(تیسرا اور آخری حصہ)
’’نہیں، نہیں ‘‘ حضرت سلمان ؓنے اس کو تسلی دی ’’اس میں میرے لیے نیت کا ثواب ہے‘‘۔
نیت کا یہ ’’اجر‘‘ ہی وہ چیز تھی جو ان کو34 ہزار آدمیوں کا خدمت گار بنائے ہوئے تھی جن پر حکومت کرنے کا شان دار موقع خدا نے انھیں دیا تھا۔ وہ تو اس خدمت کا حق الخدمت بھی اپنے اوپر صرف کرنے کو اپنا اخروی نقصان تصور کرتے تھے۔ پانچ ہزار کی پوری تنخواہ وہ دوسروں پر خرچ کرتے اور خود چٹائی بن بن کر اپنا پیٹ پالتے تھے۔ ان کا جی چاہتا تھا کہ وہ اپنی پوری مزدوری اپنے خدا کے دست خاص ہی سے قبول کریں۔
کیا حسین تھا وہ ’’فقر‘‘ جو ’’مسند اقتدار‘‘ سے بھاگنے کے بجائے اس مسند پر بوریا نشینی کے مزے لے سکتا تھا! کیسا مقدس تھا وہ ایمانی توازن جس کی برکت سے انسان نے رہبانیت اور لذت پسندی کے درمیان جینا سیکھا اور سکھایا۔ حضرت سلمانؓ نہ راہب تھے اور نہ لذت پسند وہ تو مومن تھے جو آخرت بنانے کی دھن میں خود کو پیوند خاک بنا لینے کے باوجود اس خاکدان ارضی کو ڈھانے کے بجائے سدھارنے پر کمربستہ رہتا ہے۔ جس کے زہد و تقدس کے آنسوؤں سے زندگی کے پھول مسکراتے ہیں اور حیات دنیا کی تاریک محفلوں میں چراغان ہوا کرتا ہے جو دنیا کے گیسو سنوارتا ہے مگر خود ان گیسوؤں میں اسیر نہیں ہوتا، جو دنیا سے فرار کو خود کشی سمجھتا ہے۔ مگر موت آنے سے پہلے دنیا میں رہتے ہوئے اس طرح دنیا کو چھوڑ چکا ہوتا ہے کہ موت آتی ہے تو دنیا میں محض اس کا جسم ہی پاتی ہے۔دل و روح تو پہلے ہی خدا کے پاس جا چکے ہوتے ہیں۔
خدا کے آخری رسولؐ کے ہاتھ سے مدینے میں جب خون رنگ اور نسل کے بجائے عقیدہ و ایمان کی بنیادوں پر اخوت و قرابت کا محل کھڑا کیا جا رہا تھا تو حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت ابو درداؓ کو رسولؐ خدا نے بھائی بھائی بنا دیا۔ ’’یہ بھائی‘‘ ان کو اپنے حقیقی ماں باپ اور بہن بھائیوں سے زیادہ پیارا تھا۔ انھوں نے حق کی تلاش پر خون کے تمام رشتے قربان کر دیئے تھے۔
اس ایمانی اخوت کے رشتے میں تو ان کی جان اٹکی ہوئی تھی۔ اس لیے وہ بڑی پابندی سے اپنے ایمانی بھائی ابو درداؓ کے گھر آتے جاتے رہتے تھے۔
’’یہ تم نے کیا حال بگاڑ رکھا ہے اپنا ؟‘‘ ایک دن حضرت سلمان نے حضرت ابو درداؓ کی اہلیہ کی زیب و زینت کو اجڑا ہوا دیکھ کر کہا۔ ’’آخر کس کے لیے بناؤ سنگار کروں؟‘‘ وہ بولیں ’’تمہارے بھائی کو دنیا کی ضرورت ہی نہیں رہی‘‘۔
یہ جواب پاکر حضرت سلمانؓ کا چہرہ اتر گیا۔ حضرت ابو درداؓ کی ایسی کثرت عبادت ان کے لیے اچھی خبر نہ تھی جس کی وجہ سے وہ بیوی کے حقوق سے غافل ہو گئے ہوں۔ دل پر اس خبر سے جو چوٹ لگی تھی اس نے انھیں اس دن وہیں روک لیا۔ وہ کچھ سوچ رہے تھے۔
’’ کھانا لائیے‘‘ جیسے ہی حضرت ابو درداؓ گھر آئے۔ حضرت سلمانؓ نے فرمائش کی۔
کھانا لایا گیا مگر وہی ہوا جس کی حضرت سلمانؓ کو توقع تھی۔ حضرت ابو درداؓروزے سے تھے۔
’’معاف کرنا میں تمہارے ساتھ کھانا نہ کھا سکوں گا‘‘۔ انھوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
’’ تو پھر میں بھی نہ کھاؤں گا‘‘۔ حضرت سلمانؓ نے کہا اور ایک معنی خیز نظر حضرت ابو درداؓ کے اوپر ڈالی۔
رات کو بھی وہ اسی دن وہیں قیام پذیر رہے جس وقت ابو درداؓ تہجد کے لیے اٹھنے لگے۔ حضرت سلمانؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ وہ چونک اٹھے۔
’’بات یہ ہے کہ تم پر تمہارے رب تمہاری آنکھ اور تمہاری بیوی کا بھی حق ہے‘‘۔ حضرت سلمانؓ نے جھنجھوڑتے ہوئے کہا ’’روزوں کے ساتھ افطار اور شب بیداری کے ساتھ سونا بھی ضروری ہے‘‘۔
’’ضروری ہے !‘‘ حضرت ابو درداؓ نے حیرت سے پوچھا۔
اور پھر اس مسئلے میں دونوں میں دیر تک تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ صبح کو دونوں بارگاہ رسولؐ میں استصواب رائے کے لیے حاضر ہوئے اور حضورؐ نے کہا:
’’ابو درداؓ !۔۔۔ سلمانؓ تم سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتے ہیں‘‘۔
پھر وہ دور بھی آیا جب حضرت سلمانؓ عراق میں رہے اور حضرت ابو درداؓ شام چلے گئے جہاں اللہ نے ان کو کثرت مال و اولاد سے نوازا۔ ان کو خیال گزرا کہ حضرت سلمانؓ جو ان کی گھریلو زندگی اور خانگی رشتوں کی تعمیر میں خاص کارنامہ انجام دے چکے تھے۔ ان کی اس خوشحالی کی خبر سے بہت خوش ہوں گے۔ اس لیے انھوں نے حضرت سلمانؓ کو خط لکھا اور یہ خوشی کی خبر سنائی۔ اس خط کے جواب میں حضرت سلمانؓ نے بالکل دوسری بات کہی۔ یہ وہ موڑ تھا جہاں مومن کی فراست دنیا کی خوشی کا رخ غم آخرت کی طرف موڑ دیا کرتی ہے۔ انھوں نے عراق سے جواب میں لکھا:
’’ سن لو! کہ مال و اولاد کی کثرت یا ارض مقدس میں رہنا سہنا کوئی خیر نہیں، بلکہ خیر یہ ہے کہ تم کوئی ایسا عمل کرو جو خود تمہاری ذات کے لیے نفع بخش ہو اور تم اپنے تئیں مردہ لوگوں میں سے سمجھو‘‘۔
……٭٭٭……
رسالت کے عہد سے خلافت فاروقی تک کا عرصہ طویل وہ ٹھیک اسی شان سے برتے گئے کہ دنیا میں محض بدن پڑا تھا اور دل و جان کسی اور میں کہیں اور اٹکے ہوئے تھے۔ انھوں نے فی الواقع زندگی ہی میں یہ سمجھ لیا تھا کہ آنے والی موت مجھے پہلے ہی آچکی ہے۔ آخر عمد عثمانی میں وہ ’’دور عید‘‘ سے ہم کنار ہوئے۔ جب موت آتی ہے اور بندے کو اس کے خدا تک پہنچا دیتی ہے۔ ایک دن جس کے تصور ہی سے ایک کافر کی روح فنا ہوتی ہے۔ ایک دن جس کے خیال ہی سے مومن کی جان میں جان آتی ہے۔
مرض وفات میں حضرت سعدؓ بن ابی وقاص عیادت کے لیے آئے۔ ان کو دیکھ کر اچانک حضرت سلمانؓ پر گریہ طاری ہو گیا!۔ حضرت سعدؓ سخت حیران ہوئے کہ موت کے قریب پاکر حضرت سلمانؓ جیسا آدمی رو کیوں رہا ہے؟
’’ اے ابو عبد اللہ ! حضرت سعدؓ نے حیرت اور افسوس کے انداز میں کہا ’’رونے کی کیا بات ہے؟ ارے بھئی! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم سے قطعی خوش بہ خوش دنیا سے گئے۔ اب تم ان سے حوض کوثر پر ملنے جا رہے ہو۔ بچھڑے ہوئے ساتھیوں سے ملاقاتیں ہوں گی‘‘۔
’’”خدا کی قسم !‘‘ حضرت سلمان فارسیؓ نے درد بھرا جواب دیا۔ ’’خدا کی قسم! میں موت سے نہیں گھبراتا اور نہ دنیا میں ٹھہرے رہنے کی ہوس ہے‘‘۔
’’پھر؟‘‘ حضرت سعدؓ کی حیرت دوبالا ہوگئی۔
سلمانؓ کی آنکھیں آنسوؤں سے جھلک اٹھیں، ہچکیوں کے درمیان سے ان کی آواز لرزتی ہوئی اٹھی۔
رونا تو یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کیا تھا کہ ہمارا توشہ ایک مسافر کے توشے سے بڑھنے نہ پائے …اور… اور حال یہ ہے کہ میرے گردا گرد اس قدر سانپ ہیں !!‘‘
حضرت سعدؓ نے ایک درد بھری نظر حضرت سلمانؓ کی اشک ریز صورت پر ڈالی اور پھر پلٹ کر ان کے ان تمام دنیاوی ساز سامان کا جائزہ لیا جس کو ’’سانپ‘‘ کہہ کر وہ اس طرح رو پڑے تھے۔ یہ سامان محض ایک بڑے پیالے ایک لگن اور ایک تسلے پر مشتمل تھا۔ حضرت سعدؓ نے سرجھکا لیا اور رونے والے کے ساتھ مل کر دیر تک روتے رہے مگر نہیں! یہ رونا تو بہترین ہنسناتھا! وہ آنسو پانی نہیں، آب حیات کے قطرے ہیں کہ جن سے دل و روح پر بہار آتی ہو۔ جس سے ایمان و یقین شاداب ہوتے ہوں، جو یہاں ٹپک جائیں وہاں جنت کے باغ لہلہا اٹھتے ہیں۔ لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے اور وہ مومن جو آخرت کے گھر کے لیے پابہ رکاب موت کی گھڑیاں بے چینی سے گن رہا تھا۔ آنے والوں کے سینوں میں اپنا سوز بھرے دے رہا تھا۔ شمع بجھنے سے پہلے ایک بار پوری قوت سے بھڑک رہی تھی۔ ایک انسان کے مر جانے سے پہلے زندگی میں ابدی زندگی کا خون دوڑ رہا تھا۔
’’تم میں سے جس سے ہو سکے، اس کی کوشش کرے‘‘ وہ رک رک کر دھیرے دھیرے کہہ رہے تھے کہ وہ حج ادا کرتے ہوئے، عمرہ کرتے ہوئے،خدا کی راہ میں تلوار چلاتے ہوئے یا پھر قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے دم توڑے۔ دیکھو!، دیکھو! فسق و فجور اور خیانت و بے ایمانی کی حالت میںہرگز نہ مرنا، ہرگز نہ مرنا !!‘‘
آنسوؤں میں ابال آرہے تھے، روتے ہوئے چہرے اس ایک چہرے پر جھکتے جا رہے تھے جہاں سے اس کی زندگی کی آخری آواز آ رہی تھی اور دھیرے دھیرے ڈوبتی جا رہی تھی۔ اچانک یہ ڈوبتی ہوئی آواز تیز ہوئی اور ایک بے قرار سی ہوک سنائی دی۔ سب لوگ چلے جائیں، سب لوگ ہٹ جائیں اور فی الفور سب لوگ تعمیل حکم میں ذرا دیر کے لیے ہٹ گئے۔ لوگ ڈر رہے تھے کہ شاید یہ پکار اس بات کا اعلان تھی کہ آخرت کے مسافر کا سفر تمام ہو رہا ہے۔ زمین اور اہل زمین سے تعلق ٹوٹ رہا ہے اور آسمان والے بندۂ مومن کو لینے کے لیے آپہنچے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد لوگ اس خلوت گاہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں حضرت سلمان کا ’’جسم‘‘ تو پڑا ہے مگر خود حضرت سلمان ؓاپنے مولا کے پاس تشریف لے جا چکے ہیں۔ انا اللہ انا الیہ راجعون!!
اور… ہائے یہ الفاظ !
حیات و موت کی پوری دنیا میں تہلکہ ڈال دینے والے چند لفظ !!
بڑی بڑی مغرور کھوپڑیوں کو پاش پاش کر دینے والے اور پھر سے سخت تر دلوں کو آخرت کے لیے تڑپا دینے والے الفاظ !!
’’انا اللہ انا الیہ راجعون!!‘‘
آہ کیا ہم… ہم بھی ان کا مطلب سمجھتے ہیں؟
ہم ؟… کہ جن کا دل اس وقت بھی دنیا میں اٹکا ہوتا ہے۔ جب ہماری پیشانیاں اللہ کے قدموں میں پڑی ہوتی ہیں۔
ہم؟… کہ جو آخرت سے اس قدر دور جا پڑے ہیں کہ ویران قبروں کے کنارے کھڑے ہوکر بھی ہم دنیا ہی کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ جنازوں کو کاندھا دیتے ہوئے بھی ہمیں موت یاد نہیں آتی ہمیں موت یاد نہیں آتی۔ حیف!ہمیں اپنی موت یاد نہیں آتی!
تو کیا ہم اندھے ہیں ؟
نہیں!…
کیا ہم بہرے ہیں ؟
نہیں… نہیں!
تو… کیا ہم پاگل ہو چکے ہیں ؟
نہیں… نہیں… ہرگز نہیں!…
اچھا…تو کیا ہم مسلمان ہیں ؟… بولو!! …
کیا ہم مسلمان ہیں ؟؟
کون ہے جو اس کے جواب میں ’’ہاں‘‘ کہنے کے لیے تڑپ نہیں اٹھتا؟۔ مگر نہ جانے کیوں شرم و ندامت سے ہم زمین میں گڑنے لگتے ہیں اور ہماری آوازہمارے حلق میں گھٹ جاتی ہے۔