نعت نگاری قابل ستائش عمل ہے‘ رضوان صدیقی

66

آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہی نعت کا آغاز ہوا تھا اور پھر یہ سلسلہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ نعتیہ ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ شعرائے متقدین اور شعرائے متوسطین کی نعت نگاری میں جمال مصطفیٰ کے رویے کو کثرت سے برتا گیا مگر وقت کے ساتھ ساتھ نعت گو شعرا پر یہ حقیقت کھلتی چلی گئی کہ دراصل نعت مصطفی میں جمالِ مصطفی اور سیرتِ مصطفی کا اظہار ہونا چاہیے لہٰذا پھر نعت نگاری میں یہ دونوں رویے پیش کیے جانے لگے۔ ان خیالات کا اظہار انجمن شیدائیان رسول کے سربراہ رضوان صدیقی نے کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں محفل نعت خوانی میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ ایک زمانے میں نعتیہ شعری مجموعے بہت کم شائع ہوتے تھے لیکن اس دور میں نعتیہ کتابیں تواتر کے ساتھ آرہی ہیں۔ نعت نگاری پر تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ آنحضرتؐ کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے بلند کیا ہے لہٰذا یہ متبرک سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا کہ نعتیہ اشعار ہمارے دل و دماغ میں عشق مصطفی کا جذبہ بیدار کرتے ہیں اور ہمیں سیرتِ طیبہ کے بہت سے پہلوئوں سے آگاہی ہوتی ہے۔ جو انسان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اللہ کے احکامات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں وہ بھی قابل مبارک ہیں۔ آج ہمارے ملک میں غربت‘ بے روزگاری اور عدل و انصاف کی عدم فراہمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اسلامی احکامات پر عمل نہیں کر رہے۔

انیق احمد نے کہا کہ نعت پڑھنا‘ نعت لکھنا اور نعت سننا ثواب ہے۔ قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق اللہ تعالیٰ سے جڑ جانے کا واحد راستہ رسول اللہ کی سیرت پر عمل کرنا ہے۔ نعتیہ محافل کا انعقاداظہار محبت رسولؐ ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ہمیں دنیا گزارنے کے تمام طریقے بتائے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم جنت کے حق دار بن سکتے ہیں۔ اس موقع پر وحید ظفر قاسمی‘ صدیق اسماعیل‘ صبیح رحمانی‘ محمود الحسن اشرف‘ شفیق احمد‘ فضل نقشبندی‘ محمد شارق اور حافظ نعمان طاہر نے بارگاہِ رسالت میں ہدیہ نعت پیش کیں جب کہ حاجی حنیف طیب نے دعا فرمائی اور کہا کہ جب تک پاکستان میں اسلامی نظام قائم نہیں ہوتا ہم بہت سے مسائل کا شکار ہوتے رہیں گے‘ آئیے آج ہم عہد کریں کہ اپنی زندگیوں کو سیرتِ رسولؐ میں ڈھال لیں گے۔

محفل نعت خوانی میں زبیر طفیل‘ ڈاکٹر عمران یوسف‘ ڈاکٹر فرقان احمد‘ محمود احمد خان‘ انجینئر اقبال قریشی‘ جاوید ملک‘ حسان بن رضوان‘ قادر خان زادہ‘ میجر کاظمی‘ مظہر خان‘ مبشیر میر‘ آصف انصاری‘ کرنل حبیب‘ ندیم ظفر صدیقی‘ کفیل احمد‘ رانا اشفاق‘ فہیم صدیقی‘ شعیب شمیمی‘ مصروف احمد‘ عدیل الظفر‘ زیڈ ایچ خرم‘ طارق رحمانی‘ زاہد حسین جوہری‘ جاوید احمد ‘ محمد مخدوم ریاض‘ مظہرالحق صدیقی‘ بیگم قمر النساء‘ نسیم انجمن‘ شاہدہ عروج خان‘ شاہانہ جاوید‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ عشرت حبیب‘ شبانہ سحر‘ مدیحہ میمن‘ ہندیہ عدیل‘ غوثیہ جاوید‘ عالیہ مسرور‘ بیگم ڈاکٹر حنا فضل‘ بیگم قمر فخر‘ ناہید سلطان‘ ڈاکٹر عائشہ رضوی‘ المنیٰ کاظمی‘ عباد علی‘ مبشراین صدیقی‘ ریحان صدیقی‘ خبیب حیات‘ عظمیٰ کمال‘ اشرف رشید‘ محمد اسلم صدیقی‘ افتخار حسین صدیقی‘ میجر محمد خان‘ فہیم برنی‘ ریان صدیقی‘ فرید الدین صدیقی‘ عاقل دہلوی اور بہت سے لوگوں نے شرکت کی۔

پی ای سی ایچ سوسائٹی کے زیر اہتمام مزاحیہ مشاعرہ

گزشتہ ہفتے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے زیر اہتمام ملک کے ممتاز مزاح نگار شعرا پر مشتمل ایک مزاحیہ مشاعرہ آرگنائز کیا گیا۔ سوسائٹی کے چیئرمین کیپٹن (ر) وارث النبی نے کہا کہ مشاعرے ہماری تہذیب کا حصہ ہیں‘ شعرائے کرام ہمارے معاشرے سفیر ہیں‘ یہ لوگ اپنے ماحول سے جڑے رہتے ہیں‘ اپنے اردگرد ہونے والے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ جن معاشروں میں شاعری کو اہمیت نہیںدی جاتی وہ معاشرے ترقی نہیں کرسکتے۔ آج ہم نے مزاحیہ مشاعرہ تربیت دیا ہے اس طرح ہم کچھ دیر کے لیے اپنے مسائل بھول کر مسکرائیں گے اور ہمیں ذہنی آسودگی بھی حاصل ہوگی۔

مشاعرے کے صدر خالد عرفان نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ آج کے زمانے میں ایسا لگتا ہے کہ ہر شخص پریشان ہے۔ اس ماحول میں مزاحیہ شاعری آکسیجن فراہم کرتی ہے۔ ہمارے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ مزاح اور پھکڑ پن کے درمیان ایک باریک لکیر ہے اگر اس لکیر کو نظر انداز کیا جائے تو مزاح میں لطف نہیں آتا۔ سنجیدہ شاعری کے مقابلے میں مزاحیہ کلام کہنا بہت مشکل ہے‘ آج کے مشاعرے میں ہر شاعر نے بہترین کلام پیش کیا۔ ہر شاعر کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے کلام کو پسند کیا جائے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

لاہور سے تشریف لائے ہوئے معروف مزاح گو شاعر سلمان گیلانی نے کہا کہ مزاحیہ شاعری سے ہم اس لیے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں کہ اس میں ہنسنے ہنسانے کا سامان ہوتا ہے۔ دبستان کراچی میں سنجیدہ مشاعرے ہو رہے ہیں لیکن ان مشاعروں میں مزاح نگاروں کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ میں کراچی کی ادبی اداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مزاحیہ مشاعروں کا سلسلہ بحال کریں۔

حکیم ناصف نے مشاعرے میں نظامت کے فرائض انجام دیے اس موقع پر انہوں نے کہا کہ مزاح نگار شعراء کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب کراچی میں بھی گنتی کے مزاح نگار شاعر ہیں۔ اس شعبے میں نئی نسل کی انٹری نہیں ہو رہی تاہم سنجیدہ شاعری کے شعرا میں اضافہ ہورہا ہے۔ جب سے کراچی میں امن وامان بہتر ہوا ہے ادبی پروگرام تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ شعرائے کرام تو معاشرے کے نباض ہوتے ہیں‘ وہ سلگتے ہوئے مسائل پرگفتگو کرتے ہیں‘ ہمارے بہت سے معاملات اپنی شاعری میں بیان میں کرتے ہیں فنون لطیفہ کی تمام شاخوں میں شاعری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ شاعری اور زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے جو شعرائے کرام زمینی حقائق بیان کرتے ہیں وہ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔
اس مشاعرے کے انعقاد میں معروف سماجی شخصیت اویس ادیب انصاری کا تعاون بھی شامل تھا‘ اس موقع پر خالد عرفان‘ سلمان گیلانی‘ خالد مسعود‘ احمد سعید اور حکم ناصف نے اپنے اشعار نذر سامعین کیے۔

حصہ