’’دادی! اگلے ماہ بابا آرہے ہیں۔‘‘رامین نے دادی کے گلے میں بانہیں ڈال کر مسرت سے کہا۔
’’صحیح کہہ رہی ہو؟‘‘ دادی نے بے یقینی سے رامین کی جانب دیکھا۔ اُن کی بوڑھی اور کمزور نگاہوں میں امید کی کرن جگمگا اٹھی، کیوں کہ وہ تو سوچتی تھیںکہ نہ جانے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے کو وہ اپنی زندگی میں دیکھ پائیں گی بھی یا نہیں!
ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ سب کی شادیاں رابعہ بیگم نے وقت پر ہی کردی تھیں اور سب اپنے اپنے گھروں میں خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے۔ اسامہ اُن کا سب سے لاڈلا بیٹا تھا۔ باقی دونوں بیٹے اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے، مگر اسامہ کے خیالات کی اڑان بہت اونچی تھی، اس لیے اُس نے ٹیکسٹائل مل میں نوکری کرلی اور چھوٹی عمر سے ترقی کرکے اپنے خاندان میں سب سے آگے نکل گیا۔
رابعہ بیگم نے سب بچوں کی طرح اُس کی بھی چھبیس سال کی عمر میں شادی کردی۔ اسامہ کی بیوی راحیلہ بہت سادہ مزاج کی تھی۔ اس نے بچوں کی تربیت بھی ویسے ہی کی تھی، اور ساس بھی اُس کے ساتھ ہی خوش رہتیں۔
ان کے دو بچے بھی ہوگئے تھے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ مکمل فیملی جو آج کے دور میں تصور کی جاتی ہے۔ زندگی سکون سے گزر رہی تھی کہ ملک کے معاشی حالات بتدریج بگڑنا شروع ہوگئے۔ اُس وقت ملکی حالات اتنے خراب نہ تھے، مگر تنزلی کا آغاز ہوچکا تھا۔
ڈاؤن سائزنگ میں اسامہ کو اس کی جاب سے فارغ کردیا گیا، کیوں کہ جتنی تنخواہ اسامہ کی تھی اس میں دو بندوں کو ٹیکسٹائل مل والے آرام سے ہائر کرسکتے تھے۔
اپنے واجبات آنے سے پہلے ہی اُسامہ نے امریکا کے ویزے کے لیے اپلائی کردیا۔ اس کی تعلیم اور تجربے کو دیکھتے ہوئے جلد ہی اسے ویزا مل گیا۔ ماں اور بیوی نے روکنے کی بہت کوشش کی مگروہ امریکا پرواز کرگیا۔
جب وہ امریکا گیا تو بیٹی رامین دس سال کی اور بیٹا عمر صرف آٹھ سال کا تھا۔ اسامہ کو وہاں بہت اچھی نوکری مل گئی تھی۔ رابعہ بیگم اسامہ کے جانے کے بعد اس کے بیوی بچوں کی ہی ہوگئی تھیں۔ اب کتنے سال بعد گرین کارڈ ملنے کے بعد اسامہ پاکستان آرہا تھا۔
راحیلہ اسامہ کی جدائی کو بہت زیادہ محسوس کرتی، وڈیو کال پر تو روزانہ بات ہوتی لیکن شوہر موجود تو نہ تھا۔ راحیلہ کے ساتھ ساتھ بچے بھی اسامہ سے ملنے کے لیے دن گن رہے تھے۔
اور اللہ اللہ کرکے وہ دن بھی آگیا جب راحیلہ اپنے جیٹھ اور دونوں بچوں کے ساتھ اسامہ کو لینے کے لیے ائرپورٹ پر بے تابی سے باہر آنے والے راستے پر نگاہیں جمائے منتظر تھی۔
اسامہ نے کندھوں تک بال رکھے ہوئے تھے جو پونی کی شکل میں گردن پر لٹکے ہوئے تھے۔ بیوی اور بیٹی کا ایسا حلیہ دیکھ کر اسامہ کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ بیوی بچوں سے ملنے کی خوشی بہرحال اس پر غالب آگئی۔ وہ اپنے تاثرات چھپا گیا۔
جب وہ گھر پہنچا تو سارے بہن بھائی اور اُن کے بچے اس کے استقبال کے لیے جمع تھے۔ وہ آدھے گھنٹے تک ماں سے لپٹ کر بیٹھا رہا۔
کھانے کی میز پر اس کی پسندیدہ ڈشز موجود تھیں جو راحیلہ اور رامین نے مل کر تیار کی تھیں۔ مگر وہ بیوی اور بیٹی سے کھنچا کھنچا سا تھا۔
سب کے جانے کے بعد رابعہ بیگم اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ بچے بھی دادی کے کمرے میں لیٹ گئے۔ راحیلہ باورچی خانہ سمیٹ کر کمرے میں داخل ہوئی تو اسامہ بیڈ پر نیم دراز موبائل میں مگن تھا۔ اس نے جاء نماز اٹھائی، ایک نظر اسامہ پر ڈالی۔ نامعلوم سی جھجک دونوں کے درمیان موجود تھی۔
عشا کی نماز پڑھنے کے بعد اس نے اسامہ پر پھونک ماری اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ اسامہ کی سردمہری نوٹ کررہی تھی۔ وہ اس کی نگاہوں میں چھپی ناگواری کو پہچان گئی تھی۔
دن اور رات کے فرق کے باعث اسامہ کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔
’’ان کے لیے میں اتنی محنت کررہا ہوں۔کیا حال بنایا ہوا ہے۔‘‘ اسامہ شدید ڈپریشن میں تھا۔
حسبِ معمول راحیلہ کی صبح اذان کے ساتھ ہی ہوگئی۔ اسامہ بارہ بجے سوکر اٹھا۔ جب تک راحیلہ گھر کے تمام کاموں سے فارغ ہوچکی تھی۔ رامین کالج اور عمر اسکول جاچکا تھا۔
ناشتے کی میز پر بھی وہ چپ چپ سا تھا۔ رامین باپ کے آنے کی خوشی میں آج کالج وین سے آنے کے بجائے رکشہ سے آگئی تھی۔ اس وقت اسامہ ناشتہ کررہا تھا۔
’’السلام علیکم بابا!‘‘ وہ وفور جذبات سے باپ کے گلے لگ گئی۔
’’تم کالج سے آرہی ہو یا کسی مدرسے سے؟‘‘ اس نے کالے عبایا سے مکمل چھپے وجود کو دیکھ کر چلاّ کر کہا۔ کل سے اب تک اس کا ضبط جواب دے چکا تھا۔ وہ تیزی سے اٹھا اور تیز تیز قدموں سے ماں کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
رابعہ بیگم بھی اسامہ کی پریشانی کو نوٹ کررہی تھیں۔
اگلے دن جب رامین کالج اور راحیلہ کام سے باہر گئی ہوئی تھی، وہ رابعہ بیگم کے کمرے میں آکر بیٹھ گیا۔ وہ اضطراری کیفیت میں بیٹھا ٹانگیں ہلا رہا تھا۔ شاید ماں سے اپنے دل کی بات کرنا چاہ رہا تھا۔
’’کیا بات ہے اسامہ! کچھ کہنا چاہ رہے ہو؟‘‘
’’جی…امی!‘‘ اور پھر اسامہ نے اپنے دل کی تمام باتیں کہہ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کردیا۔
اگلے دن ہفتہ تھا۔ رامین کا کالج بھی آف تھا۔ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد حسبِ معمول راحیلہ چائے کی ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوئی۔
’’راحیلہ! کل میرے پاس اسامہ آیا تھا۔‘‘رابعہ بیگم نے گفتگو کا آغاز کیا۔
’’تم بھی اس کے خشک رویّے کے باعث الجھن کا شکار تھیں۔‘‘ انہوں نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’جی امی!‘‘ راحیلہ نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے اداسی سے سر ہلایا۔
’’تم اس کے جانے سے پہلے بھی نقاب اسکارف لیتی تھیں…کبھی اس نے اعتراض کیا؟‘‘
’’نہیں‘‘، راحیلہ نے جواب دیا۔
’’مگر اب تم نے اور رامین نے جو بڑے بڑے عبایا اور دستانے وغیرہ لینا شروع کیے ہیں…‘‘ رابعہ بیگم پاندان اپنے سامنے کرتے ہوئے گویا ہوئیں۔
’’مجھے معلوم ہے وہ غلط نہیں ہے۔‘‘
’’مگراسامہ کو وہ ٹھیک نہیں محسوس ہوتا۔‘‘
’’اس کو نقاب اسکارف سے مسئلہ نہیں ہے۔ وہ تو مسلمان عورت کی شان ہوتی ہے۔ بس اسی طرح کا پردہ کرو تاکہ تمھارے گھر کا ماحول بھی خراب نہ ہو اور اللہ کا حکم بھی پورا ہو۔ دین میں حکمت ہے۔کل اس نے رویّے کی تبدیلی کی یہی وجہ مجھے بتائی ہے۔‘‘ رابعہ بیگم نے کپ خالی کرکے ٹرے میں رکھتے ہوئے کہا۔ ’’بس تم اور رامین اسامہ کے ساتھ جاکر اس کی پسند کے عبایا اور اسکارف لے لو۔‘‘
راحیلہ تھوڑی دیر خاموش رہی، پھر بولی ’’امی! میں یہ بات رات میں اسامہ سے خود کرلوں…؟‘‘اس نے اجازت طلب نگاہوں سے ساس کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ تو زیادہ اچھا ہوگا۔‘‘رابعہ بیگم خوش دلی سے بولیں۔
راحیلہ رات کے تمام کام نمٹا کر اسامہ کی پسندیدہ کافی کا مگ تھامے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کو آج اپنے اور اسامہ کے درمیان جمود کو توڑنا تھا۔
’’اسامہ! آپ جب سے آئے ہیں، میرے ہاتھ کی بنی کافی کی فرمائش ہی نہیں کی۔‘‘ وہ بے تکلفی سے بولی اور کافی کا کپ اس کو پکڑایا۔
وہ ہنوز موبائل میں گم تھا۔
’’اسامہ! امی نے مجھ سے آپ کی ذہنی کشمکش کا صبح ہی ذکر کردیا تھا۔ بات یہ ہے کہ اللہ کی ذات کے بعد میرے لیے سب سے اہم ذات اور بات آپ کی ہے۔
آپ میرے اور رامین کے پردے سے خائف ہیں۔ میں نے اس پر بہت غور بھی کیا اور قرآن سے بھی مدد لی۔ ایک بات بالکل صاف ہے کہ یہ کوئی روایتی عمل نہیں ہے بلکہ یہ رب کے عائد کردہ فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے۔‘‘
’‘یہ تو مجھے بھی معلوم ہے۔‘‘اسامہ نے دبے دبے لہجے میں کہا۔
’’مجھے آپ کی خوشی اور خواہش بھی عزیز ہے اور اللہ کا حکم اوّلین ترجیح ہے۔‘‘ یہ بولتے بولتے راحیلہ کی آواز رندھ گئی، اس کی آنکھوں میں پانی اتر آیا۔
راحیلہ کی کیفیت دیکھتے ہوئے اسامہ کی نگاہوں میں نرمی اتر آئی ’’میں بھی یہی چاہتا ہوںکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو۔‘‘ اس نے کافی کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’بالکل، میں اللہ کی رضامندی کے ساتھ ساتھ آپ کی خواہش کا پورا اہتمام کروں گی۔‘‘ راحیلہ خاموش ہوئی تو کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔
’’آجائو…‘‘ اسامہ نے کہا تو رامین اور عمر کمرے میں داخل ہوئے۔
’’مما! بس کل پھر شام میں ہم مال چلیں گے۔‘‘ رامین نے مہنگے ترین مال کا نام لیا۔ ’’اور بابا کی جیب خالی کروائیں گے۔ مہنگے مہنگے عبایا اور اسکارف بابا کی پسند کے خریدیں گے۔ پھر بابا کو پتا چلے گا۔‘‘رامین کھلکھلائی۔
’’بابا فوڈ کورٹ میں کھانا بھی کھائیں گے۔‘‘ عمر نے کہا، اور اسامہ دونوں بچوں کو بانہوں میں سمیٹ کر مسکرا دیا۔