مہک کا راز

34

جیلر صاحب نے بتایا کہ ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں قیدیوں کو حفظانِ صحت کے مطابق ہر شے فراہم کی جائے۔ لباس صاف ستھرے ہوں، کمروں کو صاف رکھا جائے، کھانا مناسب متوازن ہو تاکہ قید کی زندگی کے دوران وہ بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ قید کے دوران ایسے قیدی جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ان کو ان کی پسند کے مطابق ہنر سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور جو پڑھنے کا ذوق رکھتے ہیں ان کے لیے ان کے ذوق اور شوق کے مطابق لٹریچر اور اخبارات بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ ہمارے پاس قیدیوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اچھے مضامین، کالم، افسانے اور کہانیاں بھی بہت پائے کی لکھتے ہیں لہٰذا ان کے لیے ہر قسم کی اسٹیشنری مہیا کی جاتی ہے۔ وہ تینوں طے شدہ پروگرام کے مطابق جیلر نعمت خان صاحب سے سوالات کرتے رہے اور نعمت خان بہت ہی ٹھہرے ہوئے لہجے میں ان کے ہر سوال کا جواب دیتے رہے۔

سوالات و جوابات کے دوران انھوں نے اپنے آفیسر صفدر حسین کو فون پر آگاہ کیا کہ وزٹ پر آنے والے تینوں بچے میرے ساتھ ایک مرتبہ پھر جیل کا وزٹ کریں گے اور کچھ قیدیوں سے گفتگو بھی ممکن ہے کریںگے۔ ٹھیک دس منٹ کے بعد تم میرے آفس آجانا۔ یہ کہہ کر انھوں نے فون رکھ دیا۔ یہ در اصل جیل کا انٹرکام تھا جس سے جیل کے اندر مختلف شعبوں سے رابطہ کیا جا سکتا تھا۔

ان دس منٹوں کے دوران کچھ ذاتی سوالات بھی ہوتے رہے۔ کچھ تو جیلر نعمت خان ان سے نام اور تعلیمی مصروفیتوں کے متعلق سوالات کرتے رہے۔ تینوں نے بھی جیلر نعمت خان کی ذاتی زندگی کے متعلق آگاہی حاصل کی۔ اس دوران میں فاطمہ کا قلم نہایت برق رفتاری سے چلتا رہا۔ وہ بالکل اس انداز میں سب کو پوز کر رہی تھی جیسے ’’شارٹ ہنڈ رائیٹنگ‘‘ میں ساری گفتگو اپنے ریکارڈ میں جمع کر رہی ہو۔ یہ فن جو کبھی عروج پر تھا، فی زمانہ ختم ہو چکا تھا۔ فاطمہ جانتی تھی کہ اس نے کبھی شارٹ ہینڈ رائیٹنگ سیکھی ہی نہیں لیکن اپنے دورے اسائنمنٹ کا نام دینے کے بعد ایسا کرنا بہرحال بہت ضروری تھا جس کو فاطمہ بہت خوبی کے ساتھ نبھا رہی تھی۔

جمال کی ٹیم سوالات کرتی رہی اور جیلر نعمت خان بہت سنبھل سنبھل کر جوابات دیتے رہے۔ اس سارے دورانیہ میں وقت کا خیال ہی نہیں رہا۔ جیلر صاحب نے اپنے آفیسر کو دس سے پندرہ منٹ کا وقت دیا تھا لیکن وہ ابھی تک جیلر کے آفس میں حاضر نہیں ہوئے تھے۔ جیلر نعمت خان کی نظر ان کے سامنے دیوار پر آویزاں گھڑی پر پڑی تو انھوں نے چونک کر وقت دیکھا اور فوراً انٹر کام اٹھا کر اپنے آفیسر سے رابطہ کیا تو ان کے آفس سے جواب ملا کہ وہ جیل کے وزٹ پر گئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے انٹرکام واپس رکھتے ہوئے کام بیل کا بٹن دبایا۔ فوراً ہی ایک اہل کار دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ جیلر نعمت خان نے کسی قدر تیز لہجے میں ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ صفدر حسین کو حاضر کرے، وہ اس وقت جیل کے وزٹ پر ہیں اس لیے جہاں بھی ملیں، ان کو میرے آفس میں لے کر آئے۔ اہل کار دروازہ بند کرکے واپس پلٹ گیا۔ لیکن وہ جلد ہی واپس آ گیا۔ اس کے ساتھ صفدر حسین بھی تھے۔

جیسے ہی صفدر حسین اندر داخل ہوئے۔ فاطمہ سمیت جمال اور کمال بھی کسی حد تک چونک پڑے لیکن ان کے چونکنے کا یہ منفرد انداز شاید ہی آج تک کوئی بھانپ سکا ہو۔

کیا بات ہے، پروگرام کے مطابق آپ کو پندہ منٹ کے اندر اندر آنے کا کہا تھا۔ آپ کو دیر کیوں ہوئی۔

صفدر حسین نے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ آپ نے مہمانوں کو وزٹ کرانے کا کہا تھا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ ان کے وزٹ سے پہلے میں ایک چکر جیل کا لگا لوں تاکہ اگر کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہو تو وہ درست ہو جائے۔

جیلر نعمت خان کے اعصاب جواب سن کر کسی حد تک نرم پڑ گئے۔ انھوں نے کوئی جواب دیئے بغیر اپنی سیٹ چھوڑی تو جمال کی ٹیم بھی اپنی اپنی نشستوں پر کھڑی ہو گئی۔ آفس کا دروازہ ایک اہل کار نے بڑھ کر کھولا۔ جیلر نعمت خان نے آفس سے باہر جاتے ہوئے سب کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور سب ان کی معیت میں ایک ایک کال کوٹھڑی سے گزرنے لگے۔ چلتے چلتے جمال نے آنکھوں آنکھوں میں صفدر حسین کی جانب دیکھتے ہوئے ایک خصوصی اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ اس شخص کے جسم کی خوشبو کو بھی یادداشت میں محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ راستے میں رک کر پروگرام کے مطابق کمال نے ایک دو قیدیوں سے واجبی سی گفتگو بھی کی۔ وہ ہر سوال کرنے سے پہلے جیلر کی جانب دیکھتے ہوئے اس انداز میں سوال کرتا تھا جیسے ان کی اجازت شامل کرنا چاہتا ہو جس پر وہ کبھی آنکھوں کے اشارے اور کبھی ہاتھ کے اشارے سے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے جاتے تھے۔ فاطمہ، کمال اور جمال نے محسوس کیا کہ وہ کمال کے اس انداز کو بہت ستائش سے دیکھ رہے ہوں۔

اسی طرح وزٹ کرتے، سوال و جواب کرتے اور ماحول کا جائزہ لیتے وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتے گئے۔

چلتے چلتے جب وہ قیدی نمبر 1103 کے قریب سے گزرے تو ایک مرتبہ فاطمہ سمیت جمال اور کمال بھی مخصوص انداز میں جیسے چونک پڑے ہوں لیکن کسی بھی قسم کا اظہار کئے بغیر اور کوئی سوال کئے بغیر وہ آہستگی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے گئے۔ (جاری ہے)

حصہ