منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر

99

فردِ واحد سے شروع ہوکر لاکھوں افراد کے دلوں کو اپنے پیغام سے مسخر کرنے والی جس تحریک نے پوری دنیا کو متاثر کیا، اور جس کے متاثرین نے اس کے نصب العین کی خاطر لاتعداد جانیں قربان کیں اور عزم و استقامت کی لازوال داستانیں رقم کیں، الحمدللہ آج ہم دورِ حاضر میں اس تحریکِ اسلامی اور اقامتِ دین کی علَم بردار سید مودودیؒ کی جماعت اسلامی کا یوم تاسیس منا رہے ہیں، تاکہ لوگوں کو یاددہانی کروائی جائے کہ اللہ کے دین کے قیام اور سربلندی کے لیے کوشش کا کیا مطلب ہے، اور مسلمان ہونے کا تقاضا کیا ہے۔ بقول علامہ اقبال:

چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را

(جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں کیونکہ میں لاالٰہ (کے اقرار) کی مشکلات کو سمجھتا ہوں)

اس بات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے ہم نے جماعت اسلامی کے یوم تاسیس کے حوالے سے ایک سروے کیا جو یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک سوال کیا گیا کہ ’’جماعت اسلامی کی وہ کیا خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے آپ نے اس جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا؟‘‘

رقیہ احسان(مصنفہ)
جماعت اسلامی میں شامل ہونے کی وجوہات تو بہت ساری تھیں مگر ذاتی وابستگی گھر میں ہفتہ وار درسِ قرآن میں شرکت کرکے پیدا ہوئی۔ دین سیکھنے اور سکھانے کے لیے سید مودودیؒ کی کتابوں کے مطالعے سے علمی آگاہی حاصل ہوئی۔ اس جماعت سے وابستہ لوگوں کی ایک الگ پہچان ہے۔ ان کی تربیت میں ایثار کی تلقین ہے اور عفو و درگزر کا بھی درس ہے۔

عصمت آرا(نگراں حریم ادب)
انڈیا کے ایک سفر سے واپسی پر انڈین بنارسی ساڑھی پہنے، بالوں میں گجرا سجائے فلائٹ پکڑی تو مجھے تو کھانے میں سبزی دی گئی جبکہ شوہر اور بچوں کو مٹن۔ میں مارے حیرت کے ائر ہوسٹس کا منہ تکتی رہ گئی کہ میرے حلیے نے اُس ائر ہوسٹس کی نظر میں مجھے انڈین بنادیا ہے۔ یہی وہ وقت تھا کہ احساسِ گناہ نے میرے وجود میں جنم لیا۔ شاید رب کو یہ ادا پسند آگئی اور مجھے جلد ہی رب نے حق کی راہ پر چلنے والے قیمتی مسافروں سے ملاقات کروائی جنہوں نے قرآن کے الفاظ دل میں اتار دیے۔ مولانا مودودیؒ کی تفسیر کے مطالعے نے میرے اندر ایمان کی شمع جلائی جس کی روشنی نے میرے گھر بار کی آبیاری کی۔

یاسمین شفیق (مصنفہ)
الیکشن کے لیے کام کے دوران میری ملاقات جماعت کی کارکنان سے ہوئی۔ اُن کی دعوت کے پُرخلوص انداز سے متاثر ہوکر درس میں جانے لگی۔ درس، دورہ قرآن اور پھر مولانا مودودیؒ کے لٹریچر نے میرے دل کو سکون و اطمینان اور سرشاری سے بھر دیا۔ مولانا مودودیؒ کی کتب نے میرے جذبات کو راستہ دکھایا۔ میں اُم اکبر خالہ جان، صبیحہ شاہد، حمیرا جاوید اور مشعل باجی کی دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے ہمیں قرآن سے جوڑا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کی قبروں کو اپنے نور سے بھر دے اور ان کی کوششوں کو قبول فرمائے۔ آمین

زینب جلال(مصنفہ):
جماعت اسلامی کے تحت ہونے والے دورہ قرآن میں شرکت کی تو قلبی اور ذہنی وابستگی سے آگے بڑھ کر عملی تعلق کا آغاز ہوا۔ پھر جماعت کے لٹریچر کو پڑھا تو جیسے ذہن کے بند دریچے کھلتے ہی چلے گئے۔ گزرے کتنے ہی برسوں کا تجزیہ کروں تو جماعت اسلامی محبت و امانت، علم وعمل کا حسین امتزاج ہے۔ جماعت اسلامی ایسا حلقہ اثر ہے کہ اب اس کے بغیر زندگی بے معنی لگتی ہے۔ اللہ پاک جماعت اسلامی کو دنیا واخرت کی خیر عطا فرمائے، آمین۔

عالیہ زاہد بھٹی( استاد،مصنفہ، بلاگر):
جماعت اسلامی کا نظریہ ہی اصل میں اس کی وہ اہم ترین خصوصیت ہے جو جوق در جوق افراد کو اس سے جوڑتی ہے۔ ہر وہ فرد جو چاہتا ہے کہ کلمۂ حق کا اقرار کرنے کے بعد اس کو عملی شکل میں قائم کرے، جماعت اسلامی کی دعوت اس کے لیے نعمتِ بے بہا ہے۔ جماعت اسلامی اللہ ہی کے اصول و قوانین رائج کرنے والی جماعت ہے۔

عندلیب علی(ممبر حریم ادب):
میں جماعت اسلامی میں کیسے آئی؟ سچ تو یہ ہے کہ بہت سوچ سمجھ کے اور ناپ تول کے آئی ۔میں کسی کی شخصیت واخلاق سے مرعوب ہوکر نہیں بلکہ جماعت اسلامی کی اجتماعیت سے متاثر ہوئی جس میں رنگ، نسل، زبان، گورے و کالے ایک دوسرے سے افضل نہ تھے، امیر وغریب کی درجہ بندی نہیں تھی۔ جو جتنی اونچی ذمے داری پہ تھا، وہ اسی قدر عجزو انکسار کا پیکر بنا ہوا تھا، جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا۔ یہ منظر آج بھی ذہن میں تازہ ہے، ادارہ نورحق میں شاید ناموسِ رسالتؐ کا بہت بڑا اور منظم اجتماع تھا۔ وہاں کی پاکیزہ اجتماعیت کے بس ایک لمحے نے دل بدل دیا، اور یوں میں جماعت کے خلاف پھیلائے گئے منفی پروپیگنڈے سے آزاد ہو کر، اس اسلامی اجتماعیت میں دل و جان سے مقید ہوگئی۔

مدیحہ صدیقی( شاعرہ):
تحریک و اجتماعیت جو خالص رب کے راستے میں جدوجہد کے لیے کھڑی ہو، اندھیرے میں چمکتے جگنوئوں کا جھرمٹ ہی تو ہوتی ہے۔ فتنوں کا دور، مخالفتوں کا طوفان، معاشرے کا انتشار، اس میں نہی عن المنکر کی مخالفت مول لینا خود کو ہوا کی مخالف سمت کھڑا کردینے کے مترادف ہے۔ الحمدللہ قرآن، حدیث و نظریاتی لٹریچر کے مطالعے کے بعد نصیب ہونے والی دل کی بے قراری میں اسباب و مددگار کے لیے نظر دوڑائی تو حصولِ منزل کے لیے جماعت اسلامی سے بہتر اجتماعیت کہیں نظر نہیں آئی۔ ایسی اجتماعیت جس میں شامل ہوکر اس زمین پر نظام الٰہی کے قیام کی جدوجہد ہو اور بندہ کشاں کشاں رب سے ملاقات کو چل دے۔

افسانہ مہر(آئی ٹی ماہر):
یونیورسٹی کے دن مختلف حوالوں سے زندگی بھر یاد آتے ہیں۔ ان یادوں میں سے ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ نوواردانِ جامعہ کی، جمعیت کے ساتھی بے لوث مدد کیا کرتے تھے۔ یہ دیانت دار ہوتے … بس یہ کردار دل میں بیٹھ گیا۔ تب سے تحریک ِاسلامی سے محبت پیدا ہوئی۔ پھر جب اس کا حصہ بنے تو جو افراد دیکھے وہ پائی پائی کے حساب میں محتاط دیکھے۔ اپنے پاس سے زیادہ چلا جائے پروا نہیں، لیکن کسی کی امانت یا تحریک کی امانت میں خیانت نہ ہو۔ یہ رویّے میں نے خود دیکھے اور میں امانت، دیانت اور خدمت کے اس بے لوث انداز سے متاثر ہوکر اس تحریک میں شامل ہوئی۔

افروز عنایت( مصنفہ):
دینی تعلیم سے رغبت ہی مجھے جماعت ِ اسلامی کے قریب لے آئی۔ جماعت اسلامی کے پروگراموں میں شریک ہر خاتون کو عزت دی جاتی ہے چاہے عبایہ میں ملبوس ہو، یا نہیں۔ یعنی راہِ حق دکھائی ضرور جاتی ہے لیکن زور زبردستی گھسیٹا نہیں جاتا۔ یہی دل کشی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے جس سے دوسرے بھی مستفید ہوتے ہیں کہ آپ کا عمل و کردار ایسا ہو کہ سامنے والا خود متاثر ہو کر اس راہ پر آجائے۔

عائشہ بی(مصنفہ):
جب عبدالستار افغانی میئر بنے اور کراچی میں بڑے ترقیاتی کام ہونے لگے تو میں نے محسوس کیا کہ جماعت اسلامی واقعی عوام کے لیے کام کرتی ہے۔ اجتماعات میں شرکت سے مجھے معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی پاکستان کی دعوت کے تین نکات ہیں جنہیں جان کر ایسا لگا کہ ’’مجھے اسی کی تلاش تھی۔‘‘ صرف ایک اللہ کی بندگی، منافقت اور دو رنگی سے بچنا، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے کے لیے نیک، صالح حکومت کا قیام… ان نکات نے مجھے اس اجتماعیت میں شمولیت کی ترغیب دی۔

کرن وسیم (شاعرہ، بلاگر):
خود احتسابی یا اپنا محاسبہ اس قدر نایاب عمل ہوچکا ہے کہ انسانی زندگی میں اس کی موجودگی بھی اب بہت کم محسوس ہوتی ہے۔ ہر انسان اپنے آپ کو چھوڑ کر دوسروں پر نکتہ چینی کرنے کا عادی ہے۔ جب قرآن کلاسز میں میری مربی و استاذ طلعت ظہیر صاحبہ نے قرآن کو میری اپنی ذات کا آئینہ بنایا تو یہی بات مجھے جماعتِ اسلامی کے قریب لے آئی۔ خود شناسی اور اپنے محاسبے کی جو خوبی مجھے جماعت ِ اسلامی کے تربیتی نظام میں نظر آئی وہ کسی بھی دوسری اجتماعیت میں اتنی حساسیت کے ساتھ نہ مل سکی۔

ماہ رخ سعیدہ (تجزیہ نگار):
جماعت اسلامی میں ہر کارکن سے بلا تخصیص اُس کی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق کام لیا جاتا ہے۔ یوں اس کی مثال ایک ایسی کارگر مشین کی ہے جس کا ہر پرزہ اپنی صلاحیت اور کارکردگی کے حساب سے فٹ لگا ہوا ہے، اس لیے اس کی کارکردگی بھی بہترین ہوتی ہے۔ یہاں ہر کارکن کی قرآن اور لٹریچر کے ذریعے باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے، اور سب سے خاص چیز جو اسے دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے وہ اقامت ِ دین کے لیے دورِ حاضر کے دجال سے ٹکر لینا ہے۔ حق پر ڈٹے رہنا اور اپنے نظریے پر قائم رہنا، یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے دل وجان سے اس میں شامل ہوئی۔

صفیہ نسیم( استاد، مصنفہ، بلاگر):
جماعت اسلامی کی تشکیل کے وقت مولانا مودودیؒ اور ان کے ساتھیوں کے ازسرِنو ایمان کی تجدید کے متعلق پڑھ کر بہت متاثر ہوئی۔ تحریکِ اسلامی کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زندگی میں دین داری ایک انفرادی رویّے کی صورت میں جامد و ساکن نہ رہ جائے بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دینی کو عملاً نافذ و قائم کرنے اور مخالف و مزاحم قوتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔ اگرچہ مجھے اپنی بہت سی کمزوریوں کا اعتراف ہے مگر فخر ہے کہ میں ایسی تحریک کا حصہ ہوں جو اسلام کے کسی ایک جزو کو لے کر نہیں اٹھی بلکہ مکمل دین کو زندگی کے ہر پہلو پر حاوی کردینا ہی اس کا مقصد ہے۔

قارئین کرام ! ہم نے ایک سوال کچھ چنیدہ افراد کے سامنے رکھا اور اس سوال کے مختلف جوابات نے جماعت اسلامی کے مقصد، لائحہ عمل، طریقہ کار، اس کی بھرپور جدوجہد، اس کی نظریاتی حیثیت، مایہ ناز لٹریچر ، تربیتی نظام اور افراد کی کردار سازی غرض تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔ یہ تمام خصوصیات جماعت اسلامی کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہیں۔ 82 سالہ جدوجہد کی ایک لازوال داستان رقم کرتے ہوئے جماعت اسلامی آج بھی دعوتی و سیاسی میدان میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔

حصہ