مکافات عمل

209

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو جائے عمل بنایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں جیسا کروگے آخرت میں ویسا پھل ملے گا۔‘‘ انسان اور جن دو ایسی مخلوقات ہیں جن کو اللہ نے عمل کی محدود آزادی بخشی ہے۔ جنوں کا وجود دنیا میں انسانوں کی نظر سے پوشیدہ ہے اور زمین پر انسانی خلافت قائم ہے۔ انسانوں کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے، اور آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی آخرالزماں، خاتم النبیین بناکر ہدایت کی تکمیل فرمائی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’مجھے اس نفس کی قسم جس کو میں نے پیدا کیا، اور اس کو ہموار کیا، اس پر نیکی اور بدی واضح کردی۔ جس نے تقویٰ اختیار کیا اسے بھلائی نصیب ہوئی اور جس نے نیکی کے جذبے کو دبایا وہ نامراد ہوگیا۔‘‘ (سورہ الشمس)

اسی طرح سورہ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’دین میں کوئی تنگی نہیں، تم پر حق اور باطل واضح کردیا۔‘‘

انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقلِ سلیم عطا کی، اسے تسخیر، ایجادات اور دریافت کی صلاحیتوں سے نوازا۔ یہ خیر و شر کا مجموعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے انسان کو احسنِ تقویم کے ساتھ پیدا کیا مگر یہ اپنی حرکتوں سے اسفل السافلین ہوجاتا ہے۔‘‘ (سورہ التین)

سورہ المعارج آیت 19 تا 21 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’انسان کو بڑا تھڑدلا پیدا کیا ہے۔ یہ جان بوجھ کر غلطیاں کرتا ہے۔ جب مصیبت آتی ہے تو جزبز ہوتا ہے ( بلبلانے) لگتا ہے، اور جب ٹل جاتی ہے تو اکڑنے لگتا ہے۔‘‘

’’وہی تو ہے جس نے تجھے بنایا، پھر تیرے اعضا کو درست کیا اور تیری قامت کو معتدل رکھا۔ جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا۔ مگر افسوس تم لوگ جزا کو جھٹلاتے ہو۔‘‘(سورہ انفطار7تا9)

اللہ کی دی ہوئی آزادی کے باوجود انسان جتنا بھی بڑا ہوجائے، اُس کے پاس جتنی بھی طاقت اور دولت آ جائے، زمین کے جتنے بھی بڑے رقبے پر حکمرانی قائم کرلے، یہ اللہ کی پکڑ سے باہر نہیں جا سکتا۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ پوری کائنات اس کے ایک اشارے پر قائم ہے۔ ان اللّٰہ بصیرا با العباد۔

وہ اپنے ہر بندے پر نظر رکھتا ہے۔ اس کی کرسی زمین و آسمان پر محیط ہے۔ اس کی پکڑ سے کوئی آزاد نہیں۔ وقت کا نمرود، فرعون، شداد، ہامان، قارون، دارا و سکندر… سب کے سب وقت کی چکی میں پس کر نابود ہوچکے، ان کے محلوں کے کھنڈرات جائے عبرت بن چکے ہیں۔

زمین اوڑھ کر سو گئے ہیں ساری دنیا میں
نہ جانے کتنے سکندر سجے سجائے ہوئے

اللہ اور اس کے نظامِ حیات اور انبیا کی تعلیمات کے برخلاف جب جب انسانوں نے اپنے خودساختہ نظامِ زندگی کو اپنایا، شرک، ظلم اور اخلاقی کجی کے راستے پر چلے، اللہ نے خاص مدت تک اپنی رسّی ڈھیلی کی، پھر اچانک ان کو پکڑ کر نشانِ عبرت بنادیا۔ قومِ نوح نو سو سال تک باغی بنی رہی، پھر اللہ کے عذاب نے سیلاب کی صورت روئے زمین پر آباد تمام کافروں کو ڈبو کر رکھ دیا۔ نوحؑ کا بیٹا اور بیوی بھی اس سیلاب میں غرق ہوگئے۔ عاد، ثمود، لوط، شعیب کی باغی اقوام بھی ملیامیٹ کردی گئیں۔ موئن جودڑو اور ہڑپہ بھی اپنے کرتوتوں کا قصہ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

انسان اپنی انفرادی زندگی میں بھی اللہ کے دین سے انحراف کرکے اپنے گناہوں کی سزا بھگتتا ہے۔ شراب پیتا ہے تو صحت اور معیشت دونوں برباد ہوتے ہیں۔ جوا کھیلتا ہے تو معیشت کی بربادی کے ساتھ ساتھ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتا ہے۔ زنا اس کو جنسی طور پر نہ صرف مفلوج کردیتا ہے بلکہ وہ لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ انفرادی گناہ سے آدمی خود بھی تباہ ہوتا ہے اور اپنے خاندان کو بھی برباد کرتا ہے۔ آج بدکاری، جوا، شراب، فحاشی، ہم جنس پرستی عالمی سطح پر اربوں ڈالر کی صنعت بن چکے ہیں جنہیں عالمی طاغوتی قوتوں اور اقوامِ متحدہ کی سرپرستی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔ انسان کشی کو انسانی حقوق اور انسانی آزادی کے نام پر بزور قوت نافذ کیا جارہا ہے۔

امتِ محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے خیرِ امت بناکر مبعوث کیا اور اس کی ذمہ داری لگائی کہ یہ بھلائی کا حکم دیں گے اور برائی سے لوگوں کو روکیں گے اور حدود اللہ کی حفاظت کریں گے۔ مگر جب یہ امت اپنی ذمہ داری کو بھول بیٹھی تو ان سے ہزار سالہ امامت چھین کر اقوامِ مغرب کا غلام بنادیا۔ سوا کروڑ یہودی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ یہود ونصاریٰ اور ہنود کا اتحادِ خبیثہ مسلم ممالک کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آج دولت و ثروت رکھنے کے باوجود ذلیل وخوار ہے۔

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اگر تم اللہ کے راستے میں نہیں نکلو گے تو اللہ تم کو عذابِ الیم میں مبتلا کر دے گا اور تم پر غیروں کو مسلط کر دے گا، اور تم اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘ (سورہ التوبہ)

چودہ سو سال گزر گئے، وقتاً فوقتاً اُمت ِ مسلمہ کو اللہ نے آزمائشوں سے گزارا ہے اور آج بھی اس دورِ جدید میں امت ِ محمدیہ یہود ونصاریٰ اور ہنود کی جارحیت کا شکار ہے۔ اہلِ غزہ جو امت ِمسلمہ کی جانب سے فرضِ کفایہ ادا کر رہے ہیں اور قبلہ اوّل کی بازیابی کی جنگ لڑ رہے ہیں، مگر 57 آزاد مسلم ممالک اس ظلم پر نہ صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ در پردہ اسرائیل کی حمایت بھی کررہے ہیں جس میں عرب ممالک پیش پیش ہیں۔

بے حسی کا زہر پی کر لوگ کب کے سو چکے
پتھروں کے اس نگر میں آدمی مت ڈھونڈیے

یہ صرف ہمارے ساتھ ہی نہیں، بلکہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دنیا کی امامت بخشی، مگر جب یہ گمراہی میں مبتلا ہوگئے تو اللہ نے انہیں ذلیل و خوار بناکر رکھ دیا اور آج دنیا ان پر لعنت بھیجتی ہے۔ 585 قبل مسیح میں عراق کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، ہیکل سلیمانی کو مسمار کرکے لاکھوں یہودیوں کا قتلِ عام کیا اور ایک لاکھ سے زائد کو غلام بنا کر لے گیا۔ یہ دوبارہ آباد ہوئے مگر 70 عیسوی میں رومن بادشاہ ہیرودیس نے ایک بار پھر سے ہیکل سلیمانی کو مسمار کرکے یہودیوں کا قتل عام کیا اور فلسطین سے ان کو نکال دیا۔ اس کے بعد سے 1948ء تک یہ یورپ اور امریکا میں مارے مارے پھرتے رہے، مگر ان کی سرشت میں مکاری اور شر بھرے ہوئے ہیں۔ دوسری جنگ ِ عظیم میں ہٹلر نے لاکھوں یہودیوں کو گیس چیمبر اور دوسرے طریقے سے اذیت ناک موت سے دوچار کیا، یہ جرمنی سے بھاگ کر امریکا اور یورپ میں آباد ہوئے اور مسلمان ملکوں پر قبضے کے بعد امریکا اور یورپ نے مل کر فلسطین میں ان کو ناجائز طریقے سے آباد کیا۔ یہ اُس وقت سے مسلسل فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرتے جارہے ہیں اور اب تو انہوں نے چنگیز خان اور ہلاکوخان کے مظالم کو بھی شرما دیا ہے۔ مگر تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہودی 100 سال سے زیادہ کبھی بھی ایک جگہ نہیں رہ سکے، اِن شاء اللہ یہ اسرائیل جو ناجائز ریاست ہے، سو سال پورے ہوتے ہوتے تاریخ خود کو ایک بار پھر دہرائے گی اور یہ فلسطین سے بھاگنے پر مجبور ہوں گے یا پھر عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کا وقت قریب ہے اور ان کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے گا۔

یہودیوں کی طرح عیسائی بھی اہلِ کتاب ہیں، مگر انہوں نے تعلیمات ِعیسیٰ اور انجیل کی تحریف کی اور عقیدۂ تثلیث گھڑ کر شرک میں مبتلا ہو گئے۔ ان کے اندر کیتھولک اور پروٹسٹنٹ جو عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا رسول مانتے ہیں، برسوں لڑتے رہے اور لاکھوں کٹ مرے۔ آج پوری دنیا پر کیتھولک چرچ غالب ہے۔ یورپ اور امریکا کی بیشتر آبادی عیسائیوں پر مشتمل ہے مگر یہ ہمیشہ ہوسِ ملک گیری میں مبتلا رہے۔ اس کی زندہ مثال بیسویں صدی میں دو عالمی جنگیںہیں جن میں دس سے بارہ کروڑ انسان مارے گئے اور اس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ آج بھی روس اور یوکرین کی جنگ جاری ہے۔

اسی طرح ویدک مذہب جو توحید پرستی پر مبنی تھا، آریائی حملے کے بعد پورا ہندوستان دیومالائی قصے کہانیوں اور بتوں کی پرستش کا مذہب بن گیا اور اس پر برہمنوں نے قبضہ کرکے ہندوستان کے اصل باشندوں کو غلام بناکر ان کو شودر بنادیا۔ آج ہندوستان کی سوا ارب کی آبادی میں 32 فیصد شودر ہیں جو صدیوں سے حیوانوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مگر ان میں سے جیسے ہی کوئی مسلمان ہوتا ہے اُس کی دنیا بدل جاتی ہے اور اُس کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آج دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں بیشتر لوگ خدا بے زار زندگی گزار رہے ہیں اور فتنہ و فساد میں مبتلا ہیں۔ خوش حال ملکوں میں حیوانیت عروج پر پہنچ چکی ہے۔ جاپان جس میں بدھ مت کے پیروکار ہیں، وہ دنیا کی تمام آسائشوں کے باوجود سب سے زیادہ خودکشی کرتے ہیں۔

یہ تو قومی انحطاط کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ کوئی حکمراں ظلم اور جبر کرتا ہے تو اس کا انجام بھی عبرت ناک ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کو دولخت کرنے والے چار کردار جس طرح اپنے انجام کو پہنچے، دنیا والوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ مجیب الرحمن اپنے پورے خاندان کے ساتھ تہہ تیغ کردیا گیا اور اسی کی قوم نے کیا۔ اندرا گاندھی اور اس کے دونوں بیٹے بھی عبرت کے نشان بنے۔ ذوالفقار علی بھٹو، اس کے دونوں بیٹے اور بیٹی سب اللہ کی پکڑ میں آئے۔ یحییٰ خان لعنتی ہوکر مرا۔ حسنی مبارک، انور السادات سب کے سب ذلیل و خوار ہوئے۔ صابرہ اور شتیلا کیمپوں میں ہزاروں فلسطینیوں کا قاتل ایریل شیرون لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوکر برسوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرا، اسی طرح جنرل پرویزمشرف جس نے اسلام آباد کی لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں فوجی آپریشن کے ذریعے ہزاروں معصوم بچے بچیوں کو قتل کیا، ایسی بیماری سے مرا جو دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں میں کسی ایک کو ہوتی ہے، مرتے وقت اُس کے وارڈ کے باہر اُس کے کتے کے سوا کوئی نہیں تھا، اس کی بیوی اور اکلوتا بیٹا بھی اس کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے۔ حسینہ واجد کا انجام بھی سامنے نظر آرہا ہے۔

وقت ہر ظلم ان کا انہیں لوٹا دے گا
وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتا ہے

مگر اس کے برعکس جو لوگ اللہ کے دین پر فدا ہوئے وہ زندۂ جاوید ہیں۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے “As you sow, so you reap.”(تم جیسا بوگے ویسا ہی کاٹو گے۔‘‘

کرنی کرے تو کیوں کرے
کرکے کیوں پچھتائے
بوئے پیڑ ببول کا
آم کہاں سے کھائے

’’خشکی اور تری میں جو فساد برپا ہے وہ سب تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے۔‘‘( سورہ الروم)

انسان کے اعمال ہی انسان کو جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور مالی دشواریوں سے دوچار کرتے ہیں۔ انسان جب کسی مصیبت اور پریشانی سے دوچار ہوتا ہے تو اپنا محاسبہ کرنے کے بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹھیراتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے حالات سدھرتے نہیں۔ اللہ کے فرشتے صبح صادق رزق تقسیم کرتے ہیں جس میں سب سے بڑی نعمت صحت ہے، مگر انسان صبح صادق کے وقت جاگنے اور نماز پڑھنے کے بجائے دن چڑھے تک سوتا رہتا ہے اور تن درستی تلاش کرتا ہے۔ مدینہ میں جب اسلامی ریاست قائم ہوگئی اور ایران و روم کی فتح کے بعد خوش حالی آگئی تو ایک ایرانی طبیب مدینہ آیا یہ سوچ کر کہ لوگوں کا علاج کروں گا۔ مطب کھولا، کئی ہفتے بیٹھا رہا مگر کوئی مریض نہیں آیا۔ اسے حیرانی اس بات پر ہوئی کہ لوگ یہاں بیمار کیوں نہیں پڑتے؟ جب اُس نے اہلِ مدینہ کے معمولاتِ زندگی کو دیکھا تو اسے یقین ہوگیا کہ اس طرح شب و روز بسر کرنے والے بیمار نہیں ہوسکتے۔ صبح سویرے جاگنا، مغرب کے بعد کھانا، عشاء کے بعد سوجانا، سخت محنت کرنا وغیرہ وغیرہ۔ آج قدرتی خوراک میسر نہیں، لوگ مصنوعی اور مشینی زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر جو قومیں آج صحت مند ہیں وہ ان اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔

یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم دوسروں کے ساتھ جو کریں ویسا ہمارے ساتھ نہ ہو۔ نیوٹن کے تیسرے قانون کے مطابق ’’ہر عمل کا الٹا اور برابر ردعمل ہوتا ہے۔‘‘

ازل سے ہے مکافاتِ عمل کا سلسلہ قائم
جو اوروں کو رلایا ہے وہ خود بھی چشمِ تر ہو
مکافاتِ عمل خود راستہ تجویز کرتی ہے
خدا قوموں پہ اپنا فیصلہ جاری نہیں کرتا
میرے بچے تجھے اتنا توکل راس آ جائے
کہ سر پہ امتحاں ہے اور تیاری نہیں کرتا

یہ کیسے ممکن ہے کہ دودھ والا دودھ میں پانی ملائے اور اس کو چاول میں کنکر کھانے کو نہ ملے! کم تولنے والے کو اس بات کے لیے تیار رہنا پڑے گا کہ معاشرہ اُس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے گا۔ جو لوگ دوسروں کی بہن، بیٹیوں پر غلط نگاہ ڈالتے ہیں دوسرے بھی ان کی بہن بیٹیوں پر لازمی غلط نگاہ ڈالیں گے۔ جو اولاد ماں، باپ کے ساتھ برا سلوک کرتی ہے اور ضعیفی میں ان کی خدمت نہیں کرتی ان کی اولاد بھی ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے گی، یہ قانونِ فطرت ہے۔ اسی کا نام مکافاتِ عمل ہے۔

حصہ