ہاتھی کی ہوشیاری

45

ایک دن ہرے بھرے جنگل میں زوزو زیبرا مزے سے گھاس چر رہا تھا۔ موسم بہت اچھا تھا اور وہ موسم کی وجہ سے بہت خوش تھا۔ گھاس چرتے چرتے ایک دم اس کو محسوس ہوا کہ اس کے آس پاس بھگدڑ مچ گئی ہے۔ تمام زیبرے بھاگ رہے تھے۔

”بھاگو بھاگو! سب جان بچا کر بھاگو۔“ زُوزُو نے اپنے دوست کی آواز سنی اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا شیر سر پر آن پہنچا۔ زُوزُو جان بچا کر بھاگا سامنے دریا کے کنارے ہاتھی کیچڑ اور پانی سے کھیل رہے تھے۔ زوزو ان کے درمیان چھپنے کی کوشش کرنے لگا۔ شیر زُوزُو زیبرے کو ہاتھیوں کے درمیان ڈھونڈنے لگا۔

”ہاتھی بھیا! پلیز مجھے اس شیر سے بچائے۔“ زُوزُو نے کانپتے ہوئے ہاتھی سے کہا۔

ہاتھی کو اس پر رحم آگیا۔ اس نے دماغ لڑایا اور پھر اپنی سونڈ میں کیچڑ بھر کر زوزو کے اوپر شاور کی طرح پھینکنے لگا۔

”تم ہمارے درمیان اب نظر نہیں آئو گے بس میرے ساتھ رہنا۔“ ہاتھی نے کہا تو زُوزُو اس کی ترکیب سمجھ کر اس کے ساتھ جڑ کر کھڑا ہوگیا۔

شیر، زُوزُو کو اتنے سارے ہاتھیوں میں تلاش نہ کرسکا اور بھوکا ہی واپس پلٹ گیا۔ زُوزُو زیبرا نے ہاتھی کا شکریہ ادا کیا اور کہا۔

”تم نے میری جان بچا کر مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ تم بہت اچھے ہو۔“ یہ سن کر ہاتھی خوش ہوگیا اور دریا سے سونڈ میں پانی بھرنے لگا۔ ہاتھی نے سونڈ کا پانی زُوزُو پر ڈالا تو وہ صاف ہوگیا۔ پھر وہ دونوں کھیلنے لگے اور اس طرح وہ ایک دوسرے کے پکے دوست بن گئے۔

پیارے ساتھیو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔

حصہ