حجاب کا قرآنی حکم اور اس کی فرضیت

حجاب پر اعتراضات کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ یہ اعتراضات غیرمسلموں کی جانب سے بھی کیے جاتے ہیں اور آزاد خیال مسلمانوں کی جانب سے بھی۔ اس ضمن میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ مسلم سماج میں جو حجاب رواج پا گیا ہے اس کا کوئی ثبوت نہ قرآن میں ملتا ہے نہ حدیث میں اور نہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں اس کا چلن تھا۔ آج کا مروّج حجاب مسلمانوں کے دور ِزوال کی یادگارہے۔ اس مضمون میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی کہ قرآن مجید میں حجاب کے بارے میں کیا احکام ہیں ؟ اور یہ کہ کیا یہ احکام اختیاری ہیں کہ جو مسلمان چاہے، ان پر عمل کرے اور جو نہ چاہے ان پر عمل نہ کرے، یا یہ تمام مسلمانوں پر فرض کیے گئے ہیں اور اسلام کا دعویٰ کرنے والے ہر مسلمان کے لیے ان پر عمل کرنا ضروری ہے؟

لفظ’حجاب‘ قرآن میں آیا ہے۔
حجاب کا مسئلہ اٹھا تو بعض لوگوں کی طرف سے ایک بات یہ کہی گئی کہ لفظ ’حجاب‘ قرآن میں آیا ہی نہیں ہے۔ اسے خواہ مخوا ایک قرآنی حکم کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔اس میں نصف بات درست ہے اور نصف غلط۔ ’حجاب‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنیٰ پردہ، اوٹ،رکاوٹ وغیرہ کے آتے ہیں۔ کلام ِ عرب میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ سات(۷) مرتبہ آیا ہے: الاعراف:۴۶،الاسراء:۴۵، مریم:۱۷۔ الاحزاب:۵۳،ص:۳۲،حم السجدۃ:۵،الشوریٰ:۵۱۔سورۂ احزاب کی آیت یہ ہے:

وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوہُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ
(الاحزاب:۵۳)
’’اور اگر ان(نبی کی بیویوں ) سے تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔‘‘
یہیں سے اس کا استعمال مروّج پردہ کے لیے بھی ہونے لگا۔

اسلامی معاشرت کا مزاج
اسلام ایک صالح تمدن وجود میں لانا چاہتا ہے۔اس کے لیے وہ چاہتا ہے کہ مرد و عورت کے درمیان نکاح کے ذریعے مستقل وابستگی ہو اور اس وابستگی کے ذریعے خاندان کی تشکیل ہو۔ نکاح کو استحکام بخشنے کے لیے وہ آزادشہوت رانی کے تمام دروازوں کوسختی سے بند کر دیتا ہے۔ نظام ِ معاشرت کی امتیازی خصوصیات کو قائم رکھنے اور اجتماعی ماحول کو پاک وصاف رکھنے کے لیے اسلام معاشرہ کے ہر فرد کے دل میں اللہ کا خوف پیدا کرتا ہے۔وہ عریانی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اس لیے مرد اور عورت دونوں کو جسم کے وہ تمام حصے چھپانے کا حکم دیتا ہے جن میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پائی جاتی ہے۔اس نے کچھ ایسے احکام دیے ہیں جو سماج میں مردوں اور عورتوں کے دائروں کو الگ الگ کر کے صنفی انتشار کے امکانات کو انتہائی محدود کر دیتے ہیں اور ایک ایسا ماحول پیدا کرنے میں معاونت کرتے ہیں جس میں صنفی میلانات کو برانگیختہ کرنے والی تحریکات مفقود ہوتی ہیں۔ ان احکام سے اسلام کا تصوّرِحجاب واضح ہوتا ہے۔

نگاہوں کی حفاظت
مسلمان مردوں اور عورتوں کو اسلام حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور نظر کے فتنے سے محفوظ رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذٰلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ وَقُل لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ (النور:۰ ۳۔۳۱)

’’اے نبی! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔ اور اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ ‘‘

ان آیات میں نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے کا ایک ساتھ حکم دیا گیا ہے۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ دونوں میں ایک خاص تعلق ہے۔ معاشرہ میں جس قدر بدکاریاں عام ہوتی ہیں سب کا آغاز نگاہ کی آوارگی سے ہوتا ہے۔

گھروں میں داخلہ کے آداب
دوسرا ادب اسلام نے یہ سکھایا ہے کہ دوسروں کے گھروں میں بغیر پیشگی اطلاع یا اجازت کے داخل نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں ہے:

یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَی أَہْلِہَا (النور:۷ ۲)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، جب تک کہ گھر والوں کی رضانہ لے لو اور گھر والوں پرسلام نہ بھیج لو۔‘‘

اس حکم کا مقصد بھی یہی ہے کہ عورتیں اجنبی مردوں کی نگاہوں سے محفوظ رہیں۔ اسلام گھروں کو ایسے ’ پُرامن حرم‘ کی حیثیت دینا چاہتا ہے جہاں کوئی شخص گھر والوں کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہو سکے۔

اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام صنفی پاکیزگی کوکتنی اہمیت دیتا ہے اور اس کو متاثر کرنے والے روزنوں کو ایک ایک کر کے بند کرنے کا کس قدر اہتمام کرتا ہے۔

لباس کے احکام
صنفی ہیجانات و تحریکات کی تحدید کے مقصد سے ہی اسلام میں ساتر لباس پہننے کی تاکید کی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ وَرِیْشاً (الاعراف:۹ ۲)

’’اے اولادِ آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل ِ شرم حصوں کوڈھا نکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو۔‘‘

اسلام نے عورتوں کے لیے کوئی مخصوص لباس لازم نہیں کیا ہے، بلکہ اس کی کچھ شرائط بیان کر دی ہیں۔ جس لباس میں بھی وہ شرائط پوری ہوتی ہوں اس کے پہننے میں کوئی مضایقہ نہیں۔ ان شرائط کا تذکرہ احادیث میں آیاہے، مثلاً یہ کہ وہ ستر ڈھانکنے والا ہو۔ (شریعت میں مردوں اورعورتوں کے لیے ستر کے حدودالگ الگ متعین کیے گئے ہیں۔ مردوں کے لیے ناف اور گھٹنے کا درمیانی حصہ ستر ہے، جب کہ عورتوں کے لیے چہرہ اور ہاتھ (کلائی تک) کے علاوہ پورا بدن ستر ہے، جسے شوہر کے علاوہ تمام لوگوں سے چھپانا لازم ہے، خواہ اس کے قریب ترین اعزّا ہی کیوں نہ ہوں۔ ) وہ اتنا بار یک نہ ہو کہ اس سے بدن جھلکے، اس لیے کہ اس صورت میں ستر پوشی نہیں ہوسکتی، بلکہ اس سے عورت کے محاسن میں اور اضافہ ہوگا۔وہ خوشبو میں بسا ہوا نہ ہو، اس لیے کہ خوشبوبھی جذبات کو متحرّک کرنے کا سبب بنتی ہے۔ وہ ڈھیلا ڈھالا ہو، چست نہ ہو، اس لیے کہ چست لباس سے عورت کے جسمانی نشیب و فراز نمایاں ہوں گے۔وہ مردوں کے لباس کے مشابہ نہ ہو، وغیرہ۔

اظہارِ زینت کی ممانعت
اسلام عورت کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ بن سنور کر غیر مردوں کو دعوت ِ نظارہ دیتی پھرے، بلکہ وہ اسے اپنی زینت کو چھپانے اور اپنے محاسن کو آشکارا نہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنّ(النور:۱ ۳)

’’اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں، بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے۔ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کا آنچل ڈالے رہیں۔ ‘‘

اسی آیت میں آگے ایک فہرست پیش کی گئی ہے کہ عورتیں اپنے کن کن قریبی رشتے داروں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرسکتی ہیں۔ وہ یہ ہیں : (۱) شوہر۔ (۲) باپ۔ (باپ کے مفہوم میں دادا، پرادا، پرنانا بھی شامل ہیں۔ ) (۳) شوہروں کے باپ۔( ان دو الفاظ میں عورت کے اپنے شوہر کے ددیہال اور ننہیال کے تمام بزرگ آگئے۔)(۴) بیٹے۔( بیٹے کے مفہوم میں پوتے، پر پوتے،نواسے، پرنواسے، سب شامل ہیں۔ سگے سوتیلے کا فرق نہیں ہے۔) (۵) شوہروں کے بیٹے۔( بیٹے کے مفہوم میں پوتے، پر پوتے، نواسے، پرنواسے، سب شامل ہیں۔ سگے سو تیلے کا فرق نہیں ہے۔) (۶) بھائی۔( سگے، سوتیلے، ماں جائے، سب شامل ہیں۔ )(۷) بھائیوں کے بیٹے۔ (بھائیوں سے مراد تینوں قسم کے بھائی(حقیقی، علّاتی، اخیافی) ہیں اور ان کے بیٹوں میں پوتے نواسے بھی شامل ہیں۔ ) (۸) بہنوں کے بیٹے ( بہنوں سے مراد تینوں قسم کی بہنیں (حقیقی، علّاتی، اخیافی)ہیں اور ان کے بیٹوں میں پوتے، نواسے بھی شامل ہیں۔ )(۹) اپنے میل جول کی عورتیں۔ (۱۰) اپنے لونڈی غلام۔(۱۱) وہ زیردست مرد جوکسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں۔ (۱۲) وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ا بھی واقف نہ ہوئے ہوں۔

آخر میں ہدایت کی گئی کہ عورتوں کی چال بھی ایسی ہونی چاہیے کہ ان کی زینت کا اظہار نہ ہونے پائے اور ان کے زیورات کی جھنکار دوسروں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرلے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِن زِیْنَتِہِنَّ (النور:۱ ۳)

’’اور وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جوزینت انہوں نےچھپارکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔‘‘

قریبی رشتے داروں کے سامنے اظہارِ زینت کی اجازت اس لیے دی گئی کہ ان میں عموماً صنفی جذبات کے بجائے احترام، محبت اور شفقت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح نا بالغ بچوں کے سامنے بھی اس کی چھوٹ دی گئی کہ ان میں بھی صنفی جذبات مفقود ہوتے ہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ اظہار ِزینت کی ممانعت کی اصل علّت صنفی ہیجانات و تحریکات سے معاشرہ کو بچانا اور عورت کو ان سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بوڑھی عورتوں کے لیے لباس کی وہ سختی نہیں رکھی گئی ہے جو جوان عورتوں کے لیے ہے، کیوں کہ ان کو دیکھ کر عموماً صنفی جذبات نہیں ابھرتے۔ البتہ انہیں زینت کی نمائش کرنے سے منع کیا گیا ہے:

وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاء اللَّاتِیْ لَا یَرْجُونَ نِکَاحاً فَلَیْْسَ عَلَیْْہِنَّ جُنَاحٌ أَن یَضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِیْنَۃٍ وَأَن یَسْتَعْفِفْنَ خَیْْرٌ لَّہُنَّ(النور:۶۰)

’’اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں اورنکاح کی امیدوار نہ ہوں وہ اگراپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، بہ شرطے کہ زینت کی نمائشکرنے والی نہ ہوں، تا ہم وہ بھی حیا داری ہی برتیں تو ان کے حق میں اچھا ہے۔‘‘

سورۂ احزاب میں ہے:
یَٰأَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْْنَ (الأحزاب:۵۹)

’’اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپراپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے، تا کہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ ‘‘

اس آیت میں ’جلابیب‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کی واحد ’جلباب‘ ہے۔ جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا جسم چھپ جائے۔ حکم دیا گیا کہ عورتیں گھروں سے باہر نکلیں تو چادر سے اپنا پورا بدن ڈھک لیا کریں۔ اس طرح انہیں پہچان لیا جائے گا کہ وہ شریف عورتیں ہیں اور بد قماش لوگ انہیں چھیڑنے کی جرأت نہ کرسکیں گے۔

چہرہ کا پردہ
اوپر آیت گزری کہ عورتوں کو اظہارِ زینت سے منع کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے: وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا (النور:۱ ۳)’’ اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں، بجز اس کے جوخود سے ظاہر ہوجائے۔‘‘ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں صحابہ وتابعین کے درمیان اختلاف تھا۔بعض کے نزد یک اس سے مراد ہے چہرہ اور ہاتھ اور وہ اسباب ِ زینت جو ان میں ہوتے ہیں کہ وہ پردہ میں داخل نہیں، جب کہ بعض کے نزدیک اس سے مراد بیرونی کپڑے ہیں کہ انہیں چھپاناممکن نہیں۔ ان کے نزدیک عورت نامحرموں سے چہرہ اور ہاتھ دونوں کا پردہ کرے گی۔یہ اختلاف بعد میں مفسرین، محد ثین، فقہا اور اہل ِ علم کے درمیان بھی باقی رہا۔

اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمان عورت کے چہرہ چھپانے یا نہ چھپانے پر تو علماء کا اختلاف ہے، لیکن اس کے علاوہ پورا بدن چھپانے پر ان کا اتفاق ہے، کیوں کہ یہ حکم صراحت سے قرآن مجید میں موجود ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ حجاب کا حکم قرآن میں موجود نہیں، یہ بعد کے زمانے کی ایجاد ہے۔