’’کراچی میں ہونے والی ڈکیتی کی وارداتوں کا مت پوچھیے۔ یہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ پولیس بے بس بلکہ تماشائی بنی ہوئی ہے، ہر شخص ان رہزنوں کے نشانے پر ہے، شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ان کا شکار نہ ہوا ہو۔ اگر کوئی محفوظ رہا تو اْس کا شمار نصیب والوں میں ہوتا ہے، ورنہ گھر لوٹتے ہوئے رقم اور موبائل سے محروم ہونا یہاں کی روایت ہے، یا یوں کہیے کہ شہر کراچی جرائم پیشہ افراد کے لیے سونے کی چڑیا سے کم نہیں۔ وہ جب اور جہاں چاہیں بلا خوف و خطر وارداتیں کرتے پھرتے ہیں۔ کل میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، اپنے علاقے کی مرکزی سڑک پر جاتے ہوئے میرا سامنا ایسے ہی دو ’’کاریگروں‘‘ سے ہوا جو دن دہاڑے اسلحے کے زور پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے میں مصروف تھے۔ ان کی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند منٹوں میں ان سورماؤں نے کئی شہریوں کو موبائل فون اور نقدی سے محروم کردیا۔ چونکہ میں محفوظ رہا، اس لیے میرا شمار بھی اب تک اْن نصیب والوں میں ہے جو ان سماج دشمن عناصر کے شر سے محفوظ ہیں۔ ایسا کب تک رہتا ہے؟ خدا جانے۔ رب کا شکر ہے میں اب تک اس کی امان میں ہوں۔‘‘
رحمت بھائی کی دل سوز کہانی ابھی جاری تھی کہ اشتیاق بھائی نے ایک ایسا قصہ چھیڑ دیا جسے سن کر میرے اوسان خطا ہوگئے، کہنے لگے:
’’رحمت بھائی! اسٹریٹ کرائم اہلِ کراچی کی زندگی کا حصہ ہیں، المیہ تو یہ ہے کہ پچھلے دنوں ہمارے محلے کے رہائشی فضل محمود کے ساتھ دفتر جاتے ہوئے نئے انداز میں یعنی معمول سے ہٹ کر واردات ہوئی۔ شہر کی مرکزی سڑک کے بیچوں بیچ موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے فضل محمود کو چند نوجوانوں نے روکا اور موٹر سائیکل سمیت اپنے ساتھ ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں پہلے سے دو افراد موجود تھے۔ یہاں فضل محمود کے ساتھ جو کچھ ہونا تھا وہ اب تک اْس سے بے خبر تھا۔ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ پہلے تو وہ ان نوجوانوں کو رہزن سمجھا، لیکن جیب میں موجود پیسے اور موبائل فون دینے کی پیشکش کے باوجود ان لوگوں نے کچھ نہ لیا جس کی وجہ سے اس کا ذہن مزید الجھ گیا، بقول فضل محمود وہ بہت خوف زدہ تھا، اسے خبر نہ تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوگا، وہ اس بارے میں بالکل لاعلم تھا، وہ سوچ رہا تھا کہ اسے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ اور یہ کہ آخر وہ لوگ اس سے کیا چاہتے ہیں؟ اس کے گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ سیدھی سادی اغوا برائے تاوان کی واردات ہے۔ خیر تھوڑی دیر میں جب ان افراد میں شامل ایک شخص نے اس سے دس لاکھ روپے تاوان کا تقاضا کرتے ہوئے اسے بذریعہ موبائل فون اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کو کہا تو اسے اندازہ بلکہ یقین ہوگیا کہ وہ اغوا ہوچکا ہے۔ اب سب کچھ عیاں ہوچکا تھا، اسلحہ اٹھائے یہ نوجوان اب زدو کوب بھی کرنے لگے تھے، وہ رقم منگوانے کے لیے مستقل دباؤ ڈال رہے تھے۔ کبھی وہ رقم آن لائن ٹرانسفر کرنے کا کہتے، تو کبھی کیش کی صورت منگوانے کے لیے دھمکیاں دے رہے تھے۔ فضل محمود چونکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا اْس کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ انہیں اپنے گھر کے مالی حالات کے بارے میں بتاتا رہا لیکن اس کی آہ و زاریاں، منتیں اور واسطے سب بے سود تھے۔ وہ تاوان کی ادائیگی کے سلسلے میں فون پر اپنے بھائی سے مستقل رابطہ کرنے کی کوشش کررہا تھا لیکن بڑے بھائی کا موبائل فون بند ہونے کے باعث وہ ہر مرتبہ اس کوشش میں ناکام رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس پر کیے جانے والے تشدد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا، اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں ضرب نہ لگائی گئی ہو، اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی تھی۔ خیر، بار بار فون لگانے پر اس کا رابطہ اپنے بڑے بھائی سے ہوگیا، اور پتا بتانے پر وہ کسی کو بتائے بغیر متعلقہ جگہ پہنچ گیا۔ بقول فضل محمود وہ لوگ بھائی کو دھمکیاں دیتے ہوئے دوسرے کمرے میں لے گئے۔ وہاں ان کے درمیان ہونے والی گفتگو اسے سنائی دے رہی تھی۔ وہ رقم کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے۔ اس کا بھائی اتنی بڑی رقم نہ ہونے کا عذر کرتا رہا، جبکہ اغوا کار ہر صورت تاوان وصول کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے۔ آخرکار بات تین لاکھ روپے پر ختم ہوئی…… تین لاکھ، وہ بھی دو گھنٹے میں۔ فضل محمود کا بھائی پیسوں کا بندوبست کرنے نکل گیا۔ یہ سن کر فضل پر تو جیسے قیامت ہی ٹوٹ پڑی۔ ظاہر ہے جس شخص کا تعلق متوسط طبقے سے ہو اور جس کا گھر دو بھائیوں کی تنخواہ سے بمشکل چلتا ہو وہ یہ رقم کہاں سے لائے گا؟ فضل محمود کے بقول اْس وقت اس کے ذہن میں آنے والے خیالات اسے موت کے قریب لے جا رہے تھے، وہ مستقل دعائیں کررہا تھا، ان دہشت گردوں کے چنگل سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے رب کے حضور گڑگڑا رہا تھا، اسے فکر تھی کہ اس کا بھائی تین لاکھ روپے کہاں سے لائے گا؟ رات کے اس پہر رقم حاصل کرنے کے لیے کس کے آگے ہاتھ پھیلائے گا؟ اپنے بھائی کے جانے کے بعد وہ ان ظالموں سے رہائی کی بھیک مانگتا رہا، لیکن کسی نے ایک نہ سنی، وہ اس کی بے بسی پر رحم کھانے کے بجائے تاوان کی رقم نہ ملنے کی صورت میں اسے قتل کی دھمکیاں دیتے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے لہجے میں مزید سختی آتی جارہی تھی۔ رات کے دو بجے فضل محمود کی آنکھوں سے پٹی ہٹا دی گئی۔ اس نے بتایا کہ وہ مسلسل درود شریف پڑھ رہا تھا کہ یک دم اس کے بھائی کی آواز کانوں میں پڑی، وہ کانپتے ہوئے کہہ رہا تھا: میں پیسے لے آیا، میں پیسے لے آیا، خدارا اب میرے بھائی کو چھوڑ دو۔ اغوا کاروں میں سے ایک شخص نے جو کہ غیر مقامی تھا، وہ تھیلا لے لیا جس میں رقم تھی اور پیسے گننے لگا۔ پورے تین لاکھ وصول ہوجانے پر اس نے میرے بھائی پر اسلحہ تان کر کہا: تم اب جاؤ، تمہارا بھائی گھر پہنچ جائے گا۔ پہلے تو بھائی نے میرے بغیر جانے سے انکار کردیا، لیکن حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وہ اس عقوبت خانے سے باہر چلے گیا۔ رات تین بجے یہ کہہ کر مجھے جانے دیا گیا کہ تمہارے موبائل فون کا ڈیٹا اور فیملی تصاویر ہمارے پاس ہیں، اگر تم نے اس کارروائی کے بارے میں کسی کو بتایا تو تمہارے بیٹے کو اغوا کرکے قتل کر دیں گے۔
یوں تین لاکھ تاوان اور بیٹے کے قتل کی دھمکیاں سن کر سوا چار بجے صبح فضل محمود اپنے گھر پہنچ گیا۔
یہ تھی ایک شریف انسان کے ساتھ ہونے والی زیادتی۔ رحمت بھائی! اب تم ہی بتاؤ ایسے میں کوئی کیا کرے؟ فضل محمود کو اتنا ڈرایا دھمکایا گیا ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور زیادتی کو کسی سے بیان نہیں کرسکتا، مجھے یہ سارا قصہ اْس نے زبان بند رکھنے کی شرط پر بتایا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ کراچی ڈاکوؤں کی آماج گاہ بن گیا ہے، سارے جرائم پیشہ افراد اسی شہر کا رخ کررہے ہیں، جبکہ پولیس میں شامل چند کالی بھیڑیں ان جرائم پیشہ افراد کی سہولت کار بنی ہوئی ہیں۔‘‘
’’اشتیاق بھائی! یہ انتہائی دل خراش واقعہ ہے۔ اْس وقت میری بات مکمل نہیں ہوئی تھی، میں بھی کچھ ایسا ہی بتانا چاہ رہا تھا، میرے پڑوسی اقبال صاحب کے بیٹے تابش کو بھی تین دن قبل شارع فیصل سے اغوا کرلیا گیا تھا جسے ایک لاکھ ستّر ہزار روپے تاوان کے عوض رہائی ملی۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ اس ساری صورتِ حال میں پولیس کہاں ہے؟ اربابِ اختیار کون سی دنیا میں جا بسے ہیں؟ شہریوں کو جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے کیوں بے بس دکھائی دیتے ہیں؟‘‘
…………………………
بے شک اشتیاق اور رحمت کی جانب سے سنائے جانے والے واقعات حقیقت پر مبنی ہیں۔ کراچی میں جس تیزی سے اسٹریٹ کرائمز اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے ان حالات کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ جہاں تک محکمہ پولیس کی کارکردگی کا تعلق ہے تو اس پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ شہر میں بڑھتی ہوئی وارداتوں پر پولیس حکام امن و امان اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مضبوط اور فعال کرنے کی اہمیت بتانے، انوسٹی گیشن کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور ایس ڈی پی اوز، ایس ایچ اوز اور ایس آئی اوز اورڈویژنل ایس پیز کو اپنے علاقوں میں فرائض سرانجام دینے، ایس ایچ اوز کی میرٹ پر تعیناتی، اسٹریٹ کرائمز اور دیگر سنگین جرائم و منظم جرائم کے خاتمے کو یقینی بنانے، تفتیش بلا تاخیر اور میرٹ پر کرنے اور ملزمان کی گرفتاریاں یقینی بنانے، غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افسران اور اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے جیسے بلند وبالا دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ عوامی حلقوں کے مطابق پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افسران ٹک ٹاک بنانے میں مصروف ہیں۔ اور تو اور محکمہ پولیس سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد سوشل میڈیا پر عوام کو ڈاکوؤں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات سمیت شہر میں امن و امان کی نوید سناتے نظر آتے ہیں، جبکہ ڈکیتوں کی جانب سے کی جانے والی کسی بھی واردات پر ان کی جھلک تک دکھائی نہیں دیتی۔ عوام کا کہنا ہے کہ اگر پولیس افسران و اہلکار سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک بنانے کے بجائے ٹھنڈے کمروں سے باہر نکل کر اپنے فرائض ایمان داری سے انجام دیں تو نہ صرف پولیس اور عوام کے درمیان حائل خلیج مٹ جائے گی بلکہ شہر میں امن و امان قائم ہونے کے ساتھ ساتھ اغوا برائے تاوان جیسے واقعات سمیت ڈاکو راج کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔