افغان خواتین اور سوشل میڈیا پر آہ بکا

100

درد کا پس منظر:
سارے عدالتی فیصلوں اور ’فائر وال‘ کے باوجود آج بھی ٹوئٹر پر پاکستان میں غیر اعلانیہ پابندی لگی ہوئی ہے۔ چور رستے سے جاتے ہیں تو عجیب عجیب ٹرینڈ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ٹرینڈ ’’افغان وومن‘‘ کا دیکھا تو خوب مزے لیے۔ یہ ٹرینڈ اُن تمام لبرلز، سیکولرکی شدید تکلیف کا اظہار تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی کودا ہوا تھا۔ افغانی خواتین کی برقع کا مذاق اڑاتی کئی وڈیوز نظر آئیں جو گانے گاکر احتجاج کررہی تھیں، مگر وہ یہ سب یورپی ممالک میں بیٹھ کر اپنی واپسی کے رستے بند کررہی تھیں۔

یہ ساری لبرل خواتین امریکا کی فاش شکست کے بعد بھی اُس کی دی ہوئی ’آزادی‘ کی ہی دلدادہ ہیں۔ اس لیے انسانی حقوق کے نام پر ’تکلیف‘کا ایسا کھیل جاری تھا کہ موقع پاکر ہم نے بھی کچھ جارحانہ شارٹس جڑ دیے۔ معاملہ کیا ہے، پہلے یہ سمجھ لیجیے۔ افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے جس پر پہلے 1979ء میں روس حملہ آور ہوا۔ افغانستان میں اُس وقت کے تمام حکمران بے شک سوشلسٹ و کمیونسٹ نظریات میں ڈوبے ہوئے تھے(یعنی صرف نام کے مسلمان)، تاہم عوام اور حکمرانوں میں کوسوں کا فاصلہ تھا۔ جیسی تیسی بادشاہت وہاں طویل عرصہ چلی۔ یہ والی ساری بادشاہت بھی عوام سے، افغان معاشرت سے کوسوں دور ہوتی تھی۔ معاشرت میں اسلام کی روح بہرحال موجود تھی جس کا اِظہار ہم سب نے روس کے حملے کے بعد 10 سال یعنی 1989ء تک ’جہادِ افغانستان‘ کے عنوان سے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ’فتح کابل‘ کا جشن پاکستان میں بھی پوری ایمانی حرارت سے منایا گیا۔ آپ لاکھ کہیںکہ اس میں امریکا کی مدد شامل تھی، ہم لاکھ بار جواب دیں گے کہ اس مدد کے شامل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور یہ مدد مجاہدین کے صبر و ثبات کے بعد کسی کامیابی کے امکان و لالچ پر آئی۔ ویسے روس کے مقابلے پر امریکا کی مدد جن نادانوں کو سمجھ میں آتی ہے وہ 2001ء سے 2021ء کے 20سالوں میں افغانستان کے اندر امریکی شکست میں کس کی مدد کا لیبل لگائیں گے؟ وہ آج مجاہدین کی ہیلی کاپٹروں و ٹینکوں سے جھولا جھولنے کی وڈیوز سے کیسے انکار کریں گے؟ بہرحال طویل عرصہ جنگ جھیلنے کے بعد2021ء میں وہاں امریکا اپنی شکست تسلیم کرکے اُس وقت کے حکومتی ترجمانوں سے مذاکرات کرکے ملک اُن کے حوالے کر گیا۔

نئی حکومت پرانے اعلان:
طالبان حکومت پر ابتدا میں بہت باتیں کی گئیں۔ امریکا نے 20 سال میں بڑے شہروں میں ادارتی صف بندی کا خطرناک جال بچھا دیا تھا تاکہ اسلام کو کہیں سے کوئی جگہ نہ مل سکے۔3سال تک تو حکومت نے قدم جمانے میں لگائے۔کرکٹ ٹورنامنٹ بھی ہوتے رہے، کھلاڑی اولمپکس میں بھی جاتے رہے، کسی پروپیگنڈے والے معاملے میں ہاتھ نہیں ڈالا گیا، وہ بہت دھیمے انداز سے چلتے رہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں 95 فیصد کمی ہوئی ہے جو دنیا میں کہیں بھی انسدادِ منشیات کی سب سے کامیاب مہم ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے ہر قسم کی منشیات کے خلاف مہم شروع کی۔ منشیات کے عادی افراد اور اسے فروخت کرنے والوں کو گرفتار کیا اور افیون اور بھنگ کی فصلوں کو تباہ کیا۔ اگرچہ سفارتی محاذ پر کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا، لیکن روس اور چین نے کابل کے ساتھ اپنی سفارتی قربت کو بڑھایا ہے۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے مطابق طالبان کے نمائندوں نے گزشتہ تین سالوں میں 92 ممالک کے ساتھ 1,864 مرتبہ ملاقاتیں کیں، جن میں سب سے زیادہ چین، ترکی، ایران، قطر اور پاکستان کے ساتھ ہوئیں۔ پاکستان اور تاجکستان کو چھوڑ کر طالبان کے چین، روس، ازبکستان، قطر کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ طالبان حکومت انڈیا، متحدہ عرب امارات، ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی۔

خواتین کا معاملہ سب سے نازک تھا، طالبان کی ترجیح میں یہ معاملہ سرفہرست تھا، اس لیے کہ کسی اسلامی معاشرت میں ’حیا‘ ہی بنیادی قدر ہوتی ہے۔ مغرب کا سب سے اولین ایجنڈا ’خواتین‘ کو پبلک لائف میں لانا ہوتا ہے، اس کا توڑ کسی بھی مسلم معاشرت کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس لیے پہلے مرحلے میں 2022ء میں خواتین کے لیے این جی اوز کی ملازمت پر پابندی لگائی گئی۔ پھر اگلے سال 2023ء میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کا ماحول بنایا گیا۔ اُن کی دکانیں الگ کی گئیں۔ اس دوران ملکی خزانے کی صورتِ حال کو مستحکم کیا گیا۔ اب تین سال بعد 2024ء میں کہیں جاکر افغان حکومت نے وزارتِ اخلاقیات کے تحت کچھ بڑے فیصلے کیے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے سرخی لگائی کہ ’’طالبان کے نئے منشور پر افغان خواتین کو بدترین خوف لاحق ہے۔ اپنی حکمرانی کے تین سال بعد، اس تحریک نے اپنے سخت اسلامی فرامین کو قانون میں تبدیل کردیا ہے جس میں اب عوام میں خواتین کی آوازوں پر پابندی بھی شامل ہے۔‘‘ صرف نیویارک ٹائمز ہی نہیں، ہر طرف سے ’انسانی حقوق‘ اور ’خواتین حقوق‘ کی آڑ میں خوب زہر اُگلا جارہا تھا۔ بی بی سی کے مطابق طالبان حکومت نے مذہبی حکمرانی نافذ کررکھی ہے اور وہ اخلاقیات کے قانون کو سرکاری طور پر نافذ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گی، لیکن دارالحکومت کابل سمیت ملک کے کچھ حصوں میں اس قانون کو منظم طریقے سے لاگو نہیں کیا جارہا۔ وزارتِ اخلاقیات کے ایک ذریعے نے بی بی سی نیوز پشتو کو بتایا کہ وہ نئی شقوں کے نفاذ کے لیے ایک فریم ورک پر کام کررہے ہیں۔ جب اس فریم ورک کو حتمی شکل دے دی جائے گی تو قانون پر عمل درآمد کے سلسلے میں مزید وضاحت آئے گی۔

احکامات کیا ہیں؟
مروڑ یہ تھاکہ افغانستان حکومت نے 3 سالہ مشاورت کے بعد وزارتِ اخلاقیات کے ذریعے شرعی احکامات کے نفاذ کا آغاز کردیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق ’’طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے اس قانون کی توثیق کی ہے۔ وزارتِ اخلاقیات نے جسے باضابطہ طور پر نیکی کی تبلیغ اور برائیوں کی روک تھام کی وزارت کے نام سے جانا جاتا ہے،اس بات پر زور دیا کہ ملک میں کوئی بھی ان قوانین سے مستثنیٰ نہیں ہے۔‘‘

نئے قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جان داروں کی تصاویر بنانا، رکھنا یا شائع کرنا منع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرندے، جانور یا خاندان کے کسی فرد کی تصویر کھینچنا بھی ممنوع ہے۔ جان داروں کے مجسموں کی خرید و فروخت پر بھی پابندی ہے۔ اس قانون میں اخلاقیات کی پولیس سے کہا گیا ہے کہ وہ ٹیپ ریکارڈر، ریڈیو سے موسیقی بجانے جیسے غلط کام کو روکے جسے شریعت میں ’حرام‘ سمجھا جاتا ہے۔ جان داروں کی تصاویر بنانے، فلموں کی تیاری اور دیکھنے پر بھی پابندی ہے۔

خواتین سے متعلق ان احکامات میں ہے کہ خواتین کو چھٹی جماعت سے آگے صرف گھروں میں تعلیم دی جائے گی۔ لمبا سفر محرم کے ساتھ کیا جائے گا۔ حکم شرع کے مطابق باپردہ حالت میں گھر سے باہر نکلا جائے گا۔ نامحرم مردوں سے خواتین کی آواز کا پردہ رکھاجائے گا۔ مرد ساتر لباس پہنیں گے۔ مرغوں کی لڑائی اور ہم جنس پرستی پر سخت پابندی عائد کی گئی ہے۔ عوامی سطح پر موسیقی پرپابندی کے ساتھ ساتھ مردوں کو داڑھی ختم کرانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

شریعت کی خلاف ورزی کرنے والوں پر زبانی تنبیہ، جرمانے، سنگینی و تکرار پر گرفتاری اور سزا شامل کی گئی ہے۔ حکومت نے اقوام متحدہ کی جانب سے اس پر اٹھائے گئے سارے اعتراضات و خدشات کو ’متکبرانہ‘ اور مداخلت قرار دے کر مسترد کردیا۔ شریعت کا نفاذ جبر کے ساتھ نہیں بلکہ مکمل تبلیغ، اسلامی تعلیمات کی تفہیم، روایتی معاشرت کے مطابق ادب احترام سکھاتے ہوئے کیا جائے گا تاکہ لوگ مطمئن رہیں کہ وہ کسی حکومت کا نہیں بلکہ اپنے اصل مالک کا حکم ہی مان رہے ہیں جس کا وہ کلمہ پڑھتے ہیں۔ مغرب کا مروڑ، دیگر ملکی معاملات میں مداخلت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی تعریف حکومتِ افغانستان اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق کرنے میں آزاد ہے۔ اس پر مزید یہ ہوا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ترجمان رچرڈ کو بھی افغان حکومت نے ملک میں داخلے سے روک دیا، بالکل ایسے ہی جیسے امریکا و دیگر ممالک دیگر پر پابندیاں لگاتے ہیں۔ افغانستان کوئی غلام ملک نہیں ہے، کسی کا پیسہ پائی قرض نہیں لیا ہوا۔

دو رنگی:
ان کو پہلا درد یہ ہے کہ طالبان حکومت نے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا ہے۔ لڑکیوں کی یہ تعداد یونیسکو 14 لاکھ بتاتا ہے (سی بی ایس نیوز)۔ اب ذرا (اے ای سی ایف کی ویب سائٹ سے) صرف امریکا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کو بھی دیکھ لیں جو 40 لاکھ کے قریب ہے۔ کچھ سمجھ میں آیا؟ یہ اُن کے اپنے گھر کا حال ہے اور منہ مارتے ہیں سات سمندر پار۔ یہ تو ایک مثال ہے، مغرب کا چہرہ اتنا سیاہ ہے کہ ہر ہر دلیل پر جواب دیے جا سکتے ہیں، مگر ہم چونکہ پاکستانی ہیں، یعنی صرف پڑوسی ہیں، اس لیے پڑوسی ہونے کا تو حق ادا کریں گے، باقی افغانستان کو بھی کچھ کرنے دیں۔

افغانستان کا جواب:
پڑوسی ہونے کے ناتے یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے 20 سالوں میں ڈیزی کٹر بموں سمیت بارود کا اتنا ڈھیر یہاں خرچ کیا، جس کے استعمال سے افغانستان میں مردوں، خواتین اور بچوں سمیت 60 ہزار سے زائد بے گناہ لوگ مارے گئے، لیکن اس قتل عام پرادارۂ اقوام متحدہ ایک لفظ بھی نہیں بولا تو اب یہاں کیسے کوئی بات کرنے کی ہمت کررہا ہے؟

اسلامی امارات افغانستان اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی تعریف میں بنیادی فرق ہے۔ جسے وہ ’’انسان‘‘ کہتے ہیں اور جسے ہم ’’انسان‘‘ سمجھتے ہیں، اس میں بہت نظریاتی اور دانش ورانہ فرق ہے۔ ایسی صورتِ حال میں وہ کسی ایسی چیز کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں جو اُن کی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی؟ یہی نہیں بلکہ وہ سارا نظریہ، سارا تصور جھوٹ اور دھوکہ دہی پر مبنی ہو، کیونکہ اِن کو ’غزہ‘ میں 11 مہینے سے جاری مسلم نسل کُشی پرکوئی مسئلہ نہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور اطلاعات کی اس صدی میں اقوام متحدہ کی طرف سے ’’انسانی حقوق‘‘ کے نام پر پھیلائے گئے جھوٹ اور من گھڑت باتیں بے نقاب ہوگئی ہیں۔ غزہ، میانمر، سوڈان جیسے علاقوں، یہاں تک کہ امریکا اور یورپ میں ہونے والے مظاہروں نے دکھایا ہے کہ جمہوریت، انسانی حقوق اور مساوات جیسے تصورات بھی جھوٹے نظریات ہیں۔

اسلامی امارات اس بات کا تعین کرے گی کہ اس کے عقیدے سے ’’انسان‘‘ کون ہے، اور اُس کے حقوق کیا ہیں۔ ہمارے لیے، ایک شخص اپنے خالق اور مالک کا ہی وفادار نوکر ہوتا ہے۔ یہ ’’انسان‘‘ دوسرے ’’انسانوں‘‘ کو ان کے رشتوں کے مطابق تمام حقوق عطا کرے گا، جیسے باپ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو، شوہر اپنی بیویوں کو، بیٹے اپنے والدین کو، اساتذہ طلبہ کو۔ اس کے برعکس اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے تصور میں کوئی گھر، کوئی خاندان، کوئی قبیلہ، کوئی والدین، کوئی روایات، کوئی خدا، کوئی کتاب، کوئی نبی نہیں ہے۔

انسانی تعریف کی طرح ہماری اخلاقی تعریفیں بھی میل نہیں کھاتیں، کیونکہ آپ کی اخلاقیات کی بنیاد آپ کے جعلی، دھوکے باز فلسفیوں سے نکلتی ہے جو خدا پر یقین نہیں رکھتے، اسی وجہ سے یہ اخلاقیات فرضی اور بے بنیاد ہیں۔ جبکہ ہمارے اخلاق ہمارے خالق کی 100فیصد سچائی کی تعلیمات پر مبنی ہیں، جسے آپ کبھی نہیں سمجھ پائیں گے۔ ویسے تب تک غزہ، کشمیر، میانمر، سوڈان، نائیجیریا، چین، یوکرین اور دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی اپنی تعریف کو لاگو کرنے پر توجہ دیں۔ یہ ہماری لڑکیاں ہیں، ہماری خواتین ہیں۔ ہم ان کے لیے بہترین فیصلے کریں گے، جیسا کہ آپ اپنے ممالک میں کرتے ہیں، یہاں تک کہ ہزاروں لوگ احتجاج کرتے ہیں لیکن آپ اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرتے۔ لہذا ہم پر اپنی جعلی تعریف مسلط نہ کریں، ایک ایسی تعریف جس پر آپ خود پوری طرح عمل نہیں کرتے۔

حصہ