پروانہ شمع رسالت

145

اگر کبھی دنیا میں ان خوش نصیب انسانوں کی تاریخ لکھی گئی جن کی پوری زندگیاں صرف حق و صداقت کی تلاش میں گزریں تو ان شاء اللہ حضرت سلمان فارسیؓ کا نام نامی سرفہرست رہے گا۔

خدا نے انہیں بڑی طویل عمر عطا فرمائی تھی۔ ڈھائی سو سال یا شاید اس سے بھی زیادہ!… لیکن اتنے طویل عرصے تک اس دنیا میں رہنے کے باوجود ان کا دل دنیا سے بہت دور اور آخرت سے بے حد نزدیک رہا۔

وہ ایران کے ایک شہر اصفہان سے ظاہر ہوئے۔ شام، موصل، نصیبین اور عموریہ کی خاک چھانتٹے ہوئے جزیرہ نمائے عرب تک اس ’’آدمی‘‘ کو ڈھونڈتے ہوئے آئے جو ان کو ان کے سچے خدا تک پہنچاسکے۔ کبھی انہوں نے اصفہانی کے آتش کدوں کی روشنی میں خدا کو تلاش کیا۔ کبھی اس تلاش حق پر گھر بار نثار کرکے مسیحی عبادت گاہوں میں اپنے خدا کو آواز پر آواز دی۔ جستجو کا ہر نیا مرحلہ ایک نئے مرحلے کی طرف ان کو دھکیلتا اور آگے بڑھاتا چلا گیا۔ آتش پرستی سے وہ مسیحی نماز کی طرف لپکے تھے اور جب کفر و شرک کی عالمی طوفانی آندھیوں میں عیسائیت کا چراغ گل ہونے لگا تو دم توڑتی ہوئی عیسائیت نے ان کو اسلام کی صبح نو کے افق کی طرف اشارہ کیا۔ اب ہر طرف سے سمٹ کر ان کی پر شوق نظر اسی افق پر جم کر رہ گئی تھی۔ جہاں سے ایمان و یقین کا آخری سورج طلوع ہونے والا تھا۔ عموریہ کے گرجا میں دم توڑتے ہوئے دنیا کے آخری حقیقی عیسائی کے آخری الفاظ سننے کے بعد ان کی تمام امیدوں اور آرزوئوں کا واحد مرکز وہ ’’کھجوروں والی سرزمین‘‘ ہی ہوکر رہ گئی تھی۔ جہاں کھجوروں کی پراسرار چھائوں میں سیدھی سچی راہ کے مٹے ہوئے نقوش آخری بار اور ہیشہ کے لیے اجاگر ہونے والے تھے۔

’’اس قدر دکھ بھری گھاتیاں طے کرتا ہوا میں آپ کے پاس پہنچا تھا‘‘۔ سلمان فارسی جاں بلب اسقف کے بالیں پر کھڑے ہوئے پکار اٹھے ’’اور… اور اب آپ بھی مجھے اس دنیا میں تنہا چھوڑ کر دوسری دنیا کی طرف سدھارنے والے ہیں… کچھ میرا سامان بھی تو کرتے جایئے‘‘۔

پادری نے یہ آواز سنی اور بند آنکھیں بے اختیار کھول دیں۔ یہ درد بھرے فقرے سن کر ان آنکھوں، بجھتی ہوئی آنکھوں میں آنسوئوں کی چمک ابھری اور بجھ گئی۔ رشک عقیدت، رقت اور محبت کے ساتھ اسقف اس عجیب آدمی کو تک رہا تھا جس کو صرف اسی ذات سے عشق تھا جس سے عشق ہونا ہی چاہیے تھا اور جسے محض اسی شے کی تلاش تھی، جس کی تلاش ہی کا دوسرا نام زندگی ہے۔

’’میرے بیٹے! میں تمہارے لیے کیا سامان کروں؟؟‘‘ دنیا کے آخری سچے عیسائی نے سلمان کی آنکھوں میں اپنے آنسو انڈیلتے ہوئے کہا۔ حیف! کہ دنیا میں اب کوئی ایسا شخص نہیں رہا، جس سے ملنے کا میں تمہیں مشورہ دے سکوں۔ آج دنیا ایسی ہستیوں سے خالی ہوچکی ہے لیکن… لیکن …آج … کل وہ نبی آنے والا ہے‘‘۔

اور… یہ بات کہتے کہتے پادری کی آنکھوں میں شوق کی آگ میں پنکھلے ہوئے دو آنسو تیرنے لگے… جیسے اس آنے والے کے ذکر نے اس کی روح کے لطیف گوش کو چھولیا ہوکہ جس کی آمد کے اعلان سے دنیا بھر کے صحیفے گونجتے چلے آرہے ہیں اور جس کے لیے عیسائیت سب سے زیادہ گوش بر آواز تھی۔

’’کون سا نبی؟‘‘… کون سا نبی؟؟… اے مسیحی بزرگ؟‘‘ والہانہ شوق میں حضرت سلمان نے سوال کیا۔

’’جو ریگستان عرب سے اٹھ کر دین۔ ابراہیم ؑ میں زندگی کی نئی روح دوڑائے گا‘‘۔ پادری کہہ رہا تھا اور اس کے ڈوبتے ہوئے دل کی بے قرار دھڑکیں اس کے لفظ لفظ میں وجد کرری تھیں… ’’جو کھجوروں والی بستی کی طرف ہجرت کرے گا… اور… اور… جس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبت ہوگی۔ دیکھو… اگر تم اس سے مل سکو تو ملنا… ضرور ملنا!…

کیسی حیات انگیز تھی۔ یہ دم توڑتے ہوے اسقف کی پرسوز آواز!… یہ بات کوئی ان سلمان کے دل سے پوچھتا جو ایک گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کھڑے آنکھیں پھاڑ پھار کر روشنی کی کرن ڈھونڈ رہے تھے۔ پادری کے ان الفاظ سے اس گہری تاریکی میں جگنوں سے چمکے۔ پادری خدا کے پاس چلا گیا اور حضرت سلمان فارسیؓ ان جگنوئوں کی روشنی میں اپنے خدا کو ڈھونڈتے ہوئے عرب جاپہنچے۔

لیکن حقیقی خدا کے سنگ آستاں تک پہنچنے سے پہلے انھیں انسانی غلامی کی ایک اور کڑی آزمائش جھیلنی تھی۔ وہ مدینے میں ایک یہودی کے دام غلامی میں پھنس گئے مگر غلامی کی عقوبتوں میں گرفتار ہوکر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ وہ کھجوروں والی سرزمین پر آپہنچے ہیں تو بے اختیار انھیں اپنے پیروں میں پڑی ہوئی غلامی کی بیڑیوں پر بھی پیار انے لگا۔ غلامی کے تمام دکھ بھرے احساسات اس ایک امید حسین میں جذب ہوکر رہ گئے کہ وہ آنے والا ضرور اسی راہ سے گزرے گا! وہ بھول گئے تھے کہ ان کی گردن میں پڑا ہوا انسانی غلامی کا آہنی طوق کس کس طرح گھائل کررہا ہے۔ انھیں تو کسی کا بہت پرشوق انتظار تھا۔ کسی سے ملنے کی آس تھی اور یہی انتظار و امید کی قوت انھیں مجبور کررہی تھی کہ وہ جینے کی آرزو کریں۔ خوشی اور امید کا ایک جذبہ نامعلوم کبھی ان کی آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپکنے لگتا تو کبھی ہوٹوں پر ہنسی بن کر چمکتا اور کبھی وہ بالکل چپ ہوکر خود اپنے دل کی آواز سننے لگتے۔

وہ خدا کے آخری رسولؐ کی راہ تک رہے تھے۔

صبح کو سورج مشق سے سر نکالتا تو دیکھتا کہ سلمان فارسی اسی ہستی کی راہ تک رہے ہیں، جس کی آمد کی اس قدر یقینی خبر خدا کی کتابیں زمانوں سے زمانوں کی طرف نشر کرتی آرہی ہیں۔ دن بھر وہ اسی انتظار میں کھوئے ہوئے یہودی آقا کے باغ میں کام کیا کرتے۔ یہاں تک کہ شام کا دھندلکا چھا جاتا اور پھر اس جذب انتظار کا حسین منظر دیکھنے کے لیے بے شمار ستارے آسمان کی بلندیوں سے زمین کی طرف جھانکتے ہوئے محسوس ہوتے۔ ستاروں کی چھائوں میں یہ عجم کا خانہ بدوش انسان عرب کی فضائوں میں نالہ نیم شبی کا سوز و گداز پھیلا رہا تھا۔

غلامی نے ان کو پابجولاں بنا چھوڑا تھا۔ ان کے لیے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ دل جس کو شب و روز ڈھونڈ رہا ہے۔ پائوں بھی اس کی کھوج میں صحرا نوردی کا لطف لے سکیں۔ انھیں کیا خبر تھی کہ جس ہستی کی انھیں تلاش ہے وہ مکے میں دنیا کے سامنے طلوع ہو چکی ہے اور جن قدموں پر عقیدت و سپردگی کے آنسو ٹپکانے کے انتظار میں وفور ضبط سے ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔ انھیں کے قدموں پر طائف میں انسانی درندے بے رحمانہ پتھرائو کرنے میں مشغول ہیں اور وہ محبوب ہستی ریگ زار کے ذروں پر اپنے پاکیزہ لہو کی لکیریں بناتی ہیں۔ گمراہوں کے لیے سیدھی راہ کے مٹے ہوئے نقوش اجاگر کرتی جا رہی ہے۔

ہائے وہ مکمل بے خبری اور بے بسی کا عالم اور پھر انتظار !… جتنا جاں گدازتھا اتنا ہی جاں نواز بھی تھا۔

انتظار !…

ان تھک انتظار !… مسلسل انتظار !!
سنسنی خیز… حیات انگیز!…
آخر… آخر یہ عرصہ انتظار پایہ تکمیل کو پہنچ ہی گیا۔

اس دن وہ درخت پر چڑھے ہوئے اپنے کام میں بٹے ہوئے تھے اور ان کا یہودی آقا پیڑوں کی چھائوں میں بیٹھا نجانے کیا سوچ رہا تھا کہ اچانک اس کاچچازاد بھائی اس طرح ہانپتا ہوا باغ میں داخل ہوا جیسے اس کے پاس مدینے کی تاریخ کی سب سے بڑی خبر ہو۔

’’خدا بنی قیلہ کو غارت کر دے‘‘۔ آتے ہی وہ نفرت اور جوش سے بھرے ہوئے لہجہ میں چلایا۔ ’’سب کے سب قبا میں ایک شخص کو گھیرے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں یہ شخص جو مکے سے یہاں آیا ہے خدا کا رسول ہے‘‘۔

درخت پر چڑھے ہوئے سلمان فارسی کے کانوں میں جونہی یہ آواز پہنچی وہ بھول گئے کہ میں کہاں ہوں اور کیا کر رہا ہوں۔ ان کے دل کی تیز دھڑکن ان کے کانوں سے ٹکرانے لگی اور خون کی تیز گردش نے ان کے سارے وجود کو سنسنا کررکھ دیا۔ وہ درخت سے اس طرح اترے جیسے کوئی درخت سے گرا پڑ رہا ہو۔

تم… تم لوگ… کیا کہتے ہو ؟ نیچے آتے ہی انھوں نے بے تابانہ سوال کیا اور ان کا سانس درخت سے زمین تک پہنچنے میں اس بری طرح پھول گیا تھا کہ جیسے وہ ہزاروں میل دور سینکڑوں ماہ کا سفر طے کر کے آ رہے ہوں۔

خدا کے پاس سے آیا ہے!… میرے خدا کے پاس سے کوئی آیا ہے!… آخر کون ہے وہ؟… کہاں ہے وہ ؟…‘‘ حضرت سلمان کا دل دھک دھک کرتا ہوا اندر ہی اندر یہ سوالات کر رہا تھا۔ مگر سلمانؓ جذب جنوں کی سنسنی خیز کیفیت میں ڈوبے ہوئے بس اتنا ہی اپنے آقا سے پوچھ سکے تھے۔

’’تم…تم لوگ کیا باتیں کر رہے ہو ؟‘‘

یہودی نے چونک کر غلام کی یہ کیفیت دیکھی اور اس بے تحاشہ مداخلت پر بری طرح جھلا اٹھا۔

’’خبردار!‘‘ غضب ناک ہو کر یہودی نے حضرت سلمان کے ایک گھونسہ مارتے ہوئے کہا: ’’تم کو ان باتوں سے غرض ؟… جاؤ اپنا کام کرو‘‘۔ لیکن وہ پاکیزہ روح جو خدا کی غلامی کے لیے بے قرار تھی۔ انسانی غلامی کے اس آہنی گھونسہ سے پسپا ہونے والی کہاں تھی۔ پہلی فرصت میں حضرت سلمان عموریہ کے مرحوم اسقف کی بتائی ہوئی علامتوں کو جانچنے کے لیے گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور صدقہ کی کھجوریں آنحضرت ؐکی خدمت میں پیش کر دیں۔ یہ دیکھ کر صدقہ کی وہ کھجوریں آنحضرتؐ نے خود نہیں کھائیں بلکہ دوسروں کو کھلا دیں۔ حضرت سلمانؓ کی آنکھوں میں خوشی اور کامیابی کے چراغ روشن ہو گئے۔ دوسرے دن وہ ہدیہ کے طور پر کچھ کھجوریں لیے ہوئے خدمت رسولؐ میں باریاب ہوئے اور ہدیہ قبول کر لیا گیا۔ یہ کھجوریں حضورؐ نے خود بھی کھائیں اور دوسروں کو کھلائیں… دو علامتیں صحیح نکل چکیں تو تیسری علامت کے لیے حضرت سلمان بے قرار سے بے قرار تر ہونے لگے۔ جس دن مہر نبوت کی تیسری علامت بھی ان کے آنکھوں کے سامنے آگئی اس دن حضرت سلمان فارسیؓ خوشی سے بے قابو ہو کر جھکے اور بے اختیار اپنے پر شوق گرم گرم ہونٹوں سے مہر نبوت کو بے تابانہ چوم بیٹھے۔ حضورؐ نے مڑ کر دیکھا تو سلمان خوشی کے مارے پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔

کتنا بلند تھا وہ انسان جس نے مہر نبوت کو چوم کر کلمہ پڑھا تھا۔ اور کیسی خوش نصیب تھیں وہ آنکھیں جو آنسوؤں کی آڑ میں سے نبیؐ کی آنکھوں سے چار ہوئیں۔

’’سامنے تو آؤ!‘‘… حضورؐ نے جاں نواز تبسم کے ساتھ حضرت سلمان کو اپنے قریب کر لیا اور تمام صحابہؓ اس عجیب صورت حال کی طرف ہمن تن متوجہ ہوگئے۔

حضرت سلمانؓ نے ان سب کے سامنے اپنی کہانی بیان کی۔ کہانی ختم ہو چکی… نہ جانے کتنی آنکھیں… عقیدت اور ایمانی رشک سے بھیگی ہوئی آنکھیں اس ’’تاریخی مسلمان‘‘ کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں جس کو عیسائیت نے اسلام کے پاس بھیجا تھا… جو دو مذاہب اور دو مختلف زبانوں کے درمیان ایک تاریخی کڑی اور ایک تاریخی پل کی حیثیت رکھتا تھا… جس کی زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا ایک تاریخی ثبوت تھی۔

آہ!… وہ انسان جو حق کا ایک دعویٰ بھی تھا اور دعوے کا ثبوت بھی !…
(جاری ہے)

حصہ