بھارت کا شمار اب اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں خواتین سے زیادتی کے واقعات خطرناک ترین شکل اختیار کرچکے ہیں۔ بھارت کے طول و عرض میں کالج کی طالبات، ملازمت پیشہ خواتین، خواتینِ خانہ اور کم سِن لڑکیوں سے زیادتی کے واقعات میں اِتنی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کہ ملک کی ساکھ ہی داؤ پر لگتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس حوالے سے ملک اس قدر بدنام ہوچکا ہے کہ اب مودی سرکار کو بیرونِ ملک سے انفلوئنسرز کا سہارا لینا پڑ، رہا ہے تاکہ بھارت کے بارے میں پوری دنیا میں امیج کو بہتر بنایا جاسکے۔ حال ہی میں بھارتی حکومت نے دبئی سے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے ایک گروپ کو نئی دہلی بُلوایا تاکہ بھارت کے بارے میں مثبت وڈیوز اور وی لاگز بناکر پھیلائے جاسکیں۔
بھارت میں خواتین سے زیادتی کے واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد والدین کے لیے بھی پریشان کن ہے اور حکومت کے لیے بھی۔ ریاستی حکومتیں اس حوالے سے شدید دباؤ کی زد میں ہیں۔ چند ایک واقعات نے ملک گیر تحریک کی راہ ہموار کی ہے۔ کولکتہ میں ایک جونیئر ڈاکٹر سے زیادتی اور قتل کی واردات نے مغربی بنگال اور مرکز کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ مودی سرکار کہتی ہے کہ مغربی بنگال کی حکومت زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہی۔ دوسری طرف مغربی بنگال کی حکومت کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت صورتِ حال کی نزاکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دباؤ بڑھا رہی ہے اور ریاست کی انتظامی مشینری کو بدنام کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔
مغربی بنگال کی حکومت نے خواتین سے زیادتی پر سزائے موت کے قانون کی منظوری بھی دے دی ہے۔ مرکزی حکومت کا یہ سب سے بڑا مطالبہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ مرکزی حکومت اس حوالے سے کیا کررہی ہے اور دیگر ریاستوں میں کیا معاملات ہیں؟ خواتین سے زیادتی اور پھر اُن کے قتل کے واقعات تو پورے ملک میں رونما ہورہے ہیں۔ اترپردیش، ہریانہ، پنجاب، مہاراشٹر، گجرات، مدھیہ پردیش اور بہار وغیرہ اِس معاملے میں انتہائی بدنام ہیں اور وہاں لوگ اپنی بیٹیوں کے حوالے سے بہت زیادہ فکرمند رہنے لگے ہیں۔
بھارتی معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ جس ٹرینڈ کو کچلنے کی جتنی کوشش کی جاتی ہے وہ اُتنا ہی ابھرتا ہے اور لوگ اَڑ جاتے ہیں کہ جس کام سے روکا جارہا ہے وہ تو کرنا ہی کرنا ہے۔ خواتین سے زیادتی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ لوگ اپنے رویّے بدلیں، اپنی ذمہ داری محسوس کریں، بہنوں بیٹیوں کی عزت کرنا سیکھیں، ان سے اچھی طرح پیش آئیں۔ مگر لوگ ہیں کہ ریاستی کوششوں کے سامنے ڈٹ گئے ہیں اور جرائم کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جارہے ہیں۔
اس وقت بھارت بھر میں حقوقِ نسواں کی تنظیمیں میدان میں ہیں۔ وہ اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ لوگ خواتین کے احترام کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور اُن کی حرمت کو داغ دار کرنے سے گریز کی راہ پر گامزن ہوں۔ دوسری طرف لوگوں کے رویّے اس قدر بگڑے ہوئے ہیں کہ نئی نسل بات ماننے کو تیار نہیں۔ کئی ریاستوں میں مجموعی ماحول ایسا ہے کہ لوگ جرم پسندی کی ذہنیت پر فخر محسوس کرتے ہیں اور گناہوں کے راستوں پر چلنا اپنے لیے شان کا موجب سمجھتے ہیں۔ دیہی کلچر میں معاملہ اور بھی بگڑا ہوا ہے۔
انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت میں ہر سال خواتین سے زیادتی کے 30 ہزار سے زائد واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ بہت سے بڑے شہروں میں خواتین کا تنہا نکلنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ رات کے وقت وہ بالکل محفوظ نہیں ہوتیں۔ بہت سے قبیلے اور برادریاں ایسی ہیں جن کے لوگ خواتین کی عزت سے کھیلنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ گھناؤنا عمل شرط لگاکر بھی کیا جاتا ہے۔ دہلی، کولکتہ، بنگلور، ممبئی اور دیگر بڑے شہروں میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں دیہی علاقوں سے آئے ہوئے لوگ رہتے ہیں۔ دیہی کلچر کی کجی اُن میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے گھر کی عورتوں کا بھی زیادہ احترام نہیں کرتے تو پھر یہ توقع کیونکر کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی اور کی بہن بیٹی کا احترام کریں گے!
اب معلوم ہوا ہے کہ معاملہ صرف خواتین کے بے حرمتی اور بے توقیری تک محدود نہیں۔ بھارت بھر میں ایک اور گھناؤنا دھندا بھی جاری ہے اور اُس میں دن بہ دن تیزی ہی آتی جارہی ہے۔ یہ دھندا ہے زیادتی کے واقعات کی وڈیوز کی فروخت۔
زیادتی کے بہت سے واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں اور خفیہ کیمروں سے بنائی جانے والی وڈیوز بھی۔ یہ سارا مواد دھڑلے سے فروخت ہورہا ہے۔ حکومت اس حوالے سے کچھ بھی نہیں کر پارہی۔
اترپردیش، بہار، ہریانہ، پنجاب اور دیگر بہت سی بھارتی ریاستوں میں زیادتی کے واقعات کی وڈیوز کا دھندا دن بہ دن زور پکڑ رہا ہے۔ ایسی وڈیوز کے بنڈل بھی فروخت ہورہے ہیں۔ ایک وڈیو کلپ 20 سے 200 روپے تک میں فروخت ہورہا ہے۔ جو لوگ یہ وڈیوز خریدتے ہیں اُن کے سیل فون میں یہ وڈیوز چند لمحات میں منتقل کردی جاتی ہیں۔ نئی نسل اس دھندے میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔ ملک بھر میں خفیہ کیمروں سے بنائی جانے والی وڈیوز کی بہت مانگ ہے۔ ہاسٹل کے کمروں میں، شاپنگ مالز کے چینجنگ رومز میں، باتھ رومز میں اور دوسرے بہت سے مقامات پر خفیہ کیمروں کی مدد سے بنائی جانے والی وڈیوز کی طلب اِتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ حکومت بھی پریشان ہے کہ اس بحران پر کس طور قابو پائے۔
انٹرنیٹ نے ریپ وڈیوز کی فروخت میں ملوث افراد کے لیے آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ لوگ کسی بھی نمبر پر رابطہ کرکے اپنا آرڈر بک کرواتے ہیں، ادائیگی کرتے ہیں اور وڈیوز کسی بھی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے اُن کے سیل فون میں منتقل کردی جاتی ہیں۔ بہت سی وڈیوز میں ہوس کا نشانہ بننے والی لڑکیوں یا عورتوں کے چہرے واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سی خواتین اپنے ریپ کی وڈیوز منظرِعام پر آنے کے بعد خودکشی کرلیتی ہیں۔ کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں اُن کے گھر والے قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں اور وہ جسم فروشی کے دھندے سے وابستہ ہوجاتی ہیں۔
قطر کے میڈیا آؤٹ لیٹ الجزیرہ نے جب ایسی ایک وڈیو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی تو میرٹھ سے 15 کلومیٹر دور اِنچولی نامی قصبے میں ایک مقامی شخص نے دکان دار سے ایسا ایک وڈیو کلپ خرید کر دیا۔
المیہ یہ ہے کہ ایک طرف بھارت بھر میں خواتین سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف شدید احتجاج ہورہا ہے اور سخت تر قوانین کی بات کی جارہی ہے اور دوسری طرف بھارت ہی میں لوگ زیادتی کے واقعات کی، یا چھپ کر بنائی جانے والی وڈیوز کی خریداری اور اُس سے لذت کشید کرنے میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کی وڈیو بنالی جائے تو پھر اُنہیں بلیک میل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ خفیہ کیمروں سے بنائی جانے والی بہت سے وڈیوز نے متعلقہ لڑکیوں یا خواتین کی زندگی برباد کی ہے۔ کسی بھی لڑکی کی کوئی ایسی ویسی وڈیو منظرِعام پر آنے کی صورت میں اُس کا پورا گھرانہ بدنام ہوجاتا ہے اور پھر اُن کے لیے نارمل زندگی بسر کرنا ممکن نہیں رہتا۔ زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکیاں ایسی حالت میں خود کو انتہائی بے بس پاتی ہیں۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے سیل فون کو مرمت کے لیے کسی کے پاس لے جاتا ہے، اور وہ شخص مرمت کے دوران اُس کا ڈیتا چراکر فروخت کردیتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی intimate وڈیوز اِسی طور وائرل کردی گئیں۔ ایسی وڈیوز بھی اچھی قیمت پر فروخت ہوتی ہیں، اور جن لوگوں کی یہ وڈیوز ہوتی ہیں اُنہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہر طرح کی مخربِ اخلاق وڈیوز فروخت کرنے والے بہت محتاط رہتے ہیں۔ وہ عام طور پر صرف مقامی لوگوں کو یا پھر ایسے لوگوں کو یہ وڈیوز بیچتے ہیں جنہیں وہ ذاتی حیثیت میں جانتے ہوں اور بھروسا بھی رکھتے ہوں۔
خفیہ کیمروں کی مدد سے وڈیو کلپس تیار کرنے کے کئی معاملات حال ہی میں بے نقاب ہوئے ہیں۔ بہت سے گرلز ہاسٹلز میں یہ سلسلہ ایک زمانے سے چل رہا ہے۔ بہت سے پارک، شاپنگ مالز اور دیگر عوامی مقامات پر بھی خفیہ کیمرے لگاکر وڈیوز تیار کی جاتی ہیں اور پھر ایسی وڈیوز کو دکان داروں کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے۔
معاشرے کے مختلف پہلوؤں اور بگاڑ پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی معاشرے میں جنسی رویوں کے حوالے سے بگاڑ محض اس لیے پیدا نہیں ہوا کہ فلموں اور ڈراموں کے ذریعے ایسی باتوں کو فروغ مل رہا ہے، بلکہ عمومی معاشرت میں بھی ایسا بہت کچھ ہے جو جنسی رویوں کو خراب کرتا جارہا ہے۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ بھارتی معاشرے میں پردہ برائے نام بھی نہیں رہا۔ خواتین کے عمومی ملبوسات انتہائی نازیبا ہیں۔ ملک بھر میں حقوقِ نسواں کی تنظیمیں سرگرم ہیں جو خواتین کی خودمختاری کے نام پر بے حیائی اور بے شرمی کو ہوا دے رہی ہیں۔ جنسی معاملات کو فلموں اور ڈراموں کی حد تک محدود رکھنے کے بجائے اب عمومی زندگی کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ ایسی شارٹ وڈیوز عام ہیں جن میں خواتین کا تمسخر بھی اڑایا جاتا ہے اور اُنہیں بے پردگی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
بھارت کے بیشتر حصوں میں پردے کا چلن نہیں۔ اسکول سے کالج کی سطح پر لڑکیاں انتہائی نازیبا ملبوسات کو ترجیح دے رہی ہیں۔ دہلی اور دیگر بڑے شہروں میں لڑکیاں نیکر اور ٹی شرٹ میں بھی گھومتی دکھائی دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ والدین بھی جواں سال لڑکیوں کو ملبوسات کے حوالے سے روکنے ٹوکنے کے عادی نہیں۔ بیشتر کیسز میں لڑکیاں اب والدین کی بات سُنتی ہیں نہ مانتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں بے حیائی مزید تیزی سے فروغ پارہی ہے اور جنسی رویوں میں انتہائی درجے کا بگاڑ واقع ہورہا ہے۔
فلپائن، تھائی لینڈ اور جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر معاشروں میں لڑکیاں جس طور انتہائی مختصر لباس میں گھومتی ہیں کچھ کچھ اُسی طرح کا ماحول اب دہلی، ممبئی، بنگلور، کولکتہ، چنئی اور دیگر بھارتی شہروں میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔
nn