تحریک ختم نبوت 1974

41

نصف صدی قبل مسئلہ قادیانی پر قومی اخبارات کے کردار کا جائزہ

عہد جدید ہو یاقدیم اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ معاشرے کی تعمیروترقی اور سمت کے تعین سمیت رائے عامہ کو ہمواراورلوگوں کی ذہن سازی نیز قومی ہم آہنگی میں ذرائع ابلاغ کاکردار نہایت ہی اہمیت کاحامل ہوتاہے۔اگر ذرائع ابلاغ کاکردارمثبت ،تعمیری، مذہب، ثقافت،ضروریات (Needs) اور قومی امنگوں کے عین مطابق میرٹ پر ہوتوملک وقوم نہ صرف بڑے سے بڑے مسائل سے بحسن خوبی نبردآزماہوسکتی ہے بلکہ انتہائی اْلجھی ہوئی گتھی بھی باہم اتفاق رائے سے سْلجھائی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے حوالے سے 70ء اور80ء کی دہائی کو اخبارات کا عہد زریں کہیں تو بے جانہ ہوگا۔یہی وہ زمانہ ہے (1974ء )جب ملک میں فیصلہ کن تحریک ختم نبوت چلی اورکامیاب ہوئی۔ اس تحریک کے حوالے سے قومی سطح کے اخبارات کی پالیسی کیاتھی؟ وہ اس تحریک کو کس نظرسے دیکھتے تھے؟ قومی اورمذہبی اعتبارسے اس اہم ترین قادیانی مسئلہ پر اس زمانے کی موثرترین میڈیا(اخبارات)کا کردارکیاتھا؟ یہ دیکھنے کے لیے روزنامہ جنگ کراچی ،نوائے وقت لاہور،ڈیلی ڈان کراچی،دی پاکستان ٹائمزکراچی، مشرق کراچی،امروزملتان،مساوات لاہور اورروزنامہ حریت کراچی میں تحریک کے دوران ختم نبوت کے حوالے سے شائع شدہ اداریوں کاتحقیقی جائز ہ لیا گیاہے۔ کیونکہ اخبارات خبریں تواپنی پالیسی کے برعکس شائع کردیتے ہیں لیکن ادارئیے کبھی بھی اپنی پالیسی کے برعکس تحریر نہیں کرتے۔ ادارئیے کسی بھی اخبارکی پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں۔اداریئے بتاتے ہیں کہ کسی بھی قومی یابین الاقوامی مسئلے پر مذکورہ اخبار کیا سوچتاہے۔ اس کا رویہ غیرجانبدارانہ ہے یا اس کا جھکائو کس طرف ہے؟ نصف صدی قبل اہم ترین مسئلہ قادیانی اورتحریک ختم نبوت پر قومی سطح کے اخبارات کے کردار کی نشاندہی زمانہ حال کے میڈیاگروپس کے لیے رہنمائی کا باعث ہوسکتی ہے۔

ربوہ ریلوے اسٹیشن پر29مئی بروزبدھ1974کو قادیانی لٹریچر تقسیم کرنے پراحتجاج اور عقیدہ ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگانے والے نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طالب علموں کو قادیانیوں نے وحشیانہ تشدد کا نشان بنایا۔یہ واقعہ جو’’سانحہ ربوہ “کے نام سے مشہورہے ملک گیرتحریک ختم نبوت 1974کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔سانحہ ربوہ کے پورے ایک سوگیارہ 111دن بعد 07س تمبر1974کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوان قومی اسمبلی اورسینیٹ نے متفقہ طور نبوت کے دعویدارمرزاغلام احمد قادیانی کے پیروکاروں قادیانی اورلاہوری گروپ کودائرہ اسلام سے خارج کردیا۔ ذیل میں تحریک ختم نبوت کے ایک سوگیارہ دن کے دوران روزنامہ جنگ،نوائے وقت،ڈیلی ڈان،دی پاکستان ٹائمز، مشرق،امروز،مساوات اورروزنامہ حریت کے چیدہ چیدہ اداریوں سے اقتباسات نذرقارئین ہیں۔

قومی اخبارات نے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر مرزائیوں کے مسلمان طلباء پروحشیانہ تشددکے باوجود عوام کوصبروتحمل ،اشتعال انگیزی اورقانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کا درس دےکرقوم کی درست سمت میں رہنمائی کی۔

سانحہ ربوہ کے تیسرے روز 31مئی 1974ء کو نوائے وقت اپنے اداریہ ’’ربوہ کا خطرناک حادثہ‘‘ کے عنوان سے لکھتاہے:

’’ہم مسلمانوں سے اپیل کریں گے کہ آپ بڑی سے بڑی زیادتیاں برداشت کرتے آئے ہیں۔لہٰذااس ناز ک مرحلہ پر صبروضبط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔قا نون کو ہاتھ میں نہ لیں کیونکہ کسی مسئلے کو تشدد یاطاقت سے حل نہیں کیاجاسکتانیز حکومتی اقدامات کو سرہاتے ہوئے لکھاکہ حکومت نے حادثے کا سنجیدگی سے نوٹس لیاہے اس کی ساری مشینری حرکت میں آئی ہوئی ہے۔ہمیں قانون کی حکمرانی کا انتظارکرناچاہیے‘‘۔

روزنامہ جنگ کراچی نے قادیانی مسئلے پر پوری قوم سمیت سیاسی اور بالخصوص مذہبی رہنماؤں کو آنکھیں اورکان کھلے رکھنے کامشورہ دیتے ہوئے 6جون 1974ء کواپنے اداریہ میں بہ عنوان ’’وزیراعظم کا مشورہ‘‘میں لکھا کہ:

’’سانحہ ربو ہ اوراس کے بعد پیش آنے والے دیگرواقعات کی سنگینی سے کوئی فرد انکارنہیں کرسکتا۔تاہم سانحہ ربوہ پر عدالتی تحقیقات جاری ہیں لہٰذ اقوم کو قانون ہاتھ میں لینے سے گریز کرناچاہیے ورنہ عدالتی تحقیقا ت کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم نے ربوہ کے واقعہ پر جو موقف اپنایاہے وہ ملک وقوم کے وسیع ترمفاد میں ہے اس سے بیرون ملک پاکستان کے وقارمیں اضافہ ہوگا ‘‘۔

روزنامہ مشرق کراچی 31مئی1974کے اداریئے میں’’افسوسناک اورقابل مذمت‘‘عنوان سے تحریرکرتاہے کہ ’’ربوہ ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج کے طالب علموں پرمقامی لوگوں کا حملہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔اس واقعہ کی جوتفصیلات منظر عام پر آئی ہیںاس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ حملہ کسی وقتی اشتعال کا نتیجہ نہیں تھابلکہ اس کی پہلے سے تیاری کی گئی تھی ،حملہ آورمسلح تھے ۔یہ ایک ایساواقعہ تھاجس پر کسی تاخیر کے بغیر سخت کارروائی کی ضرورت تھی اوربلاشبہ یہ ایک اطمینان بخش امر ہے کہ شرپسندوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

روزنامہ امروزملتان اپنی 31مئی1974 کی اشاعت میں بہ عنوان ’’افسوسناک‘‘میں لکھتاہے کہ’’ربوہ ریلوے اسٹیشن پر جوافسوسناک واقعہ پیش آیاہے اس کی مذمت کرناہرشہری کے لیے لازم ہے،فریقین اس امر کے احساس سے عاری ہیں کہ گروہی علاقائی اورفرقہ وارانہ عصبیت پھیلانے والے ملک کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔محب وطن اورباشعورشہریوں کا فرض ہے کہ وہ اصلاح احوال کی کوششوں میں انتظامیہ کا ہاتھ بٹائیں۔ہرشہری اپنی ذمہ داری محسوس کرے اورحکومت کے لیے پرسکون حالات میں ربوہ کے انتہائی قابل مذمت واقعہ کے ذمہ دارافراد کو کیفرکردارتک پہنچانے کا موقع دے۔‘‘

روزنامہ مساوات لاہور یکم جون1974کے اداریہ’’فرقہ وارانہ فساد کیوں؟‘‘ میں قلمبند کرتاہے کہ ’’ربوہ ریلو ے اسٹیشن پرجوواقعات ہوئے کوئی باشعورشخص یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتاکہ ریلوے کے مسافرطلباء پر حملہ سوچی سمجھی اسکیم کے بغیرہواتھا۔بلکہ یہ حقیقت واضح ہے کہ ربوہ کی تمام آبادی ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھتی ہے اورریلوے اسٹیشن پر ہنگامہ سیاسی محرکات کے بغیر ممکن نہیں۔حکومت کو فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے افراد کا محاسبہ کرناچاہئے تاکہ فرقہ وارانہ زہر معاشرے میں نہ پھیلے اس زہر سے معاشرے کو محفوظ کرناحکومت کااولین فرض ہے‘‘

Editorial of The Pakistan Times, Karachi, published on July 2, 1974

As promised to the nation by Prime Minister Bhutto, the National Assembly has taken up the Qadiani issue immediately after completing the business related to the Budget. A decisive process to permanently resolve the 80-year-old controversy has now begun, and by any reckoning, it is a fair and legitimate process. Moreover, any public agitation at this stage would only harm the national image, distract the common people from their productive pursuits, and even vitiate the climate of amity necessary for the committee to fulfill its delicate assignment.

قادیانیوں کے مصائب کا ادراک کرتے ہوئے ان کے خلاف سماجی بائیکاٹ کی اطلاع پرقومی اخبارات خاموش نہیں رہے بلکہ احمدیوںکے سماجی حقوق کے لیے بھرپوراندازمیں آواز اٹھائی۔

نوائے وقت ’’ قادیانی مقاطعہ‘‘ کے عنوان سے اپنے اداریہ میں 13جولائی 1974ء کو تحریرکرتاہے :

’’اگرکسی جگہ قادیانیوں کامقاطعہ یاسماجی بائیکاٹ ہورہاہے تواسے کسی حد تک ختم کردیناچاہیے۔جبکہ وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکہہ چکے ہیں کہ احمدی بھی پاکستان کے شہری ہیں اوراس مسئلے کافیصلہ ہوجانے کے بعد بھی وہ پاکستان کے شہری رہیں گے۔شہریوں کے کسی طبقے کو ضروریات زندگی سے محروم کرنا اچھانہیں بلکہ نامناسب عمل ہے ‘‘۔

روزنامہ جنگ نے قادیانیوں کے مسائل پربھی قلم اْٹھایا۔اخبار ’’ایسامت کیجئے‘‘ کہ عنوان سے اداریہ(15جولائی1974ء) میں لکھتاہے کہ’’یہ کس قدرافسوس کی بات ہے کہ اسلامی تعلیمات وروایات کونظراندازکرکے ایک طبقہ کے لیے سماجی بائیکاٹ کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ ایساکرنے والے نہ صرف یہ کہ اس ملک کے بہی خواہ نہیں بلکہ وہ اسلام کی غلط نمائندگی کرکے دنیاکو اسلام سے برگشتہ اورمسلمانوں سے بدظن کرنے کے جرم کا مرتکب ہورہے ہیں۔کیاہم پاکستان کوایساملک کہلاناپسند کرینگے جہاں لوگ انسانی اخلاقیات سے بھی آشنانہیں ہیں‘‘۔

روزنامہ مشرق کراچی19جولائی 1974کواپنے ادارتی نوٹ میں’’سوشل بائیکاٹ سے گریزکیاجائے‘‘میں تحریر کرتاہے کہ’’پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اوراسلامی اصولوں کاعلم برداربھی، اس لیے یہاں ہر معاملے میں اسلامی اُصولوں اورجمہوری تقاضوں کو پیش نظررکھناضروری ہے۔پاکستان میں تمام اقلیتیں اکثریت کی ذمہ داریوں میں ہیں۔پاکستان کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس کی تمام اقلیتیں سکون واطمینان سے مساویانہ زندگی بسرکررہی ہیںیہ ہماراقومی امتیاز ہے جسے برقراررکھناضروری ہے‘‘

نوائے وقت نے عالمی مطبوعہ ذرائع ابلاغ مثلاسعودی اخبارات میں مسئلہ قادیانی پرشائع شدہ تحریروں کااردو ترجمہ بھی شامل اشاعت کیا۔تاکہ پاکستانی عوام اورحکمراں جان سکیں کہ دنیائے اسلام خاص کر مکہ مکرمہ میں بسنے والے مسلمان مرزائیت کے بارے میں کیاسوچتے ہیں۔اسی مناسبت سے نوائے وقت میں 24جون 1974کے شمارے میں مکہ مکرمہ سے شائع ہونے والے اخبار’’العالم‘‘کے ادارے میں لکھاہے۔

’’یہ فرقہ درحقیقت اسلام کے خلاف ایک منظم تحریک ہے جو مرزاغلام احمد کو نبی مانتاہے اوردنیاکے اندرفسادپھیلارہاہے،اسلام کے اْصول وحقائق کو مسخ کررہاہے اوراپنی افتراپردازیوں کے ذریعہ مسلمان عوام کو گمراہ کررہاہے“۔

نوائے وقت 10جون 1974ء کے اداریئے میں لکھتاہے کہ ’’ہمیں (نوائے وقت کو)قادیانیوں کے لاہوری فرقے کے بزرگوں کے خطوط اورٹیلی فون موصول ہوئے ہیں جن میں انہوں نے کہاکہ ’’لاہوری گروپ قادیانی فرقہ سے الگ ہے ہم جناب مرزاغلام احمدقادیانی کو نبی نہیں صرف مجد د مانتے ہیں‘‘ جس پر نوائے وقت نے کہاکہ ’’ہمارے کالم حاضرہیں آپ جو کہناچاہتے ہیں لکھ بھیجیں شائع کردینگے،اشتہارچھپوائیں،پوسٹرچھپوائیں اوراپنے مسلک کا اعلان کریں مگر یہ بتائیں کہ جو شخص نبوت کا دعویدارہے اسے مجدد ماننا کہاں تک درست ہے‘‘۔

7ستمبر1974وہ تاریخی دن ہے جب قومی اسمبلی اورسینیٹ نے کثرت رائے سے مرزاغلام احمد قادیانی کے پیروکارقادیانی، لاہوری گروپ اورایسے تمام افرادکوجو کسی بھی معنوں میں نبی مکرم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی شخص کو نبی مانتاہو دائرہ اسلام سے خارج کردیا۔اس متفقہ فیصلے کو ملک کے تمام چھوٹے بڑے اخبارات نے نہ صرف سراہابلکہ اسے اسلام اورپاکستان سمیت دنیابھرکے مسلمانوں کے امنگوں کے عین مطابق قراردیا۔

روزنامہ مشرق کراچی8ستمبر1974کو اپنے اداریہ ’’ایک عظیم تاریخی فیصلہ‘‘ میں قلمبند کرتاہے کہ قومی اسمبلی نے قادیانی مسئلہ سواداعظم کی مرضی کے عین مطابق طے کردیاہے اورآئین میں ضروری ترمیم منظورکرلی ہے۔اس فیصلے نے پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کوایک نئی تقویت عطاکی ہے اورثابت کردیاہے کہ جمہوری طریقہ کارنیک نیتی کے ساتھ اختیارکیاجائے تو پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ بھی بڑی آسانی سے حل کیاجاسکتاہے۔اب حکومت کی ذمہ داریوں میں یہ ذمہ داری بھی شامل ہے کہ کسی تفریق یاامتیاز کے بغیر اپنے تمام شہریوں کی جان ومال کی مکمل حفاظت کا اہتمام کرے‘‘

روزنامہ نوائے وقت نے 9ستمبر1974کو’’ کی محمدسے وفاتُونے‘‘کے عنوان سے اداریہ تحریر کیا کہ ’’قادیانیوں اورلاہوری احمدیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردینے کے متفقہ فیصلہ پر قومی حلقوں میں جس مسرت واطمینان اورجوش وخروش کا اظہار کیاگیاہے،نیزوزیراعظم بھٹو،ارکان اسمبلی کو اس نہایت جرات مندانہ اورتاریخی فیصلہ پر تحسین وتہنیت کے ڈونگرے برسائے گئے ہیں وہ ناقابل فہم نہیں۔ اسلامیان پاکستان کو اپنی خواہشات کے مطابق اس مسئلہ کے حل پر واقعی خوشی ہوئی ہے اوریہ کوئی خوشامد نہیں،وزیراعظم واقعی مبارک باد کے مستحق ہیں۔بلاشبہ یہ مسئلہ(قادیانی)اسی نوے برس سے مسلمانوں کے لیے اذیت کا باعث بناہواتھا‘‘۔

روزنامہ امروزملتان قومی اسمبلی کے فیصلے پر اپنے اداریہ ’’تاریخی فیصلہ‘‘میں 9ستمبر1974کو لکھتاہے کہ’’پارلیمنٹ نے قادیانی مسئلے پر بحث ختم کردی ہے اورطے کردیاہے کہ جوشخص رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خداکا آخری نبی نہیں مانتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔یہ بہت بڑااورتاریخی فیصلہ ہے یہ عوام کے منتخب نمائندوں نے عوام کی خواہشات اورعقائد کے مطابق متفقہ طورپر ایک ایسا مسئلہ جو وجہ نزاع بناہواتھاحل کردیاہے‘‘

روزنامہ جنگ میں 10ستمبر1974ء کوشامل اشاعت اداریہ جس کا عنوان ’’جرات مندانہ اورصحیح فیصلہ ‘‘تھا میں لکھاہے کہ’’بلاشبہ یہ اللہ تعالی کا فضل وکرم اورعشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انعام ہے کہ پاکستانی قوم نوے 90سالہ پرانے قادیانی مسئلے کو انتہائی خوش اْسلوبی کے ساتھ حل کرنے کامیاب ہوگئی۔ دلی مسرت واطمینان کی بات یہ ہے کہ خداکی رہنمائی اورسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سہارے عوام کے منتخب نمائندے ایک دشوارمسئلے کے حل کے لیے واضح ،دوٹوک اوردوررس فیصلہ کرکے سرخروہوگئے۔‘‘

روزنامہ حریت ،کراچی10ستمبر1974کواداریہ تحریر کرتاہے جس میں ’’تاریخی فیصلہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ’’قومی اسمبلی نے تحفظ ختم نبوت کے معاملے میں اسلام کے بنیادی عقائدکو پیش نظررکھ کر پاکستان کی اساس کو مستحکم کیاہے اوراس کے لیے پاکستان کے عوام قومی اسمبلی کی برسراقتدارپارٹی اورحزب اختلاف ہی نہیں بلکہ ان جانثاران رسالت کے شکر گزارہیں جو گزشتہ نوے برس سے تحفظ ختم نبوت کی خاطربے مثال قربانیاں دیتے آئے ہیں‘‘

روزنامہ مساوات لاہور ’’جمہوریت کی تاریخی فتح‘‘ کے عنوان سے 9ستمبر1974کو تحریر کرتاہے کہ’’قومی اسمبلی اورسینیٹ نے متفقہ طورپر آئین میں ترامیم کا بل منظورکرلیاہے جس کی رُو سے منکرین ختم نبوت کو غیرمسلم اقلیت قراردیدیاگیاہے۔ہمیں قوی امید ہے کہ مسلمانوں کا ہرطبقہ قومی اسمبلی کے متفقہ فیصلے کے بعد اس بات کو ختم سمجھے گا اوراقلیتوں سے رواداری اورحسن سلوک کا ثبوت بہم پہنچائے گا کیوں کہ یہ نہ ٖصرف مسلمانوں کی پہچان ہے بلکہ اس سے جمہوریت کا استحکام وابستہ ہے‘‘

The Pakistan Times, Karachi, writes an editorial titled “Verdict on Ahmadis”on September 9, 1974

The latest constitutional amendment addressing the Ahmadiya issue has secured Mr. Bhutto an enduring place in history. It is a wholly representative and unanimous decision, arrived at through an impeccable constitutional process by the National Assembly. It is remarkable that the prolonged discussions proceeded without procrastination and were marked by free debate and a full sense of individual and collective responsibility.

According to the Editorial of Daily Dawn, Karachi, on September 10, 1974:

An old controversy, which posed a threat to public peace and tranquility and was not without elements of delicacy and complexity, has at last been resolved. The resolution of the Qadiani question by Parliament, in conformity with the sentiments and aspirations of the people of Pakistan, is a matter of historic significance. Leading Ulema, who had led the campaign to keep Qadianis out of the fold of Islam, have welcomed the decision whole-heartedly and called it significant not only in the history of Pakistan but also of Islam. It is now partly their responsibility to ensure that the Qadianis, who have now been declared a minority, are treated in the true spirit of Islam. The life, property, and honor of Qadianis are as much a sacred trust as the life and property of other minorities.

پاکستانی معاشرہ جہاں مسئلہ چھوٹاہویابڑا،قومی نوعیت کا ہویا صوبائی،مذہبی ہو یا لسانی اس کا حل جوئے شیرلانے کے مترادف ہوتاہے۔ لیکن 1974ء میں تقریبا ایک صدی پرانے قادیانی مسئلے کومحض تین ماہ اورنو دن میں آئینی طورپر ہمیشہ کے لیے حل کرلیاگیا۔جس کا کریڈٹ وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو،اراکین قومی اسمبلی وسینیٹ،سیاسی ومذہبی جماعتوں کے ساتھ 70کی دہائی میں قومی سطح کے اخبارات کو بھی جاتاہے کہ انہوں نے ایک اہم قومی اورمذہبی مسئلے پر کسی ڈرخوف یا دبائو ،ذاتی پسند نا پسند اورمفادات کو بالائے طاق رکھ کر قوم کی درست سمت میں رہنمائی کی۔ہم دیکھتے ہیں کہ اخبارات نے جہاں سانحہ ربوہ کی پرزورمذمت کی وہیں قادیانیوں کے سماجی بائیکاٹ کے خلاف بھرپورآوازبلند کی۔ایک طرف نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص کو نبی یارسول ماننے والوں کے دائرہ اسلام سے اخراج پر پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی،حکومت اوراپوزیشن کے کردارکو سراہا تودوسری جانب قادیانیوں اورلاہوری گروپ کی جان ومال اورعبادت گاہوں کے تحفظ اوربطوراقلیت انہیں تمام حقوق فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔لہذاہم کہہ سکتے ہیں تحریک ختم نبوت 1974ء کے دوران قومی سطح کے اخبارات کامطمع نظرمیرٹ تھا۔جو آج کے میڈیا گروپس کے لیے مشعل راہ ہے۔

حصہ