روہیل کھنڈ کے غازی نواب حافظ الملک حافظ رحمت خاں اور نواب شجاع الدولہ کے دو نامور و اعلیٰ خاندانوں کے اتحاد اتصال نے بخت خاں کو جنم دیا۔ ان کے والد عبداللہ خاں حافظ الملک کے پرعظمت گھرانے کے اعلیٰ فرد تھے اور ان کی والدہ نواب شجاع الدولہ کے خاندان کی اولولعزم خاتون تھیں جنہوں نے بخت خاں کو بچپن سے گہوارۂ شجاعت میں پرورش کرکے ملک کا نامور سپوت بنایا۔
…٭…
جنرل بخت خاں کی ابتدائی تعلیم لائق والدین نے اس عہد کے دستور کے مطابق نہایت معقول انداز میں مکمل کی۔ علوم متداولہ کے علاوہ فون سپہ گری میں خاصی دستگاہ حاصل کی، اعلیٰ تربیت حاصل کرنے کے بعد انگریزی فوج میں ملازم ہوکر جلد ترقی کے منازل طے کیے اور ممتاز عہدہ پر فائز ہوئے اور توپ خانے کے افسر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ دربار اودھ کی سرکار سے سلطان پور میں جاگیر بھی ملی تھی لیکن اس کی محدود آمدنی خاندان کے وسیع اخراجات کے لیے ناکافی تھی، بخت خاں عیش و آرام کا دلدادہ نہ تھا اس لیے وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھا اور عزم و ہمت سے قدم بڑھا کر جاہ و منصب اور سکون فراغت کے سامان مہیا کرنے میں کامیاب ہوا۔
انگریزوں پر، بخت خاں کی دانائی اور غیرمعمولی شجاعت کی بڑی دھاک تھی۔ حضرت شاہ سید احمد شہیدؒ کی تحریک انقلاب کے معتقد اور اپنے عہد کے انقلابی علما کا پیرو تھا، ان کے دل ہندوستان کی پست حالی، مسلمانوں کی بربادی اور قوم کی بے کیفی کو دیکھ کر مغموم تھا اور ملک کی بیداری کے منصوبے سوچنے میں مصروف، بہادرانہ عزم و ہمت سے نبرد آزمائی کے مواقع تلاش کرتا تھا۔ بخت خاں کی دانائی اور غیرمعمولی شجاعت کی انگریزوں پر بڑی دھاک تھی۔
۱۸۵۷ء سے پہلے وہ افغانستان میں انگریزی توپ خانے کے افسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور وہیں سے صوبیدار مقرر ہوکر نیمچ چھائونی میں تعینات ہوکر آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ ملک میں عام بے چینی، بے اطمینانی اور سیاسی اضطراب پیدا ہوچکا تھا۔ بخت خاں بریلی کے روہیلہ خاندان کا چشم و چراغ اور اپنے اہل خاندان کے عقائد کا دل سے پیرو تھا۔ جب ۱۸۵۷ء میں ہندوستان میں جنگ آزادی کا آغاز ہوا بخت خاں نے انگریزوں کی ملازمت سے سبکدوشی اختیار کی اور بریلی آکر اپنے خاندان کے ایک سربرآوردہ نواب بہادر خاں کی خدمت میں پہنچا، مناسب مشورے کے بعد میدان جنگ میں کود پڑنے کو آمادہ ہوگیا۔ روہیلہ سواروں کا ایک دستہ لے کر بریلی سے روانہ ہوا اور ملکہ حضرت محل کی رہنمائی میں اودھ کی جدوجہد میں شریک ہوکر سرفروشانہ کارنامے انجام دیئے۔
تمام مقتدر علماء کو بخت خاں کی شجاعت و دیانت پر مکمل بھروسہ تھا۔ اب وہ سردار بخت خاں کے نام سے مشہور تھا اور ایک طرف علما مجاہدین کے گروہ کی قیادت کرتا نظر آتا تھا اور دوسری طرف جانباز لشکر آزادی کی سرکردگی کرتے ہوئے سامراجی قوتوں سے نبردآزما تھا۔ علما کی جماعت کو بخت خاں پر بیحد اعتماد تھا اور تمام مقتدر رہنما اس کی قوت ایمانی، جوش عمل اور دیانت و شجاعت پر بھروسہ رکھتے تھے۔ ان میں ٹونک کے علما، ہانسی، حصار، جے پور، بھوپال کی ریاستوں کے علاوہ آگرہ کے رہنمایان ملک کی جماعتیں شریک جہاد تھیں اور بخت خاں کو اپنا سرگروہ مانتی تھیں۔ اودھ کا نقشہ ملکہ حضرت محل اور مولوی احمد اللہ شاہ نے ایسا درست کیا تھا کہ وہاں مجاہدین کو فتح یابی کی امیدیں ہونے لگی تھیں۔ مگر دہلی میں جو ہنگامہ کارزار گرم ہوا اس کی حالت قابل اطمینان نظر نہ آتی تھی۔ میرٹھ اور دوسرے اضلاع سے آزاد افواج دہلی آکر جمع ہوگئی تھیں، مگر بادشاہ ضعیف العمر اور غدار قوتوں کے ہاتھوں مجبور برسرمیدان نبردآزمائی کے ناقابل تھے۔ مرزا مغل ناتجربہ کار اور شہزادہ جواں بخت کمسن، دوسرے شہزادے عیش و عشرت کے متوالے اور غداروں سے سازباز کی بدولت انگریزوں کے ہوا خواہ تھے اس لیے آزاد لشکر کی قیادت کے لیے کوئی معقول ہستی موجود نہ تھی۔ یہ بے سردار کی فوج منتشر ہوکر کچھ عرصہ جدال و قتال میں مصروف رہی مگر انگریزی فوج کی حکمت اور جنگی چالوں کا مقابلہ نہ کرسکی۔ بخت خاں نے سوچا کہ دہلی کے محاذ کو سنبھالنا بہت ضروری ہے اور وہ مقام پایہ تخت ہونے کے لحاظ سے بھی اس مہم میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ بخت خان دہلی پہن چکر بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی خدمات پیش کرکے احکام شاہی کا طلب گار ہوا۔ اس وقت آزاد فوج نے خاصی دھاک بٹھائی تھی اور انگریزوں پر عافیت تنگ تھی۔
انگریزوں کا خاص پٹھو اور مخبر مرزا الٰہی بخش، بادشاہ کو بخت خاں کے خلاف مسلسل ورغلاتا رہا۔ مرزا الٰہی بخش خاں انگریزوں کا خاص پٹھو، یا قلعہ معلی کی مخبری او غازیوں کی سرگرمیوں کی خبررسانی پر متعین ایک گہری سازش میں مصروف تھا۔ اس نے بادشاہ کو طرح طرح سے ورغلایا اور بخت خاں کی نسبت نامناسب کلمات ادا کرکے بتایا کہ یہ نہایت عیار پست خاندان شخص ہے۔ جاہ و دولت کے لالچ میں شہر شہر گھومتا اور لوٹ مار کرتا پھرتا ہے۔ ابھی اپنے محسنوں انگریزوں کی ملازمت ترک کرکے ان کے خلاف جنگ کرنے کھڑا ہوا ہے۔ آج آپ کی خیرخواہی اور سلطنت مغلیہ کی وفاداری کا دم بھرتا ہے، کل باغیوں کی فتح کے بعد بادشاہت و حکومت کے خواب دیکھے گا اور مغل سطوت کے چراغ پر پھونک مارنے کی کوشش کرے گا ساتھ ہی مرزا قویاش کو بخت خاں کی طرف سے بہکا کر دشمنی پر آمادہ کیا انگریز حکام اور افسروں کو اس کی سرگرمیوں سے آگاہ کرکے اپنی نیک نامی اور سرخروئی میں اضافہ کرتا رہا۔ اس عرصہ میں بخت خاں سے دربار مغلیہ بہ چشم غور دیکھ کر سازش اور فریب کاریوں کو بھانپ لیا اور شہزادہ بخت کو ہونہار پاکر اس کی معرفت ملکہ زینت محل کے ذریعہ بادشاہ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ بادشاہ پر تھوڑی بہت حقیقت پہلے ہی ظاہر تھی، اب وہ اور بھی خبردار ہوئے۔ بخت خاں کو آزاد فوج کا سپہ سالار مقرر کرکے جنرل کا خطاب بخشا اور اب جنرل بخت خاں نے از سر نو لشکر کی تنظیم شروع کرکے تمام مورچے سنبھالے اور جگہ مناسب انتظام کرکے انگریزی فوجوں کے مقابل نبرد آزمائی شروع کردی۔ کچھ ہی عرصے بعد بادشاہ سلامت اور مجاہدین جنرل بخت خاں کی عقل و حکمت اور تہور و شجاعت پر کامل اعتماد کرکے اس کی قیادت کا لوہا ماننے لگے چارلس بال، بخت خاں کی عزم و عمل کا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے۔
’’جنرل بخت خاں کی سرکردگی میں دشمن نے ہر سڑک پر ایک ایک انچ کے لیے جنگ کی اور بڑے استقلال کے ساتھ ہر ہر مقام پر قبضہ کیا۔‘‘
مرزا مغل کو جنرل بخت خاں کے ساتھ اعلیٰ اختیارات کا مالک بنانے سے جیتی ہوئی جنگ ہار میں تبدیل ہونے لگی۔ جنگ کی بساط کا نقشہ جنرل بخت خاں نے فتح و کامرانی کے رخ پر موڑ لیا اور شہر پر آزاد لشکریوں کا قبضہ ہونے لگا۔ انگریزی حکمت عملی بے چارگی سے دم توڑتی نظر آنے لگی۔ اب ضرورت اس بات کی تھی کہ کل اختیارات ایک معتمد مدبر و سپہ سالار کے ہاتھ میں ہوں اور تمام فوجی انتظامات کی انجام دہی میں یکسوئی کے ساتھ ایک حکم کی کارفرمائی ہو لیکن مرزا مغل کو مرزا الٰہی بخش نے پھر بہکایا اور انہوں نے بادشاہ سلامت سے ضد کرکے فوج کے اختیارات میں حصہ لینے کی کوشش کی۔ چنانچہ جنرل بخت خاں کے ساتھ شہزادہ کو بھی اعلیٰ اختیار کا مالک بنادیا گیا اور اب ہر معاملے میں بخت خاں کے کام میں مداخلت ہونے لگی۔ مرزا مغل جنگ آزمودہ نہ تھے، ان کی بے جا دخل اندازی سے قدم قدم پر رخنے پڑنے لگے، نتیجہ یہ ہوا کہ جیتی ہوئی جنگ کا نقشہ بگڑتا نظر آنے لگا، بخت خاں نے ہر چند حالات درست کرنے کی کوشش کی مگر اس کی پیش نہ گئی، جاسوس اور مخبر اپنی سازشوں میں مصروف تھے بخت خاں غم و غصہ اور رنج و ناکامی کی شدت سے بے تاب و بے حال تھا۔ اس کو ایک محاذ سنبھالنا پڑا بلکہ ایک طرف دشمن کے منظم مورچوں اور ان کی جنگ آزمودہ حکمت علمی کا سرتوڑ مقابلہ، دوسری طرف غداروں کی ذلیل سازشوں کی کش مکش اور ان سب کے ساتھ قیادت کی دوعملی۔ ان متضاد معرکہ آرائیوں میں گرفتار برسرپیکار ہونا اور کامرانی کا منہ دیکھنا دشوار ہوگیا۔ اندرونی خلفشار اور کشاکش کا مقابلہ زیادہ مشکل تھا۔
بادشاہ نے جنرل بخت خاں کی اودھ میں بیٹھ کر جنگ لڑنے کی تجویز رد کردی۔ بخت خان کی معیت میں دس ہزار سواروں کی جمعیت تھی، اس نے پانسہ پلٹتا دیکھ کر دہلی سے نکل جانے کی ٹھانی اور سوچا کہ کہیں دور بیٹھ کر لشکر کی تنظیم و توسیع کے بعد اغیار کا سامنا کرنا مناسب ہوگا۔ لہٰذا اس نے بادشاہ کی خدمت میں درخواست کی کہ ’’حضور دہلی سے روانہ ہوکر میرے لشکر کی حفاظت میں کہیں تشریف لے چلیں ہم اودھ پہنچ کر اس محاذ کو سنبھالیں گے اور ادھر سے فارغ ہونے کے ساتھ اپنی قوت کو مجتمع کرکے ایک بار انگریزوں کے دانت کھٹے کرنے پھر دہلی آئیں گے ورنہ اب آپ کا دہلی میں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ یہاں سازشیں ہورہی ہیں اور اغیار کی طاقت نے جو اقتدار حاصل کیا ہے وہ حضور کے تحفظ اور بقائے جاہ و دولت کے خلاف درپے آزار ہے۔‘‘
بادشاہ سلامت نے اپنی ضعیفی اور شہزادوں اور محلات کی تنہائی کی پریشانی کا اظہار کیا۔ بخت خان نے تمام نشیب و فراز سمجھا کر اصرار کیا کہ حضور معہ شہزادگان آرام و حفاظت سے تشریف لے جاسکتے ہیں۔ حضور کے نام پر ہم کہیں بھی بیٹھ کر دشمنوں سے مدتوں جنگ کرسکتے ہیں مغلیہ پرچم تلے ایک دفعہ سارے ملک کو اکٹھا کرکے غنیم کو ملک بدر کرنے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ بادشاہ نیم راضی تھے کہ مرزا الٰہی بخش کو اپنا پانسہ الٹتا نظر آیا اور اس نے کمال عیاری سے بادشاہ کو ورغلانا شروع کیا کہ بخت خاں حضور کا وفادار نہیں وہ خاندانی نمک حرام ہے۔ حضور کے نام سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، حضور کی موجودگی دارالسلطنت میں ضروری ہے ہم حالات کو جلد درست کرلیں گے اور انگریز ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے لیکن بخت خاں کے ساتھ جانے سے حضور کو تکلیفیں ہوں گی اور اس طرح دربدر پھرنا مغلیہ تاجدار کی عظمت و شان اور وقار کے منافی ہے۔
بخت خاں مرزا کی اس گفتگو سے سخت برہم ہوا اور اپنی شان میں نامناسب الفاظ سن کر تلوار کھینچ کر آگے بڑھا، بادشاہ نے مداخلت کی اور اس کو روکا۔ بادشاہ مسافت کی اذیت سے خود بھی بچنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے معذرت ہی مناسب سمجھی اور فرمایا آپس میں اس قسم کی مخالفت مناسب نہیں، مرزا الٰہی بخش تمہارے دشمن نہیں، پریشانی میں ایسے کلمات ان کی زبان سے نکل گئے ہوں گے ان سے درگزر کرو، میرے سامنے خوں ریزی پر آمادہ نہ ہو، میں فقیر منش انسان ہوں مجھے کنج عزلت میں پڑا رہنے دو۔ بزرگوں کی عظمت رفتہ کو انہیں کے یادگار کے گوشوں میں بیٹھا یاد کرتا رہوں گا۔ خدائے بزرگ و برتر اس ملک اور میری وفادار رعایا کی حفاظت کرے اور تمہارے نیک عزائم میں برکت دے۔
بخت خاں آبدیدہ تھا وہ بے بس ہوگیا، اس کا جی نہ چاہتا تھا کہ مغل عظمت و سطوت کی اس آخری یادگار کو اس مجبوری و بے کسی کی حالت میں چھوڑ کر اس طرح چلا جائے اس کو بادشاہ اور تخت و تاج کا انجام صاف نظر آرہا ہے۔ بخت خاں کے جانے کے بعد بادشاہ اور شاہی خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔
بخت خاں چلا گیا، میگزین ختم ہوچکا تھا، بادشاہ قلعہ معلی سے رخصت ہوکر غدار مرزا کی صلاح پر ہمایوں کے مقبرے چلے گئے ان کے ہمراہ ملکہ زینت محل اور تاج محل اور مرزا مغل شہزادہ جواں بخت جو اب ولی عہد تھے اور چند دیگر شہزادگاہ اور شہزادیاں بھی تھیں یہاں پہنچ کر بادشاہ پر اور ان کے اہل خاندان پر جو قیامت بپا ہوئی وہ ظاہر ہے۔ میجر ہڈسن انگریزی دستہ کے ساتھ مقبرہ پہنچ گیا، شہزادوں میں مرزا مغل کو میجر ہڈسن نے گولی کا نشانہ بنایا پھر ان کی گردن تلوار سے جدا کرکے دو دو چلو خون پیا اور اپنے انتقام کی پیاس بجھا کر شہزادہ کا سر بادشاہ سلامت کے سامنے پیش کرکے کہا کہ ’’یہ آپ کی نذر ہے‘‘۔ جو کچھ عرصہ سے بند تھی، بادشاہ کی رگوں میں تیموری جوش تھا، رنج و غم سے دل بیٹھا جاتا تھا، مگر کمال ضبط سے کام لیکر عزت و وقار خاندانی کو قائم رکھا اور فرمایا:
’’الحمدللہ تیموری شہزادے نے باپ کو سرخرو ہوکر صورت دکھائی ہے اور خاندانی عزت و ناموس کو برقرار رکھا ہے‘‘
انگریزوں کو بادشاہ اور شہزادوں کی نااہلی اور غدارانِ وطن کے طفیل فتح حاصل ہوئی۔ اس کے بعد فتحیاب اہل فرنگ کے جورو ظلم کا طوفان برپا ہوا۔ یہ فتح ان کو ان غداران وطن کے طفیل نصیب ہوئی جنہوں نے انسانیت کی شہ رگ پر کمینگی اور بزدلی سے چھریاں چلائیں اور بخت خاں اور ان کی جمعیت کے احرار مجاہدین اور دوسرے رہنمایان تحریک کے نام نامی تا قیامت فخر و مباہات سے لیے جاتے رہیں گے۔ گو بخت خاں دہلی سے روانہ ہوکر اودھ ہوتا ہوا کسی ایسے مقام پر چلا گیا جہاں سے اس کا نشان بھی کسی کو پھر نہ ملا، گمان غالب ہے کہ دلی کی بے وقعت غیرمتوقع شکست اور انگریز کی نامبارک کامرانی نے اس کا دل توڑ دیا اور مغل عظمت کی تباہی دیکھنے کی تاب نہ لاکر اس نے قبائلی آزاد علاقہ کی پہاڑیوں میں منہ چھپالیا اس کے بعد کسی نے نہ اس کا نام سنا اور نہ نشان پایا۔
محاصرۂ دہلی کی کامرانی کا سہرا یقینا بخت خاں کے سر ہوتا مگر قسمت نے یاوری نہ کی اور منشی ذکاء اللہ کو زمانہ کی اس ناگاری کے سبب اس اقبال مند بہادر سپاہی کو کم بخت خاں کے نام سے یاد کرنے کا موقع مل گیا۔
۹جولائی ۱۸۵۷ء کو جس دن جنرل بخت خاں نے دس ہزار کی جمعیت سے انگریزی فوج پر حملہ کرکے تیس ہزاری میدان پر قبضہ کیا اور گھوڑے ہتھیار اور سامان رسد چھینا اس روز کی شان بخت خاں کی شان فیروزی کا حال خود منشی ذکاء اللہ کی ’’تاریخ انگلشیہ‘‘ میں اس طرح درج ہوا ہے۔
۲۹جولائی کے دربار میں جنرل بخت خاں بادشاہ کا قائم مقام ہوکر آیا۔ بادشاہ نے ساری سپاہ اور شہر پر نیم بادشاہ بنادیا جنرل نے کمانڈر انچیف کی نقل اتاری۔ آج میگزین دیکھتا ہے اس میں بالترتیب سامان رکھنے کی ہدایت کرتا ہے لال ڈگی اور جامع مسجد کے درمیان ہزاروں فوج کی پریڈ لی۔ نمک اور شکر پر جو محصول تھا وہ معاف کردیا تاکہ غربا کو تکلیف نہ ہو‘‘۔آگے چل کر فرماتے ہیں، نیز یہ بھی کہا کہ شہزادہ شہر کو لوٹے گا، میں اس کی ناک کٹوادوں گا۔