محکومی کا ورثہ،شکست خوردہ، غلامانہ ذہنیت

149

اتنے مانوس صیّاد سے ہو گئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

راز الٰہ آبادی کا یہ شعر میرے اس عنوان کی مکمل غمازی کرتا ہے۔ زمانۂ قدیم سے ہی قومیں ایک دوسرے پر برتری کے لیے جنگ و جدل میں مصروف ہیں۔ فاتح قومیں مفتوح قوموں کی نہ صرف زمینوں اور جائدادوں پر قبضہ کرتی ہیں بلکہ مرد و زن کو قتل کرنے کے بعد بڑی تعداد میں اُن کے مردوں کو غلام اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیتی ہیں اور اپنی تہذیب، ثقافت اور نظامِ زندگی سب کچھ اُن پر مسلط کردیتی ہیں۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ اسلامی فتوحات کے بعد صرف اور صرف لڑنے والی سپاہ اور بادشاہوں کے خاندان کو غلام بنایا جاتا تھا مگر رعایا کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی نہیں ہوتی تھی۔ بہترین اور اعلیٰ درجے کی مثال فتح مکہ کے بعد کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمن اہلِ مکہ کو معاف کردیا۔ جنگِ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر آزاد کردیا گیا۔ جو فدیہ دینے کے لائق نہیں تھے ان کو دس دس مسلمانوں کو پڑھانے پر مامور کیا گیا۔ اس کے علاوہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں غلاموں کے ساتھ ایسا حسنِ سلوک روا رکھا گیا کہ وہ آزاد ہونے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ زید بن حارثہؓ کی مثال موجود ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اپنے والد کے ساتھ جانے کو راضی نہیں تھے۔ اور یہ سلسلہ خلفائے راشدین کے دور تک جاری رہا، بلکہ بلادِ اسلامیہ میں صدیوں تک جاری تھا۔

ہندوستان پر تو خاندانِ غلامان کی حکمرانی بھی قائم ہوئی۔ مگر اس کے علی الرغم یہود و نصاریٰ اور ہنود نے اپنی مفتوح قوموں کے ساتھ ایسا ظالمانہ اور سفاکانہ رویہ اختیار کیا کہ وہ قومیں آج تک ان کی غلامی سے نجات پانے کے باوجود آزاد ہوکر رہنا پسند نہیں کرتیں۔

یورپی اقوام نے جن افریقی ممالک کو فتح کیا وہاں کے لوگوں پر اتنا ظلم اور استحصال کیا کہ آج بھی بیشتر افریقی ممالک کے عوام یورپی اقوام کے سامنے سرنگوں ہیں اور ان کی ثقافت، تہذیب و زبان اور طرز حکمرانی کو اپنانے پر مجبور ہیں۔

غلامی دراصل زندہ قوموں کے لیے ایک عارضی صورتِ حال ہوتی ہے، اور وہ بہت جلد جدوجہد کرکے اپنی کھوئی ہوئی آزادی حاصل کرلیتی ہیں۔ مگر غلامانہ ذہنیت نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ جغرافیائی آزادی کے باوجود بھی غلامانہ ذہنیت والی قومیں خود کو آزاد نہیں کرپاتیں۔ یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب غلام قوم کا کوئی فرد حریتِ فکر کے ساتھ بیدار ہوتا ہے اور اپنی پوری قوم کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ آزادی صرف جغرافیائی آزادی نہیں، بلکہ آزادی نظریے، تہذیب اور فکر کی آزادی کا نام ہے، یعنی آزاد قوم اپنے تمام تر قومی فیصلے کرنے میں آزاد ہو اور کسی کے تابع نہ ہو۔

جب کولمبس نے امریکا دریافت کیا تو وہاں آباد ریڈ انڈینز باشندوں کی ایسی نسل کُشی کی کہ آج اس قوم کے تھوڑے لوگ امریکا میں موجود ہیں اور اپنی شناخت بھی کھو چکے ہیں، اس کے علاوہ افریقی ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں سیاہ فام افراد کو غلاموں کی صورت جہازوں میں بھر بھر کر لے جا کر ان سے بیگار لی گئی، اور آج ان کی بڑی تعداد امریکا کی تمام ریاستوں میں آباد ہے۔ صدیوں تک ان کے ساتھ متعصبانہ اور نفرت آمیز سلوک کیا جاتا رہا اور گوروں کے مقابلے میں ان کی حیثیت تیسرے درجے کی بھی نہیں تھی۔ آج بھی یہ سلوک گورے پولیس والوں کی زیادتی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جیسے حریت پسند رہنما نے جدوجہد کی، اور اپنی جان کی قربانی دے کر سیاہ فام افراد کو غلامی سے آزادی دلوائی۔ یہی جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا نے کیا۔ انہوں نے اپنی جدوجہد اور برسوں کی اسیری کے بعد گوروں سے آزادی حاصل کی۔

چندرگپت موریا جو کہ بھارت کا قدیم اور اصلی فرزندِ زمین تھا، اُس کی سلطنت برما سے کابل تک تھی جو 300 قبل مسیح میں قائم ہوئی اور اشوک سمراٹ تک قائم رہی جس کا دورانیہ ڈھائی سو سال ہے۔ اشوک نے کلنگہ کی لڑائی سے متاثر ہوکر جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے، بدھ مذہب اپنایا اور درویشی اختیار کی تو اس کی سلطنت کا زوال شروع ہوا اور آریاؤں کے مسلسل حملوں کے بعد بھارت پر ان کی حکمرانی قائم ہوئی۔ آریہ جو خود کو اونچی ذات کا کہتے تھے انہوں نے ایک برہمن سامراج کی صورت میں یہاں کے مقامی باشندوں کو پے در پے شکستوں سے دوچار کیا اور مقامی باشندے جو دراوڑ کہلاتے تھے آخرکار ایسے شکست خوردہ ہوئے کہ ہندوستان کے طول و عرض میں ان کی آبادیاں صدیوں سے ذلت آمیز زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کی نسل در نسل غلامانہ ذہنیت کا یہ عالم ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ میں ان کے منتخب نمائندوں کے پینے کے پانی کے برتن بھی الگ ہیں۔ جگ جیون رام بھارت کا نائب وزیراعظم تھا، اس کے باوجود اُس کا پانی پینے کا برتن الگ ہوتا تھا۔ گو کہ ہندوستان خود کو ایک سیکولر ملک کہتا ہے مگر آج تک یہاں تمام اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی حالت تو چماروں سے بدتر ہے، یہ بات جسٹس سچر کمیشن کی رپورٹ میں تسلیم کی گئی ہے، اس کے باوجود مسلمان اس سے نکلنے کے بجائے ہندوانہ تہذیب و ثقافت کو اپنائے جارہے ہیں۔ یہ غلامانہ ذہنیت ہی کا کرشمہ ہے۔

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

میں اس سلسلے میں اپنا ایک مشاہدہ بیان کرنا چاہوں گا۔

1982ء میں مَیں بنارس سے یوپی کے شہر بھدوہی جارہا تھا جو بنارس سے تقریباً 250 کلومیٹر دور ہے۔ میں ایک ایکسپریس بس پر بیٹھا تھا، کھڑکی کے ساتھ میری نشست تھی، میرے برابر میں ایک S.S.P باوردی بیٹھا تھا، نام انوپم داس تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ شیڈول کاسٹ کا بندہ ہے۔ بس ابھی تھوڑی دیر چلی تھی کہ رک گئی اور ایک پنڈت منتر پڑھتے بس میں سوار ہوا اور پولیس افسر کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ پولیس افسر نے فوراً اپنی سیٹ چھوڑ دی۔ وہ پنڈت تھوڑی دیر کے بعد بس سے اتر گیا۔ اس کے اترنے کے بعد میں نے افسر سے پوچھا کہ آپ اتنے بڑے افسر ہیں، آپ نے سیٹ کیوں چھوڑ دی؟ اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ صدیوں کی غلامی اور پس ماندگی کا نتیجہ ہے، ہم اب تک آزاد نہیں ہوئے۔

ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد انگریزوں کی حکمرانی قائم ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں کی معیشت، تعلیم اور تمام جائدادوں پر قبضہ کرلیا۔ مسجدوں کے نام پر وقف زمینوں کو ضبط کرکے علما اور مدرسین کو تہی دست کردیا۔ انگریزی کلچر، زبان اور ثقافت کو بزور قوت نافذ کیا۔ نتیجتاً ایک ایسی نسل تیار ہوئی جو نہ صرف ذہنی اعتبار سے مرعوب تھی بلکہ ان کی ہر چیز کو اپنانے میں فخر محسوس کرنے لگی۔ اتفاق سے آج بھی پاکستان اور بھارت میں مسلمانوں کی یہ نسل پڑھی لکھی ہونے کے باوجود غلامانہ ذہنیت رکھتی ہے، بلکہ پاکستان میں تو یہ آزادی کے بعد سے اب تک حکمرانی کررہی ہے۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

پاکستانی اور ہندوستانی معاشرے میں غلامانہ ذہنیت کا تجزیہ کیا جائے تو ایک عجیب و غریب صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ یوں تو دونوں ملکوں کو جغرافیائی اعتبار سے آزاد ہوئے 77 سال ہوگئے۔ آزادی کے بعد سے معاشی اور دیگر حوالوں سے بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ بڑے بڑے شہروں کی آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ گاؤں دیہات میں رہنے والے حصولِ معاش اور کاروبار کے سلسلے میں شہروں کا رُخ کررہے ہیں۔ دنیا کی تیز رفتار ترقی سے ملک کا ہر فرد واقف ہے، پھر بھی قبائلی، خاندانی، لسانی، طبقاتی، ذات برادری کے فرسودہ اور جاہلانہ رسم و رواج سے آزاد ہونے کو تیار نہیں ہے۔

آج بھی گاؤں دیہات میں رہنے والے، جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور قبائلی سرداروں کے مظالم سے خوف زدہ ہیں اور ان سے آزاد ہونے کے لیے جدوجہد کرنے کو تیار نہیں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا کہ غلامانہ ذہنیت رکھنے والوں کو اس بات کا احساس دلانا کہ وہ غلام ہیں، سب سے مشکل کام ہے۔

چلتے ہیں دبے پاؤں کوئی جاگ نہ جائے
غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے
ہوتی نہیں جو قوم حق بات پہ یکجا
اس قوم کا حاکم ہی بس اس کی سزا ہے

ہندوستان، پاکستان کا ہر بالغ آدمی اس بات کو بہ خوبی جانتا ہے کہ اس کے تمام تر مسائل کے ذمہ دار سیاسی لیڈر، نام نہاد مذہبی پیشوا، سول بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اور سب سے بڑھ کر پولیس اور انتظامیہ ہے، مگر مجال ہے کہ ان کے خلاف متحد ہوکر ان سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کی جائے۔

پوری دنیا میں صرف 12 ایسے ممالک ہیں جہاں انگریزی ذریعہ تعلیم ہے۔ برطانیہ کے سوا یورپ کے کسی ملک میں انگریزی ذریعہ تعلیم نہیں، حتیٰ کہ آئرلینڈ جو اب بھی برطانوی تسلط میں ہے، وہاں بھی آئرش زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ جاپان، چین، جنوبی ایشیا کے تمام ممالک جو ترقی کی معراج پر ہیں سب کے سب اپنی زبان میں اور یکساں نظامِ تعلیم کے ذریعے اپنی نسل کی آبیاری کرتے ہیں۔ مگر پاکستان آزاد ہونے کے باوجود اپنی اردو زبان کو ذریعہ تعلیم نہیں بنا سکا، حالانکہ اب تو سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا کہ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے، مگر اس ملک کی مقتدرہ اور حکمران طبقہ آج تک خود کو غلامانہ ذہنیت سے آزاد نہیں کرسکا اور انگریزی کو ہی اپنی ترقی کا ضامن سمجھتا ہے، اسی لیے آج بھی اردو سرکاری طور پر نافذ نہیں ہوسکی، عدالتوں اور تمام سرکاری دفاتر میں انگریزی کا ہی استعمال جاری ہے۔ O.Level اور A.Level میں پڑھنے والے حکمرانی کے اہل سمجھے جاتے ہیں۔

شاعر بھی ہیں پیداُ علما بھیُ حکما بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

حصہ