آسٹریلیا کی سوشل میڈیا پابندی،پاکستان میں بچوں کے مستقبل کی حفاظت کون کرے گا؟
ڈیجیٹل دنیا نے جہاں انسانوں کو بے پناہ سہولتیں فراہم کی ہیں، وہیں اس کے کچھ منفی اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی ترقی نے معلومات تک رسائی کو آسان بنایا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون اور یکسوئی کا خاتمہ بھی ہوتا نظر آیا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف بڑوں، بلکہ بچوں میں بھی شدت سے محسوس کیا جارہا ہے۔
آسٹریلیا میں کم عمر نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کا حالیہ اعلان دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ وزیراعظم انتھونی البانیز نے یہ تجویز دی ہے کہ 14 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کے لیے سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے استعمال کو محدود کیا جائے۔ یہ اقدام بچوں کو ڈیجیٹل دنیا کے خطرات سے بچانے کے لیے کیا جارہا ہے۔
یہ فیصلہ اس تناظر میں لیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال سے کم عمر بچوں کو مختلف خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں سائبر بُلیئنگ، ذہنی صحت کے مسائل، اور پرائیویسی کے خطرات شامل ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال بچوں میں ذہنی دباؤ بے چینی، اور ڈپریشن جیسی نفسیاتی مشکلات کو بڑھاتا ہے۔ ان مسائل سے بچوں کی تعلیمی کارکردگی اور سماجی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈیجیٹل دور میں انسان مسلسل اطلاعات اور اطلاعاتی بمباری کے زیرِ اثر ہے۔ 24 گھنٹے کی دستیابی اور ہر لمحے نئی معلومات کا ہجوم انسان کے دماغ کو تھکن کا شکار بنادیتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مسلسل سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل مواد کا استعمال انسان کو ذہنی دباؤ (stress) اور بے چینی کا شکار بناتا ہے۔
ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ڈپریشن اور ذہنی اضطراب کا سبب بنتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی کا موازنہ دوسروں کی آن لائن پیش کردہ ’’مثالی‘‘ زندگیوں سے کرتے ہیں، جو حقیقت میں اکثر اوقات غلط یا مبالغہ آرائی ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں خوداعتمادی میں کمی اور احساسِ کمتری پیدا ہوتا ہے، جو ذہنی سکون کو برباد کردیتا ہے۔
ڈیجیٹل مواد کے مسلسل استعمال سے بچوں میں یکسوئی اور تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہورہی ہیں۔ جدید تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ:
بچوں میں توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت میں کمی آرہی ہے۔ دن میں کئی گھنٹے سوشل میڈیا یا ویڈیوز دیکھنے والے بچے عموماً ایک کام پر زیادہ دیر تک توجہ مرکوز نہیں کرپاتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، بچوں کی توجہ مرکوز کرنے کی اوسط صلاحیت پچھلی دہائی میں واضح طور پر کم ہوئی ہے۔
تحقیق کے مطابق، ڈیجیٹل دنیا کی بناوٹ ایسی ہے کہ بچے اور نوجوان زیادہ تر وقت آسان تفریح میں مصروف رہتے ہیں، جس میں ان کے ذہن کا تخلیقی حصہ کم استعمال ہوتا ہے۔ پزل گیمز اور کتابیں پڑھنے کی جگہ سوشل میڈیا، ویڈیوز اور موبائل گیمز بچوں کو فوری تفریح فراہم کرتے ہیں، جس سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہورہی ہیں۔
اسی طرح سوشل میڈیا کا مسلسل استعمال بچوں کو مختلف تخلیقی سرگرمیوں سے دور کردیتا ہے، جیسے کہ مصوری، لکھائی اور کھیل کود۔ وہ معلومات کو ہضم کرنے کے بجائے جلد بازی میں آگے بڑھنے کے عادی ہوجاتے ہیں، جس سے ان کی غور وفکر، سوچنے اور نئے آئیڈیاز پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا کی حکومت کا مؤقف ہے کہ بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھ کر ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔ لیکن اس پابندی کے نفاذ کے طریقے پر ابھی کئی سوالات باقی ہیں۔ مثلاً، حکومت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ کیسے کام کرے گی؟ کیا پلیٹ فارمز بچوں کے اکاؤنٹس کو مؤثر طریقے سے محدود کرپائیں گے؟ ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے برطانیہ کی مثال دی جا سکتی ہے، جہاں پہلے سے ہی بچوں کے لیے مخصوص قوانین بنائے گئے ہیں، لیکن ان کی کامیابی ابھی واضح نہیں ہے۔
ماہرین کی رائے اس معاملے پر تقسیم ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ بچوں کو مکمل طور پر سوشل میڈیا سے دور رکھنا ان کی سماجی ترقی کو متاثر کرسکتا ہے۔ ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے جس سے بچے نہ صرف معلومات حاصل کرتے ہیں بلکہ معاشرتی رابطے بھی قائم کرتے ہیں۔ پابندی کے باعث سماجی تنہائی اور ٹیکنالوجی سے ناواقفیت جیسے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
دوسری طرف کچھ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے نقصانات بچوں کی نفسیاتی اور جسمانی صحت کے زیادہ بڑے مسائل ہیں۔ اس لیے انہیں محدود کرکے ذہنی سکون اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا مستقل زیادہ استعمال بچوں کی توجہ اور ذہنی نشوونما کو متاثر کرتا ہے، جس سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں کم ہوجاتی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پابندی کا نفاذ ایک اہم مسئلہ ہے۔ بچوں کو جعلی اکاؤنٹس بنانے سے کیسے روکا جائے گا؟ کیا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پابندیوں کو مؤثر طریقے سے نافذ کر پائیں گے؟ ان سوالات کے جواب میں والدین اور تعلیمی اداروں کا کردار اہم ہوجاتا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کی نگرانی کرنی ہوگی اور تعلیمی اداروں کو بچوں کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تعلیم دینی ہوگی تاکہ وہ ذمہ دارانہ انداز میں ان پلیٹ فارمز کا استعمال کرسکیں۔
وطنِ عزیز میں بھی یہ مسئلہ اہم ہے، لیکن یہاں سیاسی، سماجی تنقیدوں اور مواد پر تو پابندیاں لگانے کا سوچا جاتا ہے، فائر وال کا شور اسی پس منظر میں ہے، لیکن سماج میں بھری ہوئی گندگی سے اپنی نسل کو کس طرح بچانا ہے اس پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ جن ملکوں میں یہ قوانین بنائے جاچکے ہیں وہ بہت جدید اور سیکولر ہونے کے باوجود اپنے بچوں اور ان کے مستقبل کے لیے کسی نہ کسی حوالے سے پریشان ہیں، لیکن ہم ایسا کچھ سوچتے بھی نہیں ہیں۔ شاید زوال پذیر قوموں کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ ان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ قومیں اپنے لیے فیصلے کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوجاتی ہیں۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی، اس حوالے سے اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کسی کو تو سوچنا ہوگا۔