آخر شب کے ہم سفر

82

اور یہ واقعہ ہے کہ آیا کی اس عجیب و غریب بات کے بعد لاشعوری طور پر میں نے اطمینان کا سانس لیا تھا کہ ٹام دنیش سرکار کی پھانسی سے دو گھنٹے قبل پیدا ہوا… کرائسٹ۔ اس دیوانے، وہمی ملک میں رہ کر انسان خود دیوانہ ہوجاتا ہے۔

میں نے دنیش چندر سرکار کو…
اور ایک اور بھیانک خیال:۔

جف کگ کی بتائی ہوئی خبر تازہ ترین خبر ہے وہ تو کل ہی لندن سے یہاں پہنچا ہے۔ اس نے اُس امریکن افسر سے ملاقات بھی کی ہے۔

نمبر ۱۴۔ اینڈریوز کریسنٹ میں ایک امریکن کرنل BILLET کردیا گیا ہے۔ اس میں وائلیٹ کا کیا قصور؟

اس امریکن کا نام کرنل ڈونلڈ جوئیل ہے۔ بہت خوب صورت طرحدار جوان ہے۔ میں طرحدار کہاں ہوں۔ موٹا، بھدّا، اتنی موٹی ناک، وائلیٹ میری جان، میں ہرگز تمہارا مستحق نہیں تھا۔ مگر تم نے بھی تو میرے عہدے سے شادی کی تھی۔

مارچ ۳۹ء کی اس پُرامن دنیا میں ہم آخری بار برطانیہ گئے تھے۔ کاش وہ بچوں کا داخلہ کرانے کے بعد میرے ساتھ ہی واپس آگئی ہوتی۔

اب میں پھر الف چیم کی تلاوت کرتا ہوں۔

وہ آرام کرسی پر لیٹ گیا۔ صدمے، رنج، پچھتاوے، بہت کم ایسا ہوتا ہے جب انسان کو اتنی مہلت ملے کہ وہ یک سوئی سے اپنی ساری زندگی کا جائزہ لے، اپنے اندر جھانکے۔

اب اُسے نیند سی آرہی تھی۔ ماضی محفوظ ہے۔ یادوں کا قبرستان محفوظ ہے۔ اس نے کاہلی سے نغماتِ ہند اُٹھائی۔ اور اس کے صفحے پلٹتا رہا۔ نیم وا آنکھیں، ذرا سی کھول کر اُونگتے اُونگتے کتاب کے آخر میں دوسری کتب کے اشتہاروں پر نظرڈالی۔ ایک شفیق تبسم اس کے ہونٹوں پر بکھرنے لگا۔

’’نیل کی کاشت… ایک پلانٹر کی زندگی کا دلچسپ مرقع‘‘۔
’’پرانے کلکتے کی آوازِ بازگشت‘‘۔ از ڈاکٹر۔ بسٹیڈ۔ سرورق پر بلیک ہول کی تصویر۔

فہرست مضامین:۔ فلپ فرانسس کا دور، نن کومار، فرنسس اور ہیسٹنکز کا ڈوئیل وغیرہ وغیرہ۔

’’انگلش ایٹی کیٹ فور انڈین جنٹل مین، سوشل اینڈ اوفیشیل‘‘۔ از:۔ ڈبلو ٹریگودیب۔ بنگال ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ۔

’’بہار کی پرانی یادیں‘‘۔ ایک پرانے پلانٹر کے قلم سے۔

’’جسٹس اونوکول چندر مکرجی آنجہانی‘‘۔ از:۔ ایم مکرجی۔ انڈین انگلش یا بابو انگلش کا بے حد مزیدار نمونہ… قارئین سے درخواست ہے کہ اس جنٹل مین کی سوانح حیات جو اُن کے بھتیجے نے لکھی ہے، ضرور پڑھ کر تفریح حاصل کریں۔

’’آسان میں ایک ٹی پلانٹر کی زندگی‘‘۔ از جارج بارکر۔
’’انڈین ریسنگ کی چند یادیں‘‘۔
’’گھوڑے، آدمی اور اسپورٹس‘‘۔
’’سیونی‘‘۔ ست پڑہ پہاڑیوں میں کیمپ لائف۔
’’بنگلے کے پیچھے‘‘۔ از ’’ایہا‘‘۔ مزاحیہ کتاب۔

ابواب:۔ بوائے کو ملازم رکھنا، ڈوگ بوائز، مشعلچی، حمال، ہری درزی، بٹلر‘‘۔

عبدالغفور… ابھی بنگلے کے پیچھے میرا بٹلر عبدل زندہ ہے۔ میں محفوظ ہوں، چارلس بارلو نے اونگھنا شروع کردیا۔ اور پھر کرسی کے ہتھے پر سر رکھ کر سو گیا۔

خاصی بوسیدہ چھتری لگائے، بارش میں بھیگتے حواس باختہ ریونڈر بنرجی دور پھاٹک میں داخل ہورہے تھے، اس وقت دوپہر کا ایک بج چکا تھا۔ اور ڈی، ایمز ہائوس کے برآمدے کے ایک در میں کھڑے عبدالغفور ہیڈ چپراسی سے آہستہ آہستہ کہہ رہے تھے۔

’’صاحب چھوٹا حاضری کے بعد سے دروازے بند کئے اسٹڈی میں بیٹھا ہے۔ بیرپہ بیرپئے چلا جارہا ہے۔ اللہ جانے کیا معاملہ ہے۔ شاید ولایت سے میم صاحب کی کوئی خیر خبر نہیں آئی…‘‘

چپراسی نے متانت سے سر ہلایا، اتنے میں اس کی نظر پادری صاحب پر پڑی جو برساتی میں پہنچ چکے تھے۔

پادری بنرجی نے سیڑھیاں چڑھ کر جلدی جلدی پائیدان پر جوتے رگڑے، اور برآمدے میں آئے، چھتری بند کی تو اس میں سے پانی کی بوندیں فرش پر گریں۔ شفاف فرش خراب ہوگیا۔ اور وہ اور زیادہ گھبرائے۔ اور دہشت زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھا۔ عبدالغفور نے لپک کر چھتری ان کے ہاتھ سے لی، ہیٹ ریک کے کونے میں ٹکا دی۔ اور سلام کیا۔

’’صاحب کہاں ہے؟‘’‘ پادری بنرجی نے ہیبت زدہ آواز میں دریافت کیا۔ عبدالغفور ان کی اس حالت پر متعجب ہوئے۔

’’صاحب کتاب والے کمرے میں ہے پادری صاحب‘‘۔

’’صاحب کو بولو، مہربانی ہوگی، ایک دم ضروری بات کرنا ہے۔ مہربانی ہوگی‘‘۔

عبدالغفور نے سر ہلایا اور اندر گئے، لائبریری کا دروازہ دھیرے سے کھٹ کھٹایا اور کوڑا آہستہ سے کھول کر کمرے میں داخل ہوئے۔ آرام کرسی کے پاس جا کر ذرا سا کھنکارے۔

چارلس بارلو نے آنکھیں کھولیں۔
’’صاحب۔ کالا پادری آیا ہے‘‘۔
’’کون؟‘‘ چارلس نے ذرا چونک کر آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا۔
’’کالا پادری۔ بنرجی بابو‘‘۔
’’اوہ… کیا کام ہے؟‘‘

’’صاحب۔ وہ ایک دم ضروری بات کرنا مانگتا ہے۔ گول کمرے میں بٹھادوں؟ بے چارہ بہت گھبرایا ہوا دکھتا ہے‘‘۔

چارلس نے سر اونچا کیا۔ ’’ایں…؟ کیا…؟ نہیں، ادھر ہی بھیج دو‘‘۔

’’ادھر صاحب؟‘‘ لائبریری صاحب کا بے حد ذاتی کمرہ تھا۔

’’یس، یس، یو ایڈیٹ‘‘۔ چارلس نے گرج کر کہا۔ عبدالغفور کان دبا کر غائب ہوگئے۔ چارلس نے پھر آنکھیں بند کرلیں۔ سر میں درد، خیالات میں انتشار، دل میں دکھ، کیا کروں، اب اس کالے پادری کی فریادیں سنوں۔ میں کہ ہندوستانیوں کا مائی باپ ہوں، مائی باپ، غریب پرور… جب اس نے آہٹ پر آنکھیں کھولیں، پادری بنرجی سولاہیٹ دونوں ہاتھوں میں لیے سکینی سے کمرے میں داخل ہورہے تھے۔

وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور خوش خلقی سے مسکرایا اور مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔

’’گڈ آفٹر نون مسٹر بارلو‘‘۔

’’ہلو…پادرے… گڈ آفٹر نون… گڈ ہیونز۔ کیا دوپہر ہوگئی؟‘‘

پادری بنرجی لجاجت سے مسکرائے، مگر مسکراہٹ نے فوراً ساتھ چھوڑ دیا۔ اب وہ پھر ہیبت زدہ نظر آرہے تھے۔

’’کیا بات ہے پادرے آپ پریشان معلوم ہوتے ہیں۔ ڈُوہیواے ڈرنک، اوہ یو ڈونٹ ڈرنک ڈُوسِٹ ڈائون پادرے‘‘۔

’’نو، یس، مسٹر بارلو‘‘۔ پادری بنرجی ہکلائے اور ایک کرسی پر ٹک گئے۔ ہیٹ گود میں رکھ لی۔ کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ چارلس نے مگ میں بیرانڈیلی، مگ اُٹھا کر کہا۔ ’’ٹو وِکٹری‘‘۔

پادری بنرجی نے اسی بھونچکے انداز میں سر ہلایا۔ چارلس پھر آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ اب ساری چیزیں دھندلی دھندلی سی معلوم ہورہی تھیں۔ آئی ایم ڈرنک، ہرّے، سامنے کالا پادری بیٹھا تھا مجھے ہمیشہ یہ حیرت رہی ہے کہ انسان اپنا آبائی مذہب کیسے بدل لیتا ہے۔ اپنی کھال اُتار کر دوسری کھال کیسے منڈھ لیتا ہے (مثال کے طور پر اگر میں مسلمان ہوجائوں۔ ہاہاہا) سیاہ سوٹ پہنے، سفید کالر لگائے پال میتھیو بنرجی بھی مضحکہ خیز ہے۔ جس طرح ایڈورڈ بارلو مضحکہ خیز تھے۔ ریحان الدین احمد مضحکہ خیز ہے۔ میں مضحکہ خیز ہوں، سارا ہندوستان، ساری دنیا، ساری انسانیت، ساری زندگی اتنی مضحکہ خیز ہے کہ اس پر آنسو بہانے چاہئیں۔

’’مسٹر بارلو…‘‘
وہ چونکا۔ میں اپنے فرض میں کوتاہی کررہا ہوں۔ نیٹو پادرے، فریاد لے کر آیا ہے، عدل چاہتا ہے۔ ہاہاہا۔
’’مسٹر بارلو‘‘۔

’’اوہ جسٹ ون منٹ پادرے‘‘۔ اُس نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ اور اُٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا، بھاری بھاری، اونچا اونچا، جھکا جھکا سا کمرہ عبور کرکے ریڈیو کے پاس گیا۔ اور دھم سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ ریڈیو کی سوئی گھمانے لگا۔

’’دِس از بی۔ بی۔ سی لندن‘‘۔ ایک دم آواز گونجی۔
پادری بنرجی چونک پڑے۔

ہزاروں میل پرے۔ ڈبکنی کشتیوں سے معمور سمندروں، گرم صحرائوں میں پھٹتے بموں، جلتے ہوئے یورپ کے اس پار، جلتی ہوئی اوکفرڈ اسٹریٹ کے ایک تہہ خانے میں بیٹھا ہوا انائونسر ٹایٹ اَپرلپ کے ساتھ اپنے ہم قوم چارلس بارلو سے مخاطب تھا۔

دس منٹ تک وہ چارلس بارلو کو بتاتا رہا کہ اتحادی کہاں کہاں فتح مند رہے ہیں۔ اور برطانیہ میں کہاں کہاں بمباری ہوئی ہے۔ پھر ونسٹن چرچل کے تازہ ہمت افزا بیان کے اقتباس کے بعد خبریں ختم ہوئیں گوڈ سیودی کنگ بجا۔ چارلس بارلو فوراً اٹینشن کھڑا ہوگیا۔ پادری بنرجی بھی کھڑے ہوگئے۔

ریڈیو بند کرکے دائیں چھنگلی پلکوں پر پھیرتے ہوئے چارلس بارلو واپس اپنی کرسی پر آن بیٹھا۔

اب جا کر پادری بنرجی نے کانپتے ہاتھوں سے اخبار جیب سے نکالا۔ اخبار بھی بارش میں بھیگ چکا تھا۔ انہوں نے اسے ذرا احتیاط سے مسٹر بارلو کے سامنے پیش کیا۔ ایک خبر پر سُرخ نشان لگا تھا۔

چارلس بارلو نے جھک کر خبر پڑھی۔ تیوری پر بل ڈالا۔ پادری کو دیکھا۔ ہونٹ کاٹے۔

’’مجھے بڑا افسوس ہے، پادرے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کی لڑکی بھی…‘‘

’’میں بالکل مجبور اور لاعلم مسٹر بارلو…‘‘
’’آپ مجھ سے کیا توقع رکھتے ہیں؟‘‘
’’میری بچی… میری بچی… گمراہ ہے۔ مسٹر بارلو۔ اسے بچا لیجئے‘‘۔ پادری نے اس کے سامنے ہاتھی پھیلا دیئے۔

وہ جھنجھلا گیا۔ اب اس کا سارا نشہ ہرن ہوگیا تھا، وہ اپنی ذاتی اندرونی دنیا سے واپس آکر اپنے فرض منصبی پر مستعد ہوچکا تھا۔ ’’آپ کی لڑکی بالغ اور سمجھ دار ہے، جان بوجھ کر اس غنڈہ گردی میں شامل ہوئی ہے۔ بہت جلد اس رومان پرستی سے اس کا جی بھر جائے گا یا ممکن ہے وہ ساری عمر اسی میں لگی رہے۔ آئیڈیلزم خدمت قوم، اور خدمتِ خدا کا جنون انسان کو عجیب و غریب طریقوں سے اپنی زندگی تجنے اور تباہ کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ میری بہن…‘‘ اب اس نے ہاتھ پھیلائے۔ ’’میری بہن ایلس پچیس سال سے ناگا جنگلوں کی خاک چھانتی پھر رہی ہے اور غالباً بہت مسرور ہے۔ آپ کی بیٹی بھی جیل میں خوش رہے گی۔ اور خود کو مجاہد سمجھے گی‘‘۔

’’مسٹر بارلو…‘‘
’’پادرے…‘‘ چارلس نے دفعتہً بیحد چڑ کر کہا۔ ’’اگر یہ ثابت ہوجاتا کہ روزی کے ہتھ گولے نے کسی کی جان لی ہے تو اسے عمر قید ہوگی۔ میں کچھ نہیں کرسکتا‘‘۔

پادری بنرجی کی آنکھوں میں بڑے بڑے آنسو ڈبڈبانے لگے۔ چارلس دوسری طرف دیکھنے لگا۔ یہ شائستہ اشارہ تھا کہ اب ملاقات کا وقت ختم ہوا۔ مگر پادری بنرجی ڈٹے رہے۔ ایک آخری کوشش اور۔

’’مسٹر بارلو۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ مس بارلو آج کل کسی کام سے پبنہ ؔ میں آئی ہوئی ہیں۔ اگر آپ ان کو ٹرنک کال کردیں، کہ… کہ وہ جیل کے ہسپتال میں روزی کو جا کر دیکھ لیں… اور… اور… میں نے یہ خط بھی ان کو‘‘۔ انہوں نے جیب سے ایک خط نکال کر چارلس کو تھمادیا، اور ملجی اور پُرامید نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے۔

چارلس نے پڑھنا شروع کیا۔
’’ڈیرسسٹر ان کرائسٹ۔
اس مصیبت کے وقت میں…‘‘
چپراسی کمرے میں داخل ہوا۔

’’یس…؟‘‘ بارلو نے پرچہ پڑھتے پڑھتے سر اُٹھا کر پوچھا۔ سنہری اور سُرخ وردی والے چپراسی کے ہاتھ میں چاندی کی پلیٹ تھی۔ جس میں ایک پیلا لفافہ رکھا تھا۔

ہندوستان کے اہلکاروں، چپراسیوں اور سائیسوں کی وردیاں، پگڑیاں اور ٹوپیاں برطانوی حکومت نے پچھلی صدی میں قدیم ہندوستانی امراء و شرفاء کی ملبوسات کے نمونے کی بنوائی تھیں۔ گویا کہتے ہوں۔ دیکھو، جو تمہارا لباس ہے، وہ ہم اپنے نوکروں کو پہنائیں گے۔

چپراسی نے پلیٹ چارلس بارلو کو پیش کی۔ چارلس نے کیبل گرام کھولا۔ اُسے پڑھا۔ اس کا رنگ سفید پڑ گیا۔ ہونٹ ذرا سے لرزے۔ وہ چند لحظوں تک بالکل ساکت بیٹھا رہا۔ پھر کندھے سیدھے کرکے اُٹھ کھڑا ہوا۔ کیبل گرام جیب میں رکھا، ابرو کے اشارے سے چپراسی سے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ پھر وہ لمبا، گہرا سانس لے کر کھولی لیکن مضبوط آواز میں پادری سے مخاطب ہوا۔ ’’ایکسکیوزمی پادرے۔ میں ابھی آتا ہوں‘‘۔ اور جلدی سے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
(جاری ہے)

حصہ