شوہر نوبہار

81

اکبرؔ دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہوگئے بیگم کی نوج سے

حضرات …یہ تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انسان اشرفُ المخلوقات ہے یعنی ساری جاندار مخلوق میں افضل بلکہ افضل ترین …یہ الگ بات کی کبھی کبھی نفسِ امّارہ اسے بدترین کی حدود بھی پار کرا دیتی ہے… اشرفُ المخلوقات یعنی انسان کو اس کی عمر اور صفات کے اعتبار سے کئی حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے مثلا ًبچّہ اور بچّی، بوڑھا اور بوڑھی،شوہر اور بیوی… میرا آج کا موضوع صفتِ مشبّہ سے آراستہ’ شوہرِ نو بہار‘ ہے تو آئیے ہم شوہروں کی اقسام پر بحث کرتے ہیں ان کی خصوصیات، عادات و اطوار بھی زیرِبحث آئیں گی …یہ خیال رہے کہ یہ نکتہء دقیق وہی نکتہ دان سمجھ سکتے ہیں جن کی بطور شوہر رسم ِتاج پوشی ادا ہو چکی ہے۔

تو قارئین کرام سب سے پہلے ان شوہرات کا ذکر ِخیر کرتے ہیں جو اپنی بیگمات کے اشاروں پر ناچتے ہیں… لفظ شوہرات پڑھ کر یقیناً آپ چونک گئے ہوں گے، دھیرج رکھیں میں اس کی وضاحت کیے دیتا ہوں اگر بیگم کی جمع بیگمات ہوسکتی ہے تو شوہر کی جمع شوہرات کیوں نہیں ہو سکتی ،اس طرح ہماری لغت میں ایک نئے لفظ کا اضافہ بھی ہوسکتاہے۔

مندرجہ بالا تحریر میں لفظ اشارہ استعمال ہوا ہے یہ محاورے والا اشارہ ہے اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ ادھر بیگمِ گل بہار نے اشارہ کیا اور ادھر شوہرِ نوبہار نے کتھک ڈانس شروع کر دیا… اشاروں سے مراد بیگم کا فرمانبردار ہونا اور بیگم کی فرماں روائی کا قائل ہونا ہے جس طرح کا بھی فرمان صادر ہو وہ واجبُ الاِذعان ہے ۔ رہ گئے خاندان اور دوست احباب تو انہیں کہنے دیجیے… جو یہ کہتے ہیں… ’’تم نے بیگم کو بہت سر پہ بٹھا رکھا ہے‘‘ بھئی ہماری بیگم، ہماری مرضی …اب ہم بیگم کو سر پہ بٹھائیں یا چارپائی پر وہ کون ہوتے ہیں ہمارے معاملاتِ دل شاد میں مداخلتِ دل خراش کرنے والے۔ کسی کے خانگی معاملات میں مداخلت کرنا ایک غیر اخلاقی اور غیر مہذّبانہ فعل ہے‘ ہر کسی کو اس سے گریز کرنا چاہیے۔

اگر کسی والدین کی ایک ہی بیٹی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ شادی کے بعد بھی بیٹی ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی رہے تو انہیں ایک عدد گھر داما د درکار ہوتا ہے۔ بس مذکورہ بالا شوہروں کا مسکن اُس امیرزادی کا گھر ہوتا ہے۔ مجھے اس وقت مرزا عاصی اخترشدّت سے یاد آرہے ہیں۔ موصوف اپنا تلخ مگر شیریں تجربہ اس طرح بیا ن کرتے ہیں…

ہم نے سسرال میں قیام کیا
زندگی بھر کچن میں کام کیا

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر جس گھر میں قیام پذیر ہوتا ہے وہ گھر اور اس کے اندر کا سازوسامان بیوی اپنے ساتھ جہیز میں لاتی ہے۔ لہٰذا ا ب شوہرِ محترم پر لازم ہے کہ وہ بیوی کی تابع داری اسی طرح کرے جس طرح ہمارے حکمرانِ ذی شان IMF کی تابع داری کرکے اپنے باوفا ہونے کا بیّن ثبوت دیتے ہیں۔ چاہے قوم جائے بھاڑ میں آقائوں کو خوش رکھنا ان کا اوّلین فرض ہوتا ہے۔

اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیوی حُسن و جمال میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اور شوہرِ دل دادہ اپنی دل ربا کے سامنے ہر وقت سرِ تسلیم خم کرنے کو تیار رہتا ہے کیا دن کیا رات کیا سردی کیا گرمی‘ بیوی کی ایک آواز پر لبّیک کہنا اس کا شیوہ ہوتا ہے۔ اور اگر خدانخواستہ بیگم صاحبہ کسی بات پر ناراض ہوگئیں تو شوہر کے لیے قیامت سے کم نہیں ہے‘ وہ ہر جتن کرے گا اسے منانے کے لیے چاہے اسے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ صبح سویرے آفس جانے سے قبل اپنا ناشتہ خود تیار کرنا اور بیگم صاحبہ جو اس وقت خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہوتی ہیں ان کا ناشتہ تیار کرکے کھانے کی میز پر باقاعدگی سے سجانا… اس کے بعد آفس جانا… یہ ان شوہرِ فرماں بردار کا وتیرۂ خاص ہوتا ہے۔

معروف مزاح گو شاعر خالد عرفان اپنا ذاتی مشاہدہ پورے یقین کے ساتھ کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں…

ایک بیوی پہ جو کرتا ہے قناعت تا عمر
وہ تو شوہر نہیں ہوتا ہے ولی ہوتا ہے

ایک بیوی پہ قناعت کرنے والے افراد شوہروں کی اقسام میں خاصّ الخاص ہیں …ہمارے معاشرے میں ان کی تعداد اچھی خاصی ہے… ساری زندگی فقط ایک بیوی پہ قناعت کرنا، اسے برداشت کرنا، جان جوکھم میں ڈالنا کوئی آسان کام نہیں ہے …شاعرِ محترم نے ایسے موصوف حضرات کا مقام اعلیٰ بتایا ہے۔ شاعر کا خیال ہے کہ ان مردِ مجاہد کا رتبہ کسی ولی سے کم نہیں ہے۔

سب کہاں …کچھ شاعر حضرات بھی اسی زمرے میں آتے ہیں کام کاج ان سے ہوتا نہیں سارا دن گھر میں پڑے سگریٹ کا دھواں اڑاتے اور شعر کہتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار کسی مشاعرے کا دعوت نامہ مل گیا تو وہاں سے جو رقم حاصل ہوتی ہے اس سے ان کا سگریٹ اور پان با آسانی آ جاتا ہے چولہا ٹھنڈا رہتا ہے بیوی گرم رہتی ہے ہر وقت گھر میں شور بپا رہتا ہے بیوی ان پر حاوی رہتی ہے اس کی ہر بات مانتے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی کام کاج نہیں کریں گے صرف شاعری کریں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے۔ خالد عرفان نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے

میری بیوی آج پھر مجھ پر ہوئی ہے تعنہ زن
بھاڑ میں جائے یہ تیری شاعری یہ تیرا فن

ابھی میرا مضمون یہیں تک پہنچا تھا کہ اندر زنان خانے سے ایک آواز آئی ’’اجی سنتے ہیں‘ کہاں غائب ہیں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں‘‘ گویا میں شوہر نہ ہوا بلّی کا بچّہ ہوگیا جسے اس قدر اہتمام سے ڈھونڈا جارہا ہے۔ تو حضرات اس وقت حالات کچھ سازگار نظر نہیں آرہے ہیں لہٰذا میں اپنا مضمون اسی جگہ اختتام پذیر کرتا ہوں۔ اگر زندگی رہی اور حالات سازگار رہے تو ان شاء اللہ اگلی ملاقات میں شوہروں کی دیگر اقسام پر بحث کی جائے گی تب تک کے لیے اجازت دیجیے… میرے لیے دعائے خیر کرنا نہ بھولیے گا۔ اللہ حافظ۔

حصہ