قیمتی متاع

141

فضل کمرے میں خاموش پڑا تھا، پورے گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا، وجہ بھی چھوٹی نہیں تھی۔ فضل جو کہ نہایت خوش مزاج، ہنس مکھ بندہ تھا جو ہمیشہ اپنی قسمت پر شاد رہتا تھا، اُس نے کل خودکشی کی کوشش کی۔ وہ تو اللہ نے کرم کیا اور بیوی عین وقت پر کمرے میں پہنچ گئی اور دوپٹے کو گلے میں ڈالے فضل کو ٹانگوں سے پکڑ لیا، اور شور شرابے پر محلے والے جمع ہوئے جنہوں نے صورتِ حال کو قابو کیا۔ اُس وقت سے بیوی بچے سہمے ہوئے تھے۔

منی جو کہ فضل کی سب سے بڑی اور چہیتی بیٹی تھی، ماں سے بولی ’’ماں! بابا نے ایسا کیوں کیا؟ ہمارے بارے میں نہیں سوچا۔ اگر ان کو کچھ ہوجاتا تو ہمارا کیا ہوتا؟‘‘ ماں نے دکھ سے اسے دیکھا اور بولی ’’بیٹا! وہ بے بس ہوگئے تھے۔ کیا کرتے، دو دو جگہ کام کرتے ہیں مگر گزارہ مشکل سے ہوتا ہے اور اب بجلی کا 18 ہزار کا بل آگیا ہے، جسے ادا کرنا ان کے بس میں کہاں ہے! مجبوراً انہوں نے یہ غلط قدم اٹھایا۔‘‘

منی ماں کی باتیں سنتے سنتے خود بھی ماں کی طرح سسک کر رو پڑی۔ پھر اس نے اپنے کانوں سے بالیاں اتارکر کہا ’’ماں! یہ لو، بیچ کر بل ادا کردو۔‘‘
ماں نے ایک نظر اس کی بالیوں پر ڈالی۔ یہ اس کے گھر کی واحد اکلوتی قیمتی متاع تھی جو فضل نے اپنی پہلی اولاد کی خوشی میں بنوا کر دی تھی۔ اب روتی ہوئی منی وہی بالیاں اتارکر کہہ رہی تھی ’’ماں! بالیاں اللہ نے چاہا تو دوبارہ بن جائیں گی مگر میرے بابا اگر چلے گئے تو ان کو میں واپس کیسے لاؤں گی! میری قیمتی متاع تو صرف میرے بابا ہیں۔‘‘

حصہ