غربت کا واویلا

88

واقعی غربت فرد کے لیے آزمائش ہے۔ لیکن غربت کی تعریف کیا ہے؟ غربت دراصل زندگی گزارنے کے وسائل سے محروم ہوجانے کا نام ہے۔ جب کوئی فرد روزگار سے محروم ہوجائے یا اس قدر بیمار یا معذور ہوجائے کہ اپنے لیے یا اپنے بال بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی بھی نہ کما سکے، اور سرکاری سطح پر بھی ریاست ایسے لوگوں کو وظیفہ نہ دے جب کہ یہ ریاست اور حکومتِ وقت کی اوّلین ذمہ داریوں میں سے ہے تو آدمی غریب ہوجاتا ہے، اس پر غربت طاری ہوجاتی ہے۔

امریکا، یورپ، جاپان، ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک، چین، عرب ممالک آج غربت پر قابو پاکر اصراف اور فضول خرچیوں کے راستے پر چل رہے ہیں، یا یوں کہہ لیں کہ یہاں پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ افریقی ممالک میں چند ایسے ہیں جہاں معدنی دولت ہونے کے باوجود حکمرانوں کی نااہلی اور بدعنوانی کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد بہتر سہولیات سے نہ صرف محروم ہے بلکہ غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور کردی گئی ہے۔ چین، جو آج دنیا کی سپر پاورز کے صفِ اوّل میں کھڑا ہے وہاں کے عوام سخت محنت اور حکومت کے حسنِِ انتظام اور کفایت شعاری کی وجہ سے غربت پر قابو پا چکے ہیں۔ اب کثیر آبادی کے لحاظ سے تین بڑے ممالک ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش جہاں دو ارب سے زیادہ لوگوں بستے ہیں، یہاں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ افغانستان جو گزشتہ پچاس برسوں سے جنگی صورتِ حال سے دو چار تھا اب اس سے نجات پانے کے بعد تیزی سے اس مسئلے پر قابو پانے کی جدوجہد کررہا ہے جہاں حکومتی اہلکاروں کی سادگی، کفایت شعاری اور کرپشن سے پاک حکمرانی اصل سبب ہے۔

میں اپنے عنوان کے حوالے سے فرداً فرداً ان تینوں ممالک میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کی غربت اور موجودہ غربت کے معیار کو پیش کروں گا۔ کم سے کم پچاس سال پہلے اور ابھی کے معیارِ زندگی کا موازنہ ضروری ہے۔

ساٹھ کی دہائی میں جب ہم ابتدائی تعلیم کے دور سے گزر رہے تھے‘ اُس وقت ہمارے پاس صرف ایک ہی اسکول یونیفارم ہوتا تھا، وہ ہر دوسرے دن شام کو اسکول سے آنے کے بعد دھوکر، سکھاکر دوسرے دن پہنتے تھے۔ ایک سفید کرمچ کا جوتا۔ اسکول جاتے ہوئے نہ کوئی بستہ، نہ بیگ۔ بس کے کرائے اور ٹفن میں کھانے کے لیے کبھی 40، کبھی 50 پیسے ملتے تھے۔ ایک قلم، ایک پنسل اور صبح 8 بجے اسکول جانا اور شام 5 بجے گھر آنا۔ گھر میں پہننے کے لیے دو جوڑے کپڑے، اور عید پر سال بھر میں ایک جوڑا۔ مہینے میں مشکل سے دو یا تین دن گائے کا گوشت، وہ بھی بڑی فیملی ہونے کی وجہ سے اماں بڑوں کو تین اور بچوں کو دو بوٹیاں دیتیں۔ بریانی تو دور کی بات، کبھی پلائو پک جائے تو ہمارے لیے عید ہوجاتی تھی۔ شادی اور تقریبات میں بھی پلائو ہی ملتا تھا جب کہ اُس وقت گائے کا گوشت3 روپے کلو ہوا کرتا تھا۔ بکرے کا گوشت تو بس بقرعید میں ہی میسر ہوتا تھا۔ روزمرہ کے کھانوں میں دو وقت روٹی اور دن میں چاول۔ کوئی فرمائش نہیں۔ آبادی میں جو ایک دو امیر یا کاروباری لوگ ہوتے تھے ان کے یہاں بھی سادگی ہوتی تھی۔ دورِ غلامی کے بعد ہندوئوں اور مسلمانوں کے رہن سہن، رکھ رکھاؤ میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا، بلکہ ہندو گھرانوں کی اکثریت صبح ناشتا کم کرتی، دوپہر کا کھانا 12 بجے کے بعد اور رات کا کھانا مغرب کے بعد۔ نہ ٹی وی، نہ الٹے سیدھے کھیل تماشے۔ گاؤں دیہات میں مغرب کے بعد اندھیرا اور سناٹا۔ شہر میں بھی زیادہ رات تک نہ دکانیں کھلتی تھیں اور نہ لوگوں کی مصروفیات۔ ہوٹل میں تو کھانا کھانے کا کوئی زیادہ چلن ہی نہیں تھا، لوگ اس کو اصراف سمجھتے تھے۔ سادہ، قناعت اور صبر و شکر والی زندگی تھی۔ ہم جیسے جیسے جوان ہوتے گئے لوگوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے آنے کے بعد تو ہر آدمی کو جیسے پَر لگ گئے، فلم بینی کی ایسی لت پڑی کہ کیا بوڑھا، کیا جوان اور بچے، سب دیکھنے کے لیے بے تاب۔ جیسے ہی کوئی نئی فلم ریلیز ہوتی سنیما گھروں میں مارا ماری شروع ہوجاتی۔

پھر زندگی کے رنگ ڈھنگ ایسے بدلے کہ سب کچھ بدل گیا۔ اب اسکول جانے والے ہر بچے کی پیٹھ پر اتنی کتابیں، کاپیاں اور اتنے قلم اور درجنوں رنگ کی پنسلیں ہوتی ہیں کہ اسکول جانے اور آنے کے بعد بچوں کی حالت پتلی ہوجاتی ہے۔ اُس وقت ٹیوشن کا تصور ہی نہیں تھا۔ اب تو ہزاروں روپے فیس دے کر بچے ٹیوشن نہ پڑھیں تو امتحان میں پاس ہونا مشکل۔ کئی جوڑے یونیفارم، جوتے، قیمتی بیگ، لنچ باکس، اور غریب کہلانے والے بچوں کو بھی جیب خرچ کے کم سے کم پچاس روپے۔ گھر میں پہننے کے درجنوں جوڑے، ہر تقریب کے لیے نئے کپڑے۔ گھر کی خواتین کے پاس بھی اتنے جوڑے اور ہر میچنگ کلر کے سینڈل اور میک اَپ کے سامان، گھر کے ہر فرد کے پاس مہنگے اسمارٹ فون۔ ہفتے میں کم سے کم تین چار دن قورمہ، کڑائی، بریانی۔ شادی کی تقریبات میں انواع و اقسام کے کھانے، زرق برق لباس، وڈیوز اور فضول خرچیوں کے انبار۔ کھانوں کا ضیاع شہروں اور دیہات میں عام ہے۔ ہوٹلوں اور فوڈ اسٹریٹس میں لوگوں کا ازدحام۔ رات گئے تک جاگنا اور ویک اینڈ پر پکنک منانے کا چلن… یہ ان تینوں ملکوں میں روزمرہ کا معمول بن چکا ہے اور پھر غربت کا رونا ہے۔

گداگری ایک پیشہ بن چکی ہے۔ شہروں کے گداگروں کے پاس بھی اسمارٹ فون موجود ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کا آسیب ایسا پھیل چکا ہے کہ آج سڑکوں پر جھاڑو دینے والوں اور گٹر صاف کرنے والوں کے پاس بھی اسمارٹ فون ہوتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں ایدھی، سیلانی اور چھیپا جیسے ادارے بھکاریوں اور کم تنخواہ والے افراد کو بکرے کا قورمہ اور بریانی کھلا رہے ہیں اور گھر لے جانے کے لیے پارسل بھی دیتے ہیں، جب کہ متوسط طبقے کو بکرے کا گوشت کھانا شاید ہی میسر ہوتا ہو، کیونکہ بکرے کا گوشت 2500 روپے کلو ہے۔

یہ تو عمومی صورتِ حال ہے۔ اب واقعی جہاں غربت ہے اس کے اسباب بھی بیان کروں گا۔

بھارت کی آبادی کا جائزہ لیا جائے تو جنوبی ہندوستان اور مشرقی ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جنوبی ہندوستان کی زیادہ تر آبادی پڑھی لکھی ہے اور وہاں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی بہتر ہونے کی وجہ سے غربت کی شرح کم ہے۔ عوام کو روزگار کے مواقع زیادہ میسر ہیں۔ جب کہ مغربی بنگال میں کارخانوں اور ملوں کی بندش کی وجہ سے لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ کولکتہ میگا سٹی ہے جہاں ریل و دیگر ذرائع سفر کی سہولیات بہتر ہونے کی وجہ سے کاروبار کرکے پیٹ پالنا آسان ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ کولکتہ کراچی اور ممبئی جیسا غریب پرور شہر ہے بلکہ غریبوں کی ماں ہے۔ لیکن پھر بھی کولکتہ، ممبئی اور دہلی میں فٹ پاتھوں، جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اس طرح کی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں۔

بہار جو اب دو صوبوں میں تقسیم ہوچکا ہے، معدنیات کی دولت کے باوجود مالی اور انتظامی حوالے سے سیاسی لیڈروں کی نااہلی، بدعنوانی اور ذات پات کے بھید بھاؤ کی وجہ سے پس ماندگی اور غربت کا شکار رہا ہے۔ یوپی مسلمانوں اور دلت برادری سے بدترین نفرت اور تعصبات کی وجہ سے انتشار اور بدامنی کا شکار ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد گلف اور دیگر ملکوں میں نوکری کرنے جاتی ہے۔ یوگی سرکار نے یہاں گزشتہ 10 سال سے مسلمان بھگائو، اسلام مٹاؤ اور دیش بچاؤ جیسی مہم چلا رکھی ہے۔ مشرقی ہندوستان کے دیگر صوبوں میں بھی اسی طرح کے حالات ہیں۔ ہندوتوا کی عَلم بردار مودی سرکار کا ایجنڈا مسلمانوں، دلت اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد اور انتہا پسندی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا عوام کی معاشی حالت اور تعلیم و دیگر شعبہ ہائے زندگی انتہائی ابتر صورت حال سے دوچار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی ہندوستان اور تلنگانہ میں نکسیلوں کی مسلح تحریک بڑھتی جارہی ہے۔ ناگالینڈ، تری پورہ، میگھالیہ اور مشرقی پنجاب میں علیحدگی کی مسلح تحریکوں کی وجہ سے بدامنی ہے اور ترقیاتی کام عملاً بند ہیں۔ مودی سرکار کے زیادہ تر منصوبے بھارتیہ جنتا پارٹی سے منسلک سرمایہ داروں کے مفادات کے لیے بنتے ہیں جس سے غریب‘ غریب تر ہوتا جارہا ہے اور امیروں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔

بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہونے کے بعد سے اب تک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا اور ملک میں پے در پے فوجی بغاوتوں کی وجہ سے معاشی ترقی نہ ہوسکی۔ مگر ہندوستان کی حمایت سے قائم ہونے والی حسینہ واجد حکومت کے 19 سالہ دور حکومت میں بنگلہ دیش مکمل طور پر ہندوستان کی طفیلی ریاست بن چکا تھا۔ نام نہاد ترقی اور ترقیاتی منصوبوں کے باوجود پورا ملک مخالف سیاسی جماعتوں کے لیے عقوبت خانے میں تبدیل ہوگیا تھا، اور بنگلہ دیش میں اسلامی اقدار کے خلاف اقدامات اور ہندوانہ تہذیب کو ریاستی سطح پر فروغ دینے کی وجہ سے بے چینی اور عوامی غصہ بڑھ رہا تھا۔ خواتین کی بڑی تعداد گارمنٹس فیکٹریوں میں کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور تھی۔ بنگلہ دیش میں بے روزگاری بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد بیرونی ملکوں میں روزگار کی تلاش میں ہجرت کررہی تھی۔ رقبہ چھوٹا، آبادی زیادہ اور صنعتی ترقی نہ ہونے کے برابر۔ پس بنگلہ دیش ایک بار پھر انقلاب سے دوچار ہے۔ دیکھتے ہیں اس بحر انقلاب سے بنگالیوں کی غربت اور پسماندگی دور ہوتی ہے یا نہیں۔

پاکستان کا کیا کہنا، یہ شروع دن سے جاگیرداروں، وڈیروں، قبائلی سرداروں اور خوانین کے قبضے میں ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ پنجاب کا بھٹہ مزدور، سندھ کا کسان، بلوچستان کا خانہ بدوش ظلم تو سہتا ہے مگر اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتا۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد، پنڈی اور پشاور میں بھی غریب آدمی کو دو وقت کا بہترین کھانا فلاحی اداروں کے ذریعے مہیا کیا جاتا ہے جس سے غربت کم ہونے کے بجائے پیشہ ور گداگروں کی تعداد میں بھاری بھرکم اضافہ ہوگیا ہے۔ سروے کے مطابق ایک بھکاری کراچی میں روزانہ 2 ہزار، لاہور میں 15سو، اور دیگر شہروں میں ہزار روپے بھیک کے ذریعے کماتا ہے جو کہ ایک گریجویٹ کی تنخواہ سے زیادہ ہے۔ حکومت I.M.F سے اتنا قرض لے چکی ہے کہ کئی نسلوں تک اس کی ادائیگی ممکن نہیں۔ قرض کے یہ تمام پیسے حکمرانوں کی جیبوں میں یا امریکا، یورپ اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع ہوجاتے ہیں۔

فرشتے آ کر اُن کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
(منور رانا)
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
( نظیر باقری)

حصہ