امریکی انتخابات:کملا دیوی ہیرس کا تعارف

130

امریکا میں انتخابات نومبر میں منعقد ہورہے ہیں جن پر دنیا کی نظر ہے۔ ہم امریکا کے انتخابات، اہم شخصیات ،ایشوز ، وہاں کے نظام اور اس کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک خصوصی سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہر ہفتے امریکا میں مقیم معروف تجزیہ نگار مسعود ابدالی کے مضامین ”سنڈے میگزین“ میں شایع کیے جارہے ہیں۔ ان مضامین کے ذریعے قارئین کو عالمی تناظر میں امریکی سیاست کو سمجھنے اور اہم معاملات کی تفہیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔آپ کے تبصروں اور آراء کا انتظار رہے گا۔

امریکا میں انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ انتخابات تو5 نومبر کو منعقد ہوں گے لیکن اکثر ریاستوں میں 15 اکتوبر سے ’قبل از وقت ووٹنگ‘ یا Early Votingکا آغاز ہوجائے گا۔ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے والوں کو بھی اگلے ماہ کے وسط سے پرچہ انتخابات کا اجرا شروع ہوگا۔

عام انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی کے علاوہ لیریٹیرین پارٹی، گرین پارٹی اور سوشلسٹ پارٹی سمیت 11 دوسری جماعتوں کے علاوہ درجن بھر آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ لیکن امریکا کے مہمل انتخابی نظام میں تیسرے امیدوار کی کامیابی کا خفیف سا بھی امکان نہیں۔ اس لیے اصل مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی ٹکٹ یافتہ نائب صدر کملا دیوی ہیرس کے درمیان ہے۔ کملا صاحبہ خود کوکمالا کہلاتی ہیں۔ اس سے پہلے ایک نشست میں ہم ڈونلڈ ٹرمپ کا تعارف پیش کرچکے ہیں۔ آج شریمتی کملا صاحبہ پر چند سطور:

کملا دیوی صاحبہ کو امریکی تاریخ کی پہلی غیر مسیحی، ہند نژاد خاتون نائب صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان سے پہلے امریکا کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں صرف دو خواتین کو کسی بڑی جماعت نے نائب صدر کے لیے امیدوار نامزد کیا۔ محترمہ جیرالڈین فرارو 1984ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار والٹر مانڈیل کے ہمراہ میدان میں اتریں اور صدر ریگن کے امیدوار برائے نائب صدارت جارج بش سے شکست کھا گئیں۔ اس کے چوبیس سال بعد 2008 میں محترمہ سارہ پیلن کو ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان مک کین نے نائب صدارت کے لیے نامزد کیا لیکن انھیں جوبائیڈن نے ہرا دیا۔

صدارت کے لیے کملا جی امریکی تاریخ کی دوسری خاتون امیدوار ہیں۔ اس سے پہلے 2016ء میں ان ہی کی پارٹی کی سینیٹر ہلیری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں شکست ہوچکی ہے۔

کملا صاحبہ کی والدہ آنجہانی شیمالہ گوپلان مدراس سے امریکا تشریف لائیں۔ انھیں امریکا کی انتہائی مؤقر دانش گاہ جامعہ کیلی فورنیا کے شعبۂ حیاتیات میں داخلہ مل گیا۔ امریکا آمد کے وقت شیمالہ صاحبہ صرف 17 سال کی تھیں۔ انھوں نے برکلے سے تغذیہ و درافرازیات (Nutrition & Endocrinology) میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اسی جامعہ میں ان کی ملاقات جمیکا کے جناب ڈونلڈ ہیرس سے ہوئی جو مارکسسٹ معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد جامعہ اسٹینفورڈ میں پروفیسر تھے۔ ملاقات پسند اور محبت کے مرحلے طے کرکے چند ہی ماہ میں نکاح تک جاپہنچی۔ شیمالہ صاحبہ اپنے شوہر سے صرف چار مہینے چھوٹی تھیں۔ شادی کے ایک سال بعد کملا بی بی نے جنم لیا اور اس کے تین سال بعد ان کی چھوٹی بہن مایہ نے آنکھ کھولی۔ مایہ کی پیدائش کے چار سال بعد شیمالہ جی کو طلاق ہوگئی۔ کملا ہیرس کے اپنے والد سے تعلقات رسمی نوعیت کے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ طلاق کے وقت وہ صرف 9 سال کی تھیں اور ان کی پرورش والدہ نے کی جو ہندوستانی اقدار سے وابستہ رکھنے کے لیے کملا اور ان کی بہن کو کئی بار چنائے (ہندوستان) لے گئیں۔

کملا ہیرس نے امریکی دارالحکومت کی جامعہ ہوورڈ (Howard) سے معاشیات اور سیاسیات میں بی اے کرنے کے بعد جامعہ کیلی فورنیا سان فرانسسکو سے قانون کی سند حاصل کی۔

انھوں نے عملی زندگی کا آغاز 1990ء میں اپنی ہی کائونٹی کی ڈسٹرکٹ اٹارنی کی حیثیت سے کیا، اور وہ دبنگ مستغیث (Prosecutor) مشہور ہوئیں۔ چار سال بعد ان کا کیلی فورنیا اسمبلی کے اسپیکر ولی برائون سے معاشقہ شروع ہوا جو ان سے عمر میں 24 سال بڑے تھے۔ ولی برائون صاحب نے کملا جی کو Unemployment Insurance Appeals Board اور پھر غریبوں کے علاج معالجے کے کمیشن کا رکن نامزد کردیا۔ ولی برائون کے علاوہ کملا ہیرس کے ٹی وی میزبان مونٹیل ولیمز (Montel Williams)سے بھی رازونیاز رہے جسے یہاں کی اصللاح میں datingکہتے ہیں۔

کملا ہیرس کی شہرت کا آغاز 1998ء میں ہوا جب سان فرانسسکو ڈسٹرکٹ اٹارنی جنرل نے انھیں اسسٹنٹ اٹارنی نامزد کیا اور وہ فوجداری (Criminal) ڈویژن کی سربراہ مقرر ہوئیں۔ اس دوران سیاہ فاموں سے ان کا رویہ بہت سخت تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک قانون منظور ہوا تھا کہ لگاتار تین چھوٹے جرائم کے مرتکب شخص کو عادی مجرم گردانا جائے گا۔ یہ بدنام زمانہ قانون Three strikes law کے نام سے مشہور ہے۔ اس غیر منصفانہ قانون کی زد میں آکر ہزاروں سیاہ فام بچے طویل قید بھگت رہے ہیں۔ اپنا رعب بٹھانے کے لیے کملا ہیرس نے اس قانون کا بے دریغ استعمال کیا اور سیاہ فاموں کو سخت سزائیں دلوائیں۔ اسی پس منظر کی بنا پر وہ طنزیہ کہتی ہیں ’’میں ’ٹرمپ ٹائپ‘ کے مجرم پیشہ لوگوں کو خوب جانتی ہوں۔‘‘

نومبر 2002ء میں کملا سان فرانسسکو کی ڈسڑکٹ اٹارنی جنرل منتخب ہوئیں۔ وہ سان فرانسسکو کی پہلی رنگ دار اٹارنی جنرل تھیں۔ نومبر 2010ء میں انھیں ریاست کیلی فورنیا کی اٹارنی جنرل منتخب کرلیا گیا، یہاں بھی انھوں نے ریاست کی پہلی ایشیا نژاد سیاہ فام خاتون اٹارنی جنرل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ چار سال بعد ہونے والے انتخابات میں انھوں نے یہ نشست برقرار رکھی۔ اسی دوران 2013ء میں ان کی ملاقات مشہور وکیل ڈگ ایمہوف (Doug Emhoff)سے ہوئی۔ ڈگ مذہباً یہودی ہیں اور پانچ سال پہلے ان کی طلاق اس وجہ سے ہوگئی کہ موصوف کا اپنی صاحب زادی کی استانی سے معاشقہ چل رہا تھا۔ ایک سال بعد کملا ہیرس اور ڈگ نے شادی کرلی۔

بیس سال تک امریکی سینیٹ کی رکن رہنے کے بعد 2015ء میں سینیٹر باربراباکسر نے سیاست سے سبک دوشی کا اعلان کیا اور 2016ء میں اُن کی خالی ہونے والی نشست پر کملا ہیرس سینیٹر منتخب ہوگئیں۔ جب اقتدار سنبھالتے ہی صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم المعروفMuslim Ban کے ذریعے ایران، لیبیا، شام، صومالیہ، سوڈان اور عراق کے باشندوں کے لیے امریکی ویزے پر پابندی لگائی تو اس کے خلاف سب سے توانا آواز سینیٹر کملا ہیرس کی تھی۔

2020ء کے صدارتی انتخاب میں کملا ہیرس نے بھی قسمت آزمائی کی اور مباحثے کے دوران ان کی جوبائیڈن سے کئی بار تلخ کلامی ہوئی۔ تاہم نوشتۂ دیوار پڑھ کر وہ پرائمری انتخابات کے آغاز سے پہلے ہی دوڑ سے باہر نکل آئیں، جناب بائیڈن نے انھیں نائب صدارت کا امیدوار نامزد کردیا اور3 نومبر 2020ء کو وہ نائب صدر مائیک پینس کو ہراکر امریکا کی پہلی خاتون نائب صدر بن گئیں۔

صدارت کے لیے کملا ہیرس کی نامزدگی کو اس اعتبار سے حادثاتی کہا جاسکتا ہے کہ صدر بائیڈن تمام کی تمام 50 ریاستوں اور وفاقی دارالحکومت میں پرائمری انتخابات جیت کر نامزدگی کے لیے مندوبین کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل کرچکے تھے۔ انھوں نے مجموعی طور پر ایک کروڑ 44 لاکھ 65 ہزار ووٹ حاصل کیے جو کُل ووٹوں کا 87 فیصد سے زیادہ ہے۔ نامزدگی کے لیے مندوبین کے 1886 ووٹوں کی ضرورت ہے جبکہ بائیڈن حمایت سے منتخب ہونے والے یعنی committed مندوبین کی تعداد 3586 تھی۔ اس اعتبار سے پارٹی کے قومی کنونشن سے ان کی نامزدگی بس ایک رسمی کارروائی تھی۔

کچھ عرصے سے لغزشِ زبان اور وقتی نسیان کا شکار نظر آنے کے ساتھ صدر بائیڈن کی حرکات و سکنات سے خیالات کے الجھائو، بے ترتیبی و پراگندگی کا اظہار ہورہا تھا۔ اس کا بڑا مظاہرہ 27 جون کو صدر ٹرمپ کے ساتھ اُن کے مباحثے میں ہوا جب اُن کی آواز بھرّائی ہوئی تھی، گفتگو کا زیروبم غیر مستحکم تھا، یعنی آواز کبھی اتنی ہلکی کہ جیسے سرگوشی فرمارہے ہیں اور کبھی ایسی کہ چیخنے کا گمان ہورہا تھا۔ بحث کے دوران کئی بار ایسا محسوس ہوا کہ گویا سوال اُن کی سمجھ میں ہی نہ آیا اور دماغی مشق و سوچ بچار کے بعد جب وہ بات کی تہہ تک پہنچے تو جواب دینے کے لیے الفاظ کے انتخاب میں غیر ضروری تاخیر ہوئی۔ اس صورتِ حال سے جناب ٹرمپ نے خوب فائدہ اٹھایا۔ یعنی سابق صدر دھڑلے سے جھوٹ بولتے رہے اور بائیڈن صاحب سے بولا ہی نہ گیا۔ اپنی خراب کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے انھوں نے اسے سفرِ یورپ، نزلے اور تھکن کا شاخسانہ قرار دیا۔ تاہم ڈیموکریٹک پارٹی کی اندرونی صورتِ حال سے مجبور ہوکر انھوں نے کملا ہیرس کو امیدوار نامزد کردیا۔

سیاسی و نظریاتی اعتبار سے کملا ہیرس ایک روایتی سیاست دان ہیں۔ امریکی سرحدوں کو غیر ملکیوں پر بند کرنے، چین کے گھیرائو، یوکرین کے ذریعے روس کی مرمت، ایران اور افغانستان میں عدم استحکام اور سب سے بڑھ کر اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کے معاملے میں ان کے خیالات اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ مختلف نہیں۔ کملا ہیرس نے صاف صاف کہا کہ اسرائیل کو مسلح رکھنا ان کے منشور کا حصہ ہے اور اسرائیل کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے وہ انتہائی پُرعزم ہیں۔

سماجی معاملات پر کملا دیوی ہیرس اسقاط یا Reproductive Rights کو خواتین کا استحقاق سمجھتی ہیں۔ ہم جنس پرستی (LGBT) کے حوالے سے جنسی ترجیح پر پابندی یا جبری ترغیب ان کے خیال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ دلچسپ بات کہ پیدائشی ہندو ہونے کے باوجود وہ ہندوتوا اور بی جے پی کی سخت مخالف اور کشمیریوں کے حقوق کی حامی ہیں۔

………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

حصہ