روح کے نغمے

128

(دوسرا اور آخری حصہ)

آٹھواں خیال: ہمارے افکار کی قبولیت ، مقامِ مسرت ہے۔

اگر ہم اپنے افکار و عقائد کو اپنے لیے خاص کیے رہیں اور جب دوسرے انہیں اختیارکرنے لگیں تو اس پر اپنے غیظ وغضب کا اظہارکریں اور پوری کوشش کریں کہ ان کی نسبت ہماری طرف ہی کی جائے اور دوسرے لوگ ان کے دشمن بنے رہیں۔ ایسا فعل کوئی فرد اس وقت کرتا ہے جب ان افکار و عقائد پر اس کا ایمان پختہ نہیں ہوتا۔ وہ دل کی گہرائیوں سے تائید نہیں کر رہا ہوتا بلکہ بلا ارادہ وہ افکار و عقائد ظاہر ہو جاتے ہیں اور ان سے نسبت رکھنے والا انہیں اپنی جان سے زیادہ محبوب نہیںرکھتا۔

حقیقی خوشی ہی فطری نتیجہ ہے اس چیز کا کہ ہم اپنے جیتے جی اپنے افکار و عقائد کو دوسروں کی زندگیوں میںروبۂ عمل دیکھیں۔ محض اس بات کا تصور کہ یہ افکار و عقائد ہمارے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد دوسروں کے لیے آسودگی اور سیرابی کا ذریعہ بنیںگے، اس بات کے لیے کافی ہے کہ ہمارے دل رضا، سعادت اورطمانیت سے لب ریز ہو جائیں۔ یاد رہے، صرف تاجر ہی اپنے سامانِ تجارت پر ٹریڈ مارک لگاتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ ویسا سامان نہ بنا سکیں اور اُن کے منافع کو ہڑپ نہ کرسکیں۔ رہے مفکرین، داعی اور عقائد کے حاملین تو وہ اس چیز کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ان کے افکار و عقائد میں حصہ دار بن جائیں اور ان پر اس حد تک ایمان لائیں کہ انہیں ان کے اوّلین علم برداروں کی طرف منسوب کرنے کے بجائے اپنی طرف منسوب کرنے لگیں۔

وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہی ان افکار و عقائد کے سکہ بند ’مالک‘ ہیں بلکہ وہ خود کو ان کی منتقلی اور ترجمانی کے لیے محض ’واسطہ‘ گردانتے ہیں۔ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جس سرچشمے سے وہ سیراب ہوتے ہیں، نہ وہ ان کا پیدا کیا ہوا ہے اور نہ ان کے اپنے ہاتھوں کا بنایا ہوا۔ انہیں حاصل ہونے والی خوشی و مسرت کا پاکیزہ احساس ان کے اس اطمینان کاثمرہ ہوتاہے کہ اس اصلی سرچشمے سے ان کا گہرا تعلق ہے۔

نواں خیال: ’حقائق‘ اور ’فہم‘ میں فرق ہے۔

’ہم حقائق کو سمجھیں‘ اور ’ہم حقائق کا فہم حاصل کریں‘ ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے، بہت زیادہ فرق۔ اس میں پہلی چیز علم ہے اور دوسری چیز معرفت۔

پہلی بات میں ہمارا تعامل مجرد الفاظ و معانی کے ساتھ یا جزئی تجربات اور نتائج کے ساتھ ہوتا ہے، جب کہ دوسری بات میں ہم زندہ قبولیتوں اور کلّی مطالب کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔

پہلی صورت میں ہمیں اپنی ذات کے باہر سے معلومات حاصل ہوتی ہیں، پھر وہ ہماری عقلوں میں جاگزیں ہوکر امتیازی صورت میں محفوظ رہتی ہیں۔ دوسری صورت میں حقائق ہمارے اندرون سے پھوٹتے ہیں۔ ان میں خون اسی طرح دوڑتا ہے، جس طرح ہماری رگوں اور اعضا میں دوڑتا ہے اور ان کی شعاعیں ہماری نبض سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ پہلی صورت میں مختلف خانے اور ان کے ذیلی عنوانات ہوتے ہیں: علم کا خانہ اوراس کے تحت مختلف عنوانات، مذہب کا خانہ اور اس کے تحت مختلف ابواب و فصول، آرٹ کاخانہ اور اس کے تحت مختلف مناہج اور رجحانات۔ اور دوسری صورت میں صرف ایک طاقت ہوتی ہے، جو کائنات کی عظیم ترین طاقت سے مربوط ہوتی ہے، صرف ایک دھارا ہوتا ہے، جو اصل سرچشمے سے جا ملتا ہے۔

دسواں خیال: اعلیٰ روحانی قوت کا حصول۔

ہمیں انسانی علوم کی تمام شاخوں میں ماہرین کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کی جو اپنی تجربہ گاہوں اور دفاتر کو عبادت گاہوں اور خانقاہوں کی شکل دے دیں، جو اپنے دائرۂ اختصاص کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ صرف قربانی کے جذبے سے نہیں بلکہ اس میں انہیں اس عبادت گزار کی طرح لذت کا بھی احساس ہو جو اپنی روح کو بہ خوشی اپنے معبود کے حوالے کردیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں اس چیز کا ادراک کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو زندگی کو کوئی رُخ دیتے ہیں یا انسانیت کے لیے کوئی راہ طے کرتے ہیں۔

رہنمائی ہمیشہ انہی لوگوں نے کی ہے اور آئندہ بھی وہی کریںگے جو اعلیٰ روحانی قوتوں کے مالک ہوں۔ یہی ہیں وہ لوگ جو ایسے پاکیزہ شعلے کے حامل ہوتے ہیں، جس کی حرارت میں علوم و معارف کے تمام ذرات پگھل جاتے ہیں اور جس کی روشنی میں زندگی کے راستے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اعلیٰ اور بلند تر ہدف کی طرف بڑھتے ہوئے وہ تمام جزئیات سے مالامال رہتے ہیں اور انہیں بہترین زادِ راہ حاصل رہتا ہے۔ یہ رہنما اپنی بصیرت سے اُس ہمہ گیر وحدت کا فہم حاصل کرلیتے ہیں، علم، فن، عقیدہ اور عمل جس کے مختلف مظاہر ہیں۔ چنانچہ وہ نہ تو ان میں سے کسی کو حقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں اور نہ کسی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

چھوٹے لوگ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف مظاہر کی ان قوتوں کے درمیان تضاد اور تصادم ہے۔ چنانچہ وہ مذہب کے نام پر علم سے برسر پیکار رہتے ہیں یا علم کے نام پر مذہب سے محاذ آرا۔

یہ لوگ فن کو عمل کا نام دے کر اس کی تحقیر کرتے ہیں یا تحریک پیدا کرنے والی قوتِ حیات کو صوفیانہ عقیدہ کہہ کر اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان طاقتوں میں سے ہر طاقت کو الگ سمجھتے ہیں حالاں کہ وہ سب ایک ہی سرچشمے سے نکلی ہوئی ہیں، اس عظیم ترین قوت سے جس کا تسلط اس کائنات پر قائم ہے۔ لیکن بڑے رہنما اس وحدت کا ادراک کرلیتے ہیں، اس لیے کہ ان کا اس اصل سرچشمے سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ اس سے فیض اٹھاتے رہتے ہیں۔

اعلیٰ روحانی قوتوں کے حاملین کم ہیں۔ تاریخ انسانیت میں ان کی تعداد بہت قلیل ہے بلکہ ان کا وجود نادر ہے، لیکن انہی لوگوں سے ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ جو قدرت الٰہیہ اس کائنات کی نگرانی کررہی ہے، اسی نے ان کی صورت گری کی ہے اور طے شدہ اور مطلوبہ وقت میں انھیں بیدار کیاہے۔

گیارہواں خیال: فہم سے بالاتر چیزوں کے بارے میں مناسب رویہ۔

خرقِ عادت چیزوں،کشف و کرامات اورغیر مرئی قوتوں پر ہی اعتقادکو مطلق تسلیم کرنا خطرناک ہے۔ اس لیے کہ وہ خرافات تک لے جاتا اور زندگی کو بہت بڑے وہم میں مبتلا کر دیتا ہے۔ لیکن اس اعتقاد کا مطلق انکار کرنا بھی کچھ کم خطرناک نہیں۔ اس لیے کہ یہ چیز ’نامعلوم‘ تک رسائی کے تمام دروازوں کو بند کر دیتی اور ہر اَن دیکھی طاقت کا انکار کر دیتی ہے، محض اس بنا پر کہ وہ ہماری زندگی کے کسی مرحلے میں ہمارے انسانی فہم و ادراک سے پرے تھی! اس طرح ہمارا فہم اس کائنات کے مقابلے میں حجم، طاقت اور قدر و قیمت کے اعتبار سے چھوٹا ہو جاتا ہے اور ’معلوم‘ کی حدود سے گھر جاتا ہے اور وہ اس لمحے تک، جب کائنات کی عظمت سے اس کا مقابلہ کیا جائے، حقیر… انتہائی حقیر ہوتا ہے۔

اس روے زمین پر انسان کی زندگی، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قوتوں اور ان کے مظاہر کے فہم و اِدراک سے عاجز ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسانی زندگی ان قوتوں کے فہم و ادراک پر قدرت کا تسلسل ہے۔ جب بھی انسان نے بندشوں سے چھٹکارا پایا اور اپنے طویل راستے میں آگے کی طرف قدم بڑھایا ہے، اسے ان قوتوں کا ادراک ہوا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کائنات کی ان قوتوں میں سے، جو کبھی انسان کے لیے نامعلوم اور اس کے اِدراک سے پرے تھیں، کسی قوت کے اِدراک پر اس کا قادر ہو جانا اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی بصیرت سے دیکھ لے کہ کائنات میں دوسری بہت سی قوتیں ایسی ہیں، جن کا ابھی وہ اِدراک نہیں کر سکا ہے۔ اس لیے کہ ابھی تک وہ تجربے کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔

انسانی عقل کے احترام کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ’نامعلوم‘ کو مناسب مقام دیں۔ اس لیے نہیں کہ ہم اپنے تمام معاملات اس کے حوالے کردیں، جیسا کہ اوہام و خرافات کے دل دادہ کرتے ہیں بلکہ اس لیے تاکہ ہم حقیقی طور پر اس کائنات کی عظمت کا احساس کر سکیں اور اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی قدر و قیمت پہچان سکیں۔

اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ وہ انسانی روح کے لیے بہت سی قوتوں کے دروازے کھول دے، جس سے معرفت حاصل ہو سکے اور ان روابط کا علم ہو سکے، جو ہمیں اور ہماری داخلی دنیا کو اس کائنات سے جوڑے ہوئے ہیں۔ اس بات میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں کہ یہ قوتیں ان تمام چیزوں سے زیادہ عظیم اور وسیع اور گہری ہیں، جن کاہم نے اب تک اپنی عقلوں سے اِدراک کیا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے سامنے ہر دن کسی نئے ’نامعلوم‘ کا انکشاف ہو رہا ہے اور ہم برابر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

بارہواں خیال: اللہ کی عظمت کااعتراف اور انسان کی قدروقیمت۔

اس زمانے میں بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مطلق عظمت کا اعتراف کرنے سے ’’انسان کی قدر و قیمت کم ہو جاتی ہے اور اس کائنات میں اس کی شان گھٹ جاتی ہے‘‘۔ گویا اللہ اور انسان دو حریف ہیں جو اس کائنات میں عظمت اور قوت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسا سوچنا محض جہالت ہے۔

میرا احساس ہے کہ جوں جوں اللہ کی مطلق عظمت کے بارے میں ہمارے شعور میں اضافہ ہوگا، اسی قدر ہمیں بھی عظمت حاصل ہوگی۔ اس لیے کہ ہم اس عظیم ہستی کی تخلیق ہیں۔

جو لوگ گمان کرتے ہیں کہ ان کامقام اس وقت بلند ہوتا ہے، جب وہ اپنے خیال میں اپنے خالق اور معبود کا درجہ گرا دیتے یا اس کا مطلق انکارکردیتے ہیں، تو یقین مانیے ایسے لوگ بے چارگی اور عقلی افلاس کی اس سطح پر گرے ہوئے ہیں کہ جو قریبی افق کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھ سکتے۔

وہ گمان کرتے ہیں کہ انسان نے اپنے ’ضعف‘ اور ’عجز‘ کے زمانے میں اللہ کی پناہ حاصل کی تھی، لیکن اب، جب کہ وہ ’طاقت ور‘ ہو گیا ہے، اسے کسی معبود کی ضرورت نہیں! گویا کہ ضعف، بصیرت کے دروازے وَا کرتا اور طاقت و قوت اس پر خطِ نسخ پھیر دیتی ہے۔ انسان کے شایانِ شان یہ ہے کہ جوں جوں اس کی قوت بڑھے، اسی قدر اللہ کی عظمت ِمطلق کے بارے میں اس کے احساس میں اضافہ ہو۔ اس لیے کہ اس کی قوتِ ادراک میں جس قدر اضافہ ہوگا، اسی قدر وہ اس قوت کے سرچشمے کا بہ خوبی ادراک کرسکے گا۔

تیرہواں خیال: غلامی آزادی کے لبادے میں۔

بعض اوقات غلامی، آزادی کے لبادے میں چھپ جاتی ہے اور اس کا اظہار تمام پابندیوں سے آزادی، عرف اور روایات سے آزادی کی شکل میں ہوتا ہے۔

ذلت، دباؤ اور کم زوری کی قیود سے آزادی اور انسانیت کی قیود اور ذمے داریوں سے آزادی، دونوں کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ اوّل الذکر ہی حقیقی آزادی ہے، جب کہ دوسری آزادی فی الواقع ان قدروں سے عاری ہونا ہے، جنہوںنے انسان کو انسان بنایا ہے اور اسے حیوانیت کی بھاری بیڑیوں سے آزاد کیا ہے۔یہ بناوٹی آزادی ہے۔ اس لیے کہ یہ حقیقت میں حیوانی جذبات و میلانات کے آگے خود سپردگی اور ان کی غلامی ہے۔ انسانیت نے ایک طویل عرصہ اس غلامی کی بیڑیوں کو کاٹنے اور آزاد فضا میں سانس لینے کی جدوجہد کرتے گزارا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت اپنی ناگزیر ضروریات کے اظہار سے کیوں شرماتی ہے؟ دراصل وہ محسوس کرتی ہے کہ ان ضروریات سے بلند ہو جانا انسانیت کی اوّلین قدر ہے۔ اس کی بیڑیوں سے نجات پانا ہی حقیقی آزادی ہے۔ گوشت اور خون کے محرکات پر غلبہ پانا اور کم زوری اور ذلت کے اندیشوں پر قابو پانا، انسانیت کے مفہوم کو گہرا کرنے میں دونوں کا کردار برابر ہے۔

چودھواں خیال: بے عملی کا نظریہ، زندگی نہیں موت ہے۔

میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو اصولوں کو افراد سے الگ کرکے پیش کرنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے اور حرارت بخش عقیدے کے بغیر اصول کی کوئی حیثیت نہیں اور ایسا عقیدہ انسان کے دل کے علاوہ اور کہیں کیوں کر پایا جا سکتا ہے؟

اصول اور افکار اگر حرکت و عمل پر آمادہ کر دینے والے عقیدے پر مبنی نہ ہوں تو وہ محض کھوکھلے الفاظ ہیں یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بے جان معانی ہیں۔ جو چیز ان کو زندگی بخشتی ہے وہ ایمان کی حرارت ہے، جو کسی انسان کے دل سے نکلتی ہے۔ دوسرے لوگ ہرگز کسی ایسے اصول یا نظریے پر ایمان نہیں لائیںگے، جو کسی حرارت بخش دل میں نہیں، بلکہ جذبے اور اعلیٰ احساس سے عاری ذہن میں پیداہوا ہو۔

پہلے تم خود اپنے نظریے پر ایمان لاؤ۔ اس پر تمہارا ایمان حرارت بخش عقیدے کی حد تک ہو! تبھی دوسرے لوگ بھی اس پر ایمان لائیںگے ورنہ اس کی حیثیت محض چند کھوکھلے الفاظ کی ہوگی، جو روح اور زندگی سے عاری ہوں گے۔

اُس نظریے کے لیے کوئی زندگی نہیں جو کسی انسان کے سانچے میں نہ ڈھلاہو اور جس نے کسی ایسے زندہ وجود کی شکل نہ اختیار کی ہو، جو روے زمین پر کسی انسان کی صورت میں چلتا پھرتا ہو۔ اسی طرح اِس میدان میں اُس انسان کا بھی کوئی وجود نہیں ہے، جس کے دِل میں کسی ایسے نظریے نے گھر نہ کیا ہو، جس پر وہ حرارت اور اخلاص کے ساتھ ایمان ر کھتاہو۔

نظریے اور فرد کے درمیان فرق کرنا، روح اور جسم یا معنی اور لفظ کے درمیان فرق کرنے کا ہم معنی ہے۔ بسا اوقات ایسا کر پانا ناممکن ہوتا ہے۔ اگر نظریے کو فرد سے الگ کر دیا جائے، تو اکثر وہ فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ صرف اسی نظریے کو زندگی ملتی ہے، جس کی پرورش انسان کے خونِ جگر سے ہوتی ہے۔ رہے وہ افکار جو اس پاکیزہ غذا سے محروم رہتے ہیں، وہ مردہ ہوتے ہیں اور ان میں انسانیت کو ایک بالشت بھی آگے بڑھانے کی سکت نہیں ہوتی۔

پندرہواں خیال : گھٹیا ذریعے سے پاکیزہ مقصد کا حصول درست نہیں۔

میرے لیے یہ تصور کرنا دشوار ہے کہ ہم کسی گھٹیا وسیلے کو کام میں لاکر کسی پاکیزہ مقصد تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکیزہ مقصد کسی پاکیزہ دل ہی میں زندہ رہ سکتا ہے۔ پھر اس دل کے لیے کیوں کر ممکن ہے کہ وہ کسی گھٹیا وسیلے کو بروئے کار لانے کو گوارا کرے؟

ہم جب کسی سرسبز و شاداب علاقے میں پہنچنے کے لیے کسی کیچڑ بھرے راستے سے ہوکر گزریںگے، تو ضروری ہے کہ اپنی منزل تک کیچڑ میں لت پت ہوکر پہنچیں۔ کیچڑ سے ہمارے پیر بھی گندے ہوجائیںگے اور وہ جگہیں بھی، جہاں ہمارے پیر پڑیں گے۔ یہی حال اس وقت ہوگا، جب ہم کوئی گھٹیا اور گندا وسیلہ اختیار کریں گے۔ گندگی ہماری روحوں سے چپک جائے گی اور اس کے اثرات ہماری روحوں پر بھی پڑیں گے اور اس مقصد پر بھی جسے ہم حاصل کرناچاہتے ہیں۔

روح کے معاملے میں وسیلہ مقصد کا ایک جز ہے۔ عالمِ روح میں یہ امتیازات اور تقسیم میں نہیں ہوتیں۔ صرف انسانی شعور ہی ایسا ہے کہ جب اس میں کسی پاکیزہ مقصد کا احساس پیدا ہوتا ہے، تو وہ ہرگز کسی گھٹیا وسیلے کو اختیار کرنا گوارا نہیں کر سکتا۔ چنانچہ فطری طور پر وہ ہرگز اسے اختیار نہیں کرے گا۔

’’مقصد حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی وسیلہ اختیار کیا جا سکتاہے۔‘‘ یہ مغرب کاعظیم فلسفہ ہے! اس لیے کہ مغرب کی عظمت کا پَرتو اپنے ذہن و دماغ کی شکست خوردگی کی وجہ سے ہے۔ وسائل اور مقاصد کے درمیان تقسیم اور فرق کرنا ذہنی طور پر ہی ممکن ہے، عمل کی دنیا میں نہیں۔

حصہ