سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں طفیل محمد کےعہد امارت کی چند جھلکیاں

110

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ ذوالفقار علی بھٹو کے جیالے غلام مصطفی کھر کے اشارے پر قتل کیے جاچکے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد قائد تحریک ڈیرہ غازی خان کے دورہ پر تشریف لائے۔ ۱۲ بلاک کی مسجد جو ڈاکٹر نذیر احمد شہید کے گھر کے عقب میں واقع ہے میں ایک بڑا جلسہ عام منعقد ہوا۔ میں جی بلاک کی جامع مسجد میں خطیب تھا، یہ جلسہ سننے کے لیے حاضر ہوا۔ قائد کا خطاب جوبن پر تھا مسجد کے بالکل قریب ایک زوردار بم دھماکہ ہوا، جلسہ گاہ میں بھگدڑ مچ گئی۔ میں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قائد کے خطاب میں سیکنڈ بھر کا بھی وقفہ نہ تھا۔ تحریک کے لوگ جو سیکورٹی پر مامور تھے حرکت میں آئے لیکن کارکن برف کی مانند جم کر خطاب سننے میں مصروف رہے۔ عام شہری بھی اس کیفیت کو دیکھ کر اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے، میں ابھی جماعت اسلامی کا رکن نہیں بنا تھا، میرا اس وقت یہ تبصرہ تھا کہ قائد اورکارکنان کے اس فولادی عزم کا مقابلہ ساحرین فرعون کبھی نہیں کرسکتے۔(راوی: ڈیرہ غازی خاں کی جی بلاک کی مسجد کے خطیب)

تحریک اسلامی کے علماء و فضلاء کی تکریم و احترام کا عملی مظاہرہ:
قائد تحریک سندھ کے دورے پر تھے جب شکارپور پہنچے تو خواہش ظاہر فرمائی کہ میں سب سے پہلے مولانا محمد اسماعیل صاحب کو ان کے گھر پر جاکر ملنا چاہتا ہوں۔ نظم نے گاڑی کا انتظام کرنا چاہا۔ نظم کے اصرار کے باوجود قائد نے فرمایا مولانا محمد اسماعیل کے مقام و مرتبہ کا تقاضا ہے کہ انہیں پیدل ملنے کے لیے جائوں چنانچہ وہ پیدل گئے اور آئے۔ یہ مولانا محمد اسماعیل کون تھے، ڈاکٹر محمد اقبال نکیانہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد سے اٹھارہ سال کی عمر میں درس نظامی مکمل کیا تھا۔ ۱۹۷۰ء میں وفات پائی۔ بلا کا حافظہ تھا، دیگر کتب کے علاوہ انہوں نے ’’صفوۃ العرفان بمفردات القرآن‘‘ تصنیف فرمائی۔ جس پر نکیانہ صاحب نے پی ایچ ڈی کیا ہے۔ اس عمل سے سیدی مرشدی نے قیادت اور کارکنان کے لیے دراصل یہ پیغام چھوڑا ہے کہ وہ علماء و فضلاء کی قدر کریں بالخصوص تحریک کے اندر جو علماء ہیں، ان کی عزت افزائی کریں۔ (راوی: ڈاکٹر محمد اقبال نکیانہ)

قائد تحریک نے منصورہ کو مکمل ”اے سی“ کرانے کی امیر کویت کی پیشکش ٹھکرادی

امیر کویت کے بھائی شیخ سلیمان ایک مرتبہ پاکستان آئے، منصورہ کا دورہ کیا، کھانے کی میز پر بٹھایا گیا، مولانا خلیل احمد حامدیؒ ترجمان کے فرائض انجام دے رے تھے۔ گرمی اپنے شباب پر تھی، شیخ محترم پسینہ میں شرابور ہوچکے تھے۔ وہ پسینہ پوچھ پونچھ کر بے حال ہوچکے تھے، انہوں نے اسی دوران یہ پیش کش کی کہ میں مکمل منصورہ ’’اے سی‘‘ کروادیتا ہوں۔ آپ کیسے یہاں بیٹھتے اور کام کرتے ہوں گے۔ قائد تحریک نے کہا بلوچستان کے پندرہ سولہ اضلاع ہیں، وہاں پینے تک کے لیے پانی نہیں ہے اور نہ کوئی دعوت دین کا مرکز ہے، میرے لیے ممکن نہیں کہ میں یہ پیشکش قبول کروں۔ مہمان محترم نے کہا کہ آپ اللہ کے سپاہی اور مجاہدین اسلام ہیں، میں بلوچستان کے ہر ضلع میں ایک ایک مسجد اور تحریک اسلامی کا مرکز اور پانی کے لیے کنویں بھی لگوادیتا ہوں لیکن منصورہ کو بھی مکمل طور پر اے سی کرادیتا ہوں۔ مرشد محترم نے بلوچستان کے حوالے سے پیشکش قبول کرلی چنانچہ بلوچستان کے تمام منصوبہ جات انہوں نے مکمل کرادیے لیکن قائد تحریک نے منصورہ ایئرکنڈیشن کردینے کی پیش کش یہ کہہ کر ٹھکرادی کہ آج ہم بغیر اے سی کے تحریک کے کام کررہے ہیں۔ منصورہ ایئرکنڈیشن ہوجانے کے بعد ہم بھی شیوخ عرب کی طرح منجمد ہوجائیں گے۔ (راوی: منصورہ کے رہائشی سردار مقصود حسین طاہر)

انتہائی پرآشوب حالات میں میاں طفیل محمد کا دورۂ مشرقی پاکستان
مولانا مودودیؒ اپنی بیماری اور خرابی صحت کی بنا پر ۱۹۷۱ء میں طویل رخصت پر تھے اور میاں طفیل محمد بحیثیت قائم مقام امیر جماعت پاکستان جولائی ۱۹۷۱ء میں جب دوسرے سیاسی رہنما بھٹو کے خوف سے مشرقی پاکستان جانے کے لیے تیار نہیں تھے مشرقی پاکستان کے دورے پر گئے کیونکہ بھٹو نے مغربی پاکستان کے اراکین قومی اسمبلی کو یہ دھمکی دی تھی کہ اگر کوئی قومی اسمبلی کے جلاس میں جانے کے لیے مشرقی پاکستان جائے تو وہ یکطرفہ ٹکٹ لے کر جائے کیونکہ واپسی پر ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔

انتخابات میں علاقائی جماعتوں کی کامیابی کے بعد بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے ’’ادھر تم ادھر ہم‘‘ کا نعرہ لگایا اور عوامی لیگ کی منتخب پارلیمنٹ میں عظیم اکثریت کے باوجود اس کے اقتدار کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے انتہا پسند لیڈروں نے صوبائی اور نسلی تعصبات کی آگ کو خوب بھڑکایا۔ صوبائی خودمختاری، مجیب کے چھ نکات اور بھاشانی کی تشدد کی تحریک سے مشرقی پاکستان کے عوام میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کا طوفان کھڑا ہوا۔ یہاں تک کہ مارچ ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ نے بھارت کی مدد سے پاکستان کے خلاف بغاوت کردی۔ اب مغربی پاکستان کے کسی لیڈر کامشرقی پاکستان میں قدم رکھنا موت کے منہ میں جانے کے مترادف تھا۔ محترم میاں صاحب نے گورنر جنرل ٹِکاؔ خان کے روکنے کے باوجود ڈھاکہ سے پورے مشرقی پاکستان رنگپور اور دیناج پور سے کھلنا اور چاٹگام تک دورہ کیا۔ جگہ جگہ جلسوں سے خطاب کیا اور پاکستان کی یکجہتی اور سالمیت کے لیے محب وطن بنگالیوں اور مہاجروں اور مغربی پاکستان سے گئے ہوئے سول اور فوجی ملازمین کو اپنا اسلامی اور پاکستانی فرض یاد دلایا۔ پھر جب ہندوستان نے روس کی مدد سے اپنی تربیت کردہ مکتی باہنی اور اپنی فوج کے ذریعے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا اور مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی عملی کارروائی شروع کردی تو محب وطن شہریوں کو میاں صاحب نے ان کا فرض یاد دلایا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں اسلام دوست جماعتوں کے کارکنوں پر مشتمل امن کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ مکتی باہنی اور بھارتی ایجنٹوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی جمعیت طلباء اور اسلامی ذہن کے نوجوانوں پر مشتمل ’’الشمس‘‘ اور ’’البدر‘‘ کے دستے منظم ہوئے اور ہزاروں بنگالی نوجوانوں اور عام مسلمانوں نے ملکی سالمیت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

( ہفت روزہ ایشیاء، معمارِ تحریک نمبر)

حصہ