حجاب میں زندگی آسان

45

آمنہ بیگم نے بیٹی حفصہ کے قدم دروازے کی طرف بڑھتے دیکھے اور ایک نظر اس کے سراپے پہ ڈالی۔ وہ جینز اور ٹی شرٹ کے ساتھ دوپٹہ گلے میں لپیٹ کر دفتر جا رہی تھی۔

آمنہ بیگم کو اس کا یہ حلیہ بالکل پسند نہ تھا مگر حفصہ بضد تھی کہ اگر وہ ان کے کہنے کے مطابق برقع اور حجاب اپنے اوپر لازم کرلے تو ترقی کے سارے دروازے اس پر بند ہوجائیں گے۔ حفصہ نے میڈیا سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک نیوز چینل میں جاب حاصل کی تھی اور وہاں ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کررہی تھی۔

آج حفصہ نے اماں کو دفتر سے آکر بتایا کہ اس کے دفتر میں تمام ملازمین کی ترقی کا منصوبہ بنایا جارہا ہے اور اس کی محنت، لگن اور کام میں مہارت کی وجہ سے اس کی ترقی کے بہت امکانات ہیں۔ دو روز بعد جب وہ دفتر پہنچی تو اس نے دیکھا کہ آفس اسٹاف میں ایک نئی لڑکی کا اضافہ ہوا ہے جو مکمل حجاب کے ساتھ وہاں کام کررہی ہے۔ اُس کا خیال تھا کہ اس نوعیت کی جاب کبھی بھی باحجاب خواتین کا مقدر نہیں ہوسکتی۔

’’میرا نام فضا ہے‘‘۔ دفتر میں آنے والی نئی لڑکی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے حفصہ کو مخاطب کیا۔ ’’آپ یہاں کب سے کام کررہی ہیں؟‘‘

’’مجھے یہاں جاب کرتے ہوئے تقریباً دو سال ہوگئے ہیں۔‘‘ حفصہ نے جواب دیا۔

’’اچھا! میں تو ابھی یہاں بالکل ناتجربہ کار ہوں، کیا آپ کام کو سمجھانے میں میری کچھ مدد کرسکتی ہیں؟‘‘

حفصہ نے اس کو کام سمجھانا شروع کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ لڑکی اس کی توقع کے برعکس خاصی ذہین ہے۔

’’تعلیم کیا ہے تمہاری؟’’ حفصہ نے فضا سے پوچھ ہی لیا۔

’’میں نے ماس کمیونی کیشن میں ماسٹرز کیا ہوا ہے اور اب ایم فل کرنے کا سوچ رہی ہوں۔‘‘ فضا نے جواب دیا۔

’’ماسٹرز کہاں سے کیا تم نے؟ مطلب، کس یونیورسٹی سے؟‘‘ حفصہ نے گڑبڑا کر سوال کیا۔

’’جی میں نے ماسٹرز جامعہ کراچی سے کیا ہے اور اب ایم فل بھی وہیں سے کروں گی۔‘‘ فضا نے بتایا۔

’’اچھا تم ایسے ہی عبایا اور حجاب میں جامعہ کراچی جایا کرتی تھیں؟‘‘حفصہ کو جیسے یقین نہ آیا۔

’’جی… جی! میں ایسے ہی حجاب میں یونیورسٹی جایا کرتی تھی، بلکہ میں کیا، وہاں تو اور بھی کئی لڑکیاں باحجاب آیا کرتی ہیں۔‘‘ فضا نے اس کی پریشانی دور کرتے ہوئے بتایا۔

’’مجھے تو لگتا تھا کہ یہ حجاب اور نقاب انسان کو پڑھنے لکھنے، ترقی کرنے، گھومنے پھرنے اور آزادی سے رہنے کے سارے راستے بند کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔‘‘حفصہ اب اس لڑکی سے متاثر ہونے لگی تھی۔

فضا سے حجاب کے متعلق مثبت پہلو جاننے کے بعد حفصہ کے دل میں حجاب کرنے کی لگن پیدا ہونے لگی۔

اگلے روز جب وہ صبح دفتر جانے کے لیے تیار ہوئی تو اس نے لانگ شرٹ کے ساتھ سر پہ اسکارف پہنا ہوا تھا۔ حفصہ کی والدہ آمنہ بیگم کو اس کا یہ بدلا حلیہ دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہوئی۔

حفصہ کے والد بھی اس تبدیلی سے بہت مطمئن نظر آرہے تھے۔ انہوں نے حفصہ کو خود بھی کئی بار اس بات کے لیے رضامند کرنے کی کوشش کی تھی کہ حجاب عورت کو پُروقار اور باعزت بناتا ہے اور یہ شعائرِ اسلام کا بہت اہم حصہ ہے۔

اب حفصہ اور فضا بہت اچھی دوست بن چکی تھیں۔ حفصہ کا خیال تھا کہ حجاب میں ہر کام کرنا مشکل اور دشوار ہے۔ مگر فضا کے ساتھ رہ کر اس کو ہر روز یہ احساس ہو رہا تھا کہ حجاب کرنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری نہیں ہے۔ بلکہ حفصہ نے محسوس کیا کہ دفتر میں دوسرے اسٹاف کے مقابلے میں فضا کو سب باعزت اور باوقار طریقے سے مخاطب کرتے ہیں اور ادب و آداب کا خیال رکھتے ہیں۔

حفصہ نے ایک روز فضا سے کہا ’’تمہیں دیکھ کر میرا بھی مکمل حجاب کرنے کا دل چاہتا ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ میرے لیے گھٹن کا باعث بنے گا اور شاید میں مکمل حجاب میں اچھی بھی نہ لگوں،پتا نہیں لوگ میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟‘‘

فضا نے یہ کہہ کر اس کی مشکل آسان کر دی کہ ’’ایسی کسی چیز میں گھٹن اور دشواری کا اندیشہ نہیں ہے جو حکمِ ربی ہو، اور دوسری بات یہ کہ حجاب تو کیا ہی اس لیے جاتا ہے کہ ہم غیر ضروری، لوگوں کو اچھے نہ لگیں۔ ہمارے لیے یہ سوچنا زیادہ ضروری ہے کہ ہم اللہ کے نزدیک کیسے انسان اور کیسے مسلمان ہیں، بجائے اس کے کہ ہم دنیا والوں کی پروا کریں۔‘‘حفصہ کے ذہن کے تمام بند دریچے فضا کی مثبت سوچ سے کھل گئے تھے۔

اگلے روز سے حفصہ نے عبایا اور حجاب پہننا شروع کردیا۔ ابھی اس کے اندر یہ خوف موجود تھا کہ پتا نہیں یہ حلیہ اپنانے کے بعد دفتر میں اسے ترقی ملے گی یا نہیں؟

مگر ترقی کا اعلان ہوا تو یہ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوئی کہ اسے اس کی کارکردگی کے مطابق اچھے عہدے پر ترقی دے دی گئی تھی۔

اب حفصہ کو یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ حجاب کا تعلق انسان کے مذہب، اُس کی ذات اور اس کی شخصیت سے ہے۔ حجاب کرنے سے انسان کی عقل، ذہانت اور فہم و فراست پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ حجاب تو دراصل عورت کو تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت ہے۔

حصہ