جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ

85

قسط نمبر8

بیسویں صدی
یہ دور بہت ہی پیچیدہ ہے اور نہایت اہم۔ اہم تو اس لیے ہے کہ مغرب نے اس دور میں موٹر، ہوائی جہاز ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، ایٹم بم ، ہائیڈروجن بم ، مصنوعی سیارے اور اس قبیل کی چیزیں ایجاد کر کے اپنی مادی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ بھی دکھا دیا ہے کہ مغرب کے پاس نفسانی خواہشات کی تسکین کا کتنا کچھ سامان موجود ہے۔ ان مظاہروں سے مشرق کا ذہن بھی شدید طور سے متاثر اور مرعوب ہوا ہے اور مشرق بھی بڑی تیزی سے مغرب بنتا جا رہا ہے۔ اس لیے علما کو دین کی حفاظت میں بھی مشکل پیش آرہی ہے، کیونکہ بہت سے تعلیم یافتہ لوگ تو علماء کی بات سننے کو ہی تیار نہیں اور جو تیار بھی ہیں وہ سمجھ نہیں سکتے۔ یہ دور پیچیدہ اس لیے ہے کہ یہ دور نہ تو محض عقل (جزوی) کا دور ہے نہ محض سائنس کا نہ محض اشتراکیت کا نہ محض بے دینی کا۔ اس دور کی حقیقت یہ ہے کہ سارے رجحانات اور سارے افکار اپنے تضاد کے باوجود بیک وقت موجود ہیں، اور ان کے اندر کسی قسم کی درجہ بندی نہیں ہے، بلکہ سب کو ایک ہی سطح پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔ عموماً ایک ہی شخص کے ذہن میں دو بالکل متضاد رجحان کام کرتے رہتے ہیں اسے کبھی ایک طرف لے جاتے ہیں کبھی دوسری طرف خود ہمارے یہاں یہ حال ہو گیا ہے کہ علماء گمراہی کی ایک شکل کا مقابلہ کر کے اسے دباتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ دوسری شکل نمودار ہو جاتی ہے پھر تیسری پھر چوتھی۔ مذہب کی مخالفت کا زمانہ دراصل پہلی جنگ عظیم (1914ء سے 1919ء تک) کے ساتھ ختم ہو گیا ہے اور اب جدیدیت کا وہ دور آیا ہے کہ جب جھوٹے دین اور جھوٹی روایتیں ایجاد کی جارہی ہیں اور ہر جھوٹا دین اصلی دین ہونے کا دعوی کر رہا ہے۔ مثلاً انیسویں صدی میں بہت سے مغربی لوگ یہ کہتے تھے کہ ہمارے لیے عیسائیت پر ایمان لانا مشکل ہے۔ بیسویں صدی میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم عیسائیت پر پورا ایمان رکھتے ہیں، لیکن اس سے ان کی مراد ایک خود ساختہ مذہب ہوتا ہے۔

بیسویں صدی میں خارجی طور پر بھی ایسے زبردست واقعات ہوئے ہیں جن کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان سے پوری دنیا متاثر ہوئی ہے اور خصوصاً یورپ اور امریکہ میں تو معاشرے کی بنیادیں مل گئی ہیں۔ اس قسم کے زلزلے آئے چلے جا رہے ہیں اور مغرب ہروقت ان کے خوف سے کانپتا رہتا ہے۔ اس قسم کے واقعات کی فہرست یہ ہے:

-1 پہلی جنگ عظیم 1914ء سے 1919ء تک اس جنگ نے مغرب والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ’’ترقی‘‘ کے جتنے دعوے انیسویں صدی میں ہوئے تھے وہ درست بھی ہیں یا نہیں۔

-2 1928ء کے قریب معاشی بحران اور بے روزگاری پھیلنا۔

-3اس بحران کے زیر اثر جرمنی میں ہٹلر کے ماتحت اور اٹلی میں مسولینی کے ماتحت آمریت کا قیام اور ہٹلر کا دنیا کو فتح کرنے کا منصوبہ۔

-4ادھر1918ء میں انقلاب روس کے بعد کمیونسٹ نظام قائم ہو گیا تھا اور سرمایہ اور مزدور کی جنگ اب براہ راست دو مادی طاقتوں کی جنگ بن گئی۔

-5بیسویں صدی کے شروع سے لے کر1940ء تک بہت سی محیرالعقول ایجادات لوگوں کے سامنے آچکی تھیں جنہوں نے لوگوں کے ذہن میں اور عملی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔۔ موٹر ، سینما، ہوائی جہاز ریڈیو ، ٹیلی ویژن۔

-6دوسری جنگ عظیم (1939ء سے 1945ء تک) جس نے سیاسی طاقتوں کا نقشہ ہی بدل دیا اور امریکہ اور روس دنیا کی دو عظیم ترین طاقتیں بن کر نمودار ہوئے۔

-7 1945ء میں امریکہ نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم پھینکا۔ اب لوگوں کو پتا چلا کہ سائنس میں بربادی پھیلانے کی کتنی بڑی قوت ہے اور اس سے پوری انسانیت کے فتا ہو جانے کا خطرہ ہے۔ چنانچہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ سائنس رحمت ہے یا لعنت۔

-8دوسری جنگ عظیم کے بعد ایشیا اور افریقہ کے ممالک سیاسی طور پر آزاد ہونے لگے مگر معاشی اور ذہنی اعتبار سے مغرب کے اور بھی زیادہ اسیر ہو گئے کیونکہ انہوں نے مادی ترقی کو اپنا مطمع نظر بنا لیا۔

-9 امریکہ اور روس کی عالمی پیمانے پر کشمکش شروع ہو گئی اور انجمن اقوام متحدہ ان دو طاقتوں کا اکھاڑہ بن گئی۔

-10:1948ء میں چینی انقلاب آیا اور وہاں کمیونسٹ حکومت قائم ہو گئی۔ آہستہ آہستہ چین دنیا کی تیسری بڑی طاقت بننے لگا اور امریکہ کے ساتھ ساتھ روس سے بھی اس کی رقابت شروع ہو گئی۔

-11: 1956ء میں روس نے خلاء میں مصنوعی سیارہ چھوڑا اور اس کے بعد زمین کی لڑائیاں فضا میں بھی پہنچ گئیں۔ علاوہ ازیں مغرب کے لوگ چاند اور دوسرے سیاروں تک پہنچنے کے خواب دیکھنے لگے۔

-12پہلے کوریا کی جنگ، پھر نہر سوئز کی جنگ پھر ویت نام کی جنگ نے ثابت کر دیا کہ تیسری جنگ عظیم کسی روز بھی شروع ہو سکتی ہے اور انسانیت ہلاکت کے خطرے سے ہر وقت دوچار ہے۔

-13اسرائیل کی ریاست کا قیام اور پھر1967ء میں اسرائیل کا بیت المقدس پرقبضہ۔

-14: 1968ء کے آغاز میں سونے کی خرید و فروخت کی وجہ سے مغربی ممالک میں سکون کا بحران۔ امریکہ کے لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام بالکل محفوظ و مامون ہو چکا ہے اور اب اس نظام میں کوئی بڑا زلزلہ نہیں آئے گا۔ مگر اس واقعے نے ان توقعات کو باطل کر دیا۔

-15:1968ء میں امریکہ اور یورپ میں (سرمایہ دار اور اشتراکی دونوں قسم کے ممالک میں طالب علموں کے زبردست ہنگامے ، اور طالب علموں کا مطالبہ کہ تعلیمی نظام، معاشی نظام سیاسی نظام ہر چیز ان کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔

اب بیسویں صدی کے فکری رجحانات کی طرف آتے ہیں۔ نیا سائنس ہو یا گی نفسیات یا نیا فلسفہ ان سب میں روح اور عقل کلی ہی نہیں، بلکہ عقل جزوی کا بھی انکار موجود ہے۔ مگر عقل جزوی کی مخالفت کرتے ہوئے یہ لوگ اس سے اوپر نہیں جانا چاہتے بلکہ نیچے اترتے ہیں، یعنی جبلت اور ٹھیٹ جسمانیت کی طرف اٹھارویں صدی عقل جزوی کی پرستش کرتی تھی انیسویں صدی میں جذبات پرستی کا غلبہ تھا۔ بیسویں صدی جبلت اور جسم کو پوجتی ہے اور اسی کو روح سمجھنا چاہتی ہے۔ اس دور کے بہت سے مفکریہ کہتے رہے ہیں کہ انسانیت کی معراج وہ ہو گی جب روح جسم بن جائے اور جسم روح بن جائے اس قسم کے الفاظ بہت پر قریب ہیں۔ مثلاً ہمارے بعض صوفیا نے کہا ہے۔ ’’اجسادنا ارواحنا وارواحنا الجسادنا‘‘ ایسے اقوال عیسوی متصوفین سے بھی منقول ہیں۔ نئے مفکر جان بوجھ کر پرانے ادیان کی اصطلاحیں اور الفاظ استعمال کرتے ہیں تاکہ اشتباہ پیدا ہو اور لوگ دھوکے میں آجائیں۔ آج کل مغرب کے بہت سے لوگ اور ہمارے یہاں بھی کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ پھر مذہب کی طرف واپس آرہا ہے۔ بعض علماء بھی یہ قول نقل کرنے لگے ہیں۔ مگر یہ بہت ہی خطرناک خیال ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی بے دینی بھی اصل دین کے لیے ایسی زہریلی نہیں تھی جیسی یہ نئی ’’مذہبیت‘‘ ہے۔ لہٰذا تمام نئے فلسفوں سے اور نئے سائنس سے چوکنا رہنا لازمی ہے۔

بیسویں صدی کے فلسفوں میں سب سے پہلے امریکہ کے دو فلسفیوں ولیم جیمز اور جان ڈیوی کا نام آتا ہے۔ ان کے فلسفے کو’’” عملیت‘‘ (Pragmatism) کہتے ہیں۔ ان لوگوں کی رائے ہے کہ کوئی خیال یا نظریہ بذات خود صحیح یا غلط نہیں ہو تا بلکہ ہر خیال کی قدر و قیمت کا فیصلہ اس لحاظ سے ہونا چاہیے کہ عملی یعنی مادی زندگی میں اس کے اثرات اور نتائج کیا ہوں گے۔ یہ فلسفہ دراصل فلسفہ اور فکر ہی کا خاتمہ ہے۔ ولیم جیمز نے دراصل فلسفے ہی کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور ہوا بھی یہی ہے کہ پرانے زمانے میں جس چیز کو فلسفہ کہتے تھے وہ اب ختم ہو گیا ہے۔ ولیم جیمز نے عقل (جزوی) کے مقابلے میں “تحت الشعور ” نکالا۔ اس کے نزدیک انسانی افعال پر عقل کے بجائے تحت الشعور زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ یعنی جبلتیں انسان پر حکمرانی کرتی ہیں۔ روح کو تو لوگ بھول ہی گئے تھے ، جیمز نے نفس کو بھی خالص طور سے جسمانی عوامل میں ملا دیا۔

ولیم جیمز نے ایک اور اصطلاح نکالی جو بہت مقبول ہوئی اور یہ ہمارے یہاں بھی چل پڑی ہے۔ ’’مذہبی تجربہ‘‘ یہ مذہبی تجربہ واحد بھی نہیں۔ اس کی کتاب کا نام ہے ’’مذہبی تجربے کی انواع‘‘۔ اس کے نزدیک مذہب کی روح عقائد نہیں اور نہ عبادات لازمی ہیں۔ بلکہ اصلی چیز ہے جذباتی تلاطم اور مکاشفات۔بحر یوں تو سائنس دان بھی تھا اور فلسفی بھی ، لیکن اسے روحوں سے باتیں کرنے اور اس قسم کی جھوٹی ”روحانیت ” سے گہری دلچسپی تھی۔ چنانچہ اس قسم کے تجربات کی بنا پر اس نے مذہب کا ایک نیا نظریہ تیار کردیا جو آج تک مقبول ہے۔ اسی طرح اس نے عبادت اور دعا کا بھی ایک فلسفہ نکالا تھا۔ اس کے خیال میں عبادت اور دعا کا مقصد یہ ہے کہ محاسبہ نفس کیا جائے۔ یہ بات ہمارے یہاں بھی بعض لوگ کہہ رہے ہیں۔

بیسویں صدی کے آغاز کا ایک اور بڑا فلسفی ہے برگساں۔ چونکہ اس نے عقل (جزوی) کی مخالفت کی ہے اور وجدان ” کا نام لیا ہے اس لیے ہمارے یہاں بھی بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ مذہب کے بہت قریب آگیا ہے۔ لیکن اس کے افکار سراسر ضلالت اور مادہ پرستی پر مشتمل ہیں۔ عقل کلی کا اس کے ذہن میں تصور تک نہیں تھا۔ اس کے یہاں عقل سے مراد عقل جزوی اور عقل معاش ہی ہے۔ چنانچہ اس نے عقل کا فریضہ یہ بتایا ہے کہ معاشی زندگی کی ضروریات اور خارجی اشیاء سے نبٹے۔ انسان کی سب سے بڑی صلاحیت اس کے نزدیک وجدان ” ہے۔ لیکن یہ وجدان عقل کلی سے متعلق نہیں جس طرح ہمارے یہاں ہے۔ برگساں کے وجدان کی بنیاد جبلت پر ہے۔

پھر اس نے ’’تخلیفی ارتقا‘‘ کا تصور بھی نکالا ہے۔ ڈارون تو ’’ارتقا‘‘ کو ایک مشینی قانون سمجھتا تھا جو نہ تو شعور رکھتا ہے نہ ارادہ برگساں کے نزدیک نہ صرف انسان بلکہ ’’فطرت‘‘ اور ’’حیات‘‘ اپنے اندر ایک ایسی قوت رکھتی ہے جسے ارادہ بھی حاصل ہے اور شعور بھی یہی قوت ہے جو انسان کو بلکہ پوری کائنات کو ارتقا کی منزلیں طے کرا رہی ہے۔ یعنی کائنات فطرت حیات خود اپنی ذات سے زندہ ہے اور اپنے ارادے سے عمل کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فلسفے صریح شرک اور کفر ہیں۔ چنانچہ برگساں نے ایک نیا مذہب نکالا ہے جس کا خدا ہے۔ ”حیات‘‘ یا ’’زندگی‘‘ نعوذ باللہ یہ مذہب بیسویں صدی میں پوری طرح پھیل چکا ہے اور ہمارے یہاں بھی اس کے شدید اثرات موجود ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ برگساں اور دوسرے نئے مفکر مادہ پرستی کے خلاف ہیں۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ نئے مفکر اگر مادے کے قائل نہیں تو ’’توانائی‘‘ کے قائل ہیں یا ’’حیات‘‘ کے قائل ہیں۔ اس ’’حیات‘‘ کو وہ مادے کی شکل میں نہیں دیکھتے تو ’’سیال‘‘ یا بجلی کی لہر کی شکل میں یا کسی اور شکل میں دیکھتے ہیں۔ بہرحال فی الحقیقت مادے کی حدوں سے نہیں نکلتے۔ جس چیز کو ہمارے یہاں معقولات میں ’’طبیعت‘‘ کہا جاتا ہے، یہ لوگ تو اس کے بھی پست ترین درجے پر اتر آئے ہیں۔ اوپر سے ان لوگوں کا اصرار ہے کہ روح اسی توانائی یا حیات کی ایک شکل ہے۔ یعنی یہ لوگ روح کو بھی جسم یا مادے ہی سے نکالتے ہیں۔ نئے مفکر اور سائنس داں جو روح کے قائل ہوئے ہیں تو اس کا مطلب محض یہ ہے۔ علماء کو اس معاملے میں خوش نما الفاظ کے؍ قریب میں نہیں آنا چاہیے۔

’’حیات پرستی‘‘ کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج کل مغربی لوگوں کے نزدیک انسان کے لیے عروج کا سب سے بڑا نقطہ یہ ہے کہ وہ ظاہر و باطن دونوں میں ایک ’’صحت مند جانور‘‘ بن جائے۔ ہمارے علما تو طنز کے لیے کہتے ہیں کہ مغرب کے لوگ جانور بن گئے ہیں، لیکن مغرب کے لوگ جانور بن جانے پر فخر کرتے ہیں، اور جتنے بھی جانور بن گئے ہیں اس سے بھی زیادہ بننا چاہتے ہیں۔

یوں ’’انسان پرستی‘‘ تو اب بھی جاری ہے لیکن در حقیقت بیسویں صدی کے سارے فلسفے انسان کو انسان کے درجے سے نیچے لے جانا چاہتے ہیں۔ غرض ’’عقل پرستی‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’انسان پرستی‘‘ کا بھی زوال اس دور میں ہوا ہے۔

انسانوں میں بھی جو لوگ مغربی ذہن کو پسند آتے ہیں وہ وحشی قبائل یا قدیم زمانے کے انسان ہیں۔ مغرب کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد و حشیوں کے عادات و اطوار اور رہن سہن کے طریقے اختیار کرنا چاہتی ہے۔ بلکہ مظاہر پرستی اختیار کرنے میں بھی انہیں باک نہیں۔ چنانچہ انسان کو خدا کا درجہ دینے کا رجحان تو خیر چل ہی رہا ہے، لیکن اس کے پہلو بہ پہلو انسان سے نفرت بھی روز بروز شدید ہوتی جارہی ہے۔ آج کل ایسا شعر و ادب نہایت مقبول ہے جو انسان سے نفرت پیدا کرتا ہے۔

بیسویں صدی کے شروع سے جن نظریات نے مغربی ذہن کو شدید طور سے متاثر کیا وہ کمیونزم اور فرائڈ کی نئی نفسیات ہیں۔ اشتراکیت اور کمیونزم یا مارکسیت میں تھوڑا سا فرق ہے۔ اشتراکی جماعتیں تو بہت سی ہیں اور ان میں مشترک اصول صرف یہ ہے کہ ذرائع پیداوار کو افراد کی نہیں بلکہ معاشرے یا ریاست کی ملکیت ہونا چاہئے اور ذرائع پیداوار کا پورا انتظام بھی ریاست ہی کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔

کمیونزم یا مارکسیت اشتراکیت کی ایک خاص شکل ہے۔ اس کا بانی انیسویں صدی کا جرمن مفکر کارل مارکس ہے۔ اس کے نظریات کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ انسان کی پوری زندگی کا دارو مدار معاشیات پر ہے اور تہذیب ہو یا فلسفہ یا شعر و ادب یا مذہب سب کا تعین معاشی عوامل کرتے ہیں۔ ہر زمانے میں انسان کے پاس جس قسم کے ذرائع پیداوار ہوں گے اس کے مطابق اس زمانے کا فلسفہ اور تمدن ہو گا، یہاں تک کہ مذہب بھی اسی لیے اس کے نظریے کا نام ”جدلیاتی مادیت‘‘ ہے۔ مادیت کی تشریح تو ہو چکی۔ ’’جدلیات‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ ہر زمانے میں معاشرتی طبقے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہے ہیں۔ ہر زمانے میں ذرائع پیداوار کے لحاظ سے ایک طبقے کی حکمرانی ہوتی ہے، اور جب ذرائع پیداوار میں ترقی ہوتی ہے تو حکمراں طبقہ شکست کھا جاتا ہے اور اس سے نیچے کا طبقہ حکمراں ہو جاتا ہے۔ انیسویں صدی کے درمیان میں مارکس نے اعلان کیا تھا کہ اب وہ دور آگیا ہے جب معاشرے میں اقتدار مزدور طبقے کا ہونا چاہئے۔ انقلاب روس کے رہنما لینن نے اس فلسفے میں یہ اضافہ اور کیا کہ جب مزدوروں کی حکومت پوری طرح مستحکم ہو جائے گی اور طبقاتی کشمکش مٹ جائے گی تو پھر ریاست کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور آہستہ آہستہ ریاست ’’مرجھا‘‘ کے ختم ہو جائے گی۔

بیسویں صدی میں مغربی ذہن پر عمرانیات کا بھی خاص طور سے اثر پڑا۔ کمیونزم تو ہر انسانی سرگرمی کا ماخذ معاشیات کو سمجھتی ہے۔ عمرانی نظریئے بنیادی طور سے اس خیال کی وسیع تر شکل ہیں۔ یوں عمرانی فلسفے تو درجنوں ہیں اور ان کے درمیان بہت سے اختلافات ہیں۔ مگر ان میں مشترک خیال یہ ہے کہ اصلی چیز انسان کی عمرانی زندگی اور اس کے مسائل ہیں، دوسری چیزیں اس کی شاخیں ہیں۔ فلسفہ ہو یا مذ ہب یہ بھی عمرانی مسائل کے حل کرنے کے طریقے ہیں۔ عمرانیات والے بظاہر مذہب کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ بعض تو مذہب کو ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کی نظر میں مذہب کی وہی قدر و قیمت اور نوعیت ہے جو شادی بیاہ کی رسموں کی یا کھیل کود کی۔

بیسویں صدی میں جو عقلیت پرستی ختم ہوتی ہے تو اس میں بڑا ہاتھ ’’نئی نفسیات‘‘ کا ہے۔ اس دائرے میں سب سے گہرا اثر فرائڈ کا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کے افعال اقوال اور افکار میں عقل (جزوی) اور شعور کا دخل بہت ہی کم ہے۔ انسان پر اصل میں حکمرانی ’’لا شعور‘‘ کی ہے۔ اس ’’لاشعور‘‘ سے مراد جبلتیں ہیں اور جبلتوں میں بھی سب سے اہم جنسی جبلت (Sex instinct) یا ’’جنسی توانائی‘‘ (Libido) ہے۔ انسان کی جتنی بھی ظاہری اور باطنی سرگرمیاں ہیں وہ سب بلا واسطہ یا بواسطہ جنسیت سے ہی نکلی ہیں اور کسی نہ کسی شکل میں اسی جبلت کا اظہار کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ مذہب بھی۔

1921ء کے قریب فرائڈ نے اپنے نظریات میں ایک بنیادی تبدیلی کی، پہلے تو وہ اس مفروضے کی بنیاد پر چلتا تھا کہ انسان لذت (Pleasure) کا طالب ہے اور تکلیف (Pain) سے بچتا ہے۔ لیکن اب اس نے یہ خیال پیش کیا کہ نہ صرف انسان بلکہ ہر جاندار چیز موت کی طالب ہے، اور بے جان بننا چاہتی ہے۔ اپنی تائید میں اس نے عربی کا یہ مقولہ بھی پیش کیا۔ كل شي برجع الى اصلہ یعنی اس کے نزدیک حیات کی اصل عدم ہے اور حیات اپنی اصل کی طرف جانے میں کوشاں رہتی ہے۔ غرض انسانی زندگی سے مراد ہے دو اصولوں کی مسلسل کشمکش ۔ ایک طرف جنس یا محبت (Eros) ہے، دوسری طرف موت (Thanatos) اور یہ کشمکش آخر فنا پر ختم ہوتی ہے۔

نئی نفسیات میں دوسرا مشہور نام یونگ کا ہے۔ اس نے “جنسیت ” (Libido) کے مفہوم کو وسعت دے کر ”زندگی کی بنیادی توانائی ” کا مفہوم اس لفظ میں داخل کیا۔ فرائڈ نے جس لا شعور ” کا ذکر کیا تھا اس کا تعلق فرد سے ہے۔ یونگ نے ’’اجتماعی لاشعور‘‘ دریافت کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ پوری انسانیت کا ایک واحد ’’لاشعوری ذہن‘‘ ہے اور یہی ہر انسانی سرگرمی کا منبع و مخرج ہے۔ جو باتیں مختلف مذاہب خدا کی ذات و صفات کے بارے میں کہتے رہے ہیں یا روح کے بارے میں ان میں سے اکثر یونگ نے اجتماعی ’’لاشعور‘‘ کی طرف منتقل کردی ہیں۔ نعوذ باللہ ۔ اسی طرح افلاطون نے جن ’’اعیان‘‘ کا ذکر کیا ہے، یونگ انہیں عالم مثال سے اتار کر اجتماعی ’’لاشعور‘‘ (یعنی نفس) میں لے آیا ہے۔ بلکہ آخر میں تو اس نے یہ کہا ہے کہ ’’اعیانٗ‘‘ نامیاتی اجسام کی حیاتیاتی ساخت میں موجود ہیں ، یعنی جسمانی اور مادی چیزہیں۔

فرائڈ تو مذہب کو ایک ’’فریب‘‘ اور ’’وحشیانہ دور‘‘ کی یادگار سمجھتا تھا۔ یونگ مذہب کا قائل ہے اور اسے ضروری سمجھتا ہے، لیکن وحی کو نہیں مانتا۔ بلکہ یہ کہتا ہے کہ وحی بھی اجتماعی لاشعور کا ظہور ہے۔ نعوذ باللہ ۔ عموماً مشہور یہ ہے کہ یونگ کے اثر سے مغرب میں مذہب زندہ ہو رہا ہے۔ ہمارے یہاں بھی بعض لوگ یہی کہہ رہے ہیں ، لیکن اس کے نظریات انتہائی گمراہ کن ہیں۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ اس نے تمام دینی تصورات اور متصوفانہ رموز کی نفسیاتی تشریح کردی ہے اور اس طرح انہیں یوں صبح کیا ہے کہ جو لوگ اس کے زیر اثر آئے ہیں ان کے لیے مذہب کو سمجھنا تقریباً نا ممکن ہو گیا ہے۔

غرض، نئی نفسیات کے جتنے بھی نظریات ہیں سب کے سب صریح نفس پرستی ہیں اور نفسیات کا مذہب سے دور کا بھی تعلق نہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تو روس اور امریکہ میں یہ رجحان غالب آتا چلا جا رہا ہے کہ جتنے بھی نفسیاتی اور ذہنی عوامل ہیں وہ سب دراصل عضویاتی اور جسمانی عوامل ہیں۔ چنانچہ نفسیات بحیثیت ایک علیحدہ علم کے ختم ہو رہی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ روح کو تو خیر مغرب بھول ہی گیا تھا اب ذہن یا نفس سے بھی بیگانہ ہوتا جا رہا ہے اور آخر جسم ہی جسم رہ گیا ہے۔ نفسیات کے ساتھ ہی ایک اور نئے علم کا ذکر ہونا چاہیے جس کا نام Cybernetics ہے۔ اس علم کے ذریعے کمپیوٹر بنایا گیا ہے، یعنی وہ مشینیں جو انسانی ذہن کے بعض عوامل خود سر انجام دے سکتی ہیں، مثلا ریاضی کے پیچیدہ مسئلے حل کر دینا سوالوں کے جواب دینا بلکہ معاشی اور سیاسی عوامل کے متعلق پیشین گوئیاں کرنا بھی۔ اس علم کے پیچھے مفروضہ یہ ہے کہ انسانی ذہن مشین کی طرح کام کرتا ہے، اور جس طرح کے قوانین مشینوں کو چلاتے ہیں ایسے ہی قوانین ذہن کو بھی چلاتے ہیں۔ اگر یہ قوانین معلوم ہو جائیں تو انسان مشینوں سے وہی کام لے سکتا ہے، جو ذہن سے لیے جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ امید بندھتی ہے کہ جس طرح انسان کائنات اور فطرت کی تسخیر کر سکتا ہے، اسی طرح انسانی ذہن کی بھی تسخیر کر سکتا ہے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔ یعنی ذہن بھی دراصل جسم یا مادہ ہی ہے اور اس سے وہی سلوک کیا جاسکتا ہے جو مادے کے ساتھ ہوتا ہے۔

انیسویں صدی میں بہت سے لوگوں نے ’’روحانیت‘‘ ’’تصوف‘‘ اور ’’باطنی علم‘‘ کے معنی یہ لیے تھے کہ ان چیزوں کا مقصد ہے انسانی ذہن کی ’’پوشیدہ قوتوں‘‘ کو بیدار کرنا۔ مثلاً بغیر کسی خارجی ذریعے کے لوگوں کے ذہن کو متاثر کرنا بغیر کسی آلے کے دوسرے شہر یا ملک کا حال بتانا وغیرہ مگر انیسویں صدی کے سائنس دان ایسی چیزوں کو ضعیف الاعتقادی اور تو ہم پرستی جتاتے تھے۔ لیکن بیسویں صدی کے بعض سائنس دان ان چیزوں پر تحقیقات کر رہے ہیں، اور انہیں اصولاً ممکن ماننے لگے ہیں۔ ایسی ذہنی قوتوں کو یہ لوگ ’’ماورائے حسی ادراک‘‘ کہتے ہیں۔ اس تحقیقات کا شوق روس تک کے سائنس دانوں کو ہے۔ اس رجحان سے بعض دفعہ یہ دھوکا ہوتا ہے کہ اب سائنس روحانیت اور مذہب کے قریب آرہا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس نظریے کی بنیاد بھی مادیت پر ہے۔ بلکہ روح اور مذہب کی حقیقت پر پردہ ڈالنے میں اس سے اور بھی مدد ملتی ہے۔

غرض موجودہ سائنس ہو یا نفسیات یا فلسفہ کہیں بھی دین کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ ایسے لوگ مذہب اور روحانیت کی جتنی مدح سرائی کرتے ہیں وہ سب قریب ہے، بنیادی طور سے ذرا بھی فرق نہیں ہوا ہے۔ اب تک سائنس مذہب کا دشمن بن کر سامنے آتا تھا ، اب دوست بن کر آرہا ہے۔ یہ زیادہ خطرناک ہے۔ انیسویں صدی تک کا سائنس مذہب پر بہت سے اعتراض کرتا تھا اور شکوک و شبہات پیدا کرتا تھا۔ نیا سائنس اب ان پرانے اعتراضات کو چھوڑ چکا ہے کیونکہ سائنس نے عقلیت پرستی چھوڑ دی ہے۔ لیکن نیا سائنس ’’جبلت پرستی‘‘ یا جسم پرستی یا ’’حیات پرستی‘‘ کرنے لگا ہے۔ اس لیے مذہب کو ختم کرنے کے بجائے ایک نیا مذہب بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سائنس پرانے سائنس سے بھی زیادہ مسلک ہے، پرانا سائنس خدا کے وجود سے منکر تھا۔ نیا سائنس نے خدا ایجاد کر رہا ہے۔

یہ نئے مذہب اس وجہ سے اور بھی گمراہ کن ہیں کہ :

-1ان یہ مذہب، روح خدا سب کو مانتے ہیں۔

-2 عموماً سارے مذاہب کو برحق کہتے ہیں۔

-3الفاظ اکثر وہ استعمال کرتے ہیں جو مذاہب استعمال کرتے رہے ہیں۔

-4مختلف مذاہب سے عقائد یا رموز لے کر انہیں آپس میں جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
-5 بنیادی طور سے ان سارے مذاہب کا خدا ایک ہی ہے، یعنی مادہ خواہ اس کا نام کچھ بھی رکھا جائے۔
جیسا کہ اوپر دکھایا گیا ہے، جس چیز کو انیسویں صدی تک فلسفہ کہا جاتا تھا اسے تو بیسویں صدی کے شروع میں ولیم جیمر کی ’’عملیت‘‘ نے فی الحقیقت ختم ہی کر دیا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد چند ایسے نظریات ابھرے ہیں جو فی الاصل فلسفہ بھی کہلانے کے مستحق نہیں، لیکن انہیں فلسفہ کہا جاتا ہے۔ پھر ان کا اثر نئی عیسوی دینیات پر بھی ہوا ہے اور ہمارے یہاں بھی اس کا اثر خاصا پھیل گیا ہے۔ ان فلسفوں میں سب سے نمایاں ’’وجود پرستی‘‘ (Existentialism) ہے۔ یہاں ’’وجود‘‘ سے مراد کسی طرح کا ’’وجود مطلق‘‘ نہیں بلکہ انسان کا ’’نفسی وجود‘‘ ہے۔ یہ فلسفہ موجود تو تھا پہلے سے مگر اسے رواج فرانس کے فلسفی اور ادیب ژاں پال سارتر نے1945ء کے بعد دیا ہے اور مذہبی میدان میں اس فلسفے کا سب سے بڑا امام ہے کیر کے گور (Kierkegaard) جو تھا تو انیسویں صدی کا مگر اس کا اثر اب ہوا ہے۔ اس فلسفے کے پھیلانے میں زیادہ حصہ ادب کا ہے اور یہ نوجوانوں میں زیادہ مقبول ہوا ہے۔
اب تک یہ فلسفے کا مسلمہ مسئلہ تھا کہ جو ہر پہلے آتا ہے ، عرض بعد میں۔ یہ فلسفی کہتے ہیں کہ عرض پہلے ہے، جو ہر بعد میں ان لوگوں کے نزدیک انسان میں دو قسم کا وجود ہے۔ ایک وہ وجود (Being) جو پتھروں کو بھی حاصل ہے ، یعنی محض مادی اور جسمانی وجود۔ (یہاں یاد رکھنا چاہئے کہ پرانے فلسفے میں Being کا لفظ وجود مطلق کے معنی میں استعمال ہوتا تھا، مگر یہ لوگ اسے وجود خارجی اور مادی کے معنی میں استعمال کرتے ہیں)۔ دوسرا وجود وہ ہے جس کا ادراک انسان اپنے حسی یا ذہنی شعور کی مدد سے کرتا ہے۔ اس وجود کو یہ لوگ Existence کہتے ہیں۔ اسی دوسرے قسم کے وجود کو یہ لوگ زیادہ اہم سمجھتے ہیں اور اسے انسان کا ما بہ الامتیاز قرار دیتے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ انسان کے وجود کا جو ہر یا ماہیت یا اصلیت کوئی پہلے سے متعین چیز نہیں۔ بلکہ ساری انسانیت کے لیے اس کا تعین حتمی اور مستقل طور پر ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ سوال تو صرف فرد کے سامنے آتا ہے اور اس وقت آتا ہے جب اسے اپنے ’’وجود‘‘ کا احساس پیدا ہو اور یہ احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اسے کوئی داخلی یا خارجی فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے فیصلے انسان کو ہر وقت کرنے پڑتے ہیں ، یہاں تک کہ پانی پینے کے لیے گلاس اٹھاتے ہوئے بھی۔ غرض فرد کو ہر لمحے کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور ہر فیصلے کے ساتھ وہ اپنے جوہر اور اپنی ماہیت کا تعین کرتا ہے۔ لیکن چونکہ ہر لمحے نئی قسم کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے ماہیت کا تعین بھی مستقل طور سے نہیں ہو سکتا۔ ہر فیصلے اور ہر لمحے کے ساتھ جو ہر اور ماہیت کا تعین بھی بدلتا رہتا ہے۔
اس سارے فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ:
-1اپنی ماہیت کا تعین انسان خود کرتا ہے، خدا نہیں۔
-2اس ماہیت کا تعین عمل کے ذریعے ہوتا ہے۔
-3یہ ماہیت مستقل چیز نہیں ، بلکہ بدلتی رہتی ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ سارے خیالات دین کی نفی کرتی ہیں، لیکن آج کل بہت سے مغربی مفکر عیسوی دینیات کو یہی رنگ دے رہے ہیں، اور ہمارے یہاں بھی بعض نوجوان اسلام اور خصوصاً تصوف کی ایسی ہی تفسیر کرنے کو بے قرار ہیں۔(جاری ہے)

’’وجود پرستی‘‘ کے فلسفے نے ایک اور تصویر دنیا میں پھیلایا ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی کے جتنے مظاہر ہیں وہ ’’عمل‘‘ ہیں۔ بہرحال زندگی کو اسی رنگ میں قبول کرنا چاہیے اور زندگی کی ’’مہملیت‘‘ کو قبول کر کے ہی انسان اپنا جو ہر دریافت کر سکتا ہے۔ مغرب کے نوجوانوں میں آج کل جو انتشار پھیلا ہوا ہے اس میں بہت بڑا دخل اسی فلسفے کو ہے۔ مغرب میں آج کل ایک اور فلسفہ مقبول ہو رہا ہے جس کے نام مختلف ہو سکتے ہیں، مگر جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا کے اقرار یا انکار کے مسئلے ہی کو ختم کر دیا جائے۔ یہ فلسفہ انگلستان سے شروع ہوا ہے اور وہاں اس کا نام ’’منطقی ثبوتیت‘‘ (LogicalPositivism) ہے۔ اب تک ہر ملک اور ہر زمانے میں یہ مسلمہ امر رہا ہے کہ جملے کے تین لازمی اجزا ہوتے ہیں، اسم فعل، حرف اور یہ بھی مسلمہ بات رہی ہے کہ اسم کسی چیز کے نام پر دلالت کرتا ہے۔ مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسم چیز پر دلالت نہیں کرتا بلکہ ہر لفظ اور جملہ کسی مخصوص حالت (Situation) میں بولا جاتا ہے۔ چنانچہ جملے میں معنی ڈھونڈنے کے بجائے ہمیں اس حالت کا تجزیہ کرنا چاہئے جس میں یہ جملہ بولا گیا ہے۔ اس قسم کے تجزیئے کے ذریعے یہ لوگ یہ ثابت کرتے ہیں کہ روح یا خدا کے بارے میں جتنے جملے بھی بولے جاتے ہیں وہ نہ بچے ہیں نہ جھوٹے بلکہ بے معنی ہیں۔ بیسویں صدی میں ایک چیز بڑی اہمیت اختیار کرگئی ہے۔۔۔ وقت یا فلسفہ زماں۔ فلسفہ نفسیات ادب ہر جگہ وقت کی ماہیت سے تعرض ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ وقت کا پرانا نظریہ بالکل غلط ہے۔ وہ پرانا نظریہ وقت کو ایک لکیر یا خط کی شکل میں پیش کرتا تھا۔ (Linear Time) – یعنی وقت تین الگ الگ حصوں میں بٹا ہوا تھا… ماضی، حال اور مستقبل۔ اور یہ تینوں حصے الگ الگ تھے۔ چنانچہ جو لمحہ ماضی بن گیا وہ نہ تو حال بن سکتا تھا نہ مستقبل۔ دوسرے لفظوں میں، ہر لمحہ پیدا ہونے کے بعد مرجاتا تھا۔ وقت کا نیا نظریہ کہتا ہے کہ وقت لکیر کی طرح نہیں ، بلکہ دائرے کی طرح یا چکر دار ہے۔ (Circular Time) – ماضی حال اور مستقبل الگ الگ نہیں، بلکہ ہر لمحے میں موجود ہیں۔ وقت کبھی نہیں مرتا، بلکہ ابدی سائنس اس سارے فلسفے کی غرض یہ ہے کہ وقت خارجی چیز نہیں ، بلکہ اندرونی چیز ہے۔ یا یوں کہیے کہ نفس وقت کو جو معنی چاہے دے سکتا ہے۔ یہ فلسفہ زماں اس لیے خطرناک ہے کہ اس کی پشت پناہی کے لیے دینی تصورات سے مدد لی گئی ہے۔ ہمارے یہاں تو لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ فلسفہ زماں سراسر اسلامی ہے۔ یہ لوگ ’’ایام اللہ‘‘ کی تفسیر اسی فلسفے کے معنوں میں کرتے ہیں۔ لیکن اگر اس فلسفے کو مان لیا جائے تو نعوذ باللہ شریعت کے سارے احکام معطل ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایٹم کو توڑنے کے سلسلے میں جو تجربے کئے گئے ہیں ان کے سلسلے میں سائنس دان کہتے ہیں کہ وقت پیچھے کی طرف بھی لوٹتا ہے۔ اس نظریے کو Time Refrection Symmetry کہتے ہیں۔ اگر اس نظریئے کو روز مرہ زندگی پر بھی عائد کر دیا جائے یا وقت کے دوسرے فلسفوں کے مطابق وقت کو ایک اضافی اور داخلی یا اندرونی چیز سمجھ لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آدمی نماز کس وقت پڑھے اور روزہ کس وقت رکھے۔ ہمارے یہاں ان جدید نظریوں کی حمایت میں اولیاء کے واقعات یا حضرت علی کا یہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ ان کی عصر کی نماز کا وقت گزر گیا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے پر سورج واپس آگیا۔ لیکن ہمارے یہاں ایسے واقعات کی حیثیت معجزوں اور کرامتوں کی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ فطرت کا نظام معجزانہ طور پر تھوڑی دیر کے لیے بدل گیا مگر ان کرامتوں سے کوئی شرعی احکام برآمد نہیں ہوتے اس کے بر خلاف وقت کے نئے فلسفے آدمی کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وقت کا نظام آدمی کے تابع ہو سکتا ہے، بلکہ حدیث الوقت سیف قاطع کو ایسے ہی جدید معنی پہنائے گئے ہیں۔ (الوقت سیف قاطع کو بعض جگہ حدیث کہا گیا ہے اور بعض جگہ کسی بزرگ کا مقولہ بتایا گیا ہے۔

حصہ