آج کی دنیا میں صحتِ عامہ کے لیے سو خطرات موجود ہیں۔ ہر خطرہ اپنی جگہ ایک دنیا ہے جسے سمجھنے کے لیے دانش کی ضرورت ہے۔ ہر دور اپنے ساتھ بہت سی آسانیاں لاتا ہے اور ساتھ ہی مشکلات بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ بالکل فطری عمل ہے اس لیے ہوش مند اقوام ایسی کسی بھی صورتِ حال سے کماحقہ نپٹنے کے لیے بھرپور اقدامات کیا کرتی ہیں۔
آج کی دنیا میں، گزشتہ تمام ادوار کی طرح، بہت سے معاملات میں انتہائی درجے کی تفریق پائی جاتی ہے۔ ایک طرف ترقی یافتہ دنیا ہے جو انتہائی قابلِ رشک طرزِ زندگی ممکن بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اور دوسری طرف انتہائی پس ماندہ دنیا ہے جو انتہائی شرم ناک حالت میں جی رہی ہے۔
فی زمانہ ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو صحتِ عامہ کے لیے انتہائی درجے کے خطرات کی راہ ہموار کرتا ہے۔ مصنوعی اجزا کی مدد سے تیار کی جانے والی خوراک ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ بہت زیادہ پروسیسنگ والی اشیائے خور و نوش کے بھی ہم عادی ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری صحت پر بہت بُری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔
ایک مسئلہ ایسا ہے جس کا ہمیں سامنا تو رہتا ہے مگر احساس کم ہی ہو پاتا ہے۔ ہم اُسے قابلِ غور سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ یہ مسئلہ فضائی آلودگی کا۔ جی ہاں، فضائی آلودگی کو ہم اپنے وجود کو لاحق خطرات میں شمار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ خاموش قاتل ہے۔
فضائی آلودگی نے دنیا بھر میں ہنگامہ برپا کر رکھا ہے، قیامت سی ڈھا رکھی ہے۔ پس ماندہ ممالک میں یہ مسئلہ بہت بڑے عِفریت کی طرح منہ کھولے کروڑوں زندگیوں کو نگلنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ فضائی آلودگی سے نپٹنے کے لیے پہلے یہ سمجھنا لازم ہے کہ فضائی آلودگی ہوتی کیا ہے۔
عام طور پر دُھویں اور دُھند کو فضائی آلودگی قرار دیا جاتا ہے۔ عام آدمی کے سامنے فضائی آلودگی کی بات کیجیے تو اُس کے ذہن کے پردے پر صرف دو چیزیں اُبھرتی ہیں … دُھواں اور دُھند۔ دھواں انتہائی خطرناک ہے کہ سانس لینا دوبھر کردیتا ہے جبکہ دُھند سانس لینے میں تو زیادہ الجھن پیدا نہیں کرتی تاہم پورے ماحول کی اسکرین کو بلینک کردیتی ہے یعنی کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا یا زیادہ دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
کیا فضائی آلودگی سے مراد صرف دھواں یا دھند ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ہمارے ماحول میں ہے وہ فضا ہی کا حصہ ہے۔ فضا میں قدرتی طور پر بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی انتہائی صاف ستھرے ماحول میں بھی کسی دروازے کے جِھری سے آنے والی سورج کی کرن کے راستے کو دیکھیں تو ذرات ہی ذرات دکھائی دیں گے۔ یہ تمام ذرات محض وہیں تک نہیں رہتے بلکہ سانس لینے کے عمل میں ہمارے وجود میں بھی داخل ہوکر خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔ ہاں، اگر ماحول بہت زیادہ صاف ستھرا ہو تو اِن ذرات سے پہنچنے والا نقصان برائے نام ہوتا ہے۔
ہم ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جس میں ہر طرف غلاظت ہی غلاظت ہے۔ ایک طرف گاڑیوں اور فیکٹریوں کا دھواں ہے اور دوسری طرف کچرے کے ڈھیر ہیں۔ لوگ کچرا کہیں بھی پھینک دیتے ہیں اور وہ سڑتا رہتا ہے۔ کچرے کی سڑاند پورے ماحول پر اثر انداز ہوتی ہے، اُسے بگاڑتی ہے۔ اگر کچرے کو ڈھنگ سے ٹھکانے نہ لگایا جائے تو اُس کے سڑنے سے پیدا ہونے والا تعفن اور جراثیم، کیڑے مکوڑے وغیرہ سانس لینے کے عمل ہی کو مشکل نہیں بناتے بلکہ وباؤں کو پنپنے کا ماحول بھی فراہم کرتے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا کو دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ صاف ستھرا ماحول ہماری صحت کے لیے کس قدر اہم ہے۔ جب پورے ماحول میں صفائی ہو، نفاست ہو تو انسان اول تو بیمار پڑتا نہیں اور اگر پڑتا بھی ہے تو کبھی کبھار اور وہ بھی معمولی سطح پر۔ ترقی یافتہ دنیا نے باقی دنیا کو بتایا ہے کہ صحتِ عامہ کا معیار بلند رکھنا ہے تو ماحول کو ہر اعتبار سے صاف ستھرا رکھنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔
جنوبی ایشیا جیسے خطوں میں فضائی آلودگی بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اِس کے نتیجے میں صحتِ عامہ کا گراف بلند کرنے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی رہتی ہیں۔ جنوبی ایشیا، افریقا، لاطینی امریکا اور چند دوسرے پس ماندہ خطوں میں لوگ عمومی معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہوتے۔ وہ اس بات کو سمجھتے بھی نہیں اور سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ ماحول کی نفاست یقینی بنائے بغیر اعلیٰ معیار کی زندگی کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ جنوبی ایشیا سے متصل وسطِ ایشیا کے خطے ہی کو دیکھ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ باشعور اقوام کس طور صاف ستھری رہتی ہیں اور کس طور وباؤں کو دور رکھتی ہیں۔
ترقی پذیر اور پس ماندہ دنیا میں فضائی آلودگی سمیت ہر طرح کی آلودگی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ گاڑیوں اور صنعتی یونٹس سے نکلنے والے یا لکڑی، کچرا وغیرہ جلانے سے پیدا ہونے والے دھویں کے باعث شہری علاقوں میں لوگوں کا سانس لینا بھی دوبھر ہوچکا ہے۔ دیہات میں سبزہ چونکہ بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے دھواں وہاں اپنے اثرات زیادہ نہیں دکھا پاتا۔ شہروں سے بہت دور جنگلات میں بھی درخت فضائی آلودگی کو گھٹانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ شہروں کا معاملہ یہ ہے کہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی فضا پوری طرح صاف نہیں ہو پاتی۔ حکومتیں اپنے طور پر کوشش کرتی رہتی ہیں مگر عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی خاطر ماحول میں بہت کچھ داؤ پر لگادیتے ہیں۔
ہم اپنے ماحول کی بات کریں تو کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم ماحول کو تہس نہس کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو گاڑیوں اور فیکٹریوں کا دھواں ہے۔ دوسری طرف کچرا، لکڑی اور دوسرا بہت کچھ جلانے کی صورت میں پیدا ہونے والا دھواں ہے۔ بہت سے کام ایسے ہیں جن کے نتیجے میں فضا میں بُرادہ اُڑتا ہے۔ یہ بُرادہ لکڑی کا بھی ہوتا ہے اور لوہے کا بھی۔ لکڑی کے کسی کارخانے (آرا مشین) کے پاس کھڑے ہوکر دیکھیے کہ دن بھر چلنے والی آرا مشین کتنی لکڑی کاٹتی ہے اور کتنا بُرادہ فضا کا حصہ بنتا ہے۔ بُرادہ زمین پر بیٹھ جاتا ہے مگر ہوا چلتی ہے تو پھر فضا کا حصہ بن جاتا ہے یعنی جو لوگ وہاں سانس لیتے ہیں اُن کے جسم میں بُرادہ داخل ہوکر رہتا ہے۔ بالکل اِسی طور کھانا پکانے کے عمل میں بھی بہت کچھ ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ کہیں عمارت بن رہی ہو تو وہاں جو مٹیریل استعمال ہوتا ہے وہ بھی فضا کا حصہ بن کر سانس لینے کے دوران ہمارے جسم کا حصہ بن کر رہتا ہے۔
کسی جانور کو مرنے پر یونہی چھوڑ دیا جائے تو اُس کے سڑتے ہوئے جسم سے سو طرح کے جراثیم خارج ہوکر ماحول کا حصہ بنتے ہیں۔ مکھیاں وغیرہ بھی سڑتے گلتے جانوروں پر بیٹھنے کے بعد ہماری کھانے پینے کی اشیا پر بیٹھتی ہیں اور یوں ہمارے ماحول کو مزید خراب کرتی ہیں۔ جراثیم کش دواؤں کے چھڑکاؤ سے بھی فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے یہ کام بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں فضائی آلودگی سمیت پورے ماحول کی آلودگی زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ ایک طرف تو صحتِ عامہ کا معیار گرتا ہے اور دوسری طرف زندگی کا دورانیہ بھی کم ہوتا جاتا ہے۔ جن علاقوں میں آلودگی بہت زیادہ ہوتی ہے وہاں لوگ جلدی کرتے ہیں۔ یہ عمل چونکہ بہت سُست رفتار ہوتا ہے اس لیے لوگوں کو احساس یا اندازہ نہیں ہو پاتا۔
عالمی ادارہ صحت نے جو معیارات مقرر کر رکھے ہیں اُن سے کہیں کمتر درجے کا ماحول ہمارے خطے اور ملک میں پایا جاتا ہے۔ یہ ماحول محض سانس لینے میں دشواری پیدا کرنے تک محدود نہیں رہتا بلکہ صحت کا عمومی معیار بھی گراتا ہے اور مختلف عوارض میں مبتلا کرکے ہماری زندگی کا دورانیہ بھی گھٹاتا ہے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ آلودگی کی زد میں رہنے سے ہمارے اعضائے رئیسہ کمزور پڑتے جاتے ہیں، ہماری قوتِ مدافعت کا گراف گرتا چلا جاتا ہے اور ہم بہت سی دوائیں کھاکر بھی اپنی صحت کا معیار بلند کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔
ماحول میں پایا جانے والا دھواں سانس لینے کے عمل کو دشوار بنانے کے ساتھ ساتھ مختلف اعضا کے لیے پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے اور بہت سے وبائیں ہمیں آسانی سے زیر کرلیتی ہیں۔ ماحول میں موجود مختلف النوع کچرا، کاٹھ کباڑ یا مُردہ جانوروں کے سڑتے ہوئے جسم بھی تعفن پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں کا باعث بننے والے جراثیم کے گڑھ بن جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے ماحول کو انتہائی درجے کی پیچیدگیوں سے دوچار کرتا رہتا ہے۔
دنیا بھر میں حکومتیں اپنے طور پر بہت کچھ کرتی ہیں مگر عوام میں شعور کی سطح بلند نہ ہو، اپنی ذمہ داری کا احساس کماحقہ نہ پایا جائے تو بہت کچھ الٹ پلٹ جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں معاملات اِس لیے زیادہ الجھے ہوئے ہیں کہ اول تو حکومت ماحول کو درست کرنے یا درست رکھنے کے لیے کچھ خاص نہیں کرتی اور اگر کچھ کرتی ہے تو عوام ساتھ نہیں دیتے۔
ماحول کے گرتے ہوئے معیار سے زندگی کو لاحق خطرات سے عوام کو زیادہ سے زیادہ آگاہ کرنے اور اُن میں اپنے تحفظ کا شعور بیدا رکرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات اور مساعی کی ضرورت ہے۔ زندگی بہت خوبصورت ہے مگر اِس کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے زندگی بھر تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔
ایسے قوانین کی توضیع اور سختی سے نفاذ لازم ہے جن کا مقصد فضائی آلودگی کا باعث بننے والے عوامل کو روکنا ہو۔ مثلاً حکومتیں خود بھی کوشش کریں اور عوام کو بھی اس بات کی تربیت دیں کہ غیر ضروری طور پر دھواں پیدا کرنے والی کسی بھی چیز کو برداشت نہ کیا جائے۔ بہت زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر ہر حال میں پابندی لگائی جانی چاہیے۔ کہیں کچرا جلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہیے کہ لکڑی کم سے کم جلائیں۔ کچرا عمدگی سے ٹھکانے لگانے کی مشق لازمی بنائی جائے۔ کچرا مقررہ مقامات پر رکھا جائے تاکہ متعلقہ ادارے کی گاڑی آکر لے جائے۔
کراچی اور لاہور کا شمار پاکستان کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ اِن دونوں شہروں کے مکینوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اُن کے شہر کی فضا صاف رہے گی تو اُنہی کی زندگی کا معیار بلند ہوگا اور دنیا کی نظر میں اُن کا مقام بلند ہوگا۔
آلودگی سے پاک فضا میں سانس لینا اور زندگی بسر کرنا ہر انسان کا بنیادی حق اور فرض ہے۔ اپنے حق کو یقینی بنانے کا فریضہ اُسی کو انجام دینا ہے۔