جامعۃ المحصنات کی فارغ التحصیل طالبات کیلئے تین روزہ تحقیقی ورکشاپ

106

مرکز المحصنات نے اس سال جامعۃ المحصنات پاکستان کی فارغ التحصیل طالبات جو تخصص، ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کر چکی ہیں،کے لیے تین روزہ تحقیقی ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ تحقیق ایک ایسا فن ہے جو ہمیں کسی بھی موضوع یا مسئلے کے بارے میں نئی معلومات سے متعارف کرواتا ہے یا موجودہ معلومات میں اضافہ کرتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں تحقیق کی اہمیت ہے اسی اہمیت کے پیش نظر یہ تین روزہ ورکشاپ19 جولائی تا 21 جولائی 2024ء بروز جمعہ تا اتوار ادارہ معارف اسلامی کے اشتراک سے منصورہ لاہور میں رکھی گئی ۔ جس میں ملک بھر سے 44 المحصنات اسکالرز نے شرکت کی۔ تین روزہ تحقیقی ورکشاپ درج ذیل مقاصد کے تحت کی منعقد کی گئی۔

٭جامعات المحصنات کی فارغ التحصیل متخصصات ایم فل، پی ایچ ڈی ، طالبات کی حوصلہ افزائی کرنا، اور علم تحقیق کے میدان میں ماہر بننے میں تعاون کرنا اور ان کو ایک متفقہ تحقیقی مرکز سے منسلک کر کے تحقیقی کاموں اور مختلف جدید نوعیت کے مسائل میں امت کی رہنمائی کے لیے تیار کرنا۔

٭تحقیق کے جدید اسالیب سے متعلق عملی رہنمائی دینا۔

٭علوم اسلامی کے میدان میں دور جدید کے اہم موضوعات تحقیق کی نشاندہی اور فکری رہنمائی۔

الحمد للہ مرکزی دفتر المحصنا ت ، شعبہ تحقیق کے تحت یہ تین روزہ تحقیقی پروگرام بہت عمدگی سے مکمل ہوا ۔ پروگرامات کا یہ سیشن، لیکچرز ، ورکشاپس اور تحقیق کی عملی سرگرمیوں پر مشتمل تھا۔ پروگرام میں مختلف شعبۂ علوم (انگلش لیٹریچر، عربی لٹریچر، وکالت ، علوم اسلامیہ وغیرہ) سے وابستہ اسکالرز نے شرکت کی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکا لرز نے اپنے ایریا آف سٹڈی کی مناسبت سے اپنے مقالاجات و آرٹیکلز کی تحقیق کے لیے موضوعات منتخب کیے۔

پہلے دن کے پروگرامات:
افتتاحی تقریب : افتتاحی تقریب میں ادارہ معارف اسلامی کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد انور گوندل صاحب نے اسکالرز کا خیر مقدم کیا اور شرکا کو ا دارہ معارف اسلامی کا تعارف دیتے ہوئے بتایا مولانا مودودیؒ نے 1963ء میں ایک فکر اور نظریے کے تحت اس کی بنیاد رکھی، اس ادارہ نے بہت سے عملی کام سر انجام دیے اور معارف اسلامی سے تقریبا 27 ہزار علمی کتب مطبوع ہو چکی ہیں۔

دراصل اس تحقیقی نوعیت کے پروگرام کی اس علمی ادارے سے گہری وابستگی بھی تھی جو شرکا میں تحرک کا ذریعہ بنی۔اور اس علمی ماحول میں تین دن عملی سرگرمیاں بھی ہوتی رہیں۔

تحقیقی کام مگر کیسے؟ تحقیق کے نئے عنوانات کی ضرورت:
ورکشاپ بعنوان ’’ تحقیقی کام مگر کیسے؟ تحقیق کے نئے عنوانات کی ضرورت‘‘ ٹرینر ڈاکٹر ساجد انور صاحب(ڈائریکٹر ادارہ معارف اسلامی) نے کنڈکٹ کروائی۔ جس میں علم کے فلسفے ،علم کے مقصد و بنیاد ، تحقیق کے مراحل اور تحقیق کے چند موضوعات پر روشنی ڈالی۔ تحقیق کے مراحل پر گفتگو کرتے ہوئے اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ مفروضے کے وجود سے موضوع بنایا جاتا ہے اور مفروضے کی تبدیلی سے ہی آپ اصل تحقیق کے نہج پرآتے ہیں۔

علوم اسلامیہ میں منہج تحقیق:
قیمہ جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر حمیرا طارق نے بعنوان ’’ علوم اسلامیہ میں منہج تحقیق‘‘ پر اسکالرز کو لکچر دیا۔ انہوں نے تحقیق کے اصل مقصد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ محقق کے پیش نظر یہ رہنا چاہیے کہ ریسرچ کے بعد معاشرے کو کیا فائدہ ہو گا جس سے ایک محقق علمی سرمائے کو حالات سے منطبق کر سکے۔ انہوں نے اہم بین الاقومی ، علاقائی ، قومیت وغیرہ پر مبنی اہم موضوعات کو شرکاکے سامنے رکھا۔

Research Methodology
مدیرہ مجلہ المحصنات ڈاکٹر حسین بانو نے Research Methodology پر روشنی ڈالتے ہوئے تحقیق کے مفہوم اور اس کی اہمیت و ضروت کو اسلام کے روشنی میں واضح کیا ، تحقیق کے مختلف پہلو ؤں پر گفتگو کرتے ہوئے چند عصری موضوعات ( طبی ، بینک کاری، مذہبی انتہا پسندی وغیرہ) پر توجہ دلائی اور تحقیق کی مختلف اقسام سے روشناس کروایا کہ ایک محقق کیسے معتبر ماخذ سے حقائق کی چھان بین کے بعد تجزیہ کر کے عملی حل تلاش کر سکتا ہے اور آگے چل کر اپنے تجزیے اور مشاہدے سے نئے علوم جنم دے سکتا ہے۔

پہلے دن کے اختتامی سیشن پر ڈاکٹر سعدیہ اعجاز (ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ منزل ایجوکیشن آرگنائزیشن) نے اسکالرز سے ریسرچ کے موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے عملی سرگرمی کروائی۔ اس دوران اسکالرز نے اپنے آرٹیکلز اور مقالہ جات کے لیے عنوانات منتخب کیے۔

دوسرے دن کے پروگرامات:
دوسرے دن بھی شرکا کے لیے کئی دلچسپ پروگرامات کروائے گئے۔ پروفیسر ڈاکٹر اکرم چوہدری صاحب (وائس چانسلر اینڈ پروفیسر ایمریٹس یو نیورسٹی لاہور)نے ’’علوم اسلامیہ میں تحقیق کے لیے عربی زبان کی اہمیت وضرورت ‘‘ کے موضوع پر تجرباتی و علمی گفتگو کرتے ہوئے لیکچر دیا۔ پروفیسر صاحب نے علوم دینیہ کے اسکالرز کو بتایا کہ عربی اپنے الفاظ و معانی کے اعتبار سے زندہ اور مستقل زبان ہے اور اس کو یہ ابدی حیثیت اسی بنا پر ملی کہ یہ قرآن کی زبان ہے۔اس سے یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ دراسات دینیہ کے طالب علم اور محقق کے لیے عربی سے واقفیت و وابستگی کس قدر ضروری ہے۔ اس کے بعد بعنوان ’’ریسرچ آرٹیکل ڈرافٹ کی تیاری کے مراحل‘‘ خالد سیف اللہ صاحب نے ورکشاپ کروائی جس سے اسکالرز کو اپنے ریسرچ آرٹیکل کے ڈرافٹ کی تیاری میں رہنمائی ملی۔ انہوں نے ریسرچ کے مختلف مراحل پر گفتگو کرتے ہوئے بہت سے رہنما اصول اور دقیق نکات کو احسن انداز میں واضح کیا۔

ڈاکٹر ساجد انور صاحب نے بعنوان ’’معاصر جدید مسائل( قلب ماہیت، جیلاٹین، الکحل، حشرات، مصنوعی گوشت)‘‘ پر اسکالرز کو لیکچر دیا اور عصر حاضر کے جدید مسائل پر گفتگو کرتے کیمیکل سے اشیا میں تبدیلی، استحالہ، قلبِ ماہیت، انرجی ڈرنکس جیسے دقیق مسائل پر تحقیق کی توجہ دلائی۔

پروگرام کے دوسرے حصے میں حافظ ادریس صاحب (سابق نائب امیر جاعت اسلامی پاکستان) نے ’’ ’’سیرت نگاری :تحقیقی مطالعہ‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا۔ حافظ صاحب نے سیرت کے معنی و مفہوم، سیرت کے مصادر اور ابتدائی کتب کا تعارف دیا اور موجودہ دور میں سیرت کا تحقیقی مطالعہ کیسے کیا جائے؟ پر چند نکات شرکا کے سامنے رکھے۔ جس میں موجودہ سیرت کی مراجع اردو کتب کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ بدلتی اقدار اور موقع پر سیرت نگاری کی جائے۔ دن کے اوّل حصے کے پروگرامات اٹینڈ کرنے کے بعد اسکالرز کو معارف اسلامی کی لائبریری کا دورہ کروایا گیا جہاں اسکالرز نے اپنے تحقیقی موضوعات پر کتابوں کا انتخاب کیا اور ساتھ ہی اپنے منتخب موضوعات کا خطہ البحث بنایا ۔

بعد از وقفہ نماز ظہر و ظہرانہ دوبارہ ورکشاپ کو جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر ساجد اقبال شیخ نے بعنوان ’’ریسرچ آرٹیکل اور علمی مضمون میں فرق‘‘ پر لیکچر دیا۔ شرکا کو آرٹیکلز، مقالے اور علمی مضامین میں فرق واضح کرتے تحقیق کے نئے طریقوں سے متعارف کروایا اور مقالے کو کتابی شکل دینے کے اصول بتائے۔ اس بعد ڈاکٹر سعدیہ اعجاز نے ’’تحقیق کے موضوعات عہد حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں‘‘ کے عنوان پر ورکشاپ کروائی۔ انہوں نے عہدِ حاضر کے عمومی مسائل شرکا کے سامنے رکھے اور ان مسائل کے ضمن میں بیشتر موضوعات جن پر تحقیق کی اشد ضرورت ہے، حاضرین کے گوش گزار کیے۔

ڈاکٹر شیخ الحدیث مولانا عطا الرحمن نے بعنوان ’’دینی مدارس اور تحقیقی رجحان، تخریج کا عملی طریقہ‘‘ ورکشاپ کروائی۔ تحقیق کی اہمیت و ضروت پر نئے انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے علوم اسلامیہ کی درجہ بندی، تخصصات، حدیث اور کتابوں کی عبارت کی عملی تخریج کے طریقے، تخریج کا مقصد و اہمیت سے آگاہ کیا۔ تخریج و حوالہ جات ایک تحقیقی مقالے کی روح ہے۔ ورکشاپ کے تیسرے اور آخری روز اسکالرز سے ان کے منتخب تحقیقی موضوعات پر پریزنٹیشنز کروائی گئیں اور تبصرے کیے گئے جس سے ان موضوعات پر تحقیق کی نئی راہیں کھلیں۔

ڈاکٹر قیصر محمود نے ’’تحقیقی رسائل وجرائد کا تعارف‘‘ کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے ورکشاپ کروائی۔ آرٹیکلز شائع کرنے کے طریقے اور ایچ ای سی کی پالیسز کے حوالے معلومات فراہم کیں۔

ڈاکٹر سعدیہ اعجاز نے ’’تحقیق میں مصنوعی ذہانت کا کردار‘‘ کے عنوان پر اسکالرز کو ورکشاپ کروائی جس میں مختلف نکات زیر بحث لائے گئے ۔ اے آئی تحقیق میں کیسے معاون ہے؟ کمپیوٹر انٹیلجنس اور انسانی ذہانت میں کیا فرق ہے؟ کمپیوٹر ڈیٹا بیس کیسے کام کرتا ہے۔ یہ سب نکات اس ورکشاپ کا حصہ تھے۔

پروگرام کے آخر میں جامعہ المحصنات خیرآباد کی سابقہ طالبہ اور موجودہ نگران ڈاکٹر فاطمۃ الزہرہ خان کی کتاب ’’شریعت اور عقل‘‘ کی تقریب رونمائی منقعد کی گئی جس میں مہمان خصوصی مولانا شیخ القرآن عبدالمالک، قیمہ و نائب قیمہ جماعت اسلامی ودیگر مہمانوں نے شرکت کی۔ ڈاکٹر فاطمۃ الزہرہ نے کتاب کا تعارف دیا اور اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس تین روزہ پروگرام کے اختتام پر ٹرینر ز اور اور اسکالرز میں شیلڈ زتقسیم کی گئیں، بعدازاں نگران جامعات المحصنات پاکستان ثوبیہ عبدالسلام اور نائب قیمہ جماعت اسلامی ثمینہ سعید کے اختتامی و دعائیہ کلمات کے ساتھ ورکشاپ اپنے اختتام کو پہنچی۔

حصہ