جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ

178

قسط نمبر 7

انقلاب فرانس
اس واقعے کو امتیازی جگہ دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس نے یورپ کی تاریخ اور فکر پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے اور اس سے مشرقی ممالک بھی شدید طور سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ تو1790ء کے قریب ہوا تھا اور بادشاہ کو قتل کر کے جمہوری حکومت قائم

کر دی گئی تھی ، لیکن اصل اہمیت ان اصولوں کی ہے جو اس کے پیچھے کام کر رہے تھے۔ انقلاب فرانس کا نعرہ تھا۔ آزادی، اخوت، مساوات۔ اس انقلاب کو جمہوریت کی فتح سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مغرب کا تصور جمہوریت واضح طور سے سمجھ لینا چاہئے۔ ہمارے یہاں انگریزی تعلیم پانے والوں نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ اسلام بھی اخوت اور مساوات کا پیغام لے کر آیا تھا۔ لفظ ’’مساوات‘‘ سے بعض دفعہ ہمارے علما بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ لیکن ایسے الفاظ کا مطلب مغرب میں بالکل ہی دوسرا ہے۔ لہٰذا مغربی جمہوریت بھی اسلام سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ انقلاب فرانس کے وقت تو بظاہر آزادی اور مساوات کا مطلب یہی تھا کہ عوام پر جبر نہیں ہونا چاہئے اور قانون کی نظر میں سب کا درجہ مساوی ہونا چاہیے۔ مگر ان الفاظ میں جو مفہوم پنہاں تھا وہ آہستہ آہستہ ظاہر ہوا۔

شیخ سعدیؒ نے کہا ہے ’’نبی آدم اعضائے یک دیگر اند۔‘‘ اس سے ان کی مراد روحانی رشتہ ہے۔ اسلامی اخوت کے یہی معنی ہیں۔ مگر مغرب والوں کی نظر میں صرف اتنی بات ہے کہ سارے انسانوں کی جسمانی اور نفسانی ضروریات ایک ہی ہیں۔ مغرب والے اس بنا پر اخوت کے قائل ہیں۔

’’مساوات‘‘ کے معنی بھی وہ لوگ یہ لیتے ہیں کہ صرف جسمانی ضروریات یا معاشرتی ضروریات اور انہیں پورا کرنے کے حقوق کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ ہر اعتبار سے سارے انسان مساوی ہیں۔ لہٰذا انسانوں کے درمیان درجہ بندی نہیں ہونی چاہئے۔ یہاں تک کہ ذہنی استعداد کے لحاظ سے انسانوں میں جو لازمی فرق ہوتا ہے اسے بھی یہ لوگ ماننے کو تیار نہیں۔ اسی اصول کی بنا پر یہ مطالبے ہوتے ہیں کہ سب لوگوں کو ایک جیسا کھانا، کپڑے، مکان وغیرہ میں۔ اس سے بھی زیادہ معمولی مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ سب کو تعلیم بھی ایک جیسی ملے۔ اسی اصول کی بنا پر یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ دینی معاملات میں بھی سب کا درجہ مساوی ہونا چاہئے اور دین کو سمجھنے کا حق بھی سب کو مساوی طور پر ملنا چاہئے۔

ظاہر ہے کہ مساوات کا یہ تصور انسانی فطرت کے حقائق کے بالکل خلاف ہے، اور اس پر کبھی عمل نہیں ہو سکتا۔ مگر مغرب والے اپنا جمہوری اصول اور اپنا ’’مساوات ‘‘ کا تصور بھی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس کا عملی نتیجہ یہ ہوا ہے کہ نہ صرف ’’انسان ” کو بلکہ عام آدمی ” کو ہر چیز کا آخری معیار بنالیا گیا ہے۔ شعر و ادب ہو یا فلسفہ یا مذہب، آج کل بیسویں صدی میں ہر جگہ یہی مطالبہ ہے کہ جو بات ہو۔ ’’عام آدمی ” کی سمجھ کے مطابق ہو اور اس کی جسمانی اور ذہنی ضروریات کو پورا کرتی ہو۔ چونکہ ’’عام آدمی‘‘ اپنی سطح سے اوپر اٹھنے کی استعداد نہیں رکھتا، اس لیے دوسروں سے کہا جاتا ہے کہ سب کے سب نیچے اتر کے عام آدمی ” کی سطح پر آجائیں۔ اور جو چیز عام آدمی ” کی سمجھ میں نہ آئے وہ گردن زدنی ہے۔ اصرار اس بات پر ہے کہ جس طرح معاشرتی دائرے میں کسی کو بڑا چھوٹا نہیں سمجھا جانا چاہئے ، اسی طرح ذہنی دائرے میں بھی بہتر یا کمتر کا سوال نہیں اٹھنا چاہئے۔ اسی لیے بیسویں

صدی کو عام آدمی کی صدی ” کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ’’عام آدمی ‘‘ کی پرستش کے ساتھ ساتھ ’’عام سمجھ بوجھ‘‘(Common Sense)کی بھی پرستش ہو رہی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ جو چیز ’’عام سمجھ بوجھ‘‘ کے معیار پر پوری نہ اترتی ہو وہ غلط ہے یا توجہ کے لائق نہیں۔ اس لیے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جو چیزیں ’’عام سمجھ بوجھ‘‘ کے دائرے سے باہر ہوں انہیں یا تو ختم کر دیا جائے یا کانٹ چھانٹ کر ’’عام سمجھ بوجھ‘‘ کے دائرے میں لے آیا جائے۔ ہمارے یہاں جو اکثر سننے میں آتا ہے کہ اسلام میں کوئی ایسی بات نہیں جو عام آدمی کی سمجھ میں نہ آئے یا عام آدمی کو بھی اسلام کے سمجھنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا علماکو تو اس کے پیچھے یہی ذہنیت کار فرما ہے۔ غرض ، جمہوریت اور مساوات کے اصولوں کو سیاست، معیشت اور قانون کے دائرے میں محصور نہیں رکھا گیا، بلکہ ان دائروں میں بھی عائد کیا گیا ہے جہاں ان کا دخل نہیں ہوتا چاہیے۔

چنانچہ علما کو ان دو لفظوں یعنی ’’جمہوریت‘‘ اور ’’مساوات‘‘ کے بارے میں احتیاط برتنی چاہیے۔ انقلاب فرانس کے بارے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس کے پیچھے دو متضاد رجحانات کار فرما رہے ہیں۔ ایک تو عقلیت پرستی جس کا نمائندہ والٹر ہے اور دوسرا جذبات پرستی اور فطرت پرستی جس کا نمائندہ روسو ہے۔ (یہ افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے یہاں بعض لوگ کہتے ہیں کہ روسو نے اپنے اصول اسلام سے اخذ کیے تھے۔)

انیسویں صدی
اس زمانے سے دنیا پر مغرب کا سیاسی اور مادی غلبہ شروع ہوتا ہے۔ اس صدی کے آخر تک سیاسی طور سے یا کم سے کم معاشی طور سے ساری دنیا پر مغرب کی شہنشاہیت قائم ہوگئی۔ یہی دور سائنس کی ترقی اور ریل، تار برقی وغیرہ ایجادات کا ہے جن کی مدد سے مغرب نے دنیا کو فتح کیا اور ذہنی طور سے بھی مرعوب کیا۔ خود مغرب میں یہ دور ’’صنعتی انقلاب ‘‘ کا ہے۔ یعنی مغرب میں معیشت کا انحصار زراعت پر نہیں رہا بلکہ صنعت اور کارخانہ داری پر ہو گیا۔ انیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ نظام پوری طرح جم گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار اور مزدور کے جھگڑے شروع ہوئے؟ اور سرمایہ داری کے رد عمل کے طور پر نصف صدی کے بعد اشتراکیت کی تحریک شروع ہوئی۔

چونکہ معاشرتی اور معاشی انتشار کا آغاز ہو گیا تھا، اس لیے انیسویں صدی سے سیاست اہم ترین چیز بن گئی اور بیسویں صدی میں تو بعض لوگوں نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ہمارے زمانے کے لیے سیاست کی وہی اہمیت اور وہی جگہ ہے جو پہلے مذہب کی ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ انیسویں صدی سے مغربی فکر کا مرکز اور سب سے پیچیدہ مسئلہ یہ بن گیا کہ معاشرے کی تنظیم کیسے کی جائے۔ یہاں تک کہ مذہب کے بارے میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا کہ مذہب کسی معاشرتی ضرورت کو پورا کرتا ہے یا نہیں، اور مذہب انسانی معاشرے کے لیے لازمی ہے یا نہیں۔

انیسویں صدی میں معاشرے کے متعلق تین خاص نظریات رائج ہوئے:

-1انفرادیت پسندی (Individualism) اس کا سب سے بڑا نمائندہ انگریز مفکر جان اسٹورٹ مل ہے۔ اس نظریے کے پیچھے مفروضہ یہ ہے کہ معاشرہ خدا کی تخلیق نہیں، بلکہ انسان نے اپنے فائدے کے لیے بنایا ہے۔ اس لیے معاشرہ بس افراد کا مجموعہ ہے۔ فرد معاشرے کے لیے نہیں، بلکہ معاشرہ فرد کے لیے ہے چنانچہ فرد کو اپنی زندگی میں پوری آزادی حاصل ہونی چاہئے اور معاشرے یا حکومت کا دخل کم سے کم ہونا چاہئے۔ چونکہ اس زمانے میں سرمایہ داروں کو معاشی معاملات میں خود مختاری اور آزادی کی ضرورت تھی، اس لیے انیسویں صدی میں غلبہ اسی نظریے کو حاصل رہا۔

-2مثالیت (Idealism) یہ فلسفہ اٹھارویں صدی کے دوسرے حصے میں جرمن فلسفیوں نے شروع کیا۔ اس کا سب سے بڑا نمائندہ ہیگل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اصل چیز معاشرہ ہے اور فرد اس کا جزو ہے۔ یہ فلسفی فرد کو معاشرے کا ایسا تابع کرتے ہیں کہ فرد کے حقوق باقی ہی نہیں رہتے بلکہ فرد کا الگ وجود بھی نہیں رہتا۔ اس فلسفہ کا اثر انیسویں صدی میں تو محدود ہی رہا، لیکن بیسویں صدی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد اس فلسفے نے ہٹلر اور مسولینی کی آمریت پیدا کی۔

-3نامیت (Organism) ہیگل وغیرہ نے تو محض تشبیہ کے طور پر معاشرے کو جسم کہا تھا۔ لیکن سائنس کے زیر اثر چند ایسے مفکر پیدا ہوئے جو معاشرے کو لفظ ’’معنا‘‘ جسم ہی کہتے ہیں۔ مثلاً انگریز مفکر ہربرٹ اسپنسر ان لوگوں کے نزدیک معاشرہ بھی جان دار اجسام کی طرح ہے، اور اس پر بھی حیاتیات کے اصول عائد ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ معاشرے کو نہ تو مذہبی اقدار کی ضرورت ہے نہ اخلاقی اقدار کی فطری عوامل اور فطری قوانین جو کچھ کرتے ہیں وہی ٹھیک ہے۔ اسپنسر نے تو معاشرہ پر حیاتیات کا قانون’’بقائے اصلح‘‘ بھی عائد کیا۔ یعنی جو شخص یا معاشرہ مادی ترقی کر رہا ہے تو وہ اس کا مستحق ہے اور جو ترقی نہیں کر رہا اسے جہنم میں ڈالو”۔ اس کے اصولوں کا خلاصہ اس ایک مشہور فقرے میں آجاتا ہے۔

Each one for himself, and the Devil take the hindmost

(’’ہر آدمی اپنے کام سے کام رکھے اور جو پیچھے رہ جائے وہ جہنم میں جائے۔‘‘)

نظریات کے اختلافات جو بھی ہوں، بنیادی بات یہ ہے کہ ہر معاملے میں انسانی اور معاشرتی نقطہ نظر سے غور کرنا مغربی ذہن کی عادت ثانیہ بن گیا۔ انیسویں صدی میں ہی فرانسیسی مفکر کانت (Comet) نے عمرانیات (Sociology) کے علم کی بنیاد رکھی ، یہی شخص ایک نئے فلسفہ ’’ثبوتیت‘‘ (Postivism) کا بھی بانی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جو چیز حواس اور حسیات کے ذریعے ادراک میں آسکے صرف وہی حقیقت ہے، اس کے سوا اور کوئی حقیقت نہیں۔ یہ رجحان تو پہلے بھی موجود تھا کانت نے اسے ایک با قاعدہ فلسفے کی شکل دے دی۔ ظاہر ہے کہ یہ فلسفہ وحی روح خدا سب سے منکر ہے۔ اس کا خیال ہے کہ انسانی ذہن ’’ ارتقا‘‘ کے عمل سے گزرتا رہا ہے۔ سب سے پہلے تو جادو کا دور تھا، پھر نہ ہب کا دور آیا ، پھر فلسفے کا اور اب سائنس اور عقل (جزوی) کا دور شروع ہوا ہے۔ اس نقشے کے مطابق مذہب انسانی ذہن کے ضعف اور ناپختگی کی علامت ہے۔

کانت کے اثر سے انیسویں صدی ہی میں یہ رحجان پیدا ہو گیا اور بیسویں صدی میں تو بالکل غالب آگیا کہ مذاہب کے معاملے میں حق و باطل کا سوال نہ اٹھایا جائے بلکہ عقائد اور مذہبی رسوم کو عمرانی عوامل اور مظاہر میں شمار کیا جائے اور مذہب کا مطالعہ بھی اسی طرح کیا جائے جس طرح دوسرے عمرانی مظاہر کا ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر عقیدے اور ہرن ہی چیز کی تشریح عمرانی نقطہ نظر سے کی گئی۔ یہ انداز بیسویں صدی میں عروج کو پہنچ چکا ہے۔ اس قسم کے مفکر مذہب کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات مذہب کی تحسین کرتے ہیں۔ لیکن ان کی نظر میں مذہب کی وہی قدر و قیمت ہے جو کھیل تماشوں کی ہے۔ یہ واضح رہے کہ یہ لوگ کھیل تماشوں کو چھوٹی چیز نہیں سمجھتے، بلکہ انہیں انسان کی بلند ترین اور دقیع ترین سرگرمیوں میںشمار کرتے ہیں۔

انیسویں صدی میں عمرانی نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ تاریخی نقطہ نظر بھی وجود میں آیا اور بہت مقبول ہوا۔ اس انداز نظر کو ’’تاریخ پرستی‘‘ (Historicism) کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مذہبی عقیدہ اور اصول ہو یا فلسفیانہ خیال یا کوئی اور چیز اس کے صحیح یا غلط ہونے پر غور نہ کیا جائے بلکہ اس کی تاریخ پر تحقیق کی جائے اور یہ دیکھا جائے کس زمانے میں اس کی نوعیت اور حیثیت کیا رہی ہے۔ مذہب سے لوگوں کو برگشتہ کرنے میں اور مذہب سے بے اعتنائی پیدا کرنے میں یہ حربہ بہت کارگر رہا ہے۔ اسلام کے خلاف مستشرقین جو کچھ کرتے رہے ہیں اس میں ان کا طریقہ کار عموما یہی رہا ہے۔

’’ تاریخ پرستی‘‘ کے پھیلنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سائنس کے اثر سے اور خصوصاً ایجادات سے مرعوب ہو کر مغربی ذہن اور مشرق کے جدید لوگوں کا ذہن محض ’’واقعات‘‘ (facts) کو دلیل اور ثبوت سمجھنے لگا ہے اور یہ حقیقت بھول گیا ہے کہ ایک ہی ’’واقعے‘‘ سے متضاد قسم کے نتائج نکالے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ کسی واقعے ” کو مثال کے طور پر تو ضرور پیش کیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے کوئی چیز ثابت نہیں کی جاسکتی۔ بہر حال جدید مغربی ذہن ’’واقعات ‘‘ ہی پر پورا بھروسہ کرتا ہے۔

تاریخ پرستی اور عمرانیات کے ساتھ ہی ساتھ ایک نیا علم شروع ہوا جسے ’’مذاہب کا تقابلی مطالعہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس علم کا مقصد کسی قسم کے حق یا صداقت تک پہنچنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ دیکھنا کہ مختلف مذاہب کن کن باتوں میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں یا الگ ہیں۔ بظاہر تو یہ ایک بے ضرر اور بے مقصد کام معلوم ہوتا ہے، لیکن مذہب سے بے اعتنائی پیدا کرنے میں اس علم کا بہت بڑا دخل ہے۔ یہی وہ دور ہے جب مادیت مغرب کے ذہن پر پوری طرح حاوی ہو جاتی ہے۔ انیسویں صدی میں تقریباً یہ بات طے ہو گئی کہ حسی اور مادی کائنات سے آگے کوئی حقیقت نہیں۔ اس ضمن میں کانت کی ’’ثبوتیت ” کا ذکر ہو چکا ہے۔ اس مادیت کے رجحان کا دوسرا نام ’’فطرت پرستی‘‘ (Naturalism) ہے۔ فلسفہ میں تو اس نظریے کے معنی یہ ہیں کہ ’’فطرت‘‘ (یعنی مادی اور حسی کائنات کے سوا اور کوئی حقیقت نہیں۔ مگر انیسویں صدی کے مغربی شعر و ادب میں ایک خاص قسم کی فطرت پرستی رائج ہوئی۔ یہاں ’’فطرت‘‘ سے مراد میدان‘ پہاڑ‘ دریا ، پھول‘ چڑیاں وغیرہ ہیں۔ انیسویں صدی میں ان چیزوں کے بارے میں ہزاروں نظمیں لکھی گئیں۔ بظاہر تو اس میں کوئی خرابی نہیں معلوم ہوتی۔ مگر عموماً ایسے شاعروں کا عقیدہ یہ تھا کہ فطرت جاندار ہے اور خود اپنی توانائی سے زندہ ہے اور حقیقت عظمیٰ بھی فطرت کی مختلف اشکال کے اندر رہتی ہے۔ بعض لوگ تو صاف طور سے ’’خدا‘‘ کا نام لیتے ہیں۔ یعنی یہ لوگ نعوذ باللہ ’’احاطہ‘‘ کے قائل تھے۔ (سرسید نے جو ’’نیچری‘‘ تحریک شروع کی اور حالی وغیرہ نے جو ’’نیچرل شاعری‘‘ کا نعرہ لگایا اس کا پس منظر یہ ہے مگر ان پجاروں کو کچھ خبر نہ تھی کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔) انیسویں صدی میں اخلاقیات کا ایک نیا نظریہ مقبول ہوا۔ اسے ’’افادیت پرستی‘‘ (Utilitarianism) کہتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق کوئی چیز بذات خود نہ تو اچھی ہے نہ بری اچھائی اور برائی کا معیار ’’فائدہ‘‘ ہے۔ جو چیز انسان کے لیے فائدہ مند ہے (یعنی مادی اور عملی زندگی میں) وہ اچھی ہے اور جو چیز فائدہ مند نہیں وہ بری ہے۔ (ہمارے یہاں اس تحریک کے اثر کی بین مثال یہ ہے کہ شبلی مرحوم کے ایک دوست نے اپنا نام تک مہدی الافادی الاقتصادی رکھ لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ اخلاقی نظام نہیں بلکہ اخلاقیات کا رد ہے۔

اس دور کے بعض مفکروں نے اخلاقیات کا ایک اور نظریہ پیش کیا۔ دنیا کے ہر معاشرے میں اخلاقیات کا انحصار مذہب پر رہا ہے اور اخلاقیات کو مذہب کا ایک شعبہ سمجھا گیا ہے۔ یہی حال یورپ میں بھی تھا۔ لیکن اٹھارہویں صدی میں یہ کوشش ہوئی کہ اخلاقیات کی بنیاد وحی پر نہیں ، بلکہ انسانی عقل پر رکھی جائے۔ انیسویں صدی کے بعض مفکروں نے یہ حرکت کی کہ زیادہ تر اخلاقی اصول تو وہی رکھے جو پہلے سے چلے آرہے تھے ، مگر اخلاقیات کو مذہب سے الگ کر دیا۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ جو نیک کام خدا یا جہنم کے ڈر سے کئے جائیں وہ نیکی میں شمار ہونے کے لائق نہیں۔ اصلی نیکی تو وہ ہے جو ’’دل‘‘ سے نکلے۔ چنانچہ انہوں نے اخلاقی اقدار کو خدا کے احکام کہنا چھوڑ دیا اور اخلاقیات کی بنیاد ایک نئے اصول پر رکھی۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ انسان کی فطرت معصوم اور پاکیزہ ہے اور وہ خود بہترین اخلاقی اصول پیدا کرتی ہے۔ (انسانی فطرت کے معصوم اور پاکیزہ ہونے کا خیال فرانسیسی مفکر رو سے شروع ہوا۔ چنانچہ اخلاقی اصول انسان کی معصوم اور پاکیزہ فطرت یا ’’دل‘‘ سے بر آمد ہونے چاہئیں۔ اس نظریے کا نام ’’آزاد اخلاقیات‘‘ (LiberalEthics) ہے۔

اسی طرح بعض لوگوں نے ایک ’’آزاد دینیات‘‘ ایجاد کی جس کا دارو مدار انسان کی ’’معصوم فطرت‘‘ پر تھا۔ یہ بات تاکید کے ساتھ یاد رکھنی چاہیے کہ انیسویں صدی میں مغربی ذہن پر خصوصاً پروٹسٹنٹ ملکوں میں اخلاقیات بری طرح حاوی تھی۔ یہ لوگ اخلاقیات کو مذہب کا سب سے لازمی جزو سمجھتے تھے۔ بلکہ بعض لوگ تو مذہب کو صرف ایک اخلاقی نظام سمجھتے تھے، یا مذہب کو اخلاقیات کا ایک شعبہ اس رجحان کا اثر سرسید وغیرہ پر بہت گہرا پڑا ہے، اور آج تک چلا آرہا ہے۔ چنانچہ جب انگریزی تعلیم یافتہ لوگ اسلام کے اخلاقی اصولوں کی تعریف کریں تو ہمارے علما کو ہوشیار رہنا چاہیے کیوں کہ یہ لوگ تو تصوف کو بھی بس اخلاقیات ہی خیال کرتے ہیں۔ انیسویں صدی میں ایک طرف تو عقل پرستی بڑھتی جارہی تھی ، دوسری طرف جذبات پرستی کی بھی شدت تھی، بعض لوگ حق و باطل‘ خیر و شر کے درمیان اسی طرح امتیاز کرتے تھے کہ جذبات کے لیے کون سی چیز تسلی بخش ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ مذہب کو بھی جذبات کی تسکین اور تسلی کا ایک ذریعہ تصور کرتے تھے ، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ غرض عقل پرستی ہو یا جذبات پرستی ہے وہی نفس پرستی۔ انیسویں صدی کے بعض لوگ مذہب کو بالکل رد کرتے تھے، بعض اسے اخلاقی اور معاشرتی نظام کے طور پر قبول کرتے تھے اور بعض یہ کہتے تھے کہ مذہبی عقائد میں تو غیر عقلی اور بے معنی مگر ’’مذہب‘‘ جذباتی تسکین کے لیے لازمی ہے۔ بہرحال مذہبی عقائد کے سب لوگ خلاف تھے۔ رومن کیتھلک لوگ اپنے عقائد کو Dogmas کہتے ہیں جن کا تعین پوپ کرتا ہے۔ اس لفظ کو لوگ، خصوصاً پروٹسٹنٹ لوگ، تحقیر اور نفرت کے اظہار کے لیے استعمال کرنے لگے آج کل ہمارے یہاں کے تجدد پسند بھی اسلامی عقائد کو حقارت کے ساتھ Dogmas کہتے ہیں اور انہیں یہ خبر نہیں کہ دونوں چیزوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عقائد کے علاوہ عبادات سے بھی انیسویں صدی کے لوگ عموماً خفا تھے اور انہیں غیر ضروری سمجھتے تھے۔ ان کا نام ’’رسوم‘‘ یا ’’رسم و رواج‘‘ رکھا گیا تھا۔ یہاں بھی پروٹسٹنٹ ذہنیت کام کر رہی تھی جس نے رومن کیتھلک عبادات کو ترک کر دیا تھا یہ لوگ کہتے تھے کہ خدا کی عبادت کے لیے خاص اور مقررہ شکلوں کی ضرورت نہیں، بس خلوص کافی ہے۔ اسی خلوص کو یہ لوگ اصلی مذہب سمجھتے تھے۔ یعنی جذبات کو۔ اس طرح انیسویں صدی میں مذہب کے بجائے ایک جعلی ’’مذہبیت‘‘ رائج ہو گئی تھی۔ عبادات کو غیر ضروری ’’رسوم ‘‘ کہنے کا رواج اب ہمارے یہاں بھی چل پڑا ہے۔

انیسویں صدی میں ایک اور اصطلاح بہت مقبول ہوئی۔ ’’آزاد خیالی‘‘(Free Though) اس کا مطلب ہے مذہب کی کھلم کھلا مخالفت کرنا یا مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا۔ انیسویں صدی میں جس چیز نے ایسی ’’آزاد خیالی‘‘ اور تشکیک کو سب سے زیادہ تقویت پہنچائی وہ انگریز سائنس دان ڈارون کا نظریہ ارتقا تھا۔ اس نظریے کا کوئی حتمی ثبوت ڈارون کو نہیں مل سکا تھا اور نہ ابھی تک ملا ہے۔ بلکہ آج کل تو اس نظریے کی خاصی مخالفت بعض سائنس دانوں کی طرف سے ہو رہی ہے۔ یہ خالی نظریہ ہی نظریہ تھا، بہر حال یہ نظریہ مذہبی عقیدے کی طرح جڑ پکڑ گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے نہ تو کائنات ایک دم سے وجود میں آئی ہے نہ انسان بلکہ کائنات کی ہر چیز اور انسان اپنی موجودہ ہیئت تک لاکھوں سال کی تبدیلیوں سے گزرنے کے بعد پہنچا ہے اور مسلسل تبدیلی کا قانون فطرت کے بنیادی عوامل میں سے ہے۔ یہ نظریہ اس عیسوی عقیدے کی تردید کرتا تھا کہ خدائے کائنات کو ایک لفظ کہہ کر تخلیق کیا ہے۔ اس تضاد نے لوگوں کے دل میں مذہب کی طرف سے شدید شک اور بد گمانی پیدا کر دی۔ سائنس کے ہاتھوں عیسائیت کو جو زک اٹھانی پڑی اس کی اصل وجہ ہے کہ عیسائیوں کو مکمل تنزیہ اور توحید حاصل نہیں تھی۔ تثلیث کے عقیدے نے انہیں تشبیہ میں بری طرح الجھا دیا تھا۔ پھر یونانیوں کے زمانے سے ہی مغرب نے کائنات پر زیادہ توجہ صرف کی تھی اور کسی نہ کسی قسم کا نظریہ کا ئنات ہمیشہ مذہب کا لازمی جز بلکہ غالب جزو رہا تھا اس لیے سائنس نے کائنات یا فطرت کے بارے میں جب کبھی کوئی نئی بات کسی مغرب کے مذہب کو صدمہ پہنچا۔ اسلام کا انحصار چونکہ کسی نظریہ کائنات پر نہیں، اس لیے سائنس کا کوئی نظریہ ہمارے دین پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔

نظریہ ارتقا نے عیسائیوں کے ایمان کو تو کمزور کر دیا، لیکن ایک دوسری قسم کا نیم مذہبی عقیدہ بھی ساتھ ہی ساتھ پیدا کر دیا۔ ڈارون نے اپنے نظریے کا نام ’’ارتقا‘‘ رکھا یہ دراصل غلط نام ہے۔ کیونکہ ڈارون نے تو صرف یہ دکھایا تھا کہ فطرت کی اوضاع میں اندرونی اور بیرونی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ خالص سائنس کے نقطہ نظر سے یہاں اچھے اور برے بہتر اور کمتر کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف لفظ ’’ارتقا‘‘ ایک اخلاقی مفہوم رکھتا ہے اور اس کے معنی (معنی نہیں تاثر) ہوتے ہیں ’’پہلے سے بہتر ہوتے جانا۔‘‘ چنانچہ ڈارون کا نظریہ غلط ہو یا صحیح یہ لفظ جادو کا سا کام کر گیا اور اپنے اخلاقیاتی یا فلسفیانہ مفہوم کی بنا پر نظریہ فوراً مقبول اور ہر دل عزیز ہو گیا۔ انیسویں صدی میں صنعت اور سائنس نے نئی نئی ترقی کی تھی جس سے لوگ خوش تھے اور جس پر فخر کرتے تھے۔ اس لیے لوگوں نے ڈارون کے نظریے سے یہ غیر منطقی نتیجہ نکالا کہ فطرت کے قوانین نے ہزاروں قسم کے جانوروں کو پیدا کیا اور پھر ہلاک کر دیا بس انسان ایک ایسا جاندار ہے جو برابر ترقی کرتا چلا آرہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت انسان پر بہت مہربان ہے اور یہ مہربانی آئندہ بھی جاری رہے گی۔ پھر یہ ترقی صرف مادّی ہی نہیں، بلکہ اخلاقی، ذہنی اور تہذہبی بھی ہوگی۔ غرض انسان ہمیشہ سے ہر معنی میں ترقی کرتا چلا آرہا ہے اور ہمیشہ اسی طرح ترقی کرتا رہے گا اس لیے انسان کا فرض ہے ہے کہ اپنی تمام طاقتیں ترقی کے کام میں لگا دے۔ یہ ’’ترقی‘‘ (Progress) کا تصور انیسویں صدی میں شروع ہوا اور دو عالمگیر جنگوں کے بعد بھی اس کا جادو ختم نہیں ہوا۔ بیسویں صدی میں اس تصور کا مذاق بھی بہت اُڑایا گیا ہے، لیکن اس کا اثر کم ہونے میں نہیں آتا بلکہ اب تو مغرب سے زیادہ مشرقی ممالک اس سے مسحور ہو رہے ہیں۔

سیاسی اعتبار سے انیسویں صدی جمہوریت اور جمہوری اداروں کے عروج کا زمانہ ہے۔ اسی دور میں ’’عام آدمی‘‘ نے اپنی اہمیت جتانی شروع کی اور یہ مطالبہ ہونے لگا کہ ہر معاملے میں عام آدمی کی ضرورتوں کا لحاظ رکھا جائے۔

انیسویں صدی میں افادیت پرستی اس حد تک پھیل گئی تھی کہ لوگوں نے شعر و ادب وغیرہ تہذہبی سرگرمیوں کو بے کار کہنا شروع کر دیا۔ اب تک ہر تعلیم یافتہ آدمی کے لیے شعر و ادب کا ذوق رکھنا ضروری خیال کیا جاتا تھا، لیکن اب بے ذوقی عام ہونے لگی۔ (اسی رجحان کے زیر اثر ہمارے یہاں سرسید کے ساتھیوں نے شعر و شاعری کو قوم کے لیے مملک بتایا) اس بے ذوقی اور بے اعتنائی کا رد عمل ایک اقلیت پر یہ ہوا کہ وہ شعر و ادب اور ثقافت کو انسانی زندگی کا ماحصل سمجھنے لگی۔ بعض مفکروں نے تو شعر و ادب کو مذہب کی جگہ رکھنا چاہا۔ بیسویں صدی میں یہ دونوں رجحان اور بھی شدت اختیار کر گئے۔ ایک طرف مغرب میں لوگوں کی غالب اکثریت شعر و ادب سے بالکل بے گانہ ہو گئی۔ دوسری طرف چند لوگوں نے شعر و ادب اور ثقافت کو آسمان پر چڑھا دیا، بلکہ یہ سمجھا جانے لگا کہ مذہب بھی ثقافت ہی کا جز ہے اور اسی حیثیت سے قابل قدر ہے۔

انیسویں صدی میں ’’روحانیت‘‘ کے لفظ کو ایک اور معنی بھی حاصل ہوئے۔ یعنی روحوں سے باتیں کرنا، مستقبل کا حال بتانا اور اسی قبیل کی چیزیں ، یہ حرکتیں یوں تو ہر زمانے میں اور ہر ملک میں جاری رہی ہیں، لیکن ان کو کبھی وقعت نہیں دی گئی۔ لیکن انیسویں صدی میں یورپ کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد انہیں چیزوں کو اصلی روحانیت اور مذہب کا ماحصل سمجھنے لگی۔ جو لوگ ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھے انہوں نے اپنی ’’روحانیت‘‘ کو بیک وقت مذہب بھی بتایا اور سائنس بھی، بیسویں صدی میں یہ رجحانات اتنے پھیل گئے ہیں کہ ان کی وسعت اور طاقت کا اندازہ مشکل ہے۔ پھر بعض سائنس دانوں نے ’’ماورائے حس ادراک‘‘ (Extra- Sensory Perception جسے مختصر طور پر ESP کہا جاتا ہے) پر تجربے کر کے ان حرکتوں کو ’’سائنس‘‘ کی حیثیت سے بھی وقعت دے دی ہے۔ اس طرح عقلیت کی تحریک بدترین قسم کی ضعیف الاعتقادی میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی ’’روحانیت‘‘ کسی نہ کسی شکل میں انیسویں صدی کے آخری حصے سے ہمارے یہاں بھی چل رہی ہے۔

انیسویں صدی نے ہی مستشرقین کی تحریک پیدا کی ہے۔ مشرقی علوم اور ادیان کے بارے میں مغربی لوگ پہلے بھی لکھتے رہے ہیں، خصوصاً اٹھارہویں صدی میں ہندوؤں اور چینیوں کے علوم کی طرف خاص توجہ ہوئی ہے، لیکن مستشرقین کے کام نے ایک باقاعدہ تحریک کی شکل انیسویں صدی میں اختیار کی۔ اس کام کی ایک تو سیاسی ضرورت تھی، کیوں کہ مغرب نے مشرقی ممالک میں اپنی شہنشاہیت قائم کرنی تھی لہٰذا مفتوح قوموں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی ضرورت پیش آرہی تھی۔ دوسرے عیسائی مشنریوں کو اپنا کام کرنے کی پوری آزادی اور حکومتوں کی حمایت حاصل ہو گئی تھی۔ انہوں نے بھی اپنے مقاصد کے تحت مشرقی علوم کے مطالعے کی طرف توجہ کی۔ مگر ان دو مقاصد کے علاوہ مستشرقین کے پیچھے بہت سے وہ رجحانات کام کر رہے تھے جو اوپر گنوائے گئے، مثلاً مذہب کا تقابلی مطالعہ، تاریخ پرستی، عمرانیات آزاد خیالی وغیرہ چنانچہ مستشرقین میں بعض ’’پُرخلوص‘‘ لوگ بھی ہوئے ہیں، لیکن ان کا ذہن ایسا مسخ ہو چکا ہے کہ وہ چیزوں کی حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ مستشرقین کی بنیادی خامیاں یہ ہیں۔

-1 مذاہب کے مطالعے میں سینہ بہ سینہ چلنے والی روایت کو سمجھنے کے بجائے کتابوں پر تکیہ کرنا۔

-2دین کے مستند شارحین کے اقوال کے بجائے اپنی ذاتی رائے کے مطابق تشریح۔

-3ہر دین اور ہر تہذیب میں مغربی تصورات اور مغربی ادارے ڈھونڈنا اور ایسے عناصر کو فوقیت دیتا جہاں مغرب کی جدیدیت کا رنگ نظر آئے۔

-4 عقائد تک کو تاریخی نقطہ نظر سے دیکھنا۔

-5لسانیات کے مطالعے پر زور دینا اور عقائد و احکام کی تشریح لعنت کے اعتبار سے کرنا۔

-6ادیان کو نظریہ ارتقا کی رو سے دیکھنا۔

-7 ’’تحقیق‘‘ برائے تحقیق میں مصروف رہنا۔ محض ’’واقعات‘‘ کی چھان بین کرناچاہے ان سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکے۔

-8 پرانی کتابیں تلاش کر کے شائع کرنا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کرنا کہ ان کی دینی حیثیت کیا ہے۔ دینی معاملات میں قصہ کہانی کی کتابوں تک کو شہادت میں پیش کرنا۔

9۔ سائنس کے طریقے سے مذہب کا مطالعہ کرنے کا زعم۔

-10 دین اور تصوف کو فلسفہ سمجھنا۔

-11 دین کے معاملات میں اخلاقیات پر زور دینا۔

-12مذہب کی حقیقت نہ سمجھتا۔

-13 عقلیت

-14 یونانی فلسفے کو دین سے برتر سمجھتا اور مشرقی ادیان کو یونانی فلسفے کی نظر سے دیکھنا۔

-15خود عیسوی دین، بلکہ مغربی تہذیب سے بھی قرار واقعی آگاہی نہ رکھنا اور اس کے باوجود مشرق کی ہر چیز پر محاکمہ کرنے کا دعویٰ کرنا۔

-16 اپنے مطالعہ اور اپنی تحقیقات کی بنیاد اس مفروضے پر رکھنا کہ مشرق کا ذہن منجمد ہو گیا ہے اور مغرب کا ذہن برابر ترقی کرتا رہا ہے اور ترقی کرتا رہے گا۔

حصہ