معاشرے کا جب صحت مندانہ ارتقا ہو رہا ہو تو اس کی ایک سمت ہوتی ہے اور مختلف تبدیلیوں کی نوعیت میں ایک ترتیب اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے، لیکن یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ پاکستانی معاشرے کی تبدیلیاں اس نوعیت کی نہیں ہیں۔ کیونکہ معاشرہ رفتہ رفتہ مزاجی ہم آہنگی کھو چکا ہے، اس لیے وہ متضاد سمتوں میں جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے میں تقسیم اور ٹکرائو کا عمل شدید ہوتا جائے گا۔
ابن خلدون نے اپنے ’مقدمہ تاریخ‘ میں لکھا تھا کہ ’’معاشرے کی وحدت ایک عصبیت کا نتیجہ ہوتی ہے، جو افرادِ معاشرہ میں مشترک ہوتی ہے۔ جب تک یہ عصبیت برقرار رہتی ہے ، معاشرہ اوراس کی ریاست قائم رہتی ہے۔ لیکن جب یہ کمزور تر ہوتی چلی جائے تو آخر شیرازہ بکھرنے کی نوبت آجاتی ہے‘‘۔
مسلم قومیت کا احساس : پاکستانی معاشرے اور ریاست کو وجود میں لانے کے لیے قوتِ محرکہ،مسلم قومیت کا احساس تھا،لیکن مسلم قومیت کی یہ بنیاد اِس وقت انتہائی کمزور حالت میں ہے۔ اس کی جگہ لسانی اور علاقائی عصبیتیں لے رہی ہیں۔ اگرچہ معاشرے میں فرقہ وارانہ عصبیت نے بھی اپنا اظہار کیا ہے، لیکن یہ افراد معاشرے میں عام نہیں ہیں۔
فرقہ وارانہ عصبیت: اگرچہ1982ء کے بعد فرقہ پرست تنظیمیں اور ان کے دہشت گرد ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے ہیں، لیکن ایک پاکستانی مسلمان کی سوچ پر فرقہ وارانہ رنگ غالب نہیں ہے۔ بلاشبہ ہر فرقے میں اس کی اپنی ایک عصبیت ضرور ہوتی ہے، لیکن سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی کسی فرقے کے افراد میں یہ عصبیت ایسی غالب نہیں ہے کہ عام فساد کی شکل اختیار کر جائے۔ درحقیقت فرقہ واریت کے یہ تمام خون آشام مناظر کسی فرقہ پرست عوامی لہر کی نمائندگی نہیں کرتے۔ یہ بعض انتہا پسند تنظیموں کی کارستانی تک محدود چلے آرہے ہیں اور ان خون آشام مناظر کو دیکھنے کے بعد عوام میں فرقہ واریت کے خلاف ہی ذہن پیدا ہوا ہے کہ مسجدوں، امام بارگاہوں کے فرش کو خون سے رنگین کر دینا کسی مسلک اور فرقے کی خدمت نہیں ہے اور ان واقعات نے فرقہ واریت کے خونی اورجنونی انداز کے خلاف ذہن پیدا کیا ہے۔ فرقہ پرست تنظیموں کے لیڈروں نے بھی سوچا ہے کہ اگر ایک دوسرے کے فرقے کے ممتاز افراد کے قتل کا سلسلہ جاری رہا، تو اس کی زد میں ہم بھی آسکتے ہیں۔
ان تنظیموں کو بہرحال انتظامیہ کی ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت شہ حاصل رہی ہے، جس کا آغاز عراق، ایران جنگ کے زمانے میں ہوا۔ پھر بعض مواقع پر دیوبندی بریلوی جھگڑے نے بعض گوشوں سے سر اٹھایا ہے، لیکن یہ ہنگامہ اور المیہ بھی عوام کے کسی موڈ کا نتیجہ نہیں۔ اس کے پیچھے سیاست ہو سکتی ہے یا بعض گروہوں کے جھگڑے کی بنیاد مساجد پر قبضہ کرنے تک محدود رہا ہے، مگر ان کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ یہ کوئی بڑا عوامی فساد پیدا کر سکیں۔ اگرچہ بھارت کی یہ مسلسل کوشش رہی ہے کہ پاکستان فرقہ وارانہ جنگ و جدل کا اکھاڑہ بن جائے۔ اس کے لیے اس کے ایجنٹ بھی کام کرتے ہیں، لیکن پاکستانی معاشرے میں فرقہ واریت محدود دائروں میں ہی ہے اور اس سے کسی جنگ و جدل کا اندیشہ نہیں ہے اور نہ لوگوں کا مزاج فرقہ وارانہ لڑائی کا ہے۔
لسانی عصبیتیں : مسلکی فرقہ وارانہ عصبیت کے مقابلے میں لسانی عصبیتیں مزاجوں پر حاوی نظر آتی ہیں اور ان عصبیتوں سے کوئی بھی لسانی گروہ خالی نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس جذبے اور احساس نے پاکستان بنایا تھا وہ ختم ہو رہا ہے، اور اس کے خاتمے کی کسی کو فکر بھی نہیں ہے۔ اس جذبے اور احساس کی جگہ کسی نہ کسی عصبیت کو لینا ہے اور حالات لسانی و علاقائی عصبیتوں کے لیے سازگار ہیں۔ سندھ، کراچی، بلوچستان، سرحد (خیبر) اور پنجاب کا سرائیکی علاقوں میں عصبیتوں کا اثر آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لسانی عصبیت کی حامل سیاسی جماعتوں سے قطع نظر خود اعلیٰ بیوروکریسی میںبھی اس کی بڑی مضبوط جڑیں قائم ہو چکی ہیں۔ کالا باغ ڈیم بنانے یا نہ بنانے کا مسئلہ ہو، پانی کی صوبوں میں تقسیم کا معاملہ ہو، یا صوبوں کے وسائل کے حق کا معاملہ ہو، ان سب امور کو عدل، فنی، پیشہ ورانہ یا میرٹ کی بنیادوں پر دیکھنے کے بجائے عصبیت کی عینک سے دیکھا جارہا ہے۔ ایک طرف تمام چھوٹے صوبوں کے عوام میں یہ بات متفق علیہ ہوگئی ہے کہ پنجاب ہم سے زیادتی کرتا رہا ہے اور مزید کر رہا ہے۔ دوسری طرف پنجاب کے عوام کا عام احساس یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کی بیوروکریسی اور ان کی سیاسی قیادت خواہ کسی جماعت کی ہو، اس کا رویہ عدم تعاون کا ہے اور یہ عدم تعاون، تعصب کی بنیاد پر ہے۔
ملک میں صحت مند سیاست اور قیادت کا غلبہ نہ ہونے کے سبب آئندہ اس لسانی عصبیت کے مزاج کے ترقی کرنے اور باہم متصادم ہونے کے امکانات ہیں۔ چونکہ ملک کے معاشی حالات بھی دگرگوں ہو رہے ہیں اور عوام کے لیے روزگار کی صورت حال بدتر ہو رہی ہے، اس لیے معاشی مصائب کے لیے بھی ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ جب معاشی حالات اچھے ہوتے ہیں تو ہر گروہ مطمئن رہتا ہے، لیکن جب یہ بگڑتے ہیں تو اس کا اثر قومی وحدت پر بھی ہوتا ہے، اور کسی جوڑنے والے نظریے کی عدم موجودگی میں شکست و ریخت اورتوڑنے والی قوتوں کو نفرت انگیزی کے لیے مواقع مل جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کو اس صورت حال کا بھی سامنا رہے گا۔
پاکستانی معاشرے میں پچھلے دو تین عشروں میں دو متضاد چیزوں کو بڑی ترقی حاصل ہوئی ہے۔ ایک ہے مخصوص مذہبیت اور دوسری عریانیت و فحاشی۔
مذہبی رجحان: ہمارے معاشرے میں مذہبی رجحان کا ایسا زور و شور نظر آتا ہے کہ جو پہلے کبھی نہیں تھا۔ پہلے صرف تبلیغی جماعت کی مقبولیت تھی، جو اب اور زیادہ ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ’دعوت اسلامی‘ اور اسی طرح کی تحریکوں نے نچلے متوسط طبقے اور چھوٹے تاجروں اور کاریگروں کے طبقے میں خاص نفوذ حاصل کیا ہے۔ جو مذہبیت جڑ پکڑ رہی ہے، وہ غیر سیاسی ہے اور سیاسی بھی۔ سیاست کے میدان میں جہاد سے وابستگی کا حوالہ رکھنے والی بعض قوتیں پاکستانی سیاست میں جارحانہ کردار ادا کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن یہ عناصر چھوٹی چھوٹی تنظیموں میں بکھرے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کر کے چلنے کی صلاحیت ان میں نہیں ہے۔ کئی تنظیموں میں کسی گہری سوچ بچار کے بجائے عام جذباتیت غالب نظر آتی ہے، جو چوراہوں پر ٹی وی توڑ کر یا اس طرح کے سطحی مناظر سے مطمئن ہونا چاہتی ہے۔ اس امر کا امکان ہے کہ اس طرح کی تنظیمیں تشدد اور توڑ پھوڑ کا راستہ اختیار کریں گی، جو بہرحال پاکستان اور اسلام کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
مذہبی جماعتوں کی صورت حال: مذہبی جماعتوں کے کارکنوں میں پچھلے جمہوری اَدوار کو دیکھ کر یہ خیال بھی پیدا ہوا ہے کہ اسلام انتخابات کے ذریعے نہیں آسکتا۔ مروجہ سیاست کو اپنا کر اسلام کو غالب نہیں کیاجا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں انقلاب کا راستہ اپنانا ہوگا، لیکن یہ انقلاب کیا ہے؟ کس طرح آتا ہے؟ اس کے بارے میں ذہن صاف نہیں اور غلط فہمی بھی ہے کہ بس فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے بھڑ جانے کا نام انقلاب ہے۔ حالانکہ انقلاب کے لیے معاشرے میں ایک فکری عمل کو جاری کرنا اور اسے اس حد تک کامیاب بنانا ضروری ہے کہ خواص اور عوام دونوں طبقات کے قابل لحاظ عناصر اس کے قائل ہو جائیں۔
’مسلح جدوجہد‘ یا ’گوریلا جنگ‘ کا نظریہ کمیونسٹوں کا رہا ہے اور اس جدوجہد یا جنگ کے پیچھے سابق سوویت یونین کی عالمی طاقت کی اعانت بھی رہی ہے، لیکن آخرکار وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ بندوق بازی سے انقلاب نہیں آسکتا اور نہ بندوق کے زور پر ایسے ’انقلاب‘ کو مسلط رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے معاشرے کو ایک مثبت اور تعمیری انقلاب کے لیے فکری اور مزاجی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔ اسے تیارکرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اکثریت بدل جائے کیونکہ اکثریت تو ہمیشہ عوام کالانعام کی رہی ہے۔ اصل حیثیت معاشرے کے ذہین اور فعال طبقات کی ہے۔ اس میں اگر آپ نفوذ حاصل کر لیں، تو بعد میں عوام خود بخود ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے پچھلے عشروں میں جمہوریت سے مایوسی نے اسلامی انقلاب کا جو نیا ذہن پیدا کیا، وہ اسلام کے لیے ایسی بے صبری اور بے تابی کا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے انسانی تاریخ کے بہترین گروہ تک کو بھی منع کیا تھا۔ اس بے صبری کی بنا پر ایک نئے مذہبی مزاج کا بھی ظہور ہوا ہے، جو مار دھاڑ کے ذریعے اسلام اور شریعت کی حکمرانی حاصل کرنا چاہتا ہے، یہ مزاج کسی راست فکر اصولی اور اسلامی تحریک کے لیے سخت نقصان کا موجب ہوگا۔
غیر سیاسی مذہب کا رجحان: پچھلے عرصے میں جو غیر سیاسی مذہب بڑی تیزی سے مقبول ہوا ہے، اس کے نتیجے میں بلاشبہ لوگوں کے حلیے تبدیل ہوئے ، ان کی عادات و اشغال میں تبدیلی آئی ہے، لیکن اس غیر ’سیاسی مذہب‘ کے نتیجے میں اس سے متاثرہ لوگ معاشرے سے کٹ رہے ہیں اور اس کے لیے اجنبی بن رہے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی الگ نظر آتے ہیں۔ ان کی ذہنیت میں غیر ضروری امور اور مباحث میں شدت، اچھے اور نیک انسانوںکی توانائیوں کے ضیاع کا باعث ہو رہی ہے۔ یہ معاشرے کو بدل نہیں رہے، بلکہ پاکستانی معاشرے میں جو مختلف معاشرے پائے جاتے ہیں، ان میں ایک نئے معاشرے کا اضافہ کر دیا ہے، جو کسی اور سے میل نہیں کھاتا اور معاشرتی تضاد کو بڑھا رہا ہے۔
اسلامی نظام کی تشکیل جدید کا رجحان: لیکن ان سب کے باوجود معاشرے میں علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے اس طرزِ فکر کو بھی بڑھاوا ملا ہے کہ مغربی فلسفے اور نظام ناکام ہوچکے ہیں اور مستقبل میں اسلام کی بنیاد پر انسانی اجتماعیت کی جدید تشکیل کا وقت قریب آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں یہ احساس بھی عام ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کا مقابلہ امریکا کے سیاسی، جنگی، معاشی اور فکری طبقات سے ہے، جس پر صہیونیت کا غلبہ ہے اور مستقبل کی بڑی اور ناگزیر جنگ عالم اسلام اور امریکہ کے حواریوں کے درمیان ہو گی اور اسے ٹالا نہیں جا سکتا۔
پاکستانی عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی افسوس ناک سیاسی، اقتصادی صورت حال بھی امریکا اور اس کی آلۂ کار مقامی قوتوں کی پیدا کردہ ہے، اور اپنی اقتصادیات کے لیے بھی مسلمانوں کو امریکا سے لازماً جنگ آزما ہونا پڑے گا۔ اس طرزِ فکر نے خود حکمران طبقے میں بھی جگہ بنائی ہے اور اب فوج و بیورو کریسی میں بھی اس طرز پر سوچنے والوں کی ایک تعداد ہے۔ تاہم انہیں مختلف مجبوریوں اور موانعات کا بھی خیال ہے، جو انہیں یکسو نہیں ہونے دیتا اور کوئی راہِ عمل وہ اختیار نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہ طرزِ فکر بہرحال مؤثر اور مقتدر طبقات میں بھی بڑھ رہا ہے اور اپنے وقت پر اثر ضرور دکھائے گا۔ اب ہمارے حکمران اور مقتدرطبقہ کے لیے دل و جان سے یکسو ہو کر امریکا کی تابع داری اور خدمت گزاری ممکن نہیں ہوگی۔ جو تضاد امریکا سے پیدا ہو چکا ہے، وہ بڑھتا جائے گا اور اس سے ایک نئی عظیم الشان تحریک ضرور برپا ہوگی، جس میں عوام کا بھی حصہ ہوگا اور خواص کا بھی۔
معاشرتی اقدار سے غفلت کا رجحان: بہرحال، معاشرے کے اس پہلو کو دیکھ کر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ نفس پرستی اور ذات پرستی کے مرض اور مزاج نے بھی معاشرے میں بہت ترقی کر لی ہے۔’حیوۃ الدنیا‘ پر جس طرح اب ہر عام و خاص اور مذہبی و غیرمذہبی ریجھا ہوا ہے، ایسا منظر پہلے کبھی نہیں تھا۔ معیارِ زندگی کو اونچا کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، نمود و نمایش میں لوگ ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے ہیں۔ اسراف اور دکھلاوے کا کلچر عام ہے۔ معاشرے میں فکرونظر، علم و تحقیق، مطالعے اور مکالمے کے کلچر کو زوال ہوا ہے۔ نئی نسل کی تعلیم کا نظام بربادی کی نذر ہو گیا ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے بربادی کی تصویر پیش کرتے ہیں، تو چند نہایت محدود مثالوں کو چھوڑ کر پرائیویٹ تعلیمی ادارے نئی نسل کا مزاج بگاڑنے اور دولت کمانے کی فیکٹریاں ثابت ہو رہے ہیں۔ گھر جو اخلاقی، تہذیبی تربیت کا بنیادی ادارہ ہے، اس ادارے میں بگاڑ داخل ہو گیا ہے۔ بچے گھروں میں بگڑتے ہیں، درس گاہوں میں مزید بگڑتے ہیں، اور عمل کی دنیا میں ان کے کردار کا فساد اور بھی زیادہ ہمہ گیر ہوجاتا ہے۔ ہر سینے میں ہوسِ زر ہے۔ مسرت کے حصول کا ذریعہ اقدار نہیں، مادی اشیا ہو کر رہ گئی ہیں۔
اخلاقی انحطاط میں اضافہ: آئندہ جو معاشی بحران آرہا ہے ، اس میں زندگی کے مادہ پرستانہ معیار کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا، اور اس معاشی انحطاط سے نیا اخلاقی انحطاط جنم لے گا۔ عصمت فروشی، ڈاکے، کاروبار میں دھوکا بازی، یہ سب چیزیں زیادہ ہوں گی۔ نوجوانوں کو روزگار کی خراب صورت حال جرائم کی طرف بھی لے جا سکتی ہے بلکہ لے جارہی ہے اور تخریبی نظریات کی جانب بھی۔
جنسی بے راہ روی میں اضافہ: ایک بڑا مسئلہ معاشرے کی جنس زدگی کا ہے۔ ہرطرف سے جنسی جذبات کو اْبھارا جا رہا ہے۔ اخبارات کے اشتہارات سے لے کر فلموں اور ٹی وی پروگراموں تک میں شرم و حیا کو ختم کیا جا رہا ہے۔ گو یہ بھی صحیح ہے کہ اس کے مقابلے میں عورتوں میں حجاب کا فیشن چل پڑا ہے۔ چادر اوڑھنے اور حجاب لینے والیوں کی بازاروں میں پہلے کے مقابلے میں کثرت نظر آتی ہے۔ نماز اور نمازِ تراویح پڑھنے اور اعتکاف بیٹھنے والوں کی تعداد میں بھی الحمدللہ، خاصا اضافہ ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ لوگ عمرے بھی کثرت سے کر رہے ہیں، خیرات کا رجحان بھی ترقی پر ہے، لیکن اس سب کے باوجود اب بھی اس خیر کے مقابلے میں شر کا پلڑہ بہت بھاری ہے، اور معاشرے کی جنس زدگی ایسی چیز ہے جو اس میں شیطانیت کو عام کر رہی ہے۔ اسی لیے جنسی جرائم اور درندگی کی خبریں عام ہیں۔ اب چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں اور بچے بھی جنسی درندگی کا شکار ہورہے ہیں اور جنس کا یہ شیطان ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ اخبارات، ٹی وی، انٹرنیٹ ہی کے ذریعے نہیں، ملبوسات کے نئے فیشن، زیب و زینت کی اشیا اور ہار سنگھار کے بہانے بھی ذہنوں میں کج روی پیدا کر رہا ہے، اور سادگی کے کلچر کی جگہ اس نئے کلچر کے عام ہونے سے بھی ذہن کی معصومیت اور پاکیزگی متاثر ہو رہی ہے۔ مختلف تقاریب، مثلاً شادی میں مہندی کی رسم، یا مخلوط پارٹیوں سے بھی اسے ہوا مل رہی ہے۔
وقت کا تقاضا : معاشرے کی یہ تصویر کشی اس لیے نہیں ہے کہ لوگوں کو مایوس کیا جائے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ معاشرے کا نیا مزاج متعین کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بگاڑ کی قوتیں اب عالمی نوعیت کی ہو گئی ہیں اور تمام وسائل ان کے ہاتھ میں ہیں۔ انھیں اپنے مطلب کا مزاج متعین کرنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے مقصدکا کام خود بخود ہو رہاہے۔ پھر بھی وہ خاص طور پر اپنے مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے این جی اوز کو متحرک کر رہے ہیں اور اپنے مطلب کی محفلیں منعقد کر رہے ہیں۔ لٹریچر بھی پیدا کر رہے ہیں۔
بلامبالغہ ، ان کے مقابلے میں ہماری کارکردگی بہت کم ہے اور اگر ہم کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں، تو یہ ہمہ گیر اور ہمہ پہلو کام کسی ایک خاص جماعت یا گروہ کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے عوام کو حرکت میں لانا ہوگا اور ایک نئے ثقافتی انقلاب کے لیے ہربستی اور محلے میں نیکی کا مزاج رکھنے والوں کو بلالحاظ سیاسی و مذہبی نظریات کو منظم و یک جا کرنا ہوگا۔جب سب مل کر کوشش کریں گے تو معاشرے کا نیا مزاج بنا سکیں گے، اور جو مزاجِ فاسد پیدا ہو چکا ہے، اس کی روک تھام کرسکیں گے۔