مہک کا راز

35

کچھ دیر کے بعد اہلکار نے اطلاع دی کہ صاحب کو ابھی کچھ اور وقت لگے گا۔ جمال نے پوچھا کہ کیا وہ اس دوران جیل کا وزٹ کر سکتے ہیں۔ آنے والا بھی کیونکہ ایک ذمہ دار آفیسر ہی تھا اس لیے اس نے کہا کہ یقیناً، لیکن آپ اس دوران کسی قیدی سے کسی بھی قسم کی گفتگو نہیں کیجیے گا۔ آپ کے ساتھ ہمارا ایک جوان بھی ہوگا جو آپ کو گائیڈ کرتا جائے گا نیز یہ کہ آپ زیادہ سے زیادہ 15 منٹ کا ویزٹ کر سکتے ہیں کیونکہ ہمیں توقع ہے کہ اس دوران صاحب ضرور آ جائیں گے۔ جمال اور کمال نے کہا کہ ہم آپ کی ہر ہدایت کو فالو کریں گے۔ ہماری جانب سے آپ کو کوئی شکایت نہیں ہوگی۔

فاطمہ تو بے شک پہلی مرتبہ سینٹرل جیل آئی تھی لیکن جمال اور کمال انسپکٹر حیدر علی کے ساتھ یہاں کا وزٹ کر چکے تھے لیکن وہ اس انداز میں آگے قدم بڑھا رہے تھے جیسے ان کے لیے ہر راستہ اجنبی ہو۔ پولیس کا جوان ان کو راستہ بھی بتاتا جا رہا تھا اور قیدیوں کے بارے میں مختصر طریقے سے بریف بھی کرتا جا رہا تھا۔ اسی طرح وہ قیدی نمبر 1103 کی کال کوٹھڑی کے قریب سے گزرے نے لگے تو جمال اور کمال اپنے مخصوص انداز میں چونکے اور قیدی کو غور سے دیکھتے ہوئے فاطمہ کو ایک مخصوص اشارہ کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ قیدی نمبر 1103 کے جسم سے پھوٹنے والی ہر قسم کی مہک کو ذہن نشین کر لے۔ اسی طرح وہ آہستہ آہستہ کافی دور تک گئے اور پھر سپاہی کو واپسی کا اشارہ کیا۔ ابھی بھی ان کے پاس 7 منٹ ہو تھے لیکن ان کو دیگر قیدیوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ فاطمہ ہدایت کے مطابق نوٹ بک اور قلم سنبھالے ہوئے کچھ نوٹ بھی کرتی جا رہی تھی تاکہ وزٹ کرانے والوں اور جیل انتظامیہ پر بھرپور طریقے سے یہ بات بھی ثابت کی جائے کہ یہ اسکول کے طالبعلموں کا تحقیقاتی دورہ ہے۔

وہ تینوں جیل کا وزٹ کرکے واپس جیلر کے آفس آ چکے تھے۔ ان کی میز پر کچھ مشروبات رکھے ہوئے تھے جن کو انہوں نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق منتخب کیا اور چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے لگے۔

تھوڑی ہی دیر میں جیلر صاحب ایک پُر وقار چال چلتے ہوئے اپنے آفس میں داخل ہوئے۔ فاطمہ، جمال اور کمال نے احتراماً کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا۔ انھوں نے بھی سلام کے انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے تینوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا لیکن جب تک جیلر صاحب اپنی نشست پر بیٹھ نہیں گئے، وہ تینوں کھڑے ہی رہے۔ ان کے بیٹھ جانے کے بعد وہ تینوں بھی بیٹھ گئے۔ تینوں نے صاف محسوس کیا کہ جیلر صاحب کو تینوں کا یہ انداز بہت پسند آیا تھا۔

مجھے آپ کی آمد سے پہلے ہی مطلع کر دیا گیا تھا۔ آپ لوگوں کو اگر کوئی سوالات کرنے ہوں یا اور بھی کچھ ارادہ ہو تو جو بات بھی قانونی حدود میں ہونگے تو میں اس میں آپ کے ساتھ ضرور شیئر کرونگا۔

ہمارا مقصد ایک تو یہ ہے کہ یہاں کے قیدیوں سے متعلق کچھ سوالات آپ سے کئے جائیں اور اگر آپ کی اجازت مل جائے تو ہم ایک دو قیدیوں سے بھی کچھ سوالات کر سکیں۔ ہماری خواہش یہ بھی ہے کہ اس دوران آپ بھی ہمارے ساتھ رہیں تو زیادہ اچھا رہے گا۔ ہمیں آپ کی مصروفیات کا بخوبی علم ہے، پھر بھی اگر آپ ہمارے لیے کچھ وقت نکال لیں گے تو ہمارے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہوگا۔ پھر یہ بھی کہ ممکن ہے کہ ہم کسی قیدی سے کوئی ایسا سوال پوچھ بیٹھیں جس کی اجازت نہ ہو تو آپ ہمیں روک بھی سکتے ہیں۔

جمال پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق اس وقت سب کو لیڈ کر رہا تھا۔ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کہ ہم آپ کے علم میں یہ بات بھی لانا چاہتے ہیں کہ آپ کے آنے میں تاخیر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم آپ کے ایک آفیسر جن کا صفدر حسین تھا، جیل کا ایک وزٹ بھی کر چکے ہیں لیکن کیونکہ انھوں نے ہدایت کی تھی کہ ہم وزٹ کے دوران کسی بھی قیدی سے کوئی سوال جواب نہ کریں، اس لیے ہم نے کچھ قیدیوں پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ضرور ڈالی تھی مگر ان سے کوئی بات بالکل بھی نہیں کی ۔

جس ادب و احترام کے ساتھ جمال نے اپنا مؤقف جیلر صاحب کے سامنے رکھا وہ جیلر صاحب جن کا نام نعمت خان تھا، کو بہت ہی اچھا لگا اور تینوں نے محسوس کیا کہ وہ جمال کے انداز گفتگو سے کافی متاثر ہوئے۔ کچھ دیر توقف کے بعد انھوں نے جواب دیا کہ مجھے آپ کے وزٹ کا بخوبی علم ہے اور ایسا میری ہی ہدایت کے مطابق تھا۔ مجھے اندازہ ہے کہ کسی کے انتظار میں اگر طبعیت سستی کا شکار ہو جایا کرتی ہے۔ پھر یہ کہ آپ لوگوں کے یہاں آنے کا مقصد تھا بھی جیل کا وزٹ اور مجھ سے اپنے اسائنمنٹ کے سلسلے میں سوال و جواب اس لیے میں نے اپنے آفیسر صفدر حسین کو ہدایت کی تھی کہ وہ آپ کو لوگوں کو اگر جیل کا وزٹ کرانا چاہیں اور طالبعلم خواہش بھی ظاہر کریں تو ان کو ضرور وزٹ کرادیں۔ ویسے تو قیدیوں سے بھی اگر کچھ پوچھ لینا اور وہ بھی کسی ذمہ دار آفیسر کی موجود گی میں، کوئی حرج کی بات نہیں تھی۔ ممکن ہے کہ میرے آفیسر صفدر حسین نے از خود اس کو مناسب نہ سمجھا ہو۔ خیر! جو سوالات آپ مجھ سے کرنا چاہتے ہیں ضرور کریں اس کے بعد ہم سب جیل کا ایک مرتبہ اور وزٹ کر لیں گے اور اگر کچھ باتیں آپ قیدیوںسے پوچھنا چاہیں تو ضرور پوچھ سکتے ہیں البتہ اگر کوئی ایسی بات جو مناسب نہیں ہوگی تو میں آپ کو ہاتھ کے اشارے سے منع کر دونگا۔

فاطمہ، جمال اور کمال نے جیلر صاحب سے کافی سوالات کئے۔ ان سب سوالات کا تعلق قیدیوں کی سہولیات، عادات جرم کی نوعیتوں سے تھا۔ ان سوالات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ جب یہ قیدی اپنے اپنے جرائم کی سزائیں مکمل کرنے کے بعد رہا کئے جائیں گے تو کیا ان کی تربیت کچھ اس انداز میں بھی کی جاتی ہے کہ جیل سے باہر باعزت طریقے سے اپنی زندگی گزار سکیں۔(جاری ہے)

حصہ