استعمال کرتے رہے ہیں۔

-4مختلف مذاہب سے عقائد یا رموز لے کر انہیں آپس میں جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

-5 بنیادی طور سے ان سارے مذاہب کا خدا ایک ہی ہے، یعنی مادہ خواہ اس کا نام کچھ بھی رکھا جائے۔

جیسا کہ اوپر دکھایا گیا ہے، جس چیز کو انیسویں صدی تک فلسفہ کہا جاتا تھا اسے تو بیسویں صدی کے شروع میں ولیم جیمر کی ’’عملیت‘‘ نے فی الحقیقت ختم ہی کر دیا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد چند ایسے نظریات ابھرے ہیں جو فی الاصل فلسفہ بھی کہلانے کے مستحق نہیں، لیکن انہیں فلسفہ کہا جاتا ہے۔ پھر ان کا اثر نئی عیسوی دینیات پر بھی ہوا ہے اور ہمارے یہاں بھی اس کا اثر خاصا پھیل گیا ہے۔ ان فلسفوں میں سب سے نمایاں ’’وجود پرستی‘‘ (Existentialism) ہے۔ یہاں ’’وجود‘‘ سے مراد کسی طرح کا ’’وجود مطلق‘‘ نہیں بلکہ انسان کا ’’نفسی وجود‘‘ ہے۔ یہ فلسفہ موجود تو تھا پہلے سے مگر اسے رواج فرانس کے فلسفی اور ادیب ژاں پال سارتر نے1945ء کے بعد دیا ہے اور مذہبی میدان میں اس فلسفے کا سب سے بڑا امام ہے کیر کے گور (Kierkegaard) جو تھا تو انیسویں صدی کا مگر اس کا اثر اب ہوا ہے۔ اس فلسفے کے پھیلانے میں زیادہ حصہ ادب کا ہے اور یہ نوجوانوں میں زیادہ مقبول ہوا ہے۔

اب تک یہ فلسفے کا مسلمہ مسئلہ تھا کہ جو ہر پہلے آتا ہے ، عرض بعد میں۔ یہ فلسفی کہتے ہیں کہ عرض پہلے ہے، جو ہر بعد میں ان لوگوں کے نزدیک انسان میں دو قسم کا وجود ہے۔ ایک وہ وجود (Being) جو پتھروں کو بھی حاصل ہے ، یعنی محض مادی اور جسمانی وجود۔ (یہاں یاد رکھنا چاہئے کہ پرانے فلسفے میں Being کا لفظ وجود مطلق کے معنی میں استعمال ہوتا تھا، مگر یہ لوگ اسے وجود خارجی اور مادی کے معنی میں استعمال کرتے ہیں)۔ دوسرا وجود وہ ہے جس کا ادراک انسان اپنے حسی یا ذہنی شعور کی مدد سے کرتا ہے۔ اس وجود کو یہ لوگ Existence کہتے ہیں۔ اسی دوسرے قسم کے وجود کو یہ لوگ زیادہ اہم سمجھتے ہیں اور اسے انسان کا ما بہ الامتیاز قرار دیتے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ انسان کے وجود کا جو ہر یا ماہیت یا اصلیت کوئی پہلے سے متعین چیز نہیں۔ بلکہ ساری انسانیت کے لیے اس کا تعین حتمی اور مستقل طور پر ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ سوال تو صرف فرد کے سامنے آتا ہے اور اس وقت آتا ہے جب اسے اپنے ’’وجود‘‘ کا احساس پیدا ہو اور یہ احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اسے کوئی داخلی یا خارجی فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے فیصلے انسان کو ہر وقت کرنے پڑتے ہیں ، یہاں تک کہ پانی پینے کے لیے گلاس اٹھاتے ہوئے بھی۔ غرض فرد کو ہر لمحے کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور ہر فیصلے کے ساتھ وہ اپنے جوہر اور اپنی ماہیت کا تعین کرتا ہے۔ لیکن چونکہ ہر لمحے نئی قسم کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے ماہیت کا تعین بھی مستقل طور سے نہیں ہو سکتا۔ ہر فیصلے اور ہر لمحے کے ساتھ جو ہر اور ماہیت کا تعین بھی بدلتا رہتا ہے۔

اس سارے فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ:

-1اپنی ماہیت کا تعین انسان خود کرتا ہے، خدا نہیں۔

-2اس ماہیت کا تعین عمل کے ذریعے ہوتا ہے۔

-3یہ ماہیت مستقل چیز نہیں ، بلکہ بدلتی رہتی ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ سارے خیالات دین کی نفی کرتی ہیں، لیکن آج کل بہت سے مغربی مفکر عیسوی دینیات کو یہی رنگ دے رہے ہیں، اور ہمارے یہاں بھی بعض نوجوان اسلام اور خصوصاً تصوف کی ایسی ہی تفسیر کرنے کو بے قرار ہیں۔

’’وجود پرستی‘‘ کے فلسفے نے ایک اور تصویر دنیا میں پھیلایا ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی کے جتنے مظاہر ہیں وہ ’’عمل‘‘ ہیں۔ بہرحال زندگی کو اسی رنگ میں قبول کرنا چاہیے اور زندگی کی ’’مہملیت‘‘ کو قبول کر کے ہی انسان اپنا جو ہر دریافت کر سکتا ہے۔ مغرب کے نوجوانوں میں آج کل جو انتشار پھیلا ہوا ہے اس میں بہت بڑا دخل اسی فلسفے کو ہے۔ مغرب میں آج کل ایک اور فلسفہ مقبول ہو رہا ہے جس کے نام مختلف ہو سکتے ہیں، مگر جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا کے اقرار یا انکار کے مسئلے ہی کو ختم کر دیا جائے۔ یہ فلسفہ انگلستان سے شروع ہوا ہے اور وہاں اس کا نام ’’منطقی ثبوتیت‘‘ (LogicalPositivism) ہے۔ اب تک ہر ملک اور ہر زمانے میں یہ مسلمہ امر رہا ہے کہ جملے کے تین لازمی اجزا ہوتے ہیں، اسم فعل، حرف اور یہ بھی مسلمہ بات رہی ہے کہ اسم کسی چیز کے نام پر دلالت کرتا ہے۔ مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسم چیز پر دلالت نہیں کرتا بلکہ ہر لفظ اور جملہ کسی مخصوص حالت (Situation) میں بولا جاتا ہے۔ چنانچہ جملے میں معنی ڈھونڈنے کے بجائے ہمیں اس حالت کا تجزیہ کرنا چاہئے جس میں یہ جملہ بولا گیا ہے۔ اس قسم کے تجزیئے کے ذریعے یہ لوگ یہ ثابت کرتے ہیں کہ روح یا خدا کے بارے میں جتنے جملے بھی بولے جاتے ہیں وہ نہ بچے ہیں نہ جھوٹے بلکہ بے معنی ہیں۔ بیسویں صدی میں ایک چیز بڑی اہمیت اختیار کرگئی ہے۔۔۔ وقت یا فلسفہ زماں۔ فلسفہ نفسیات ادب ہر جگہ وقت کی ماہیت سے تعرض ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ وقت کا پرانا نظریہ بالکل غلط ہے۔ وہ پرانا نظریہ وقت کو ایک لکیر یا خط کی شکل میں پیش کرتا تھا۔ (Linear Time) – یعنی وقت تین الگ الگ حصوں میں بٹا ہوا تھا… ماضی، حال اور مستقبل۔ اور یہ تینوں حصے الگ الگ تھے۔ چنانچہ جو لمحہ ماضی بن گیا وہ نہ تو حال بن سکتا تھا نہ مستقبل۔ دوسرے لفظوں میں، ہر لمحہ پیدا ہونے کے بعد مرجاتا تھا۔ وقت کا نیا نظریہ کہتا ہے کہ وقت لکیر کی طرح نہیں ، بلکہ دائرے کی طرح یا چکر دار ہے۔ (Circular Time) – ماضی حال اور مستقبل الگ الگ نہیں، بلکہ ہر لمحے میں موجود ہیں۔ وقت کبھی نہیں مرتا، بلکہ ابدی سائنس اس سارے فلسفے کی غرض یہ ہے کہ وقت خارجی چیز نہیں ، بلکہ اندرونی چیز ہے۔ یا یوں کہیے کہ نفس وقت کو جو معنی چاہے دے سکتا ہے۔ یہ فلسفہ زماں اس لیے خطرناک ہے کہ اس کی پشت پناہی کے لیے دینی تصورات سے مدد لی گئی ہے۔ ہمارے یہاں تو لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ فلسفہ زماں سراسر اسلامی ہے۔ یہ لوگ ’’ایام اللہ‘‘ کی تفسیر اسی فلسفے کے معنوں میں کرتے ہیں۔ لیکن اگر اس فلسفے کو مان لیا جائے تو نعوذ باللہ شریعت کے سارے احکام معطل ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایٹم کو توڑنے کے سلسلے میں جو تجربے کئے گئے ہیں ان کے سلسلے میں سائنس دان کہتے ہیں کہ وقت پیچھے کی طرف بھی لوٹتا ہے۔ اس نظریے کو Time Refrection Symmetry کہتے ہیں۔ اگر اس نظریئے کو روز مرہ زندگی پر بھی عائد کر دیا جائے یا وقت کے دوسرے فلسفوں کے مطابق وقت کو ایک اضافی اور داخلی یا اندرونی چیز سمجھ لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آدمی نماز کس وقت پڑھے اور روزہ کس وقت رکھے۔ ہمارے یہاں ان جدید نظریوں کی حمایت میں اولیاء کے واقعات یا حضرت علی کا یہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ ان کی عصر کی نماز کا وقت گزر گیا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے پر سورج واپس آگیا۔ لیکن ہمارے یہاں ایسے واقعات کی حیثیت معجزوں اور کرامتوں کی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ فطرت کا نظام معجزانہ طور پر تھوڑی دیر کے لیے بدل گیا مگر ان کرامتوں سے کوئی شرعی احکام برآمد نہیں ہوتے اس کے بر خلاف وقت کے نئے فلسفے آدمی کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وقت کا نظام آدمی کے تابع ہو سکتا ہے، بلکہ حدیث الوقت سیف قاطع کو ایسے ہی جدید معنی پہنائے گئے ہیں۔ (الوقت سیف قاطع کو بعض جگہ حدیث کہا گیا ہے اور بعض جگہ کسی بزرگ کا مقولہ بتایا گیا ہے۔(جاری ہے)

حصہ